یہ ڈاکٹر مبارک علی کی ایک تحریر کا ترجمہ ہے، جو کہ بارہ جولاءی ۲۰۰۹ بروز اتوار انگریزی روزنامہ ڈان میں چھپی تھی۔
طاقت کا تنزل
کسی سلطنت کے گرنے کی تاریخ پڑھیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ تباہی بالکل اچانک نہیں آتی بلکہ آہستہ اور بتدریج ہوتی ہے، جوکہ سیاسی، سماجی، اور معاشی بنیادوں کو اتنا کمزور کر دیتی ہے کہ گرتی ہوءی دیوار کو کسی معمولی حادثے یا سانحے کا دھکا ہی کافی ہوتا ہے۔ایسی ایک مثال مغل سلطنت ہے جس کی بنیاد بابر نے (1526 - 30) رکھی تھی۔ اس سلطنت کو اکبر نے (1556 - 1605) پھیلایا اور مضبوط کیا، اکبر نے ریاست کے ادارے بڑے مکمل طریقے سے ترتیب دیے۔ ان اداروں کی تفصیلات اور انکے بناءے جانے کی روداد ابوالفضل کی کتاب "عنایہ اکبری" میں لکھی ہیں، اور ان سے اکبر کی عقلمندی کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ ادارے شاندار طریقے سے کام کرتے رہے جب تک کہ صورتحال ان کے کام کرنے کے لیے ٹھیک تھی۔ بہرحال، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نءے مساءل پیدا ہوءے اور نءی طاقتیں وجود میں آءیں جن سے نمٹنے کے لیے انتظامی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت تھی۔
مغل ریاست ایسی تبدیلیاں لانے میں ناکام رہی اور پرانے نظام کو جاری رکھنے پر ہی زور دیتی رہی کیونکہ یہ نظام "منصب داروں" کو فاءدے اور سہولتیں مہیا کرتا تھا، منصب دار بیورو کریٹس یا سرکاری افسر تھے جو کہ حکومت میں اونچے مرتبے اور مقام کے مزے لوٹ رہے تھے۔ اُن کی ملکیت میں زمینیں تھیں، وہ دولت رکھتے تھے، اور انہیں بڑے خطابات دیے گءے تھے جن کی وجہ سے معاشرے میں انکا مقام اونچا سمجھا جاتا تھا۔ بعد میں آنے والے وقتوں میں زیادہ تر منصب داروں میں وہ معیار، عقلمندی، اور فرض شناسی نہیں تھی جو کہ ان سے پہلے والوں کا خاصہ تھی۔ افسر شاہی کے اس نظام میں انتطامی مساءل کو ٹھیک طرح سے تقسیم نہ کیا جا سکا اور اسکے نتیجے میں ریاست کمزور ہوءی اور اپنی رِٹ کھو بیٹھی۔
درباری بھی نسلی بنیادوں پر تقسیم ہو چکے تھے مثلاً تورانی (وسط ایشیاء کے لوگ) ، ایرانی اور راجپوت، اس وجہ سے خانہ جنگی اور گروہی فسادات ہوءے، جنکی وجہ سے شاہ اور درباریوں کے تعلقات خراب ہو گءے۔ ہر آنے والا بادشاہ کسی نہ کسی گروہ کے ہاتھوں کھلونا بن جاتا اور انکے مفادات کے لیے استعمال ہوتا رہتا۔ مثال کے طور پر سید برادران اتنے طاقتور تھے کہ بادشاہ بنانے والے مانے جاتے تھے۔
بعد میں آنے والے وقتوں کی سب سے بڑی خاصیت علاقاءی طاقتوں کا اٹھ کھڑے ہونا تھا جن میں کہ مرہٹے، راجپوت، سکھھ، جاٹ، اور روہیلے شامل تھے۔ مغل سلطنت اور درباری ایسے وطن پرست جذبات کو نہیں مانتے تھے اور انہیں قطعاً کوءی جگہ دینے کو تیار نہیں تھے۔ جب ان قوتوں نے بغاوت کی، مغل سلطنت نے اسے اپنی طاقت کے خلاف ایک سنجیدہ خطرہ سمجھا اور بجاءے ان سے مذاکرات کرنے کے یا انکو حکومتی نظام میں شامل کرنے کے انہیں کچلنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا۔ سلطنت کے خلاف بغاوت کو بڑا جرم سمجھا جاتا تھا اور اس سے نمٹنے کا صرف ایک ہی حل، فوج کا استعمال تھا۔
نتیجے کے طور پر ریاست لڑاءیوں کے ایک تسلسل میں پھنس کے رہ گءی اور اسے فوجی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا، اٹھارویں صدی کے اختتام تک اسکے پاس یہ خرچے پورے کرنے کے لیے وساءل ہی نہیں تھے۔ ریاست کا فوجی نظام اب قوم پرست جذبات سے لبریز علاقاءی فوجوں کا سامنا کرنے کے قابل نہ رہا تھا۔ اسکے علاوہ اعلانِ جنگ نے مذاکرات کے تمام دروازے بند کر کے فریقین کے درمیان شدید نفرت پیدا کر دی تھی۔
مغل فوجوں نے "بندہ بیراگی" کو شکست دی، جس نے کہ فرخ سیار (1713 - 19) کے دور میں پنجاب میں بغاوت کا معیار بہتر بنایا۔ اسے قیدی بنا کر 1716 میں قتل کر دیا گیا تھا۔ سکھھ برادری اسی بنیاد پر اُسے اپنا ہیرو سمجھتی تھی، اور انہوں نے مغل سلطنت سے جنگ جاری رکھی۔ بھرت پور کا سورج مل جاٹ (1707 - 1763) اس قدر طاقتور تھا کہ دارالحکومت کے گرد و نواح میں چھاپے مارتا اور لوٹ مار کرتا جبکہ مغل سلطنت اسکا مقابلہ کرنے سے قاصر تھی۔ ان مخالفتوں کے نتیجے میں لوگوں نے اپنی وفاداریاں تبدیل کر لی اور علاقاءی حکمرانوں کے ساتھ لگ گءے، مغل بادشاہ اور ریاست باکل بے اختیار ہو گءے۔
ماضی کا مقابلہ حال سے کریں تو ہم تاریخ سے کچھ سبق سیکھ سکتے ہیں۔ پاکستانی افسر شاہی اپنے اختیارات اور رعایتوں کی وجہ سے ریاست کے خزانے پر ایک مالی بوجھھ بن چکی ہے۔ معاشرے کے نت نءے مساءل کا سامنہ کرنے کے لیے بالکل نا موزوں ہو چکی ہے اور بے ایمانی نے اسکی دیانت اور صلاحیت کو بالکل مغل منصبداری نظام کی طرح متاثر کیا ہے۔ حکومت کرنا ایک مسءلہ بن چکا ہے جسے کہ یہ افسر شاہی حل کرنے میں ناکام ہے۔
سیاسی جماعتوں میں طاقت اور اختیارات حاصل کرنے کے لیے گروہی اختلافات نے بدنظمی اور انارکی پھیلا رکھی ہے۔ یہ سب دیکھھ کر مغل درباریوں کی تمام اخلاقی حدود سے گری ہوءی سازشیں یاد آتی ہیں۔
بلوچستان، سندھ، اور سرحد میں علاقاءی تحریکوں کا اٹھھ کھڑے ہونا نظر انداز کیا جا رہا ہے اور مقتدر طبقہ اسے حکارت کی نظر سے دیکھتا ہے، بالکل مغل ریاست کی طرح۔ جو افراد ریاست کی زور آوری پر مزاحمت کرتے ہیں انہیں گرفتار کر کے تکالیف پہنچاءی جاتی ہیں اور پھر بندہ بیراگی کی طرح قتل کر دیا جاتا ہے۔ اس طرزِ عمل کا نتیجہ ہے کہ اُن علاقوں کے لوگ ملک سے وفاداریاں تبدیل کر کے علاقے سے نبھا رہے ہیں۔ علاقاءی پہچان اب ملکی پہچان کے مقابلے میں برتر ہے اور غیرت کا مسءلہ بن چکی ہے۔
صوبہ سرحد میں حالیہ جنگ نے فوج کو ایک ایسی صورتحال میں پھنسا دیا تھا جو کہ آسانی سے حل نہیں ہو سکتی تھی بالکل سورج مل جاٹ کی طرح، جس نے کہ اپنی ایک الگ ریاست بنا لی تھی، مغلوں سے آزاد۔
نتیجے کے طور پر پاکستانی ریاست اور اسکے ادارے اپنا بھروسہ اور وقار کھو چکے ہیں۔ سیاسی اور مالی طور پر ریاست اس قدر کمزور ہے کہ اسکی زندگی اپنے وساءل کے بجاءے بیرونی امداد کی مرہونِ منت ہے۔ یہ بھی ایک کٹھھ پتلی ریاست بنتی جا رہی ہے مغلوں کی طرح سے جنہوں نے کہ پہلے مرہٹوں کی اور پھر ایسٹ انڈیا کمپنی کی طاقت کا سہارا لیا تھا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
کھلے دِل سے رائے دیں، البتہ کھلم کھلی بدتمیزی پر مشتمل کمنٹ کو اڑانا میرا حق ہے۔