بدھ، 29 جولائی، 2009

کچھ شوگران کے بارے میں

پچھلے ہفتے مطلب پچیس چھبیس تاریخ کو میں شوگران گیا ہوا تھا۔ جس کمپنی میں میں کام کرتا ہوں انہوں نے اس سیر کا پورا خرچہ اٹھایا تھا۔ شوگران پاکستان کے شمال میں ہے، اور سطح سمندر سے تقریباً سات ہزار فٹ بلندی پر واقع ہے۔ ہم گیارہ لوگ لاہور سے جمعہ کی رات کو تقریباً دس بجے نکلے تھے۔ جی ٹی روڈ کے راستے راولپنڈی گءے، راستے میں گجرات کے پاس دریاءے چناب کے کنارے رک کر کھانا کھایا۔ یہ دو تصویریں وہاں اتاری تھیں۔





راولپنڈی سے ہم لوگ ایبٹ آباد گءے، براستہ حسن ابدال اور واہ کینٹ۔ ہم لوگوں کا ارادہ تھا کہ صبح پانچ بجے تک ایبٹ آباد پہنچ جاءیں گے، تھوڑا آرام کر کے دن میں نو دس بجے تک شوگران کے لیے روانہ ہوں گے۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ اول تو ہم لاہور سے آدھا گھنٹہ لیٹ نکلے تھے اسکے بعد چناب پرتقریباً ایک گھنٹہ رکے رہے، اور رہی سہی کسر ایبٹ آباد سے کچھ پہلے رک کر پوری ہو گءی۔ ایبٹ آباد سے کوءی پونے گھنٹے کی مسافت پر ایک پٹرول پمپ پر رکے، کچھ لوگوں نے واش روم جانا تھا۔ لیکن جناب وہاں واش روم صرف ایک تھا، پندرہ بندے باری باری واش روم جاءیں اور ہر بندہ اوسط ڈیڑھ منٹ لگاءے تو بھی تقریباً پچیس منٹ بنتے ہیں۔ سب لوگوں نے نماز بھی پڑھی، شکر ہے کہ وضو کرنے کی جگہ کچھ بہتر تھی۔


خیر جناب ہم لوگ تقریباً صبح سات بجے ایبٹ آباد پہنچے۔ سب متفق تھے کہ یہاں رکنا فضول ہے لیکن ڈراءیور کو تھوڑا آرام دینے کی نیت سے ہم لوگ رک گءے۔
یہاں ایک گڑ بڑ ہو گءی، سب لوگ اپنے اپنے کمروں میں جاتے وقت ڈراءیور کو بالکل بھول گءے اور وہ بیچارہ دو گھنٹے گاڑی میں ہی بیٹھا رہا۔ گیارہ لوگوں کے لیے چار کمرے کراءے پر لیے گءے تھے۔ میں اس قسم کی انتظامی تفصیلات جان بوجھھ کر بتا رہا ہوں، امید ہے کسی پڑھنے والے کے کام آءیں گی۔ خیر جناب نو بجے کے قریب سب جاگے نہا دھو کر فریش ہوءے۔ اور ناشتہ کرنے ہوٹل کے ڈاءننگ میں پہنچ گءے۔ وہاں آ کر ڈراءیور کی آپ بیتی پتہ چلی۔ میرے خیال سے ان معاملات میں ایک بندے کو ڈراءیور کی دیکھھ بھال کا ذمہ دار بنا دینا چاہیے۔ کیونکہ گاڑی چلانے والا ایسے دوروں میں بہت اہم ہوتا ہے۔ ہم لوگوں کا زیادہ تر وقت سفر میں گزرا ، مطلب کہ ڈراءیور کے آسرے پر۔ ڈراءیور کے کھانے پینے سونے کے علاوہ رات کے سفر میں اُس کے ساتھھ باتیں کرنے والا بھی کوءی ہونا چاہیے، ورنہ وہ سو بھی سکتا ہے۔ ڈراءیور حضرات عموماً جی ٹی روڈ پر سفر کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ جی ٹی روڈ پر گہما گہمی ہوتی ہے اور موٹر وے نِرا ویرانہ، بندے کو نیند آ ہی جاتی ہے۔ یہ دورہ کوءی خاص نہیں تھا، کیونکہ ہمارا وقت کچھھ اس طرح سے گزرا

سفر چھتیس گھنٹے
نیند آٹھ گھنٹے
گھومے پھرے چار گھنٹے
کھانا پینا چار گھنٹے

تو جناب اگر تفریحی دورے کو صحیح درست شدھ طریقے سے پلان کیا اور سنبھالا نہ جاءے تو یہ سکون کے بجاءے الٹا تھکن کا باءث بن جاتا ہے۔ آمدنی اٹھنی خرچہ روپیّا والا حساب ہو گیا۔ کم از کم میرا وہاں جانے کا مقصد تھا شوگران سے پیدل سری پاءے جانا، نہ کہ چھتیس گھنٹے بس میں بیٹھے رہنا۔ خیر بس میں کافی شغل میلہ لگا رہا، پھر بھی بنیادی مقصد پہاڑیاں چڑہنا حاصل نہ ہو سکا۔
ایبٹ آباد سے شوگران جانے کے لیے راستہ مانسہرہ اور بالا کوٹ سے ہو کر گزرتا ہے۔ ایبٹ آباد کی خاص باتیں ایوب میڈیکل یونیورسٹی، پاکستان ملٹری اکیڈمی، ایبٹ آباد پبلک سکول، صدر بازار، الیاسی مسجد، شملہ پہاڑی، اور ٹھنڈیانی ہیں۔ ہم لوگ ان میں سے کسی بھی جگہ پر رکے نہیں لیکن ایک ساتھی "شبیر خان آفریدی" کا گھر ایبٹ آباد میں ہے تو ان سے کافی معلومات مل گءیں۔ ایبٹ آباد شمالی علاقہ جات میں بہت ہی آزاد خیال تصور کیا جاتا ہے، کیونکہ سرحد کے کسی اور شر میں آپکو اس قدر خواتین گھومتی پھرتی نظر نہیں آتی۔ صوبہ سرحد میں شرح خواندگی کافی زیادہ ہے۔ مثلاً ہنزہ میں سو فیصد لوگ پڑہے لکھے ہیں۔
اسکے بعد ہم جا رُکے بالا کوٹ سے کچھ آگے دریاءے کنہار کے کنارے۔ یہ دریا جھیل سیف الملوک سے نکلتا ہا، اور وادیء کاغان میں بہتا ہے۔ دریا کا پانی۔۔۔ برف کی طرح ٹھنڈا تھا۔۔۔ دوکانداروں نے جوس بوتلیں ٹھنڈی کرنے کے لیے ڈالوں میں ڈال کر دریا کے پانی میں رکھی ہوءی تھیں۔ یہ تصویر دیکھیں


پہاڑی علاقوں میں پانی کا بہاءو بھی کافی تیز ہوتا ہے لہٰذا دریا کو دیکھھ کر اپنے جذبات قابو میں ہی رکھیے گا۔ ہو سکتا ہے کہ آپ تیر سکتے ہوں لیکن جناب ڈوبتے وہی ہیں جو تیرنا جانتے ہیں۔ دریا کی مزید تصاویر




شوگران پہنچنا ہر گاڑی کے بس کا روگ نہیں، کیونکہ اس علاقے میں کافی لمبی لمبی چڑھاءیاں ہیں۔ ہم کوسٹر میں گءے تھے اور اسکا اے سی بند کرنا پڑ گیا تھا۔ اسکے علاوہ یہاں سڑک بن رہی ہے جسکی وجہ سے کافی دھول مٹی اڑتی ہے۔ ٹریفک جام بھی ایک مسءلہ ہیں، کیونکہ سڑک تنگ ہے۔ سڑک بنانے والی مشینری کی موجودگی میں اکثر اوقات گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں۔ مثلاً

خوش قسمتی سے جس وقت ہم لوگ پہنچے تو یہ قطار کافی دیر کی لگی ہوءی تھی اور کافی لمبی تھی، جلدی جان چھوٹ گءی۔ سری پاءے جانے کا اور شوگران سے واپس آنے کا قصہ انشاءللہ اگلی مرتبہ۔۔۔
فی امان اللہ۔۔۔



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

کھلے دِل سے رائے دیں، البتہ کھلم کھلی بدتمیزی پر مشتمل کمنٹ کو اڑانا میرا حق ہے۔

Pak Urdu Installer

Pak Urdu Installer