اتوار، 4 اگست، 2019

تھینک یو اللہ میاں



یہ قصہ ہے گرمیوں کی ایک دوپہر کا۔ بچے گرمیوں کی چھٹیاں منانے اپنی نانی اماں کے

 گھر گئے ہوئے تھے۔ 

ہمیں دفتر سے چُھٹی تھی، اور بجلی کو واپڈا سے۔ رات بھی ڈھنگ سے نیند پوری نہ ہوئی تھی

 اور اب تو سونے کا کوئی چانس ہی نہ تھا۔  بجلی کی طویل رخصت کی بدولت یو پی ایس

بے ہوش ہو چکا تھا

 اور پنکھے ساکت۔ اس پسِ منظر میں ہم نے دِن کا بقیہ حصہ نہر کنارے سو کرگزارنے کا فیصلہ کیا۔

 یوں ہم بوریا بستر یعنی کہ چٹائی اور پانی کا کولر وغیرہ اُٹھا کر نہر کیجانب چل نکلے۔ 

سامعین و حاضرین میں سے کئی کو نہر کے گندے ہونے پر اعتراض ہو گا۔ البتہ ہم اس قسم کی باتوں کی  پرواہ نہیں کرتے، کیونکہ "گندی ہے پر ٹھنڈی ہے"۔ 



پس اشنان کرنے کیبعد، طے شُدہ پروگرام کے مطابق قریب ہی ایک درخت کی چھائوں میں چٹائی بچھائی

 اور چاروں شانے چِت ہو کر لیٹ رہے۔ ارادہ تھا کہ تھوڑی دیر سولیا جائے۔

البتہ نہر پر برپا طوفانِ بد تمیزی اور ٹریفک کی پاں پاں کیوجہ سے سونے کی تمام کوششیں ناکام ٹھہریں۔

گھر واپس جانا بھی بیکار تھا۔ موسم البتہ ابر آلود ہو رہا تھا، سو نہر میں چند مزید ڈُبکیاں لگانے کیبعد

 ہم جلو پارک کیجانب عازمِ سفر ہوئے۔ سوچا کہ باغ کی خامشی میں کسی برگِ گُل کی چھائوں سے لُطف

اندوز ہوتے ہوتے خوابِ خرگوش کے مزے لوٹیں گے۔ 

منزلِ مقصود پر پہنچنے کیبعد ہم نے پہلے سے سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق گھنے درختوں کی 

چھائوں میں استراحت کا انتظام کیا، یعنی چٹھائی بچھائی کر کولر کو پاس ہی ٹکایا  اور ایک مرتبہ پھر دراز

 ہو گئے۔ کچھ دیر بعد اسطرف تین چار بچے اپنے دو عدد والدین سمیت آ دھمکے۔ 

انہوں نے "شیطانوں کا کھیل" کرکٹ کھیلنا شروع کر دیا جسکی وجہ سے ماحول کا سکون پہلے جیسا نہ رہا۔


 البتہ یہ "تبدیلی" قابلِ برداشت تھی اور اسکے باوجود نیند کی دیوی ہم پر مہربان ہو ہی گئی۔ 

مگر قدرت کو ہمارا سونا منظور نہ تھا، کچی پکی نیند کو ایک بچے کی آواز نے کرچی کرچی کر دیا۔ 

"انکل، پانی ہے"

"ہاں ہے" میں نے اُکتائی ہوئی آواز میں جواب دیا۔ 

"پی لوں؟" اُسکا اگلا سوال تھا۔ 

"اوہ پی لے بھائی" جواب دیکرمیں نے آنکھیں دوبارہ بند کر لیں۔

لیکن پکچرابھی باقی ہے دوست۔ بچے کو ایک سوال اور پوچھنا تھا۔ 

"انکل گلاس کہاں ہے؟"

اتنے سوال اگر اب تک میرے اپنے بچے نے پوچھے ہوتے تو عین ممکن ہے معالمہ اسکی والدہ کی سپریم 

کورٹ تک جا چُکا ہوتا اور بچے کو پانی کے بجائے سوئے ہوئے والد کو سے حتی الامکان دور رہنے پر

 لیکچر مِل رہا ہوتا۔ لیکن افسوس یہ ممکن نہ تھا۔ لفافے سےگلاس نکالا اور خود ہی بھر کر اُسکی خدمت

 میں پیش کیا کہ جلدی سے پیئے اور جائے۔ 

بچے نے پانی پیا، گلاس واپس رکھا، اور جانے سے پہلے ایک مرتبہ پھر بوُل پڑا۔

"انکل تھینک یو"۔ 

اس مرتبہ اُس نے ایسی بات کی تھی کہ باوجود اکتاہٹ کے مجھے مسکرانا ہی پڑا۔ 

"یو آر ویلکم"اب  میں نے خوشدلی سے جواب دیا اور آنکھیں بند کر لیں۔ 

بمشکل دو منٹ گُذرے ہونگے کہ ایک اور بچہ پانی پینے آ دھمکا۔ 



میں نے سوچا کہ کولر انہی کو دے دیتا ہوں کہ جائو جتنا مرضی پانی پیو، جاتے ہوئے کولر لوٹا جانا۔

 پانی پی کر یہ بچہ بھی "تھینک یو انکل" کہہ گیا۔ 

اسی طرح کچھ دیر بعد انکی ننھی بہن کو بھی پیاس لگی اور اسنے بھی آ کر پوچھا "انکل پانی پی لوں؟"

 جاتے جاتے اسنے بھی "انکل تھینک یو" کی پُھلجھڑی چلائی۔ 

اچھی تربیت کے اثرات صاف ظاہر تھے۔

اِن بچوں کیبعد اور بھی کئی لوگ پانی پینے آئے۔ گملے بھرنے والا لڑکا، بوُڑھا مالی، اور

 جوڑوں کے شکاری دو موٹرسائیکل سوار پولیس والے۔ ان سب نے پانی پیا،

لیکن بچوں جیسا تھینک یو کسی نے نہیں کہا۔ 

اُس روز مجھے اندازہ ہوا کہ زندگی میں شُکریہ ادا کرنے کی کیا اہمیت ہے۔ 

"تھینک یو"، "مہربانی"، "معذرت"، "پلیز"، کرشماتی الفاظ ہیں جو کہ اُکتائے ہوئے انسان کو بھی مُسکرانے

 پر مجبور کر دیتے ہیں۔ 

رہا سوال میرے سونے کا، تو جناب کُچھ ہی دیر بعد موسا دھار بارش شروع ہو گئی۔

 اس سے بھاگنا کُفرانِ نعمت ہوتا۔ پس ہم بارش میں خوب نہائے اور کئی مرتبہ بے اختیار منہ سے یہ الفاظ

 نکلے

"تھینک یو اللہ میاں"

جمعہ، 18 جنوری، 2019

زرعی انقلاب کا پھندا


لگ بھگ بارہ ہزار سال قبل رونما ھونے والا زرعی انقلاب، تاریخ کے متنازع ترین واقعات میں سے ایک ہے۔ کُچھ طرفدار کہتے ہیں کہ اسنے بنی نوع انسان کو عروج اور ترقی کی راہ پر ڈال دِیا۔ البتہ مخالفین مُصر ہیں کہ اسکا نتیجہ مسلسل ابتلاء ہے۔  وہ کہتے ہیں کہ یہی وہ موڑ تھا جب سیپینز یعنی انسانوں نے فطرت کے ساتھ اپنا قریبی ربط نوچ پھینکا اور سرپٹ لالچ و اجنبیت کی جانب دوڑ لگا دی۔ راہ جِس سمت بھی لے جاتی، واپس ناممکن تھی۔ 

کھیتی باڑی کی بدولت انسانی بستیاں اسقدر سرعت سے پھیلی کہ کوئی بھی پیچیدہ زراعتی معاشرہ اگر قدیم شکاری اور متلاشی طور طریقوں کی جانب لوٹتا تو قائم ہی نہ رہ پاتا۔
لگ بھگ دس ہزار سال قبلِ مسیح کو، زراعت پر منتقلی سے پہلے، زمین پر شکاری متلاشی انسانوں کی آبادی پچاس لاکھ سے اسی لاکھ کے درمیان تھی۔ پہلی صدی عیسوی آتے آتے انکی تعداد گھٹ کر دس لاکھ سے بیس لاکھ تک رہ گئی وہ بھی زیادہ تر آسٹریلیا، افریقہ، اور امریکہ میں۔ لیکن اُنکے مقابلے میں اُسوقت صفحۃ ہستی پر کسانوں کی تعداد پچیس کڑوڑ کے قریب پہنچ چُکی تھی۔ شکاری معدوم ہو رہے تھے۔

کِسانوں کی بڑی تعداد مُستقل آابادیوں میں رہتی تھی۔ ان میں کم ہی خانہ بدوش چرواہے تھے۔ ایک جگہ ٹِک جانے کی وجہ سے زیادہ تر لوگوں کا علاقہءِ عمل ڈرامائی طور پر سُکڑ گیا تھا۔
قدیم مُتلاشی شکاری عام طور پر سیکڑوں یا کبھی کبھار ہزاروں مربع میل پر مُحیط علاقے میں سرگرم رہتے تھے۔ سارے کا سارا علاقہ انکا گھر ہوتا تھا۔ پہاڑ، جھرنے، جنگلات، اور کُھلا آسمان۔ 
دوسری جانب کسان، زیادہ وقت نسبتا چھوٹے کھیت یا باغ میں کام کرتے رہتے۔ اُنکی روزمرہ زندگی لکڑی، پتھر، یا گارے کے ایک ٹھنسے ٹھنسائے ڈھانچے کے گِرد گھومتی تھی جو بمشکل چند میٹر پر مُحیط ہوتا تھا؛ یہ ڈھانچہ تھا اُنکا گھر۔ 

عام طور پر کِسان کو اِس ڈھانچے کیساتھ گہرا لگائو ہو جاتا تھا۔ یہ ایک دور رس انقلاب تھا جسکے اثرات جسقدر نفسیاتی تھے، اُسی قدر ہی عماراتی بھی تھے۔ اِسکے بعد سے "میراگھر" کی لگن اور پڑوسیوں سے علیحدگی ایک خود کفیل مخلوق کا خاصہ بن گئی۔
نئے زراعتی رقبے نہ صِرف قدیم مُتلاشی شکاریوں کے زیر استعمال علاقوں سے  کئی گُنا چھوٹے تھے، بلکہ بے حد بناوٹی بھی تھے۔



 آگ کے استعمال کے سے ہٹ کر، شکاری جس سرزمین میں گھومتے پھرتے تھے اُسمیں کم ہی کوئی بڑی تبدیلی کیا کرتے۔

لیکن کِسان، مصنوعی انسانی جزیروں میں رہتے، جنہیں وہ جفاکشی سے آس پاس کے جنگلات کو صاف کر کے تراشتے۔ جہاں پر وہ گھر تعمیر کرتے، ہل چلاتے، اور دیدہ زیب قطاروں میں پھلدار درخت لگاتے۔
 نتیجتاۤ رونما ہونے والا مصنوعی ماحول فقط انسانوں، اُنکے پودوں، اور پالتو جانوروں کیلئے بنا ہوتا۔ رہائش کے اردگرد عموما دیواروں یا باڑھوں کی مدد سے حد بندی کی جاتی۔ جنگلی جانوروں اور تیزی سے پھیلنے والی جڑی بوٹیوں کو باہر رکھنے کیلئے کِسان خاندان ہر مُمکن جتن کرتے۔

اگر ایسے گُھس بیٹھیئے اندر آ ہی جاتے تو انہیں نکال باہر کیا جاتا۔ اگر وہ ڈٹے رہتے، تو اُنکے مد مقابل انسان انہیں جان سے مارنے کے نت نئے طریقے اختیار کرتے۔

زراعت کی ابتدا سے لیکر آج تک اربوں کی تعداد میں انسان لاٹھیوں، کیڑے مار اوزاروں، جوتوں، اور زہریلی ادویات کیساتھ جفاکش چیونٹیوں، چُھپنے کے خوگر کاکروچوں، اور بھوُلے بسرے مکوڑوں کیخلاف برسرِ پیکار ہیں۔ مگر وہ بھی مُسلسل انسانوں کے رہائشی علاقوں میں در اندازی کی عادت پر قائم ہیں۔

تاریخ کے بیشتر حصے میں انسان کی تخلیق کردہ یہ آماجگاہیں بُہت چھوٹی رہی ہیں، انہیں ہمیشہ وحشی فطرت نے اپنے گھیرے میں لئے رکھا۔ زمین کی کُل سطح لگ بھگ اکیاون کڑوڑ مربع میل ہے، جسمیں سے ساڑھے پندرہ کڑوڑ مربع میل خُشکی ہے۔ سن چودہ سو عیسوی تک، کسانوں کی بڑی تعداد اپنے پودوں اور پالتو جانوروں سمیت، محض ایک کروڑ دس لاکھ مُربع میل پر مرکوز تھی۔ 

کُرہ ارض کی کُل سطح کا محض دو فیصد۔ باقی تمام جگہیں یا تو شدید سرد تھی، یا شدید گرم، انتہائی خُشک، بُہت گیلی، یا پھر ناقابلِ کاشت۔ کُرۃ ارض کا محض دو فیصد حصہ وہ سٹیج تھا جس پر تاحال معلوم تاریخ رقم ہوئی۔

اپنے مصنوعی جذائر کو چھوڑنا لوگوں کیلئے سخت دشوار تھا۔ اپنے گھر، کھیت، اور ذخیروں کو بغیر شدید نقصان کا خطرہ موُل لئے چھوڑنا ناممکن ہوتا۔ 

قدیم کسان ہمارے حساب سے تو شاید غریب لگتے ہوں۔ لیکن ایک عام گھرانے کی ملکیت میں اتنے زیادہ اوزار ہوتے ہوں گے جتنے شکاریوں کے پورے جتھے کے پاس نہ رہے ہوں گے۔

جوں جوں وقت گُزرتا گیا، انسان اپنے اردگرد مزید چیزیں اکٹھی کرتا گیا۔ ایسی چیزیں جنکو ساتھ لیکر گھومنا پھرنا آسان نہ تھا۔ ایسی چیزیں جنہوں نے اُسے باندھ کر رکھ دیا تھا۔

آزاد منش شکاری، اپنے کھیتوں، اوزاروں، اور گھر کا قیدی ہو گیا تھا۔ جھرنے، پہاڑ، اور آزادی پیچھے رہ گئے تھے۔

یہ تھا زرعی انقلاب کا پھندا۔

Pak Urdu Installer

Pak Urdu Installer