بدھ، 8 جولائی، 2009

پروین شاکر کی ایک غزل

پروین شاکر کی ایک غزل

راہِ دشوار کی جو دھول نہیں ہو سکتے
ان کے ہاتھوں میں کبھی پھول نہیں ہو سکتے
تیرے معیار پہ پورے نہ اُترنے والے
منصب عشق سے معذول ہو نہیں سکتے
اتنا خوں ہے مرا گلشن میں کہ اب میرے خلاف
پیڑ ہو جاءیں مگر پھول نہیں ہو سکتے
حاکمِ شہر کے اطراف وہ پہرہ ہے کہ اب
شہر کے دکھ اُسے موصول نہیں ہو سکتے
فیصلے جن سے ہو وابسطہ وطن کی قسمت
صرف اندازوں پہ محمول ہیں ہو سکتے
خون پینے کو یہاں کوءی بلا آتی ہے
قتل تو روز کا معمول نہیں ہو سکتے
جنبش ابروءے شاہاں نہ سمجھنے والے
کسی دربار میں مقبول نہیں ہو سکتے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

کھلے دِل سے رائے دیں، البتہ کھلم کھلی بدتمیزی پر مشتمل کمنٹ کو اڑانا میرا حق ہے۔

Pak Urdu Installer

Pak Urdu Installer