عشق سر پر سوار ہونے تک
ہم حسیں تھے، خوار ہونے تک
راستوں کو طویل ہونا تھا
آبلے بے شمار ہونے تک
اُس نے میرا لحاظ رکھا تھا
اُس کے با اختیار ہونے تک
حسن بے شک بڑا مقدس تھا
عشق کے کاروبار ہونے تک
(*)(*)(*)(*)(*)(*)(*)(*)(*)
اندھیروں سے جھگڑتے آفتاب جیسا ہے
وہ حسیں چہرہ گلاب جیسا ہے
میرے پاس ہے تو بھول جا زمانے کو
وصل کا یہ لمحہ خواب جیسا ہے
سمجھنے بیٹھو تو پہیلی الجھتی ہی جاءے
کہنے کو وہ کھلی کتاب جیسا ہے
(*)(*)(*)(*)(*)(*)(*)(*)(*)
گیت
میرا جلتا ہی جہان چھوڑ دو
چھوڑ دو میری جان چھوڑ دو
شور سنتا ہوں تمہارا رات دن
بولنا بے تکان چھوڑ دو
جن امیدوں کے سہارے جیتا تھا
اُن کا کوءی تو نشان چھوڑ دو
گر چکے سب محل خوابوں کے
خاک اڑ لے آسمان چھوڑ دو
پھر بلاءوں تو بہاریں لوٹ آءیں
کوءی ایسا امکان چھوڑ دو
(*)(*)(*)(*)(*)(*)(*)(*)(*)
میرے دِل نوں بھاءی
اک ٹردی پھردی پرچھاءی
حیرت دی وسدی دنیا
اینی کیونکر یکتاءی
پہلوں اپنے پاس بلاءے
بعدوں کردا بے پرواہی
دل سچا ای ڈردا سی
خورے ہووے ہرجاءی
(*)(*)(*)(*)(*)(*)(*)(*)(*)
سب جر جاوو ہُن کی غم جے
کدوں ٹرنا ہر کسے دا کم جے
جنہاں تھماں چبارے چاءے نیں
نہ پاسکوں انہاں دے ہم جے
ایہہ پینڈے بڑے ہی صبر والے
نہیں پورے ہوندے اک دم جے
(*)(*)(*)(*)(*)(*)(*)(*)(*)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
کھلے دِل سے رائے دیں، البتہ کھلم کھلی بدتمیزی پر مشتمل کمنٹ کو اڑانا میرا حق ہے۔