اب سے دو ڈھائی گھنٹے قبل، ساڑھے بارہ بجے کے آس پاس میں منی مارکیٹ والے برگر کارنر پر تھا، کہ لوگوں کی کی آواز کانوں میں پڑی۔
پہلا: تین تو موقع پر ہی مر گئے ہیں، اسکے بھائی شانی کی حالت نازک ہے جنرل ہسپتال لے گئے ہیں۔
دوسرا: یہ صرف دو ہی بھائی ہیں نا۔ اسکے باپ بیچارے کی حالت دیکھی تھی؟
اسی نوع کی کچھ اور گفتگو ہوئی تو میں نے پوچھ لیا کہ ایکسیڈنٹ کہاں ہوا ہے؟ پتہ چلا لبرٹی مارکیٹ گول چکر کے پاس لاہور پلازہ کے نزدیک، دو گاڑیاں تھیں اور ریس لگا رہے تھے۔ ان دو میں سے ایک گاڑی بے قابو ہو کر فٹ پاتھ پر چڑھ گئی۔
ڈبل ون ڈبل ٹو والے فٹا فٹ ہی آ گئے تھے، گاڑی سے نکالے ہی انہوں نے لڑکوں کے دل پمپ کئے لیکن جلد ہی اعلان کر دیا کہ جان نکل چکی ہے۔
میں ذاتی طور پر ایکسٹریم سپورٹس کے حق میں ہوں، گذشتہ دنوں جب بحریہ ٹائوں والے ایکسیڈنٹ کی ویڈیو سامنے آئی تودفتر میں خاصی گرما گرم بحث ہوئی جس میں میرا نقطہ نظر تھا کہ ایسی سرگرمیاں ہونی چاہئیں کیونکہ ان سے معاشرے کی رگوں میں خون چلتا ہے۔ نوجوانوں کے گرم خون میں موجود ٹھاٹیں مارتی توانائی کو اظہار کرنے موقع ملتا ہے۔ ایسے کاموں کی بدولت سائنس اور ٹیکنالوجی کو فروغ ملتا ہے۔
اب بھی میں اسی نظریے کا قائل ہوں، اور سمجھتا ہوں کہ مصلٰے پر بیٹھ کر نوجوانی کا زور قابو میں نہیں آتا۔ اس منہ زور سیلاب کو بالکل بند کرنا ناممکن ہے، اگر مناسب ناکہ بندی کر لی جائے تو منہ زور دھاروں کے آگے جنریٹرز لگائے جا سکتے ہیں، اور دور دراز کی بنجر دھرتیوں کو سیراب کیا جا سکتا ہے۔
لیکن آج کے واقعے کے بعد میرے ذہن میں امی جی کی ایک بات فورًا آئی، وہ کہتی ہیں کہ "بندہ ایک پودا لگاتا ہے اور اسے دیکھنے بیٹھ جاتا ہے"۔ چھوٹا سا بچہ ہوتا ہے، ہم اسکو دیکھ دیکھ کے جیتے ہیں۔ آج اس نے بات کی، آج اس نے مجھے ماما کہا، آج چلنا شروع کر دیا، سکول جانے لگ پڑا، ماں باپ بوٹے کو دیکھتے رہتے ہیں دیکھتے رہتے ہیں، اسکی ایک ایک کونپل پر انکی نظر ہوتی ہے۔ قدرت کا نظام ہے کہ جب پودا تناور ہوتا ہے تو مالی بوڑھا ہو جاتا ہے۔ ناتواں بوڑھے مالیوں کی آس امید پھر اسی بوٹے سے لگ جاتی ہے۔
لیکن۔۔۔ لیکن۔۔۔ جن کے یہ بوٹے تھے، ان پر کیا گزری؟ وہ بوٹے جنکو پانی دیتے جسکی کونپلیں گنتے انکے ان گنت بال سفید ہو گئے تھے جب آن کی آن میں جڑ سے اکھڑ گئے، تو باقی کیا بچا؟
کوئی کہہ رہا تھا کہ یہی لڑکے ہر ہفتے لبرٹی آیا کرتے تھے، پچھلے ہفتے آٹھ ہونڈے لے کر آئے تھے۔ لبرٹی کے پارکنگ پلازہ میں ویلنگ کر کے چڑھتے اور خوش ہو رہے تھے۔ اسی طرح جس جگہ آج کا حادثہ ہوا ہے، وہ بھی ریسنگ کے لئے نہایت غیر موزوں ہے۔
ایڈرنالین رش بڑی بری چیز ہے، بندے کی مت مار دیتا ہے۔ میٹر ایک سو پچاس سے اوپر جاتے ہیں، اگلا پہیہ ہوا میں اٹھتے ہی، دوسری گاڑی کے پیچھے نکلتے ہی ایڈرنالین رش شروع ہو جاتا ہے۔ جن لوگوں کو اسکا چسکا پڑ جائے وہ طرح طرح کے جتن کر کےسکون حاصل کرتے ہیں۔ نوجوانوں کے ابلتے خون میں مِل کر اس کیفیت کا اثر اور بھی دوبالا ہو جاتا ہے۔
مسئلہ تو بیان کر دیا، اب حل کیا ہے؟
ایکسٹریم سپورٹس کا اگر کوئی دیوانہ ہے تو اسے ہوش سے کام لینا چاہیئے۔ مناسب حفاظتی انتظامات کے بغیر ایسے کام کرنے سے پرہیز کرنا چاہیئے۔ اور ون ویلنگ کسی بھی طرح سپورٹ نہیں ہے، خاص طور پر مصروف سڑکوں پر ستر اسی کی رفتار سے پہیا اٹھا دینے کا مردانگی سے ہرگز کوئی تعلق نہیں ہے۔ میرے خیال میں بڑی بڑی موٹر کمپنیوں، آئل کمپینوں، اور حکومت وقت کے اشتراک سے ہر شہر میں باقاعدہ ان کاموں کے ٹریکس بننے چاہیئیں۔ جہاں پر لوگ ریسنگ، ون ویلنگ جیسے کام کر کے اپنا خون ٹھنڈا کر سکیں۔
مسئلہ تو بیان کر دیا، اب حل کیا ہے؟
ایکسٹریم سپورٹس کا اگر کوئی دیوانہ ہے تو اسے ہوش سے کام لینا چاہیئے۔ مناسب حفاظتی انتظامات کے بغیر ایسے کام کرنے سے پرہیز کرنا چاہیئے۔ اور ون ویلنگ کسی بھی طرح سپورٹ نہیں ہے، خاص طور پر مصروف سڑکوں پر ستر اسی کی رفتار سے پہیا اٹھا دینے کا مردانگی سے ہرگز کوئی تعلق نہیں ہے۔ میرے خیال میں بڑی بڑی موٹر کمپنیوں، آئل کمپینوں، اور حکومت وقت کے اشتراک سے ہر شہر میں باقاعدہ ان کاموں کے ٹریکس بننے چاہیئیں۔ جہاں پر لوگ ریسنگ، ون ویلنگ جیسے کام کر کے اپنا خون ٹھنڈا کر سکیں۔
Hi brother, from couple of year here in singapore gov promoting F1 race at that movment they block many roads put so stell barrier and so many arrangment because this country is very small but they still made a way to be in sports industry our side nothing at all no sports even cricket, hockey, squash every thing seems gone. No hope..
جواب دیںحذف کریںآپ نے کہاں کی بات کہاں ملا دی؟ اس لاقانونیت کو آپ کھیل کہتے ہیں؟
جواب دیںحذف کریںبات سادہ سی ہے۔ جب حرام کمائی دماغ پر چڑھ جاتی ہے تو زور گاڑی کے انجن پر نکلتا ہے۔ جوانی کا جوش کم کرنا ہے تو کوئی کھیل اور کھیل لیں، باکسنگ ہی سہی۔
لگ پتہ جائے گا کہ جانی کتنی ہے اور ایڈرنالن کتنا ہے۔
نامعلوم آپ کيا کہنا چاہ رہے تھے اور کيا کہہ گئے ہيں ۔ اسی طرح کی ريس کے کئی شکار ہو چکے ہيں جن ميں سے ايک ميں بھی ہوں ۔ ٹھيک تين ماہ اور ايک دن قبل ميں لاہور ميں خيابانِ جناح جسے ڈيفنس مين بُليوارڈ بھی کہتے ہيں پر اس انتظار ميں کھڑا تھا کہ ٹريفک رُکے اور ميں سڑک پار کروں کہ ايک انتہائی تيز رفتار موٹر سائيکل نے مجھے ٹکر ماری ۔ ميں کوئی دس فٹ دور اوندھا چہرے کے بل سڑک پر گرا ۔ موٹر سائيکل سوار پھر بھی نہ رُکا اور مع موٹر سائيکل ميرے اوپر سے گذر گيا ۔ اس حادثے کے نتيجہ مجھے س پر شديد چوٹ کے ساھ ساتھ جسم پر تيس زخم يا چوٹيں آئيں ۔ ابھی تک يعنی حادثہ کے بانوے دن بعد بھی ميں سر گھماؤں يا ايک دم اُٹھوں تو چکرا کر گرتا ہوں ۔ کانوں ميں ابھی تک کم سنائی ديتا ہے ۔ ناک ابھی تک سُن ہے ۔ خوشبو اور بدبو کا احساس ختم ہے ۔ پرانی ياد داشت کھو چکا ہوں ۔
جواب دیںحذف کریںکيا بات ہے ريس کی ؟؟؟
nahi faisal bhai, Naeem ne jo kaha hay main os se kafi haad tk mutafiq hoon. Asal baat yeh hay ke zaroori nahi har ik ko ik hi type ka khail pasand ho. this can be different. Jesay Pakistan main Cricket ka buhat junoon hay per mujhe nahi hay. isi tarhan hum extream sport ke shaiqeen jo ke buhat hi thori tadaad main yaksar mustarad nahi kar saktay. haan yeh hona chahye ke apnay extreamisum ka khulay aam public places main muzahira na ho. is tarhan jo is ko khail pasand nahi kartay wo bhi is ke nuqsanaat ki waja se bach jain gay.
جواب دیںحذف کریںبھوپال صاحب: مجھے آپکے ساتھ ہونے والے حادثے کا جان کر بڑا دکھ ہوا، اللہ پاک آپکو جلد کامل صحت عطا فرمائیں۔
جواب دیںحذف کریںغلط طریقے سے گاڑی یا موٹر سائیکل چلانا ٰاتنا برا ہے کہ میں تو اسے غیر انسانی فعل سمجھتا ہوں۔ موٹر سائیکل یا گاڑی کو راکٹ بنانے کی کوشش کرنے والوں کو چھتر پڑنے چاہئیں۔آپکی ذرا سی غلطی کسی کی زندگی کا ستیا ناس مار سکتی ہے۔ اسی بات پر روشنی ڈالنے کے لئے دو ویڈیوز بھی پوسٹ میں شیئر کی ہیں۔
بجائے فرداً فرداً مخاطب کرنے کے میرے خیال میں ایک ہی جواب دینا بہتر رہے گا۔
میں جو کہنا چاہ رہا تھا، ایڈیٹر میں پہلا حرف لکھنے سے پہلے مجھے اچھی طرح پتہ تھا۔ اور تقریباً تین چار گھنٹے تک میرے ذہن میں کھچڑی پکتی رہی تھی۔ اس سے پہلے کافی مرتبہ دفتر میں بھی بحث ہو چکی ہے۔ تمام باتوں کا آپس میں واضح ربط موجود ہے۔
آپکی اطلاع کے لئے عرض ہے، ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں صرف ایک لڑکا کسی ایم این اے کا بیٹا تھا باقی تمام عام دوکانوں پر کام کرنے والے لوئر یا مڈل کلاس کے بچے تھے۔ بلکہ ایک لڑکے کو تو ڈیفنس میں سے کسی دوکان پر سے بلا کر لائے تھے۔ اور زخمی ہونے والے ایک لڑکے کا بھائی برگر کارنر پر ویٹری کرتا ہے، کہاں کا مال حرام اور کیسا مال حرام؟
لاقانونیت والی بات میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ اور میرا استدلال ہے کہ ان کاموں کو باقاعدہ شکل دے دی جائے، تاکہ لوگ عام سڑکوں پر ٹکریں نا مارتے پھریں۔ جیسے کالب نے سنگاپور کی مثال دی ہے۔ ختم کر دو بند کر دو کہ دینے سے تمام مسائل حل نہیں ہو جاتے، نوجوانوں کی گرمی بھی ایک ایسا ہی مسئلہ ہے اور دبانے یا مٹی ڈالنے سے حل نہیں ہونے والا۔
رحیم بھائی نے بالکل صحیح کہا، ساری دنیا کو باکسنگ اپیل نہیں کرتی ہو گی۔ اس لئے ساری دنیا باکسنگ نہیں کھیل کر خوش نہیں ہو سکتی۔
میں انشاءاللہ لاہور میں یاماہا ریسنگ پر پورا فیچر کروں گا۔ جس میں تحریر، تصویر، اور لائیو ویڈیوز موجود ہوں گی۔ اس سے لوگوں کو اندازہ ہو گا کہ نوجوان کس قدر جذباتی ہیں اور کیا کیا کر جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر دسمبر کے مہینے میں قمیض اتار کر ایک سو بیس کی رفتار پر موٹر سائیکل بھگانا، کیونکہ شرٹ یا جیکٹ قمیض وغیرہ سے بائیک بھگانا مشکل ہوتا ہے۔
جناب والا،
جواب دیںحذف کریں"ایکسٹریم سپورٹس" عوامی مقامات پر نہیں کی جاتی۔ نیز کرنے والے بڑے حفاظتی اقدامات کے ساتھ کرتے ہیں۔ آپ کی اس پوسٹ سے یوں لگتا ہے کہ جیسے اگر کسی کو رائفل سے نشانہ بازی کا شوق ہے تو بھرے بازار کا رخ کرلے۔ :)
مزید معلومات کے لئے اور کچھ نہیں تو کیبل پر ایکسٹریم سپورٹس کے چینلز سے رجوع کیجئے۔
عثمان بھائی، کمنٹس تو درکنار میرے خیال میں آپ نے پوسٹ بھی دھیان سے نہیں پڑھی۔ میں نے واضح لکھا ہے کہعوامی چہل پہل کے مقامات پر اس قسم کے کام نہیں کرنے چاہیئں، جس نے کرنا ہے کسی باقاعدہ طے کردہ جگہ پر جا کے کرے۔ اور پورے حفاظتی انتظامات کے ساتھ کرے۔
جواب دیںحذف کریںاور میرے بھائی مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ آپکو کیبل ٹی وی تک بھی رسائی حاصل ہے۔۔۔ ہا ہا ہا
آپ کے آخری پیراگراف پر نظر ڈال چکا ہوں۔ لیکن مجھے ایسا لگتا ہے کہ جیسے آپ نے محض گونگلؤں سے مٹی جھاڑی ہے۔ آپ کا بتایا گیا حل بہت آئیڈیل ہے۔ پاکستان میں اس کی عملی شکل ممکن نہیں لگتی۔ بھائی جی۔۔ لاہور میں کرکٹ کے مناسب میدان ، اچھے سہولیات والے جم ، اور سوئمنگ پول ہی بن جائیں تو بڑی بات ہے۔ صحت مند سرگرمیوں کے حوالے سو جو ترجیحات ہیں وہ بڑی حد تک ان سے ہی پوری ہوجائیں گی۔ جبکہ اکثر ایکسٹریم سپورٹس نسبتا مہنگی ہیں۔ آبادی کا بڑا حصہ اس سے مستفید نہیں ہوسکتا۔ چلئے آپ کے فیچر کا انتظار کرتے ہیں۔
جواب دیںحذف کریںواقعی یہ ایکسٹریم اسپورٹس تو پیٹ بھروں کے نخرے ہیں۔ میں عثمان کی بات سے سو فیصد متفق ہوں کہ اہل پاکستان کے لیے اگر صرف کرکٹ کے مناسب میدان ، اچھے سہولیات والے جم ، اور سوئمنگ پول ہی بن جائیں تو بڑی بات ہے۔ ایکسٹریم اسپورٹس تو دور کی بات ہے جی۔ اور اگر اس کی صہولت فراہم کر بھی دی جائے تو آپ کے خیال میں پاکستان میں کتنے فیصد لوگ اس سے استفادہ کرسکیں گے۔ وہ جنہیں مہنگائی کی وجہ سے زندگی کی گاڑی کو کھنچنا مشکل ہورہا ہے وہ بھلا ایکسٹریم اسپورٹس سے لطف اندوز ہونگے؟؟؟
جواب دیںحذف کریںمیرا نام نعیم اکرم ملک ہے، اردو سیارہ پر غلطی سے اکرام لکھا گیا۔ اس غلطی کو درست کروں گا کسی وقت۔
جواب دیںحذف کریںچلیں جناب، گولی ماریں ایکسٹریم سپورٹس کو، پابندی لگا دیں۔ کم از کم ایک بات پر تو اتفاق ہوا، کہ کہ روایتی کھیلوں کے وافر مراکز بنائے جانے چاہئیں۔
وقار بھائی لوگ کرلیتے ہیں۔ بندے کو کھیلنا آتا ہو تو شرطیں لگانے والے تلیوں پر اٹھا لیتے ہیں۔اور نخرے تو بلاشبہ یہ پیٹ بھروں کے ہی ہیں۔
گوندل صاحب، طویل تبصرے کا شکریہ۔ چوپالیں دارے وغیرہ بڑی اچھی چیزیں ہوتی تھیں۔ لیکن اب کرائے دار کلچر میں انکا وجود ختم ہو گیا ہے۔ لوگوں کو بھاگم بھاگ لگی ہے، جو فرصت کی گھڑیاں ملتی ہیں وہ سکرین کے سامنے بیٹھ کر گزار دیتے ہیں۔ اللہ آپکا بھلا کرے، جس بندے نے اجمل صاحب کو ٹکر ماری تھی ضروری نہیں کہ وہ کوئی سر پھرا ہی ہو۔ عین ممکن ہے کوئی بندہ جلدی میں کہیں جا رہا ہو۔ پاکستانی ہر کام میں ماٹھے نہیں ہیں، ہم کسی سے کم نہیں ہیں۔ ہم ہی ہیں جو بارہ بارہ گھنٹے لوڈ شیڈنگ، گیس، پانی، چینی، اور آٹے جیسی چیزوں کی نایابی کے باوجود پھل پھول رہے ہیں۔
عثمان بھائی اللہ آپکا بھلا کرے، میرے ذہن میں ایک حل تھا جو بیان کر دیا۔میرے خیال میں وعظ نما تحریروں کی طوالت زیادہ نہیں ہونی چاہیئے قاری بور ہو جاتا ہے۔ مرکزی خیال سمجھ میں آ گیا تو بس کافی ہے۔
جاوید گوندل کا کمنٹ دو الفاظ حذف کرنے کے بعد، حذف شدہ الفاظ کی جگہ پر --- لکھا ہے۔
جواب دیںحذف کریںمجھے فیصل بھائی کی اس بات سے اتفاق ہے کہ یہ حرام کی کمائی ہے جس کا سارا زور ایسکسیلیٹر پہ نکلتا ہے۔ نعم اکرام ملک بھائی صاحب! جن اسٹریم اسپرٹس کی آپ بات کر رہے ہیں وہ "اسٹریم اسپورٹس" اسقدر "اسٹریم" ہوتی ہیں کہ ون ویلینگ کرنے والے --- کے بس کی بات نہیں۔ بس یہ سارا زور شرفاء کو خوفذدہ کرنے۔ آتی جاتی خواتیں کے سامنے بے غیرتی کی حد تک ہیرو بننے کے چاؤ میں بہت سے اپنی جان ہار جاتے ہیں۔ لو لوگ کسی قسم کی اسٹریم اسپورٹس میں حصہ لیتے رہے ہیں یا بدستور ابھی تک کرتے ہیں وہ ہر قسم کی مکمل تیاری اور اپنے اور دوسروں کے لئیے تماتر تیاری کے ساتھ میدان میں اترتے ہیں۔ یا پہاڑوں ، صحراؤں، سمندروں کا رُخ کرتے ہیں ۔اور نہائت تحمل مزاج اور سلجھے اخلاق کے مالک ہوتے ہیں۔ جس طرح بے وقوفی اور بہادری میں بہت فرق ہوتا ہے اسی طرح اخلاقی مظبوطی اور کمینگی میں فرق ہوتا ہے۔ پاکستان میں خاصکر لاہور میں موٹر سائیکلز کی ون ویلنگ یا اسلام آباد اور لاہور وغیرہ میں گاڑیوں کی ریس وغیرہ کے جو مناظر دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے وہ بہادری کی بجائے سراسر بے و قوفی اور مادر پدر آزاد قسم کی بے غیرتی تھی۔ جسمیں اسطرح کے نوجوانوں نے ماسوائے عام شہریوں کو تنگ کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ اگر دنیا میں رائج اسٹریم اسپورٹس کے کسی مقابلے میں خواہ وہ موٹر سائیکل یا کار ریس سے ہی کیوں نہ متعقلہ ہو ۔ کسی اسیے مقابلے میں یہ "---" انمیں حسہ لینے کے لئیے ہی نہ سلیکٹ ہو سکیں۔ اور انکی بے ہودگی اور اخلاقی پستی کی ایک مثال اجمل بھوپال صاحب بیان فرما چکے ہیں ۔ چلیں موٹر سائیکل والے نےغلط جگہ پہ اپنا شوق پورا کیا۔ اس سے ایک غلطی ہوگئی جس کے نتیجے میں ایک راہگیر (اجمل بھوپال صاحب) کے ساتھ حادثہ ہوگیا۔ تو کیا ایک نوجوان اور وہ نوجوان جو اپنے آپ کو اسٹریم اسپورٹر سمجھتے ہیں ۔ کیا انکا فرض نہیں بنتا تھا کہ وہ رک اجمل صاحب کو دیکھتے۔ انھیں ہسپتال وغیرہ پہنچانے کا بندوبست کرتے ہوئے اسپورٹ مین اسپرٹ کا مظاہرہ کرتے اپنی غلطی تسلیم کرتے۔ قانون کی خلاف ورزی کرنے کی سزا کا سامنا کرتے۔ اگر ان میں کوئی ایک بھی مندرجہ بالا وصف نہیں تو یہ کیسے اسپورٹ میں ہیں؟ اور اسٹریم اسپورٹس کے لئیے تو لوہے کا دل اور جگر ہونے کے ساتھ ساتھ فولادی اخلاقی قوت خود بخود عطا ہوجاتی ہے۔ میری ذاتی رائے میں یہی بہتر حل ہے کہ شہروں اور قصبوں میں عالمی معیار کی سہولتوں اور معیار کے مطابق مختلف کھیلوں کے کلب، گروانڈز اور اکھاڑے وغیرہ سے بھی نوجوانوں کا خون گرم رکھا جاسکتا ہے۔ کسی زمانے میں پاکستان میں دیسی اکھاڑے، چوپالیں ، دارے، اور تکیے وغیرہ ہوتے تھے جنہیں پاکستانیوں نے دیسی اور قدامت کی نشانی قرار دے کر ملیامیٹ کر دیا ہے ۔ اور کسی قسم کی نئی صحت مند ایکتویٹی ہم اپنا نہیں سکے۔ ہر کام میں ماٹھے۔ ہم پاکستانی
نوٹ: گوندل صاحب میں بذات خود عوامی انداز میں کھلا ڈلا لکھنے کا قائل ہوں۔ خالص مردانہ محفل میں کھلم کھلا اعضائے مخصوصہ کے نام بمعہ القاب بھی استعمال کرتا ہو، البتہ یہاں اکا دکا خواتین بھی آ جاتی ہیں اسلئے براہ کرم تھوڑی سی احیتاط کیا کریں۔
جواب دیںحذف کریںنعیم اکرم ملک صاحب!
جواب دیںحذف کریںمیری حتی الوسع کوشش ہوتی ہے کہ تحریر و تقریر میں اخلاق و تہذیب کا دامن ھاتھ سے نہ چھوٹے ۔ آپ نے میرا لکھا ہوا جو لفظ حذف کیا ہے ۔ وہ ایک ہی لفظ دو بار لکھا تھا اور وہ لفظ تھا "کاکے" اور یہ لفظ پنجابی میں لڑکے بالے کے لئیے استعمال کیا جاتا ہے۔ لاہور اور دیگر کئی اضلاع میں چھوٹے لڑکے کو "کاکا" کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے۔
بہر حال آپ کی تجویز سے اتفاق ہے کہ ۔ صحت مند تفریح کے لئیے ۔ صحت مند ماحول اور سہولتوں کا ہونا بہت ضروری ہے۔
It's all bc of money if they were poor they don't have time for these things
جواب دیںحذف کریں