جمعہ، 15 اکتوبر، 2010

ویلوٹ راکٹ۔۔۔ میکسیکو میں

میں نے یہ تحریر اکتوبر دو ہزار دس کو لندن میں لکھی۔
یہ واقعات جون انیس سو چھیانوے کو میکسیکو کے پیسیفک ساحلی علاقے میں پیش آئے تھے۔
پچھلی مرتبہ جب میں کیلیفورنیا گیا، تو میری نظر چند تصاویر پر پڑی، جو کہ میں نے انیس سو چھیانیوے میں میکسیکو کے ایک دورے پر کھینچی تھی۔ پہلے تو میں یہ تحریر عام جگہوں کے سفر کٹیگری میں ڈالنے لگا تھا، لیکن پھر میں نے اُس دورے کی صورتحال اور میکسیکو کی آجکل کے حالات کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔ میں نے حساب لگایا کہ ویلوٹ راکٹ آج سے دس سال قبل میدانِ کار زار میں تھا، اور میکسیکو میں منشیات کے کاروبار پر تحقیقات کر رہا تھا، میکسیکو میں منشیات کے کاروبار کے عروج پر آنے سے بہت بہت پہلے۔ اب یہ "عمومی جگہوں" والی چیزیں تو بہرحال نہیں ہیں۔
کوئی بڑی بات تو نہیں، لیکن یہ دورہ میرے چند حالیہ دوروں سے متعلقہ تھا۔ صومالیہ اور افغانستان جیسی جگہیں میرے لئے کوئی غیر معمولی بات نہیں، بمشکل چل سکنے کی عمر میں کتابوں والی الماری پر چڑہ جانا، سائیکل لے کے اُلٹ پُلٹ جگہوں پر چلے جانا، تیز گاڑی چلانا، وغیرہ وغیرہ واقعات کا ایک تسلسل سا ہے۔ پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے میرے ساتھ؟
بہرحال، میکسیکو پہنچنے کے بعد جلد ہی میں چند نئے میکسیکن جان پہچان والے لوگوں کے ساتھ پرانی کشتی میں تھا۔ ساحل کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے کشتی کا انجن چنگھاڑ رہا تھا، شراب خانوں، ساحلوں، اور قحبہ خانوں سے بڑھ کر کسی دلچسپ چیز کی تلاش میں۔۔۔ بے چین ہو جاتا ہوں۔۔۔
دلچسپ چیزوں کی تلاش میں ہیں میں اس تصویر میں دکھائے گئے گائوں میں جا پہنچا


بھلے اس گائوں میں سڑکیں نہ ہوں، بجلی، ، پانی نہ ہو "ما سوائے گائوں کے بیچ سے گزرتے ہوئے چشمے کے" ، یہاں بکریاں، اور بے تکلف لوگ بہت تھے۔ میرے خیال میں یہ ساحل پر بیٹھ کے جوس پینے سے لاکھ درجے بہتر ہے۔

گائوں والوں میں گھلنا ملنا گائوں کے چند لڑکوں کی وجہ سے اور بھی آسان ہو گیا تھا، ان لڑکوں سے میری کچھ دیر قبل واقفیت بنی تھی۔ کافی سارے تعارفوں، زبردست کھانے، تھوڑی سرویزا، اور بہت دیر بیٹھے رہنے کے بعد کسی نے مشورہ دیا کہ مجھے گائوں کی پچھلی جانب موجود پہاڑیوں کی سیر کروائی جائے۔ لڑکے تو گائوں میں اپنے گھر والوں کے ساتھ ہی رہ گئے، لہٰذا میں چند دیہاتیوں کے ساتھ چل نکلا۔ ہمارے ساتھ ایک انگریزی بولنے سمجھنے والی لڑکی بھی تھی۔۔۔ آٹھ سال کی بچی۔۔۔
بہت خوبصورت منظر تھا۔ پہاڑیوں کو جنگل نے ڈھانپ رکھا تھا، اور سیدھی انکا اختتام سیدھے جا کے سمندر پر ہوتا تھا۔ ان پہاڑیوں پر یہ لوگ چرس کے وسیع کھیت بھی کاشت کرتے تھے۔ شاید لڑکوں کے کہنے کی وجہ سے، مجھے نفع بخش کاروباری موقع خیال کیا جا رہا تھا۔ چرس کے کھیتوں میں گھومتے گھومتے مجھ  سے ڈھیروں سوالات پوچھے گئے۔ اور یقین مانو مجھے آٹھ سال کے بچے سے اس موضوع پر بات کرنا بڑا عجیب لگا۔

میں کچھ خریدنا چاہوں گا؟انکا سودا زبردست ہے۔۔۔ اور حساب کتاب لگا لیں گے وغیرہ۔۔۔
تو پھر کیا میں اُنکے ساتھ کاروبار کروں گا؟ امریکی شہریوں کے لئے سرحد کے اس پار آنا جانا ہمیشہ سے بہت آسان رہا ہے نا۔
پھر میں نے بھی اُن سے ایک سوال پوچھا۔۔۔ تصویریں بنا لوں؟ نہ نہ تصویر مت بنانا امیگو۔۔۔


بالآخر جب انہیں اندازہ ہو گیا کہ میں کوئی نوخیز پابلو ایسکوبار یا کارلوس لیہڈر   نہیں ہوں ، انہوں نے مال بیچنے والی بات کا پیچھا تو چھوڑ دیا، لیکن پھر بھی وہ کافی بے تکلف تھے۔ مجھے جنگل کے بیچوں بیچ ایک آبشار بھی دکھائی گئی۔ پانی صاف اور ٹھنڈا تھا، دیکھ کر میرا دِل تو چاہ رہا تھا کہ ڈُبکی لگائوں تاکہ پسینہ اور دھول اُتر جائے۔

رات میں نے گائوں میں گزاری اور اگلے دن آگے بڑھ گیا۔


گائوں نیچے تصویر میں دکھائے گئے ساحل کے کنارے ہے۔۔۔ کٹائیوں کے دنوں میں، چرس کے گٹھے خچروں پر لاد کر پہاڑی سےنیچے لائے جاتے ہیں، اور پھر ان ماہی گیر کشتیوں پر لاد دیئے جاتے ہیں جہاں سے ان قیمتی گٹھوں کا شمال میں امریکہ کی طرف سفر شروع ہوتا ہے۔



اس گھر کے بارے میں مجھے بتایا گیا کہ یہ علاقے کے بڑے سمگلر کا ہے۔ اور اس گھر میں چلتا پانی، اور بجلی موجود تھی۔۔۔ جنریٹر کے ذریعے۔ جرائم سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا، کم از کم اس گائوں میں اس بات کے معنی مختلف ہوں گے۔



کافی دلچسپ اور معلوماتی دورہ تھا۔۔۔ میکسیکو کے لڑائی میں مصروف منشیات فروش گروہوں کے حالیہ پر تشدد واقعات اور بد اعتمادی کی باعث شاید آجکل تو ایسی سیر ناممکن ہو گی۔۔۔
یہ تحریر جسٹن ایمس کی درج ذیل بلاگ کا ترجمہ ہے

1 تبصرہ:

  1. واہ صاحب یہ تو عمدہ کام ہے تراجم جاری رکھیے اسی طرح دنیا کو جاننے کا موقع ملتا رہے گا اور اردو بلاگس میں بھی اضافہ ہوگا۔۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں

کھلے دِل سے رائے دیں، البتہ کھلم کھلی بدتمیزی پر مشتمل کمنٹ کو اڑانا میرا حق ہے۔

Pak Urdu Installer

Pak Urdu Installer