خیر میں اور فیاض موٹر ساءیکل پر ماڈل ٹاءون پارک پہنچے، فیاض ادھر اُدھر ٹہلنا چاہتا ہے اور میں جاتا ہوں بڑے ٹریک پر دوڑ لگانے۔ ویسے اس وقت جاگنگ یا چہل قدمی کرنے کے لیے کلمہ چوک والا نیشنل بینک پارک فِٹ ہے۔ رونق شونق کی وجہ سے دِل لگا رہتا ہے۔ خیر مجھے ذاتی طور پر خاموشی پسند ہے سو میں ماڈل ٹاءون پارک ہی آتا ہوں۔ چاند کی تاریخ کونسی ہے یہ مجھے پتہ نہیں لیکن چندا ماموں کی خوبصورتی مسحور کُن ہے۔ ایک گڑ بڑ ہے کہ ہوا بالکل نہیں چل رہی حبس ہو گیا ہے۔ ٹریک پر اس وقت اِکا دُکا بندے ہوتے ہیں، اور بندیاں تو بالکل ہی مفقود۔
اتنے حبس اور گرمی میں بھاگنا کافی مشکل ہوتا ہے، شروع کرنے سے پہلے میری تو جان نکل رہی ہوتی ہے لیکن اپنے آگے ہی آگے بڑہتے ہوءے پیٹ کو دیکھھ کر مجبوراً بھاگنا پڑتا ہے۔ اگر تو آپ کا اپنا پیٹ باغی ہو چکا ہے تو جناب آپ میرے دُکھھ کو سمجھھ سکتے ہیں ورنہ عوام الناس کے لیے تو تماشا ہی ہے۔ اس موسم میں بھاگنا مشکل اور بے حد فاءدہ مند، کیونکہ جسم کے روم روم سے پسینہ نکلتا ہے۔ اس وجہ سے سیانے (بشمول میرے) یہ سمجھتے ہیں کہ وزن جلدی کم ہوتا ہے۔ یہ فاءدہ مند کام ہمیشہ مشکل ہی کیوں ہوتے ہیں۔۔۔
ٹریک کا ایک چکر پورا ہو گیااور میری شرٹ پسینے سے مکمل بھیگ چکی ہے۔ ویسے میں نے حساب لگایا ہے کہ دوڑنا اتنا مشکل کام نہیں ہے، بس بندے کو حوصلہ کرنا پڑتا ہے۔ زندگی کے زیادہ تر مساءل ایسے ہی ہوا کرتے ہیں، لوگ پہلا قدم اٹھانے سے پہلے ہی ناکامی کے ایک سو ایک جواز گھڑ لیتے ہیں۔ حالانکہ اگر اچھی نیت سے آنکھیں کھلی رکھھ کر کوشش کی جاءے تو بندے کے راستے اپنے آپ ہی کھلتے چلے جاتے ہیں۔
میرا جگر فیاض کہیں نظر آ رہا، ایس ایم ایس کرتا ہوں، سانس درست ہونی میں کوءی دس منٹ تو لگ ہیں جاءیں گے اتنی دیر میں وہ جہاں بھی ہوا آ جاءے گا۔ نا نا میرا یہ مطلب نہیں کہ وہ پنجابی فلموں کا مولا ہے جو کہیں بھی ہو اپنی بھرجاءی کی مشہورِ زمانہ صدا "وے مولیا" پر آن وارد ہوتا ہے۔ "اوءے کدھر ہے آ جا، پانی کی چھوٹی بوتل بھی لیتے آنا"۔ میں سانس درست کرنے کے لیے ذرا سا ہٹ کر کسی تاریک سی جگہ پر چلا جاتا ہوں، شرٹ اتار کے سکون سے بیٹھھ جاتا ہوں۔ شکر ہے کہیں سے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا بھی آیا، جب بندے کی حالت خراب ہو رہی ہو تو احساس ہوتا ہے کہ ٹھنڈی ہوا کا جھونکا کتنی بڑی نعمت ہے۔ کمینہ جیا پتہ نہیں کہاں رہ گیا ہے۔۔۔ شرٹ پہن کر ایک بینچ پر بیٹھے بیٹھے کوءی چار پانچ نا قابلِ اشاعت ایس ایم ایس بھی کر چکا ہوں لیکن فیاض صاحب پتہ نہیں کہاں زیرِ زمین ہیں۔
یہ گرم ہوا کا جھونکا کدھر سے آیا، اچھا اچھا تو اُس جانب سے جناب فیاض صاحب تشریف لا رہے ہیں۔ مجھے غصہ ہی بڑا ہے اس پر، اتنی دیر سے انتظار کر رہا ہوں اور یہ بھاءی سکون سےفون پر گپیں شپیں لگا رہے ہیں۔ بدلہ لینے کا ایک طریقہ میرے ذہن میں آیا تو ہے، ذرا فون بند تو کرے ایسا سواد چکھاءوں گا کہ یاد رکھے گا۔ آخر فون بند ہوا، اب وقت آن پہنچا ہے کہ میں بدلہ لے لوں۔ آپ سوچیں ذرا کہ میں اس کے ساتھھ کیا کرنے لگا ہوں۔
فیاض میرے جگر۔۔۔ ادھر آ ذرا۔۔۔ اوں اوں کے علاوہ فیاض کے منہ سے اور کوءی آواز ہی نہیں نکل پا رہی، میں تو حیران ہوں کہ یہ آواز بھی کیسے نکل رہی ہے۔ آخر میں نے اسکو زبردستی اپنے سینے سے جو لگایا ہوا ہے۔ پانچ فٹ آٹھھ انچ کا فیاض چھھ فٹ دو انچ کے نعیم کے نرغےمیں کیسا لگ رہا ہو گا سوچیں تو ذرا۔ میری شرٹ پسینے سے شرابور ہے اور فیاض کا منہ میں نے پکڑ کر شرٹ پر دبایا ہوا ہے۔ "اوہ کنجرا تیرا ککھھ نا رہوے" یہ آواز میری ہےمیرے سینے پر کندھے کے قریب اچانک درد کی ایک لہراٹھی ہے۔۔۔ میں نے گھٹیا حرکت کی تھی لیکن فیاض نے تو اُس بھی بڑھ کر کام کر دکھایا۔ بلی کو اگر کمرے میں بند کر دیں تو وہ بھی اپنا دفاع کرنے کی آخری کوشش ضرور کرتی ہے، اور یہی کوشش فیاض نے کی۔ مجھے کاٹ کھایا ظالم نے۔ بیڑا ہی غرق ہو جاءے۔۔۔ نشان ڈال دیا ہے، کتنے تیز دانت ہی اس بندے کے مجبوراً چھوڑنا ہی پڑا۔ نیلا نشان ڈال دیا ہے چول نے۔ اسکی بقا کا مسءلہ جو تھا، آخری حد تک چلا گیا۔ اب تھو تھو کر رہا ہے، کہ پسینہ نمکین تھا۔ بھءی یہ تو کامن سینس کی بات ہے پسینہ نمکین ہی ہوا کرتا ہے۔ کہہ رہا ہے کہ منہ کا ذاءقہ پہلے ہی خراب تھا رہی سہی کسر تم نے پوری کر دی۔۔۔
کہانی ختم پیسہ ہضم۔۔۔ ہا ہا ہا ہا۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
کھلے دِل سے رائے دیں، البتہ کھلم کھلی بدتمیزی پر مشتمل کمنٹ کو اڑانا میرا حق ہے۔