سردیوں کے موسم میں سکول جانا کوئی آسان کام نہیں۔ بائیں طرف دی گئی تصویر ملاحظہ فرمائیں، بس کی چھت پر بیٹھے سکولئے بچے دسمبر کی سرد صبح میں ٹھروں ٹھروں کرتے سکول جاتے ہیں۔
دائیں طرف والا نوجوان چیک کریں، دیسی سپائیڈر مین۔
اور یہ جگاڑ تو اکثر دیہاتی علاقوں میں نظر آتا ہے۔ شہروں میں ٹریفک پولیس کا تھوڑا ڈر ہوتا ہے۔ چھتوں پر لنٹر ڈالنے والی پارٹیاں اس انجن کو استعمال کر کے کنکریٹ بلندی پر چڑھانے والی لفٹ چلاتے ہیں۔
بائیں جانب دکھائی دینے والا ہینڈ پمپ المعروف نلکہ اب تو دیہات میں بھی شاذ و نادر دکھائی دیتا ہے۔ اور دائیں جانب والی بکری اور اسکا میمنا یا میمنی بس ایویں ای۔۔۔
کولوہ ایک نڑا سا توا ہوتا ہے۔ چند روز پہلے پھوپھو مرحومہ مغفورہ کے چالیسویں کے سلسلے میں ہمارے ہاں روٹیاں پکانے کے لئے کولوہ لگائی گئی۔ اسکو لگانے کے لئے ماہرین ایک دن پہلے آن پہنچے۔ انہوں نے ایک مورچہ نما چولہا بنایا اور پھر اسکے اوپر توا سیٹ کیا۔ اگلی صبح آٹھ بجے ہی اپنا کام شروع کر دیا۔ یہ بڑی بڑی روٹیاں، ۔۔۔
ایک بجلی کا کھمبا بنتے دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ بھئی واپڈا والے بھی کیا تکلف کر رہے ہیں۔ گرمیاں آنے والی ہیں تو بھلا اس کھمبے کا کیا کام؟
حال ہی میں جی ٹی روڈ پر سفر کے دوران پاکستان آرمی کا ایک قافلہ مِلا۔ بڑی بڑی شاندار قسم کی مارٹر گنز کو کہیں لے جایا جا رہا تھا۔
اور دائیں طرف ایک سائیکل سوار جو چند ماہ قبل لاہور میں دکھائی دیا۔ لکڑی کی ٹانگ پر سائیکل چلاتا ہوا۔ شاباش ہے بھئی۔۔۔
چند روز قبل شام کے وقت کہیں جانے کا اتفاق ہوا، آسمان پر یوں محسوس ہوتا تھا بادلوں سے کچھ لکھا ہو۔ اور سورج چاچو ڈوب رہے تھے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
کھلے دِل سے رائے دیں، البتہ کھلم کھلی بدتمیزی پر مشتمل کمنٹ کو اڑانا میرا حق ہے۔