جناب یہ بندہ جسکا میں آج ذکر کرنے جا رہا ہوں، بڑا ہی شہزادہ بندہ ہے اور میرا اصلی والا جگر ہے۔ مطلب کہ خالی خولی کہنے کو جگر نہیں، بالکُل ایک نمبر جگر ہے۔ ملاقات بی سی ایس کے پہلے سمسٹر میں ہوءی تھی، سارا بی سی ایس ہم چار دوستوں کا گروپ رہا اور یہ بندہ اُس گروپ کا نیوکلیس تھا۔ ہمارے گروپ میں سب سے زیادہ ملتی جلتی طبعیت ہم دونوں کی تھی۔ بہرحال، ذکی صاحب اخیر ہی جنونی آدمی واقع ہوءے ہیں، میں جذباتی ہوں لیکن جلدی ٹھنڈا پڑ جاتا ہوں ذکی تو جس چیز کے پیچھے پڑ جاءے اُسے کہیں پہنچا کر ہی دم لیتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ذکی صاحب سے دوستی ہونے سے پہلے مجھے پتہ ہی نہیں تھا کہ پڑہتے کیسے ہیں، اور آخر پڑھنے کا مقصد کیا ہے؟ زیادہ تر سٹوڈنٹس کا مسءلہ یہی ہے، کہ ہمارے بنیادی تصورات ہی نہیں بنے ہوتے۔ ہمیں یہ ہی نہیں پتہ ہوتا کہ آخر پڑھنا کس لیے ہے؟ فاءز سیال نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ اگر آپ کو پتہ چل جاءے کہ اس کلاس روم میں جو آپکا رویہ ہے، آج سے دس سال بعد آپ پر اس رویے کا کیا اثر ہو گا تو یقیناً آپ کا دماغ ٹھکانے آ جاءے۔
آجکل ذکی انگلینڈ سے ایم ایس سی کمپیوٹر ساءنسز کر رہا ہے، اور اطلاعات کے مطابق پڑھاءی کے علاوہ ٹکا کے کام بھی کرتا ہے۔ ثبوت اسکے گھر کے بدلے ہوءے حالات ہیں۔ اکثر لوگ کہتے ہیں کہ باہر جا کے یا پڑہا جا سکتا ہے یا کام کیا جا سکتا ہے، لیکن جناب یہ قانون عام لوگوں کے لیے ہے جنونیوں کے لیے کبھی کہیں کوءی قانون بنا ہی نہیں۔ ذکی نے میٹرک کے پیپر برف والے پھٹے پر بیٹھ کر برف بیچتے ہوءے دیے تھے۔میرا مطلب ہے کہ تیاری وہاں بیٹھ کر کی تھی، کءی فنکار لوگ اس بات سے یہ پہلو بھی نکال لیں گے کہ جناب امتحانی سنٹر میں کرسیاں نہیں تھیں تو بیچارے کو سکول کے باہر برف والے پھٹے پر بٹھا دیا، ایسی کوءی بات نہیں۔
عدنان جاوید بٹ بھی ہمارے ساتھ ہی بیٹھتا اٹھتا تھا، بٹ صاحب کا وزن ذکی سے کوءی دوگنا تھا، ذکی اور بٹ ایک ساتھ جِم جایا کرتے تھے۔ اور ذکی بٹ کے برابر وزن اٹھایا کرتا تھا، تو جناب جب ذکی ورزش کر رہا ہوتا تھا تو نءے آنے والے رُک کے دیکھا کرتے تھے کہ یہ چڑا سا نوجوان اتنا زیادہ وزن کیسے اٹھا رہا ہے۔ بہرحال وہی بات ہے کہ جنونی بندے سے کچھ بھی بعید نہیں۔
ذکی صاحب ورزش سے واپس آ کر کیلے کا ملک شیک بنا کر پیا کرتے تھا، پورا جگ۔ ایک دن مجھے کہتا ہے یہ لے ملک شیک پی عیاشی کر۔ ملک شیک کا پہلا گھونٹ لگاتے ہی مجھے شک ہو گیا کہ بھاءی نے کوءی قانون لگایا ہو ہے۔ میں نے پوچھا کہ ذکی اس ملک شیک میں کیا کیا ڈالا تھا تم نے؟ کہتا ہے آدھا کلو دودھ، چھے کیلے اور ایک گلاس پانی۔ پانی کی وجہ سے ملک شیک پتلا پتلا محسوس ہو رہا تھا۔ میں نے کہا کہ بھاءی پانی کیوں، ملک شیک کی کچی لسی بنا رہے ہو کیا؟ کہتا ہے کہ نہیں یار ملک شیک زیادہ کرنے کے لیے۔ اس بات کو لے کر ذکی صاحب کا بڑا توا لگا، چوہدری تصدق عباس ہمارے گینگ کا چوتھا ممبر باتوں کا بڑا تیز بندہ ہوا کرتا تھا۔ جب کورم پورا ہوا، یعنی کہ ذکی، بٹ، تصدق، اور میں ایک جگہ بیٹھے تو بڑا ماحول بنا۔ بنیادی نقطہ یہ تھا کہ بھاءی مقدار نہیں، معیار کو اہمیت دینی چاہیے۔
ویسے آپس کی بات ہے، معیار اچھا ہونا لاکھ ضروری صحیح اگر مقدار کم ہو اور بندے کی بھوک نہ مٹے تو بھی گزارا نہیں ہوتا۔ مثلاً میں کبھی کبھی کاک اینڈ بُل سے کھانا منگواتا ہوں، اُن لوگوں کا عجیب ہی حساب ہے کبھی چاول کم اور کبھی زیادہ۔ جب بھوک لگی ہو اور چاول ملیں کم، تو بہت غصہ آتا ہے کہ یار یہ کیا تماشا ہے، ابھی تو پیٹ ہی نہیں بھرا اور چاول ختم۔ خیر بھوک رکھ کے کھانا ہی بہتر ہوا کرتا ہے۔
پہلے تین سمسٹر یعنی کہ ڈیڑھ سال ہم لوگ گجرات رہے، اسکے بعد لاہور چلے آءے۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اپنے طالبعلموں کو یہ سہولت فراہم کرتی ہے کہ وہ مطالعاتی مرکز اپنی سہولت کے مطابق تبدیل کروا لیں ہمارا کورس جوں کا توں چلتا رہا اور ہم لاہور چلے آءے صرف مطالعاتی مرکز این سی سی ایس گجرات سے تبدیل ہو کر این کے فیکٹ لاہور ہو گیا۔ لاہور آنے کی بنیادی وجہ بھی ذکی صاحب کے پیٹ میں اٹھنے والے مڑوڑ تھے۔ ہم سے ایک سمسٹر پہلے ہماری ہی کلاس کے چار لوگ لاہور چلے گءے تھے۔ جب کبھی وہ لوگ گجرات آتے تو ہمیں دکھاتے کہ یہ پریزینٹیشن ہمارے ٹیچر نے دی ہے، اور جناب ہماری کلاس میں ایک لڑکا ہے اس نے یہ گیم بناءی ہے تو ذکی صاحب کو مڑوڑ اٹھنا شروع ہو جایا کرتے تھے۔ کہ دنیا چاند پر پہنچ گءی اور ہم پیچھے رہ گءے۔ اسکے علاوہ ذکی صاحب کو جاب کرنے کا بھی شوق تھا کہ یار کچھ کرنا ہے۔
ذکی کا ہاسا بھی مشہورِ زمانہ تھا، بلند آہنگ اور نان سٹاپ۔ اگلا بندہ کنفیوز ہی ہو جاتا کہ یار پتہ نہیں میرے سر پہ سینگ نکل آءے ہیں جو یہ صاحب ایسے ہنسی جا رہے ہیں۔ ایک مرتبہ ذکی کا جبڑا اٹک گیا، وہ بھی بڑی مزے کی صورتحال بنی تھی۔ جماءی لینے کے لیے منہ ذرا زور سے کھول لیا تو جبڑوں نے واپس اپنی جگہ پر جانے سے انکار کر دیا، بندے کامنہ کھلے کا کھلا۔ ہم لوگوں کا اٹھنا بیٹھنا گراءونڈ فلور والی بیٹھک میں ہوا کرتا تھا جبکہ ذکی کے گھر والے اوپر کے حصے میں ہوتے تھے۔ ذکی صاحب اتفاق سے اُس وقت اکیلے تھے، اوپر جا کے گھر والوں کو بتانا چاہا تو بڑا مزیدار سین بنا۔ ہونٹ ہلاءے بنا بول نہیں سکتا، اوں آں کر رہا تھا جسکی کسی کو کوءی سمجھ نہیں آ رہی تھی الٹا وہ بیچارے پریشان ہو گءے کہ پتہ نہیں پڑھ پڑھ کے لڑکے کا دماغ چل گیا ہے۔ خیر ڈاکٹر کے پاس گءے اسنے کوءی طاقت کا انجیکشن لگایا اور پتہ نہیں کس طرح سے باغی جبڑے کو واپس اصلی جگہ پر لے آیا۔
ایسے ہی ذکی صاحب کا پانی مُک جایا کرتا تھا، رات کو پراٹھا کھا کر فوراً ہی سو گیا صبح اٹھا تو پیٹ خراب اگلی شام تک پانی ختم اور چوہدری کو بابا عزراءیل نظر آنے شروع ہو گءے۔ بہر حال بابا جی ہر مرتبہ اکیلے ہی واپس گءے، شکر ہے چوہدری کو ساتھ نہیں لے گءے۔ اللہ معاف کرے میں بھی کیسی گندی باتیں کر رہا ہوں، جُگ جُگ جیے چوہدری ذکی پہلوان۔
لاہور آ کے تو ہم لوگ سارا وقت ایک دوسرے کے ساتھ ہی رہتے تھے، گجرات رہتے ہوءے بھی چوبیس گھنٹے سر پر سوار رہا کرتے ہر وقت ذکی کے گھر۔ میرے گھر والے تو گاءوں میں تھے اور میں گجرات میں اکیلا لیکن عدنان بٹ اور تصدق بھی زیادہ تر وقت ذکی کی طرف ہی گزارتے تھے۔ ذکی کی امی بھت اچھی طبعیت کی ہیں، انہوں نے بھی کبھی فرق نہیں رکھا تھا بالکل اپنے بچوں کی طرح خیال رکھتی تھیں۔ بریانی اور دال چاول زبردست بناتی ہیں، اور بھی چیزیں اچھی ہوتی ہیں لیکن مجھے ویسے بھی چاول پسند ہیں۔
ایک مرتبہ عید والی دن تصدق چلا گیا ذکی کے گھر ملنے، آنٹی نے کافی کچھ کھانے کے لیے بھجوا دیا۔ تصدق نے تو تھوڑا بہت کھایا اور جلدی اٹھ کے نکل گیا لیکن جب ذکی کھانے کے برتن واپس اوپر لے جانے لگا تو سیڑھیوں میں اُسکی نیت خراب ہو گءی۔ نتیجہ، کچن میں بالکل خالی برتن پہنچے۔ کچھ دن بعد شاید آنٹی نے تصدق سے کوءی بات کی کہ وءی تو تے ہویا "منہ چوہی، ٹڈ کھوءی" تصدق نے اُس وقت تو چپ کر کے سن لیا لیکن بعد میں ذکی نے خود ہی بتا دیا کہ اس بیان کا پس منظر کیا تھا۔ مطلب کاررواءی ذکی نے ڈالی اور بدنام ہو گیا تصدق، کر لو گل۔
اور کیا کیا لکھوں، ابھی لاہور جانے کے بعد کا تو ایک بھی وقوعہ نہیں بتایا۔ عدنان بٹ اور چوہدری تصدق عباس ملہی پر لکھنے بیٹھوں گا تو وہ ایک اور پنڈورہ بکس کھل جاءے گا، انشاءاللہ کسی وقت لکھوں گا۔ ذکی کا چھوٹا بھاءی زبیر علی بھی بڑی دلچسپ شخصیت ہے، اب تو بہت تبدیل ہو گیا ہے جان شان بنا لی ہے باڈی بلڈنگ کے کافی مقابلوں میں حصہ بھی لے چکا ہے۔ جب میرا چھوٹا بھاءی عدیل ایف ایس سی کرنے میرے پاس گجرات آیا تو ان دونوں کی اچھی دوستی بن گءی تھی، دونوں کا کالج اور مضامین بھی ایک ہی تھے۔ گورنمنٹ سرسید کالج فار بواءز ریلوے روڈ گجرات۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
کھلے دِل سے رائے دیں، البتہ کھلم کھلی بدتمیزی پر مشتمل کمنٹ کو اڑانا میرا حق ہے۔