اتوار، 15 نومبر، 2009

کتھے گیا سی؟ مچھیاں پھڑن۔۔۔



ہمارے ہاں عام طور پرمچھلیاں پکڑنے کو بس ایویں پُھدو کھاتہ ہی سمجھا جاتا ہے۔ کچھ دِن پہلے مجھے مسٹر کوڈ پہ فش اور چپس کھانے کا اتفاق ہوا۔ اسکے بعد خیال آیا کہ ہفتے اور اتوار والے دن بندہ مچھلی پکڑنے جا سکتا ہے،کافی آسان اور اچھا تفریحی آپشن لگا۔ اب میں ٹھہرا پروگرامر، دن کا زیادہ حصہ کمپیوٹر کی سکرین کے ساتھ نین لڑا کے گزارنے والا۔۔۔ پروگرامر۔۔۔ لہٰذا، فٹ سے گوگل کھولا اور سرچ شروع۔۔۔

Fishing In Lahore
یہ فقرہ تلاش کیا تو پہلے نمبر پہ درج ذیل لنک مِلا۔۔۔ یہاں لاہور کے گرد و نواح میں شوقیہ مچھلی پکڑنے والوں کے لیے کافی معلومات موجود ہیں۔

اسکے علاوہ پاکستان گیم فشنگ ایسوسی ایشن ایک فعال تنظیم ہے، انٹرنیٹ پہ اس تنظیم کے سترہ سو سے زیادہ ممبر ہیں۔ ممبر شپ بالکل مفت ہے، اور یہ میرے خیال میں کافی مفید ویب سائٹ ہے۔

اوپر دیے آرٹیکل میں لاہور کے نزدیک موجود مچھلی پکڑنے کے مقامات کے بارے میں مکمل معلومات ہیں۔ آرٹیکل میں ایس نبی بخش سنز، مال روڈ کا تذکرہ ہے۔ لاہور میں مچھلی پکڑنے کا سامان خریدنے کے لیے یہ بہترین جگہ ہے۔ البتہ اس دوکان کے بارے میں ایک راز کی بات بتاتا چلوں، ایسی بات جو کہ مجھے وہاں جا کر ہی پتہ چلی۔ راز کی بات یہ ہے جناب۔۔۔ کہ یہ دوکان شام ساڑھے چار بجے بند ہو جاتی ہے۔ میں سات بجے کے قریب وہاں گیا تھا۔ اچھی بات یہ ہے کہ دوکان صبح ساڑھے آٹھ بجے کھل بھی جاتی ہے۔
اسکے علاوہ میں نے ایسوسی ایشن کی ویب سائٹ کو استعمال کرتے ہوئے کافی لوگوں کو پیغامات بھی بھیجے۔
ان لوگوں میں سب سے پہلے دیے گئے آرٹیکل کے مصنف منیر احمد بھی شامل تھے۔ منیر صاحب کے علاوہ لاہور میں نو وارد حارث کا بھی جواب آیا، حارث کچھ عرصہ پہلے کراچی سے یہاں آئے ہیں اور نمکین پانی میں مچھلی پکڑتے رہے ہیں۔ منیر صاحب نے لکھا کہ ایس نبی بخش والوں کے پاس اچھا سامان ہے، لیکن اسکے مقابلے میں بہتر اور سستا سامان خریدنےکے لیے سیالکوٹ کا چکر لگا لینا۔ میں نے انہیںبتایا تھا کہ میرا ٹارگٹ منگلا ڈیم پہ جا کے مچھلیاں پکڑنا ہے، منیر صاحب کہتے ہیں کہ منگلا کی کلاس کا سامان سیالکوٹ سے ہی ملے گا۔ جیفری انٹرپرائز، ریلوے روڈ سیالکوٹ ایک اچھی دوکان ہے وہاں چیک کرنا۔
مچھلی پکڑنے کا بھی سیزن ہوتا ہے، اور یہ سیزن سردیوں میں ختم ہو جاتا ہے۔ بقول منیر صاحب سردیوں کی آمد کے ساتھ سیزن ختم ہونے کو ہے، میرے پاس اپریل مارچ تک کا وقت موجود ہے، تب سیزن دوبارہ شروع ہو گا اور میں اطیمنان سے تیاری کر سکتا ہوں۔
اسکے علاوہ میں نے ایسوسی ایشن کی ویب سائٹ پر کافی آرٹیکلز پڑہے، اور یو ٹیوب پر ویڈیوز بھی دیکھیں۔ آخر کار سوچا کہ کاغزی کارروائی بڑی ہو چکی اب کچھ نا کچھ پریکٹیکل بھی کرنا چاہیے، لہٰذا کل ہفتے کو صبح آٹھ بجے کے قریب میں نے اپنے گھوڑے کو تیار کیا اور نزدیک ترین "مقام المچھلی" سائیفن بی آر بی نہر کی طرف چل پڑا۔ شالامار گارڈن، داروغہ والا سے ہوتا ہوا تقریباً ایک گھنٹے میں سائیفن پر جا پہنچا۔ گزشتہ رات ہونے والی بارش کی وجہ سے سڑک پہ کافی کیچڑ تھا اور گھوڑا چالیس پچاس کی رفتار سے زیادہ بھگانا بہت خطرناک ثابت ہو سکتا تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ میرے پاس کسی قسم کا کوئی سامان نہیں تھا۔ سوچا کہ چلو وہاں شاید اور لوگ آئے ہوں گے، چل یار ان کے ساتھ گپ شپ ہی سہی۔
سامان خریدنے کا سن کر فوراً ذہن میں آئے گا کہ جناب پہلی مرتبہ خرچہ کتنا ہو گا؟ یہ تو میں نے بھی کسی سے نہیں پوچھا، البتہ میرا اندازہ ہے کہ کم از کم آٹھ ہزار روپے تو ہونے چاہئیں۔ منگلہ میں مچھلی پکڑنے کے لیے آپکو سات سے نو کلو وزن برداشت کر سکنے والی ڈوری چاہیے ہو گی۔ اسکے علاوہ ایسی چرخیاں درکار ہوں گی جو کہ پچھتر سے ایک سو یارڈ، دوسرے لفظوں میں سوا دو سو سے لے کر تین سو فُٹ دور تک کنڈی پھینک سکیں۔
اچھا تو سائیفن پر جانے کی بات ہو رہی تھی، بارڈر کا علاقہ ہونے کی وجہ سے وہاں پر کافی فوج موجود ہے۔ سائیفن کے نزدیک پہنچنے کا راستہ پاک فوج نے بند کر رکھا ہے، اور عام آدمی کو آگے جانے کی اجازت نہیں ہے۔ راقم بھی ایک عام سا آدمی ہے، اس لیے فوجی بھائی کے کہنے پہ کان لپیٹ کے واپس لاہور کی طرف چل پڑا۔
راستے میں ایک جگہ ایک رینجرز کا جوان موجود تھا، میں نے پوچھا کہ بھائی صاب سائیفن جانا تو منع ہے، کیا اس علاقے میں اور بھی کوئی مچھلی پکڑنے کی جگہ ہے؟ جواب آیا کہ آپ راوی کنارے چلے جائیں، وہاں کوئی منع نہیں کرتا۔ تقریباً چار پانچ کلو میٹر واپس گیا، اور پہلے والے فوجی بھائی سے پوچھا کہ یار سایفن پر تو نہیں جانے دیتے یہ ہی بتا دو کہ راوی کا کنارے کیسے پہنچوں؟ ان صاحب نے شناختی کارڈ وغیرہ دیکھ کر مجھے راوی کی طرف جانے والا راستہ سمجھا دیا۔
آجکل دریا کا پانی اتر چکا ہے، اور ہر طرف ریت ہی ریت ہے۔ دریاپار کرنے کے لیے بیڑا استعمال ہوتا ہے۔ ان بیڑوں پر فصل کے دنوں میں ٹریکٹر وغیرہ بھی لاد کر دوسری طرف لے جائے جاتے ہیں۔ بیڑا چپو سے نہیں چلتا، نہ ہی موٹر سے۔ بلکہ ایک بڑا سا بانس ہوتا ہے، تقریباً بیس فٹ لمبا، یہ بانس دریا کی تہہ تک پہنچتا ہے۔ ملاح بانس کو دریا کی تہہ تک ڈبو ڈبو کر بیڑے کو آگے دھکیلتے ہیں۔ اس سے پہلے ایک مرتبہ مجھے بیڑے پر دریا پار کا تجربہ ہو چکا ہے، میں نے خود بیڑے کو ڈرائیو کرنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ کنارے کی سمت جانے جانے کے بجائے اور ہی طرف نکل گیا، ملاح تجربہ کار تھا اور تھوڑی کوشش کر کے ہمیں واپس کنارے تک لے آیا۔ اگر ملاح بھی کوئی پُھدو ہوتا تو بیڑے کا حشر ہمارے ملک اور اسکے اداروں جیسا ہو جانا تھا۔
وہاں موجود ملاحوں سے میں نے پوچھا کہ جناب یہاں شوقیہ مچھلی پکڑنے والے آتے ہیں کیا؟ تو جواب ملا کہ نویں مہینے کی پندرہ تاریخ کو دریا کا پانی اترتا ہے۔ اسکے فوراً بعد کچھ لوگوں نے کنڈی کی ذریعے یہاں سے پانچ پانچ کلو کی رہو مچھلیاں پکڑی تھیں۔ لیکن بعد میں زیادہ تر دریا میں جال پھر گیا، اور اب اینگلروچارے خالی ہاتھ ہی لوٹتے ہیں۔
میرا ارادہ ہے کہ اگلے سال جنوری یا فروری میں سیالکوٹ کا چکر لگاکے ضروری سامان خرید لائوں۔ کوشش کروں گا کہ ساتھ کوئی تجربہ کار دوست بھی چلے۔ استاد اور مرشد کے بغیر تو آپکو پتہ ہے کوئی بھی کام صحیح نہیں کرنے ہوتا۔ اور وہ فوری طور پہ دستیاب نہ ہوں تو کم از کم کوئی تجربہ کار دوست ہی سہی۔ ایک آخری بات، کہ جناب اینگلنگ یا کنڈی استعمال کر کے مچھلی پکڑنا ہر گز ہر گز آسان تفریح نہیں ہے۔ بہت صبر آزما اور توجہ طلب کام ہے، کسی کسی دن تو کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا۔

اتوار، 18 اکتوبر، 2009

مغل اشرافیہ کی ابتری


یہ تحریر ڈاکٹر مبارک علی کی ایک تحریر کا اردو ترجمہ ہے، جو کہ انگریزی روزنامہ ڈان میں اٹھارہ اکتوبر دو ہزار نو کو چھپی تھی۔
قرونِ وسطٰی میں ہندوستان کا معاشرہ بُرے طریقے سے تقسیم کا شکار اور دو طرح کے گروہوں میں تقسیم تھا۔: مراعات یافتہ لوگ، اور عام لوگ۔ جن کا تعلق امیر طبقے سے تھا وہ خود کو برتر اور قانون سے بالاتر تصور کرتے تھے۔ جاگیرداروں کو اپنی جاگیروں میں رعایا پر مکمل اختیار حاصل تھا اور اُنہیں معمولی جرم یا نافرمانی پر سزا دیتے تھے۔ اپنی رعایا کو فرمانبراد اور وفادار رکھنے کے لیے وہ ہر طرح کے خوفزدہ کرنے والے ہتھکنڈے استعمال کرتے تھے، اور تشدد، قید کرنے کو، اور پھانسی تک دینےکو اپنا حق سمجھتے تھے۔

اُنکی رعایا اُنکے رحم و کرم پہ تھی اور اُنکے وحشیانہ سلوک پر احتجاج کے طور پہ بول بھی نہیں سکتے تھے۔ مثلاً شجاع الدولہ اودھ کا کا نواب وزیر اور ایک طاقتور مقتدر تھا، اُسکے حرم میں عورتوں کی ایک بڑی تعداد تھی۔ ایک مرتبہ اُسنے ایک خوبصورت کھتری عورت کو اغواء کر لیا، اُسکے ساتھ زیادتی کی، اور اپنے محل سے باہر پھینک دیا۔ کھتری برادری نے اس حادثے کے خلاف احتجاج کیا لیکن بے سود، کیونکہ طاقتور لوگوں کے خلاف عام لوگوں کی کہیں سُنی نہیں جاتی تھی۔

اشرافیہ، اپنے حلقوں میں بھی ایک دوسرے کے خلاف جراءم کرتے رہتے تھے۔ جنکے پاس وساءل ہوتے تھے اُنکو کوءی سزا نہیں ملتی تھی۔ احمد شاہ کے دورِ حکومت میں(1748 - 1754) می اُسکا دِل پسند خواجہ سرا جاوید خان بہت با اثر ہو گیا تھا، اور یہ بات کچھھ امراء کو پسند نہیں تھی۔ ایک دِن ایک مقتر صفدر جنگ نے اُسے رات کے کھانے پہ بُلایا اور قتل کر دیا۔ بادشاہ اِس بات پر خاءف ہوا لیکن کمزور ہونے کی وجہ سے کچھ بھی نہ کر سکا۔

جیسے جیسے ادارے ٹوٹتے گءے اور بادشاہ کمزور ہوتے گءے، مغل اشرافیہ اپنے مخالفین کو نیچا دکھانے اور خود کو مستحکم کرنے کے لیے سازشوں کا سہارا لیتے۔ اُنکے مخالفین کو انعامات اور اعلٰی مقام ملنا اُنکے لیے ناقابلِ برداشت تھا، اور ایسا ہونے سے روکنے کے لیے وہ تمام ذراءع استعمال کر کے کوششیں کرتے رہتے تھے۔ مثال کے طور پہ احمد شاہ کے دورِ حکومت میں سعادت خان بُرہان الُلک امیر الاُمراء بننے کا امیدوار تھا لیکن جب عہدہ نظام المُلک کو دے دیا گیا تو وہ نادر شاہ کے پاس گیا، جو کہ مغل بادشاہ کے ساتھ امن معاہدہ کر کے واپس جانے کیا تیاری کر رہا تھا۔ سعادت خان نے نادر شاہ کو بتایا کہ دو کڑوڑ روپے کی رقم جو کہ اُسے امن معاہدے کے نتیجے میں ملی تھی اُسکے شایانِ شان نہیں تھی، اور وہ، بطور مغیہ رءیس یہ چھوٹی سی رقم اُسکے خزانے کے لیے دے سکتا تھا۔ اُسنے نادر شاہ کو شہر پہ قبضہ کرنے اور شاہی خزانے کو لوٹنے پہ اُکسایا۔ نادر شاہ نے، اُسکے مشورے پر عمل کرتے ہوءے، دہلی پر قبضہ کر لیا اور صدیوں پُرانے خزانے کو ایران لے گیا۔

جیسے جیسے اشرافیہ اخلاقی طور پر دیوالیہ ہوتی گءی، اُنکی بلند بانگ خطابات حاصل کرنے کی خواہش بڑہتی گءی۔۔۔ شاید اپنے کھوکھلے پن پہ پردہ ڈالنے کے لیے۔ ان خطابات کا اختتام خان، بہادر، دولہ، جنگ، اور مُلک پر ہوتا تھا۔ جن امراء کو یہ خطابات دیے جاتے تھے اُن میں ایسی کوءی خصوصیت نہیں ہوتی تھی جسکا اظہار یہ خطابات کرتے تھے۔ جنہیں بہادر یا جنگ کا خطاب دیا جاتا تحا وہ اس قابل نہیں تھے کہ میدانِ جنگ میں افواج کی قیادت کریں یا بہادری سے لڑسکیں۔ جنکے ناموں کے ساتھ امین یا اعتماد کے خطاب لگے تھے وہ ذاتی مفادات کے لیے دھوکہ دینے کی تاک میں ہوتے تھے۔ دلچسپی کی بات ہے کہ جیسے جیسے مغل سلطنت کمزور ہوتی جا رہی تھی، اشرافیہ کے خطابات اور بڑے اور شاندار ہوتے جا رہے تھے۔

جیسے جیسے اشرافیہ کی کارکردگی خراب ہوتی گءی، معاشرے میں اُنکی عزت ختم ہو گءی۔ بہر حال معاشرے میں عزت حاصل کرنے کے لیے وہ اپنی طاقت اور دولت کا مظاہرہ کرتے تھے۔ بڑے اہتمام سے ریشم اور مہنگے کپڑے سے بنے ملبوسات پہنتے تھے۔ اپنے عماموں میں چمکدار ہیرے لگاتے تھے، اور اپنے جسموں کو خوبصورت بنانے کے لیے مختلف زیورات سے سجاتے تھے۔ جب بھی باہر جاتے، ہاتھی یا پالکی کو سواری کے لیے استعمال کرتے۔ اُنکے جلوس کے سامنے خادموں کی بڑی تعداد اُنکا راستہ صاف کرتی، حالانکہ اُن بیچاروں کو باقاعدگی سے تنخواہیں بھی نہیں ملتی تھیں۔

اِس سے پتہ چلتا ہے کہ اشرافیہ کو اپنے مقام کا بڑا خیال تھا اور وہ لوگوں کو متاثر کرنے کے لیے دکھاوے کے تمام ذراءع استعمال کرتے تھے۔ بہرحال لوگوں کا نقطہ نظر کافی مختلف تھا۔ وہ نہ تو بلند بانگ خطابات سے متاثر تھے، اور نہ ہی دولت سے، اور اشرافیہ کو ناپسند کرتے تھے اُنہیں بدکردار، بے ایمان، سُست، اور بدچلن لوگ سمجھتے ہوءے۔ جعفر زطالی ایک شاعر تھا جسے فرخ سیار(1713 - 1719) کے دور میں قتل کر دیا گیا تھا، کیونکہ اُس نے بادشاہ کی تاجپوشی پر طنزیہ شاعری لکھی تھی، اُس نے نہ صرف بادشاہ پر تنقید کی تھی بلکہ اشرافیہ کو بھی اُنکی قابلِ شرم کردار پہ ہدفِ تنقید بنایا تھا۔

اگر ہم آج کے دور کا موازنہ ماضی سے کریں، تو پتہ چلتا ہے کہ ہمارے امیر طبقات بھی مغلیہ سلطنت کے زوال کے دنوں کی اشرافیہ جیسی حرکات کر رہے ہیں۔ وہ خود کو قانون سے بالاتر تصور کرتے ہیں، اپنی کمزوریاں چھپانے کے لیے دولت کا استعمال کرتے ہیں، اور عام لوگوں کو وی وی آءی پی کلچر سے دور رکھتے ہیں، وہ نہیں جانتے کہ عوام میں اُنکی کوءی عزت نہیں ہے بلکہ صرف ناراضگی ہے۔

ہمارے جاگیر داروں کا رویہ اپنے کسانوں کے ساتھ ویسا ہی ہے جیسا قرونِ وسطٰی جاگیر داروں گا تھا؛ وہ اُنکے ساتھ غیر انسانی سلوک کرتے ہیں، انہیں ذاتی جیلوں میں رکھتے ہیں، اور چھوٹے موٹے جراءم پر اُنہیں تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔

ہفتہ، 3 اکتوبر، 2009

ڈھولک

ڈھولک بج رہی ہے اور میں بیٹھا ہوں، کمرے کے باہر گلی میں لگی گرِل پر۔ بجلی نہیں ہے، پسینہ بہہ
رہا ہے لیکن گرمی محسوس نہیں ہوتی۔ شاید اس لیے کہ میں ڈھولک کی آواز میں مگن ہوں۔ محلے کے
ایک گھر میں شادی ہے، اسکی خوشی مناءی جا رہی ہے۔ ڈھولک اکیلی نہیں ہے، وہاں موجود لوگ
تھاپ کے ساتھ ساتھ تالی بجا رہے ہیں، اور ڈھولک پہ چمچا مارنے کی آواز بھی ہے۔اکیلی ڈھولک ہوتی تو
شاید اتنی گہرا سماں نہ باندھ پاتی۔گاہے گاہے گانے کی آواز بھی آتی ہے لیکن ڈھولک کی تھاپ کے
ہوتے ہوءے بول سمجھ نہیں آتے، سمجھ کے کرنا بھی کیا ہے۔
مجھے یہاں بیٹھے تقریباٰ ایک گھنٹا ہو گیا ہے، لیکن عجیب بات ہے کہ ڈھولک کی آواز سے دل نہیں
بھرتا۔اُلٹا جب کہیں ذرا دیر کے لیے آواز آنی بند ہوتی ہے تو لگتا ہے کسی چیز کی کمی سی ہے۔ ایسا کیسے
ہو سکتا ہے، یہ آواز تو بالکل اجنبی ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ تھوڑی سی دیر میں کسی سے اتنی محبت کیسے
ہو جاتی ہے کہ اُسکی خاطر بندہ پُرانے تعلق رشتے داریاں توڑنے پہ اُتر آتا ہے، شاید جیسا تعلق اس آواز سے
میرا بن گیا ہے ویسا ہی تعلق کسی انسان سے بھی بن جاتا ہے۔ لیکن یہ تھاپ تو بالآخر رُک جاءے گی،
اور میں اسے بھول بھی جاءوں گا۔ انسانوں سے ہو جانے والے اُنس کا معاملہ مختلف ہوتا ہے، اُنکے
چلے جانے کے بعد بھی تعلق زندہ رہتے ہیں۔
میں سوچ رہا ہوں کہ جن کی شادی کے ڈھول بج رہے ہیں وہ پتہ نہیں خوش ہیں بھی یا نہیں؟ عین
ممکن ہے دلہن کسی اور کو یاد کر کے رو رہی ہو، یا دولہا کان کے ساتھ موباءل فون لگاءے کسی اور سے تیز
آواز میں باتیں کر رہا ہو. شاید اس دلہن کی اپنے گھر میں آج آخری رات ہو، جب گھر میں موجود سب لوگ
سو جاءیں تو یہ چھوٹے سے بیگ میں سامان ڈالے اور گھر سے نکل پڑے۔ پاس ہی کہیں اندھیرے
میں اُسکا عاشق کھڑا بے صبری سے انتظار کر رہا ہو گا۔ لیکن نہیں، یہ بھی تو ممکن ہے کہ لڑکا کسی وجہ
سے گھر نہ چھوڑ سکتا ہو۔ اُسکی اپنی بہنیں ہوں، اور وہ ڈرتا ہو کہ کسی کی لڑکی بھگانے کی صورت میں وہ
انتقام کا نشانہ بن جاءیںگی۔ یا اُسکا باپ حال ہی میں ریٹاءر ہوا ہو، اور اب ہر چیز کا دارومدار لڑکے کی تنخواہ
پر ہو۔ ڈھولک بج رہی ہے، میں بیٹھا سُن رہا ہوں، کی بورڈ پر انگلیاں رقص کیے جا رہی ہیں۔ اچانک
ڈھولک بند ہوتی ہے، ذرا وقفے کے بعد آواز دوبارہ آنا شروع ہوتی ہے۔
اس مرتبہ تھاپ مختلف ہے۔ ایک اور بات بھی ہو سکتی ہے، کہ لڑکے لڑکی نے بڑی مخالفت کاٹی ہو۔ بڑی ماریں کھاءیں ہوں
اپنے راستے میں آنے والی ضد انا کی دیواروں کو گرایا ہو۔ سالہاسال ایک دوسرے سے دور رہ کر بھی اپنی
محبت کو زندہ رکھا ہو۔ اُنہیں انکے محبوب کے بارے میں بُری خبریں سناءی جاتی ہوں، کہ فلاں جگہ
سے رشتہ آیا ہے فلاں کے گھر گیا تھا فلاں نے ایسے کہا ویسے کہا۔ اُنہیں خامیاں گنواءی جاتی ہوں،
اُنہیں بہتر آپشن دیے جاتے ہوں، لیکن میاں صاحب نے کیا خوب کہا ہے

جنہاں تناں عشق سمایا، اوس نہیں فیر جانا
کوڑھے سوہنے مِلن ہزاراں، اساں نہیں یار وٹانا

تنگ آ کر انہیں کہا جاتا ہو کہ تُم بے وقوف ہو، جو چاہتے ہو وہ کبھی نہیں ہو سکتا۔ آخر تمہیں اُس میں نظر کیا
آتا ہے، تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ اور وہ حیرت سے اپنے پیاروں کے چہروں کی طرف دیکھتے ہوں گے، کہ "
انہیں کیا ہو گیا ہے؟"۔ کہہ رہے ہیں کہ صرف تمہاری خوشی چاہیے، لیکن سب جانتے ہوءے بھی پوچھتے
ہیں تمہیں کیا ہو گیا ہے۔ پھر ہو سکتا ہے کہ اُن پر دباءو ڈالا جاتا ہو، ایک مختلف زاویے سے۔ کہا جاتا ہو
کہ ہم نے تمہیں پالا پوسا بڑا کیا، اور تُم چار دِن کی آشناءی کو ہماری ساری عمر کی قربانیوں پر فوقیت دے
رہے ہو۔ لیکن وہ پھر بھی ڈٹے رہے ہوں، سر کو جھکاءے چُپ بیٹھے یا شاید گھٹنوں میں سر دبا کے
روتے رہے ہوں۔ پھر لگاتار لعن طعن کا ایک اور سلسلہ شروع ہو جاتا ہو گا۔ اُٹھتے بیٹھتے باتیں لگاءی
جاتی ہوں گی، دنیا جہان کا غصہ اُن پر نکالا جاتا ہو گا۔ لیکن وہ چُپ بے بس ریسیونگ اینڈ پہ، کیونکہ یہ پال
پوس کے بڑا کرنے اور قربانیاں دینے والی بات تو سچ ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ لڑکی کے بھاءی،
باپ، یا ماں نے اُسکے بال کھینچے اُسے تھپڑ مارے ہوں، محبت سے تھپکنے والے ہاتھوں سے لگنے والی
چوٹیں اُسکی روح پر نشان چھوڑ گءی ہوں۔ لیکن کیا کریں، اپنے ہیں نا۔ انکے ہاتھوں سے مار کھا بھی
لی تو کیا فرق پڑتا ہے، تکلیف تو بے شک ہوتی ہے۔ بس ذرا غصے میں ہیں، شاید مجھ پہ ترس ہی کھا
لیں۔ لیکن کسی کو ترس بھی نہ آتا ہو گا۔
ڈھول بجے جا رہا ہے، اور خیالوں کا ریلا تھمنے میں ہی نہیں آ رہا۔ کسی بچے کو پال پوس کے بڑا کرنا مشکل
کام ہے۔ ایسا کرنے کے بعد ماں باپ کو اُس پہ بڑا مان بھی ہوتا ہے۔ خاص طور پہ ماں کو، دیکھیں نا
آپ نے ایک پودا لگایا اور پھر اُسے دیکھنے بیٹھ گءے۔ اُس پودے کی ہر کونپل آپکے سامنے پھوٹی، ہر
پتے کی تہہ کُھلتے ہوءے آپ نے دیکھی۔ پانی لگایا، کھاد ڈالی، سرد گرم موسموں سے بچایا تو اُس سے
اُنس بھی ہو جاءے گا۔ لیکن لوگ پودے پہ پھول بھی اپنی پسند کے رنگوں میں کھلانا چاہتے ہیں۔ اگر
لگنے والے پھولوں کا رنگ توقع سے برعکس ہو تو کیا اُنکو نوچ کر پھینک دینا چاہیے؟ یہاں اُنس کی وجہ
سے ایک اور پہلو سامنے آتا ہے، ضد کا پہلو۔ ماں باپ کو وہی چھوٹا سا ہاتھ پاءوں چلاتا بچہ نظر آتا ہے اور
وہ سوچتے ہیں کہ اِسکی یہ ہمت کہ اب ہماری مرضی کے خلاف جاءے گا۔ اللہ میاں کی رحمت اللہ
میاں کے غصے سے بڑی ہے، اور انسانوں کا غصہ اُنسانوں کی شفقت سے بہت بڑا۔ لوگ اپنی مرضی
کے پھول کھلانے کی خاطر پہلے سے کھلے پھولوں کو نوچ پھینکتے ہیں۔ ایسی ہی کوششیں شاید ان دولہا
دلہن کے ساتھ بھی ہوءی ہوں گی۔ پھر آہستہ آہستہ مفاہمت کی کوءی صورت بنی ہو گی۔ یا بزرگوں نے
تنگ آ کے سوچا ہو گا کہ جاءیں جہنم میں، زندگی انہوں نے ہی گزارنی ہے کر لیں اپنی مرضی۔ ایسے میں
یہ بھی شرط رکھی گءے ہو گی کہ اگر کل کو کوءی مسءلہ ہوا تو ہمارے پاس مت آنا۔ لیکن سوچا جاءے
تو، کسی انسان کی گارنٹی نہیں دی جا سکتی۔ آپ ایک بندے کو سو دِن ایک بات یاد کرواتے رہیں،
ایک سو ایکویں دِن اُسکی گارنٹی نہیں دے سکتے کہ جواب آپکی مرضی کے مطابق دے گا۔ اگر آج نظر آ
رہا کہ فلاں آپکی بیٹی یا بیٹے کے لیے اچھا ہے، تو کیا خبر اُسکا کاروبار کل کو ڈوب جاءے۔ یا سگھڑ لڑکی کسی
وجہ سے اکھڑ ہو جاءے، کوءی گارنٹی نہیں دی جا سکتی۔ ولیوں پیغمبروں کی بات اور ہے، عام انسان
کی گارنٹی نہیں دی جا سکتی۔ اور ایسے ہی عام انسان کی بات پتھر پہ لکیر بھی نہیں ہو سکتی، کوءی
انسان یہ نہیں کہہ سکتا بس جو میں نے کہہ دیا وہی حرفِ آخر، تبدیلی ناممکن ہے۔
ڈھول نہیں بج رہا، شاید وہ لوگ تھک کے سو گءے۔ شاید گانے ختم ہو گءے، شاید تالیاں بجانے
والے ہاتھوں میں چھالے پڑ گءے، کسے پتہ؟
ہاں یہ ہو سکتاہے کہ بڑی مصیبتیں سہنے کے بعد یہ رات آءی ہو، کہ ڈھولک بج رہا ہے۔ایسے میں کیا
حالت ہو گی دولہا دلہن کی، اُنکے دِل پہ کیا گزر رہی ہو گی یہ تومجھے نہیں پتہ۔ اگر اندازےبھی لگاءے
جاءیں تو میرے خیال سے الگ ایک تحریر لکھنی پڑے گی۔ شاید اُنکو یقین ہی نہیں آ رہا ہو گا کہ جس
وقت کی خاطر اُنہوں نے سارے جبر سہے، وہ وقت آ چُکا ہے۔ ہاتھ پاءوں پھولے ہوں گے، آنکھوں
سے آنسو چھلک چھلک جاتے ہوں گے۔ لمبی رات گزر جانے کے بعد سورج نکلتا ہوا نظر آ رہا ہو۔۔۔ تو
کیسا محسوس ہوتا ہو گا۔۔۔ دعا ہے کہ اللہ پاک سب مسافروں کو اُنکی منزل تک پہنچاءیں۔۔۔ آمین۔۔۔ فی
امان اللہ۔۔۔

پیر، 7 ستمبر، 2009

جعلی بحرانوں کی سر زمین



پچھلے کچھ دنوں سے ہر طرف "ہاءے چینی ہاءے چینی" کا ایک شور سا مچا ہوا ہے۔ بڑے بڑے لوگ چینی کے "بحران" کے بارے میں بڑے بڑے بیانات دے رہے ہیں۔ اور میں یہ سوچ رہا ہوں کہ یار چینی اتنی اہم کب سے ہو گءی؟ بحران تو اُن چیزوں کا ہوتا ہے جن کے بغیر بندے کا زندہ رہنا دشوار ہو جاءے۔ مثال کے طور پہ آٹا، صاف پانی، اور بجلی۔ انگریزی میں ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے "میک بی لیو"، مطلب ایویں ہی کسی بات کو چُک دینا۔ دوسرے لفظوں میں کسی عام سے معاملے میں ہوا بھر کے اُسے بحران بنا دینا۔

ذاتی طور پہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر مِل مالکان چینی سستی نہیں کرتے تو عوام کو اینٹ کا جواب چنگے وڈے پتھر سے دینا چاہیے۔ ہم چینی خریدیں ہی نہ تو وہ کیا ساری چینی اپنے گھر لے جاءیں گے؟ رمضان شریف کے مہینے میں اگر ہر بندہ اپنے چاءے کے کپ میں چینی نہ ڈالے تو سحری اور افطاری میں ہی لاکھوں چمچ چینی بچاءی جا سکتی ہے۔ اور اگر عام لوگ حوصلہ کریں تو چینی کا استعمال بالکل ہی ترک کیا جا سکتا ہے۔

شوگر ملز کے کسی بڑے کا بیان تھا کہ اگر ملز بند ہوءی تو بیس لاکھ لوگ بے روزگار ہو جاءیں گے، بندہ پوچھے کہ آپ کو ان لوگوں کی کبھی کوءی پرواہ رہی بھی ہے؟ یہ تو کیڑے مکوڑے، آلاتِ جنگ ہیں جنکی مجبوریوں کا فاءدہ ہمیشہ سرمایہ دار طبقہ اٹھاتا ہے۔ یہ مل مالکان وہی طبقہ ہے جو عوام کے منہ سے روٹی کا نوالہ بھی چھین کر ملک سے باہر بیچ دیا کرتا ہے۔

آج کا اخبار بتا رہا تھا کہ کراچی میں صرف ایک ہفتے کا سٹاک رہ گیا ہے۔ مجھے شک پڑا کہ شاید کوءی جنگ چھڑ گءی جس میں اسلحے کے طور پہ چینی استعمال ہو رہی ہے، اور اگر ایک ہفتے تک مزید چینی فراہم نہ کی گءی تو پاکستان جنگ ہار جاءے گا۔ ویسے یہ جو بحران کا رونا رو رہے ہیں، انکو سرکاری ہسپتالوں کی دگرگوں حالت بحران کبھی نہیں لگی۔ "جس تن لاگے وہ تن جانے" مجھے یہ محاورہ بہت پسند ہے۔ چینی کے معاملے میں مجھے لگ رہا ہے کہ "اہلِ بحران" کے تن من پہ شدید چوٹیں آءیں ہیں، جبھی تو بیچارے بلبلا رہے ہیں۔

پانچ تاریخ کا اخبار بتاتا ہے کہ چینی افغانستان اسمگل کی جا رہی ہے، میں پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر افغانستان امریکہ کا ہمسایہ ہوتا تو آج امریکہ کا حشر بھی پاکستان جیسا ہی ہونا تھا۔ اچھا خاصا ملک ہے "پاکستان"، افسوس اسے "بحرانستان" بنانے کی سازش تو ہو رہی ہیں۔ ہماری سرزمین کو بحرانوں کی سر زمین بنایا جا رہا ہے اور ہم چپ بیٹھے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔

پچھلے کچھ عرصے میں آنے والا یہ تیسرا بحران ہے، ہم اس سے پہلے بجلی اور آٹے کا بحران جھیل چُکے ہیں۔ میرا دِل کہہ رہا ہے کہ یہ سارے کے سارے بحران دو نمبر، جعلی، غبارہ مارکہ بحران ہیں۔ اور ہمارے معاشرے کے کرتا دھرتا عوام کو سستی تفریح فراہم کرنے کے لیے اس قسم کے بندوبست کرتے رہتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ عوام کی اس دل پشوری کا بندوبست کرتے کرتے اُنکی جیبیں بھر اور توندیں بڑھ جاتی ہیں، اسکےعلاوہ غریب بندہ مرنے والا ہو جاتا ہے۔ اللہ میاں سےدعا ہے کہ وہ ہمیں بحرانوں کی کاشت کرنے والے وڈے وڈیروں سے نجات دلاءے، اور کسی بندے دے پُتر کے پلے باندھے۔

اس سارے کالم کا نتیجہ، جناب عالی چینی کھانا چھوڑ دیں۔ یا کم ضرور کر دیں۔

ہفتہ، 5 ستمبر، 2009

قصہ ایک قطار کا



ان دنوں ٹی وی وغیرہ والے آٹے کی قطاروں میں لگا کر عوام کی تذلیل کا کافی چرچا ہے۔ اول تو جی غریب بندے کی کیا تذلیل اور کیا اُسکی توقیر، پاک سرزمین کے غرباء میں "عزت نفس" کے جراثیم تو ساٹھ سال کی مستقل"چھترویکسینشن" کی وجہ سے کب کے مر چُکے۔ خیر یہ تو ایک لمبا رونا ہے بقول حبیب جالب

ورثے میں ہمیں یہ غم ہے ملا، اس غم کو نیا کیا لکھنا

آج مجھے بھی ایک قطار میں لگ کے آٹا لینے کا اتفاق ہوا، دس کلو والا توڑا صرف ایک سو روپے کا۔ کہاں پچیس اور کہاں دس روپے کلو، اللہ معاف کرے اس معاشرے کے خلیفے شاید اگلے جہان جا کے حساب دینے پر یقین ہی نہیں رکھتے۔ یہاں میں نے لوگوں کی باتیں بھی سنیں۔ کوءی کچھ بھی کہے، لوگ میاں شہباز شریف سے بڑے خوش ہیں اور انہیں بہت دعاءیں دیتے ہیں۔ آٹا اور چینی کی فراہمی کے لیے باقاعدہ شامیانے لگاءے گءے ہیں، اور قطار بنوانے کے لیے لوہے کی گرلیں آپکو تصاویر میں نظر آ رہی ہوں گی۔

جب میں وہاں پہنچا تو آٹے والا ایک ٹرک پانچ دس منٹ پہلے ہی خالی ہو کر گیا تھا، اکا دُکا لوگ پارک میں بیٹھ کر اگلے ٹرک کا انتظار کر رہے تھے۔ وہاں ایک خان صاحب بھی تھے جو ایک دن پہلے ہی سرحد کے کسی شہر سے آءے تھے۔ بقول خان صاحب، وہاں بیس کلو آٹا پانچ سو ستر روپے کا مل رہا ہے۔ اب سرحد والے بھی تو اپنے ساتھ خود ہی ظلم کرتے ہیں، لوگ کہتے ہیں کہ جو آٹا یہاں سے جاتا ہے اُسے زیادہ پیسوں میں افغانستان اسمگل کر دیتے ہیں، اور خود ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کے بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ کام عام آدمی تو کر ہی نہیں سکتا، وہاں کےمگر مچھ ہی عوام کہ ہاتھ سے نوالہ چھین کر اسمگل کرتے اور اپنی تجوریاں بھرتے ہیں۔ مگرمچھ تو بہرحال ہمارے ہاں بے تحاشہ پاءے جاتے ہیں، ہر شعبے میں ہر ساءز کے۔


لوگ کہہ رہے تھے کہ اللہ زندگی دے بابے شہباز کو، بڑا اچھا کام کر رہا ہے۔ ظاہری سی بات ہے، ایک طرف ایس ایم ایس پہ ٹیکس لگانے والے، پیٹرول کی قیمتیں آسمان پہ چڑہانے والے، عوام کو جون جولاءی کی گرمی میں بجلی بند کر کے بیڑہ غرق کرنے والے، نسل در نسل حکومت کرنے والے فرعون ہیں۔ جو کہ عوام کو ہر قیمت پہ "تھلے لگا" کے رکھنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف ایک بندے کا پُتر لوگوں کو روٹی کھلا رہا ہے تو بھوکے ننگے پیٹوں سے دعاءیں ہی نکلیں گی۔ لوگ کہہ رہے تھےکہ مِل سےآٹے کا بیس کلو والا توڑا تین سو کا نکلتا ہے، عوام کو یہ توڑا دو سو روپے کا دیا جاتا ہے اور ایک سو روپے فی توڑا حکومتِ پنجاب دے رہی ہے۔

شروع شروع میں تو لوگوں کو یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ مملکتِ خداداد میں ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ بے یقینی کے مارے ہوءے آٹا حاصل کرنے کے لیے باقاعدہ پلاننگ کر کے آتے تھے۔ میں نے دیکھا کہ پارک کے بینچ پہ ایک عورت بیٹھی ہے اور اسکے ساتھ تین چار توڑے آٹا پڑا ہے، اندازہ ہوتا تھا کہ آنٹی کے ساتھ کوءی اور بھی ہے جو کہ دھڑا دھڑ آٹا خرید رہا ہے۔

آج کے اخبار میں جماعت اسلامی کے ایک مظاہرے کی تصویر دیکھی، جس میں آٹے دال چینی قسم کی چیزوں کا رونا رویا جا رہا تھا۔ بندہ پوچھے کہ ابھی اگلے دن آپکا "سنہری" دورِ حکومت ختم ہوا ہے، آپ نے اس سلسلے میں کونسے تیر مار لیے تھے بس ایل ایف او کا طواف کرتے کرتے پانچ سال گزار دیے۔

اچھی خاصی لمبی لاءن تھی، میں خوش قسمتی سے ٹرک آنے سے پہلے ہی وہاں جا پہنچا تھا اس لیے پانچ سات منٹ میں ہی مجھے آٹا مل گیا۔

ایک اور مزے کی بات ، جب ہم لوگ سامنے سے فوٹو لینے گءے تو غریب عوام نے کیمرہ کو دیکھ کے پوز ہی بنانے شروع کر دیے۔ ہمارے لوگ بھی بیچارے، چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوش ہو جاتے ہیں۔ خیر ایک مرتبہ پھر کہوں گا کہ جیو بابا شہباز شریف۔۔۔

منگل، 1 ستمبر، 2009

ہلکی پھلکی سی باتیں

معزز قارءین اور غیر معزز قارءین، میں چاہتا ہوں کہ کسی ہلکے پھلکے سے موضوع پر لکھوں حالانکہ میرے ذہن میں کافی وزنی وزنی باتیں گھوم رہی ہیں۔ یہ وزنی باتیں ٹنڈ کروانے سے جان نہیں چھوڑیں گی، مجھے پتہ ہے کچھ لوگ یہی مشورہ دیں گے۔ چلیں کچھ تذکرہ گھر سےدور رمضان شریف کے روضے رکھنے کا ہی سہی۔ شروع کے دو چار روضے تو بندہ ٹھیک جاگ جاتا ہے، لیکن بعد میں روضہ بند ہونے سے آدھا گھنٹہ پہلے جاگنا تو جیسے ثواب کا کام ہو۔ حالانکہ شروع میں بندے کو جلدی جاگنے کی عادت ہی نہیں ہوتی۔ گھر سے باہر رہنے والے مجاہدین کے لیے اٹھھ پہرے روضے رکھے بنا رمضان شریف نا مکمل سا ہوتا ہے۔ بڑی چھلانگ ماریں تو پانی کا گلاس پی کے دوبارہ سو جاتے ہیں۔ اسکے علاوہ جب زوبی میرا روم میٹ شور مچا رہا ہو تو پتہ نہیں کیوں تکیہ کانوں پہ رکھ کے سونا اور زیادہ مزیدار لگتا ہے۔ یہ سطریں لکھتے وقت مجھے سنگین نتاءج کی دھمکیاں مل رہی ہیں، لیکن دیکھی جاءے گی۔ عوام تک حقاءق پہنچانا تو میرا فرض ہے نا۔
پچھلے پانچ سال سے میں جہاں رہ رہا ہوں یہ علاقہ اسٹوڈنٹس اور چھڑوں سے اٹا پڑا ہے۔ اور بھی "سوشل ورکرز" کے پاءے جانے کی خبریں ہیں، بہرحال اگر بندہ خود کرپٹ نہ ہو تو کوءی فرق نہیں پڑتا۔ سارا دن ہوٹل بند رہتے ہیں اور ساری رات کھلے۔ رات کے کھانے کے بعد ہوٹل والے سحری کی تیاری شروع کر دیتے ہیں۔ اٹھ پہرے روزے سے بچنے کے لیے کچھ لوگ ساری رات سوتے ہی نہیں۔ دو بجے تک کیبل یا کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ کے ثواب حاصل کرتے ہیں، اسکے بعد جا کے باہر سے کچھ کھا پی کے پھر سوتے ہیں۔ میرے فلیٹ پہ آجکل سحری وقت کافی رونق ہوتی ہے، آنٹی "میرو" صبح تین بجے ہی آ جاتی ہے۔ اور اپنے سارے کلاءینٹس کے لیے پراٹھے ہمارے کچن میں تیار کرتی ہے۔ تین چار گھر ہیں، وقفے وقفے سےآ کے پراٹھے لے جاتے ہیں۔ ویسے بازار میں بھی بڑی رونق ہوا کرتی ہے۔
گھر سے باہر رہنا مشکل تو ہے لیکن بندے کی شخصیت کے بہت سے نوکدار کونے باہر رہنے کی وجہ سے گول ہو جاتے ہیں۔ سحری ہو یا افطاری، ایک جگہ رہنے والا ہر فرد کوءی نہ کوءی کام کر ہی رہا ہوتا ہے۔ ورنہ گھر پہ تو اُس وقت جگاتے ہیں جب سب کچھ تیار ہوتا ہے، کہ حضور آءیے اور اپنے ہاتھوں سے کھا کر ہم پر احسان فرماءیے۔ یہاں رہتے ہوءے بندے کو مجبوراً وقت پہ جاگنا پڑتا ہے۔ اگر فلیٹ پہ کھانے کا بندوبست نہ ہو تو باہر جا کے کھانا بہت مشکل ہوتا ہے، وجہ پوچھیں گے تو جناب عوام کی اکثریت روضہ بند ہونےسے آدھا گھنٹہ پندرہ منٹ پہلے ہوٹل پر پہنچتی ہے۔ اور اُس وقت آرڈر سرو ہوتے ہوتے دس پندرہ منٹ لگ جاتے ہیں۔ مجبوراً بندے کو ایک پراٹھے کے چار نوالے کر کے کھانا پڑتا ہے۔ دہی چمچ سے کھانے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، سیدھا ہی پیالے کو منہ لگاءیں۔ اور پانی پینے سےپہلے اگر مولوی صاحب بول پڑیں تو جگ کو منہ لگانا پڑتا ہے۔ یہ جگ والی بات تو خیر میں نے ایویں ہی کر دی، مصالحہ ڈالنے کے لیے۔
رمضان کے بعد آ جاتی ہے میٹھی عید، جو کہ بچپن میں خوشی کا پیغام ہوا کرتی تھی اور جب سےتنخواہ لینا شروع کی ہے فکر کا پیغام ہو گءی ہے۔ پراءیوٹ کمپنیوں کے ملازمین کے لیے عیدیں نِرا خرچہ ہی تو ہوتی ہیں۔ آجر نے کوءی بونس تو دینا نہیں آپکو، بلکہ عیدیوں اور کپڑوں جوتوں پر اضافی خرچہ لازمی ہونا ہے۔ ابھی تو میں ہوں بھی اکیلا، سوچتا ہوں بال بچے دار لوگ بیچارے کیا کرتے ہوں گے۔ بہر حال ہمیشہ بندہ اکیلا بھی نہیں رہ سکتا، اپنی فیملی کے ساتھ وابستہ جذبات بھی کچھ اور ہی ہوتے ہیں۔ مطلب محسوس ہوتا ہے نا یار، جب آپ آٹھ دس گھنٹے بعد گھر آءیں اور آگے آءو جی کہنے والا بھی کوءی نہ ہو۔ فیملیز کے ساتھ رہنے والے لوگ شاید یہ کہیں گے کہ شکر نہیں کرتے آزاد ہیں، لیکن جناب میرا دس سالہ تجربہ یہی بتاتا ہے کہ یہ قید ہی اچھی ہے۔ فیملی کو عیدیاں دینا مشکل کام ہے، لیکن یہ کوءی زیادہ قیمت نہیں۔ سودا وارے کھاتا ہے، بندے کی ذات میں ایک خلا ہوتا ہے جو اپنوں کے ساتھ رہنےسےہی پورا ہوتا ہے۔ چاہے وہ اپنے بیوی بچے ہوں، یا بہن بھاءی ماں باپ۔
فی امان اللہ

جمعرات، 20 اگست، 2009

بے حس لوگ، بے رحم گڑھے

حادثے تو ہوتے ہیں، ان پر غصہ بھی آتا ہے، کوءی بڑی بات نہیں۔ البتہ جب حادثہ کسی کی سیدھی سیدھی لاپرواہی کی وجہ سے ہو تو جناب بات زبانی کلامی غصے سے آگے بڑھ جاتی ہے۔ ایسی ہی ایک لاپرواہی کا مظاہرہ اور اس کے نتیجے میں ہونے والا نقصان میں نے کل شام دیکھا۔ نہر والی سڑک سے اتر کر گارڈن ٹاءون کی طرف آیا، تھوڑا سا ہی آگے ٹریفک رُکی ہوءی تھی اور ایک بیچارہ موٹر ساءیکل والا نوجوان سا لڑکا سڑک پہ پڑا تھا۔ لوگوں نے آگے بڑھ کر اُسے اٹھایا اور ایک طرف لے جا کے بٹھایا پانی وغیرہ پلایا، ریسکیو والوں کو فون کیا۔
اس حادثے کی وجہ واسا ایل ڈی اے والوں کا بنایا ہوا کھڈا تھا، کوءی پاءپ ٹوٹا جسے ٹھیک کرنے کے لیے واسا نے دن میں کسی وقت سڑک کھودی تھی۔ اپنا کام ختم کر کے گڑھے میں "مٹی ڈال" کر وہ لوگ چلے گءے۔ دوطرفہ سڑک کے سڑک کے بالکل بیچ میں کھڈا تھا۔ لگتا تھا واسا کے انجینیر حضرات نے پوری پیماءیش کر کے زبردست مہلک گڑھا تیار کیا، تاکہ عوام الناس کی زیادہ سے زیادہ تعداد "چنگی" طرح سے فیض یاب ہو سکے۔
پاس کھڑا چوکیدار بتا رہا تھا کہ گڑھا کھودے جانے کہ بعد اس جگہ پیش آنے والا ساتواں حادثہ تھا۔ جب میں تازہ حادثے میں گرنے والے لڑکے کو دیکھنے گیا تو پتہ چلا وہاں پہلے سے ہی دو نوجوان زخمی بیٹھے تھے۔ کُل ملا کر تین لوگ، ایک کا منہ ایک طرف سے چھیلا گیا تھا، دوسرے کو کافی چوٹیں لگی تھی کپڑے پھٹے تھے بندے بیچارے کی صحت بھی پوری سی تھی۔ پاس کے اشارے پر سٹی پولیس والے کھڑے تھے کوءی جا کر اُن کو بُلا لایا کہ یہاں کوءی فیتہ وغیرہ لگواءیں یا کونیں ہی رکھوا دیں۔ وارڈن نے واءرلیس پر کافی شورمچایا لیکن کوءی خاطر خواہ جواب نہیں ملا، پیٹی بھاءی کے موباءل پر کال بھی کی لیکن اُس نے اٹھاءی ہی نہیں۔
دو آدمی جو شاید کہیں آس پاس رہتے یا کام کرتے ہوں گے ایک چادر نما کپڑا اور ایک ڈنڈا سا اٹھا لاءے۔ گڑھا بنانے والے لوگ اُس میں ایک شاخ پھینک گءے تھے، جو کہ دور سے نظر بھی نہی آ رہی تھی کیونکہ گڑھا کافی بڑا تھا۔ لوگوں نے چادر کو ذرا پھیلا کرشاخ اور ڈنڈے کے ساتھ باندھ دیا تاکہ آنے والوں کو دور سے نظر آ جاءے۔ آج صبح جب میں اُسی راستے سے دفتر جا رہا تھا تو دیکھا وہاں ذرا بہتر انداز میں بینر لگے ہوءے تھے۔ کل رات ایک وارڈن بینر لانے کا کہ کر گیا تھا کہ فلاں جگہ پر بینر لگے ہیں میں اتار لاتا ہوں۔
کہتے ہیں کہ جو کسی کے لیے گڑھا کھودتا ہے آپ ہی اُس میں گرتا ہے۔ میرے دل سے بد دعا نکلتی ہے کہ یا اللہ جو لوگ اس طرح کے گڑھے کھودتے ہیں ان کو کبھی نہ کبھی ان گڑہوں میں ضرور گرا۔ غیر ذمہ داری کی حد ہے، راہ چلتے اچھا خاصا بندہ زخمی ہو کر بیٹھ جاءے بغیر کسی قصور کے۔ جو تن لاگے سو تن جانے۔ جب تک ایسی لاپرواہیوں کے ذمہ داروں کے اپنے منہ نہ چھلیں، انکی ہڈیاں پسلیاں نہ ٹوٹیں، انکو کسی کے درد کا احساس ہو ہی نہیں سکتا۔ آج شام واپس آتے وہاں واسا کا ٹریکٹر ٹرالی موجود تھے، گڑہے میں مٹی اتار چکے تھے۔ بندہ پوچھے کہ ظالمو یہ کام کل ہی کر جاتے تو کیا تھا۔
کہتے ہیں کہ ہمارے عوام بے حس ہیں، میرا خیال ہے کہ ایسی کوءی بات نہیں ہے عوام اتنےبُرے بھی نہیں۔ کوءی اگر کام شروع کر لے تو لوگ اُسکے ساتھھ چل ہی پڑتے ہیں۔ مسءلہ پہلے قطرے، پہلے قدم کا ہے۔ عمران خان کا ہسپتال ہو یا میاں صاحب کی کشکول توڑ مہم عوام ہمیشہ ساتھھ دیتے ہیں۔ عوام میں ابھی کرنٹ ہے، بس کوءی کھرا عوامی لیڈر ملنے کی دیر ہے۔
کچھھ پڑہنے والے سوچ رہے ہوں گے کہ کسی کو بد دعا نہیں دینی چاہیے، لیکن یار کیا کریں اور کہیں بس نہیں نا چلتا۔ سیف الملوک کے ایک شعر سے یہ بات سمجھی جا سکتی ہے

بس وے ساڈا وس نہیوں چلدا، تے کی تو ساڈا کھونا؟
لِسے دا کی زور محمد، نس جانا یا رونا


لِسا پنجابی میں کمزور کو کہتے ہیں۔

بدھ، 5 اگست، 2009

یا اللہ خیر

کل کا دن تو بڑا ہی خوفناک تھا، پرسوں رات میں دفتر کا لیپ ٹاپ اپنے ساتھھ گھر لے آیا تھا۔ رات بجلی نے سونے نہیں دیا، گھنٹہ آتی اور گھنٹہ چلی جاتی۔ اس وجہ سے میں صبح جاگا دیر سے۔ بھاگم بھاگ میں لیپ ٹاپ گھر پہ چھوڑ کے ہی دفتر جا پہنچا۔ اپنے خالی ڈیسک پر نظر پڑتے ہی میں نے سر پکڑ لیا۔ سخت غصے کی حالت میں موٹر ساءیکل نکالی اور بھگا دی واپس گھر کی طرف۔ کیمپس والے انڈر پاس میں داخل ہوتے ہوءے میٹر پورے سو پر تھا، ایک ہنڈا سٹی اور کیری ڈبے کے درمیان سے نکالنے کی کوشش کی لیکن دھیان بٹا ہونے کی وجہ سے پتہ نہیں کیسے میں عین کیری ڈبے کے پیچھے جا پہنچا۔ بڑی بریک لگاءی لیکن بالکل جگہ ہی نہیں ملی اور موٹر ساءیکل ٹھک سے سیدھی کیری ڈبے کے پچھلے بمپر میں جا لگی۔
میں ہینڈل کے اوپر سے اڑتا ہوا سڑک پہ جا گرا، دیکھنے والے بتا رہے تھے کہ تین چار قلابازیں کھا کے رُکا۔ خیر اللہ کا شکر ہے کہ پیچھے سے اور کوءی گاڑی نہیں آ رہی تھی ورنہ میرا تو قیمہ بن جاتا۔ سڑک پر ٹھرتے ہی میں اٹھا اور انڈر پاس کی دیوار کے ساتھھ ٹیک لگا کر بیٹھھ گیا۔ سینے پر ٹھیس لگنے کی وجہ سے سانس لینے میں دشواری پیش آ رہی تھی۔ حادثے کا دھچکا بھی تھا کہ یہ کیا ہو گیا، اسکی وجہ سے میں نروس سا ہو رہا تھا۔ لمبے لمبے سانس لیے تو طبعیت کچھھ سنبھلی، دل کو دلاسہ دیا کہ یار حوصلہ کر خیر مہر ہے میں زندہ سلامت ہوں، ہوش حواس بھی سلامت ہیں۔ پیچھے آنے والے ایک اور موٹر ساءیکل سوار نے میری باءیک کو اٹھا کر ساءیڈ پر کھڑا کیا۔ ایک اور بندے نے ڈبل ون ڈبل ٹو والوں کو فون کر دیا۔ چوٹیں زیادہ نہ ہونے کی وجہ سے میں نے اُسے منع کر دیا کہ ریسکیو والوں کا وقت ضاءع ہو گا رہنے دو۔ اپنے ہاتھھ پاءوں ہِلا کر دیکھے، یہ جان کر خوشی ہوءی کہ کوءی ٹوٹ پھوٹ نہیں ہے۔ باءیں بازو پر کہنی کے قریب کافی بڑی خراش آءی ہے، لیکن صرف کھال چھلی ہے اس طرح کہ بال سلامت ہیں۔ بہر حال اس زخم کی جلن بہت ہے، اور آنے والی رات میں اسکی وجہ سے صحیح سو نہیں سکا۔
ہیلمٹ پہنا ہوا تھا اس وجہ سے بڑی بچت ہو گءی، شکر ہے اللہ کا۔ قارءین اگر آپ موٹر ساءیکل چلاتے ہیں تو ہیلمٹ لازمی پہنا کریں۔ ہیلمٹ کی اہمیت کا احساس مجھے کل ہوا، جب میں نے ہیلمٹ پر آءی خراشیں دیکھیں تو۔ سوچیں ذرا وہ ساری خراشیں اگرمیں منہ سر پہ ہوتی تو ستیا ہی ناس ہو جانا تھا۔ ہیلمٹ پر ایک نشان تو خاص جبڑے والی جگہ تھا، یعنی کہ بوتھا شریف ٹُٹ جانا سی۔ اٹھھ کر میں نے باءیک سٹارٹ کی، جو لوگ رُکے تھے اُنکا شکریہ ادا کیا اور گارڈن ٹاءون میں سے نکل کر فیروز پور روڈ پر آ گیا۔ کلمہ چوک کے پاس مسعود ہسپتال ہے وہاں جا کر فرسٹ ایڈ لی۔ ڈاکٹر نے ٹیکا ٹھوکا اور پورے ایک گرام کی آگمینٹن بھی دی۔ اتنی بڑی گولی، مجھے تو دیکھ کر ہی الجھن ہوتی ہے۔ لیڈی ڈاکٹر تھی اس لیے زخم کی صفاءی اور ٹیکہ لگتے وقت کوءی خاص تکلیف نہیں ہوءی، دھیان بٹا رہا۔
وہاں سے نکل کر میں اپنی آماجگاہ بمقام 94 ایچ ماڈل کالونی فردوس مارکیٹ آیا، لیپ ٹاپ اٹھا کر دفتر چلا گیا۔ وہاں لنچ ٹاءم تک رہا اور ٹیم مینیجر کے شدید اصرار پر لنچ کے بعد گھر آ گیا۔ ندیم بھاءی اس معاملے میں اچھے ہیں، بندے کا کافی خیال رکھتے ہیں۔ خیر گھر آ کے مجھے کونسا چین آ جانا تھا۔ گھنٹہ سوا سویا اسکے بعد دوبارہ باءیک اٹھا کر اکبر چوک سوزوکی کی ورکشاپ پہنچ گیا۔ ٹیوننگ وغیرہ کرواءی، باقی جو چیزیں ڈنگی چبی ہوءی تھیں انہیں ٹھیک کرنے سے مکینک نے انکار کر دیا، کہ یہ جا کر پروفیشنل ڈینٹر سے سیدھی کرواءیں۔
مجھے کہتا ہے کہ بھاءی ٹراءی لے آءیں، میں نے کہا کہ یار خود لے آءو لیکن کہتا ہے کہ نہیں یار آپ خود جاءیں۔ میں نے باءیک کوٹھے پنڈ جانے والی سڑک پر نکالی۔ اور تھوڑی کھینچی، ٹراءی جو تھی۔ بریکس وغیرہ چیک کر لی ٹھیک تھی اور انجن سے کوءی فالتو آواز بھی نہیں آ رہی تھی۔ اچانک سامنے یو ٹرن سے ایک نوجوان لڑکا نکل آیا، اُسکے پیچھےدرمیانی عمر کی عورت بیٹھی ہوءی تھی۔ اللہ کا بندہ سڑک پر آ کے دیکھھ رہا ہے کہ پیچھے تو کوءی نہیں۔ پیچھے میں تھا، میں نے بریک لگاءی فُل میٹر سے زیرو پر آنے کے لیے وقفہ چاہیے ہوتا ہے باءیک سنبھال لی تھی لیکن شاید آنٹی کا پیر مجھے لگا اور موٹر ساءیکل گر گءی۔ باءیک کے آگے سیف گارڈ لگوایا ہوا ہے، باءیک اُس سیف گارڈ کے بل پر گھسٹتی چلی گءی۔ ایک مرتبہ میری باءیں ہتھیلی سڑک پر لگی لیکن شکر ہے اللہ کا سڑک پر کھڈانہیں تھا جس وجہ سے میں گری ہوءی موٹر ساءیکل پر بیلنس ہو گیا بالکل سانس روک کر۔
اس حادثے میں مجھے چوٹ تونہیں لگی لیکن میں ہِل کے رہ گیا۔ ایک دِن میں دو مرتبہ ایسے شدید حادثات، ایسا تو کبھی نہیں ہوا۔ بلکہ کم از چار پانچ سال میں میرا کوءی ایکسیڈنٹ سرے سے ہوا ہی نہیں۔ سیف گارڈ کی ستیا ناس ہو گءی، فٹنگ کے دو بولٹ ہوتے ہیں، ان میں سے ایک ٹوٹ گیا۔ سیف گارڈ دوہرا ہو کر ٹینکی کے ساتھھ جُڑ گیا تھا۔ اس کی وجہ سے ٹینکی پر بھی ڈینٹ پڑ گیا۔ ورکشاپ واپس آیا، وہاں سے سامان اٹھا کر ڈینٹر کے پاس چلا گیا۔ اُس نے موٹر ساءیکل کو سیدھا کیا۔ اور جناب آخر کار میں شام کو گھر واپس آ گیا۔ خیر خیریت کے ساتھھ، صحیح سلامت۔ ٹینکی والے ڈینٹ کا مجھے افسوس ہوا ہے، باقی ساءلینسر بالکل فریم کے ساتھ جُڑ گیا، دایاں فُٹ ریسٹ دوہرا گو گیا، اور اگلا مڈ گارڈ بھی سامنے سے چِبا ہو گیا۔
میں ایک بات کا تو قاءل ہوں کہ ہم بندے بڑی بڑہکیں مارتے ہیں، کءی اپنی بات کو پتھر پہ لکیر سمجھتے ہیں لیکن جناب بندے کی اوقات کچھھ نہیں ہے۔ کل کے دونوں حادثات میں اگر زندہ بچ گیا ہوں تو میری کوءی بہادری نہیں، اللہ کا کرم ہے جو اُس نے زندہ رکھھ لیا۔ زندگی بڑی ہی بے اعتباری چیز ہے، کچھھ پتہ نہیں کہاں کس طرح اچانک سانس کی ڈور ٹوٹ جاءے۔ بڑے بڑے سیانے دانا تیز چالاک لوگوں کے ساتھھ ایسا ہو جاتا ہے، ساری میں یہ میں وہ دھری کی دھری رہ جاتی صدقہ بندے کے سر آءی بلاءوں کو کھا جاتا ہے۔ عدنان کہہ رہا تھا تہ شب برات ہے، دعا وغیرہ کرنا۔ اسکےعلاوہ ایک اور صاحب نے مشورہ دیا کہ گھر جا کے شکرانے کے نفل پرہنا۔ میرے خیال میں یہ سب بڑے اچھے بالکل درست مشورے تھے۔
ہونی کو کوءی نہیں ٹال سکتا، پھر بھی احتیاط کرنی چاہیے۔ جب سوچتا ہوں کہ اگر خدا نخواستہ مجھے کچھھ ہو جاتا تو میرے گھر والوں پر کیا گزرتی، رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اللہ کا لاکھھ لاکھھ شکر ہے کہ اُس نے جان بچا لی، قارءین سے گزارش ہے کہ میرے لیے دعا ضرور کریں۔
فی امان اللہ۔۔۔

منگل، 4 اگست، 2009

ایک چھوٹی سی کہانی

رات کےدس بجنے والے ہیں، بجلی جانے والی ہے۔ اور کچھھ ہو نہ ہو، بجلی ٹاءم پر جاءے گی۔ جاگرز پہن کر میں ماڈل ٹاءون پارک جانے کے لیے تیار ہوں، فیاض کو بھی ساتھھ لے لیتا ہوں۔ آج اسکی طبعیت خراب ہے، اس لیے کام پر نہیں گیا۔ شام پانچ سے رات ایک بجے تک کی نوکری ہے، امریکن کمپنی میں کام کرنا بھی نرا سیاپا ہے۔ بیچارہ اکاءونٹنٹ مکھی چوس شیخوں کے ہتھے چڑہا ہوا ہے۔ اللہ معاف کرے ایک سیٹھھ اوپر سے شیخ۔ فیصل آباد کے ایک مل مالک شیخ صاحب نے لمز کے ایم بی اے کو بھلا کتنی تنخواہ کی نوکری آفر کی تھی، سوچیں ذرا۔۔۔ چالیس ہزار،نہیں نہیں تیس پینتیس سے کم تو نہیں کی ہو گی۔ جنابِ عالی پورےدس ہزار روپے ماہانہ۔ بیچارے نءے نویلے گریجوایٹ پر کیا گزری ہو گی، میرے خیال سے کم از کم ٹرین گزری ہو گی۔
خیر میں اور فیاض موٹر ساءیکل پر ماڈل ٹاءون پارک پہنچے، فیاض ادھر اُدھر ٹہلنا چاہتا ہے اور میں جاتا ہوں بڑے ٹریک پر دوڑ لگانے۔ ویسے اس وقت جاگنگ یا چہل قدمی کرنے کے لیے کلمہ چوک والا نیشنل بینک پارک فِٹ ہے۔ رونق شونق کی وجہ سے دِل لگا رہتا ہے۔ خیر مجھے ذاتی طور پر خاموشی پسند ہے سو میں ماڈل ٹاءون پارک ہی آتا ہوں۔ چاند کی تاریخ کونسی ہے یہ مجھے پتہ نہیں لیکن چندا ماموں کی خوبصورتی مسحور کُن ہے۔ ایک گڑ بڑ ہے کہ ہوا بالکل نہیں چل رہی حبس ہو گیا ہے۔ ٹریک پر اس وقت اِکا دُکا بندے ہوتے ہیں، اور بندیاں تو بالکل ہی مفقود۔
اتنے حبس اور گرمی میں بھاگنا کافی مشکل ہوتا ہے، شروع کرنے سے پہلے میری تو جان نکل رہی ہوتی ہے لیکن اپنے آگے ہی آگے بڑہتے ہوءے پیٹ کو دیکھھ کر مجبوراً بھاگنا پڑتا ہے۔ اگر تو آپ کا اپنا پیٹ باغی ہو چکا ہے تو جناب آپ میرے دُکھھ کو سمجھھ سکتے ہیں ورنہ عوام الناس کے لیے تو تماشا ہی ہے۔ اس موسم میں بھاگنا مشکل اور بے حد فاءدہ مند، کیونکہ جسم کے روم روم سے پسینہ نکلتا ہے۔ اس وجہ سے سیانے (بشمول میرے) یہ سمجھتے ہیں کہ وزن جلدی کم ہوتا ہے۔ یہ فاءدہ مند کام ہمیشہ مشکل ہی کیوں ہوتے ہیں۔۔۔
ٹریک کا ایک چکر پورا ہو گیااور میری شرٹ پسینے سے مکمل بھیگ چکی ہے۔ ویسے میں نے حساب لگایا ہے کہ دوڑنا اتنا مشکل کام نہیں ہے، بس بندے کو حوصلہ کرنا پڑتا ہے۔ زندگی کے زیادہ تر مساءل ایسے ہی ہوا کرتے ہیں، لوگ پہلا قدم اٹھانے سے پہلے ہی ناکامی کے ایک سو ایک جواز گھڑ لیتے ہیں۔ حالانکہ اگر اچھی نیت سے آنکھیں کھلی رکھھ کر کوشش کی جاءے تو بندے کے راستے اپنے آپ ہی کھلتے چلے جاتے ہیں۔
میرا جگر فیاض کہیں نظر آ رہا، ایس ایم ایس کرتا ہوں، سانس درست ہونی میں کوءی دس منٹ تو لگ ہیں جاءیں گے اتنی دیر میں وہ جہاں بھی ہوا آ جاءے گا۔ نا نا میرا یہ مطلب نہیں کہ وہ پنجابی فلموں کا مولا ہے جو کہیں بھی ہو اپنی بھرجاءی کی مشہورِ زمانہ صدا "وے مولیا" پر آن وارد ہوتا ہے۔ "اوءے کدھر ہے آ جا، پانی کی چھوٹی بوتل بھی لیتے آنا"۔ میں سانس درست کرنے کے لیے ذرا سا ہٹ کر کسی تاریک سی جگہ پر چلا جاتا ہوں، شرٹ اتار کے سکون سے بیٹھھ جاتا ہوں۔ شکر ہے کہیں سے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا بھی آیا، جب بندے کی حالت خراب ہو رہی ہو تو احساس ہوتا ہے کہ ٹھنڈی ہوا کا جھونکا کتنی بڑی نعمت ہے۔ کمینہ جیا پتہ نہیں کہاں رہ گیا ہے۔۔۔ شرٹ پہن کر ایک بینچ پر بیٹھے بیٹھے کوءی چار پانچ نا قابلِ اشاعت ایس ایم ایس بھی کر چکا ہوں لیکن فیاض صاحب پتہ نہیں کہاں زیرِ زمین ہیں۔
یہ گرم ہوا کا جھونکا کدھر سے آیا، اچھا اچھا تو اُس جانب سے جناب فیاض صاحب تشریف لا رہے ہیں۔ مجھے غصہ ہی بڑا ہے اس پر، اتنی دیر سے انتظار کر رہا ہوں اور یہ بھاءی سکون سےفون پر گپیں شپیں لگا رہے ہیں۔ بدلہ لینے کا ایک طریقہ میرے ذہن میں آیا تو ہے، ذرا فون بند تو کرے ایسا سواد چکھاءوں گا کہ یاد رکھے گا۔ آخر فون بند ہوا، اب وقت آن پہنچا ہے کہ میں بدلہ لے لوں۔ آپ سوچیں ذرا کہ میں اس کے ساتھھ کیا کرنے لگا ہوں۔
فیاض میرے جگر۔۔۔ ادھر آ ذرا۔۔۔ اوں اوں کے علاوہ فیاض کے منہ سے اور کوءی آواز ہی نہیں نکل پا رہی، میں تو حیران ہوں کہ یہ آواز بھی کیسے نکل رہی ہے۔ آخر میں نے اسکو زبردستی اپنے سینے سے جو لگایا ہوا ہے۔ پانچ فٹ آٹھھ انچ کا فیاض چھھ فٹ دو انچ کے نعیم کے نرغےمیں کیسا لگ رہا ہو گا سوچیں تو ذرا۔ میری شرٹ پسینے سے شرابور ہے اور فیاض کا منہ میں نے پکڑ کر شرٹ پر دبایا ہوا ہے۔ "اوہ کنجرا تیرا ککھھ نا رہوے" یہ آواز میری ہےمیرے سینے پر کندھے کے قریب اچانک درد کی ایک لہراٹھی ہے۔۔۔ میں نے گھٹیا حرکت کی تھی لیکن فیاض نے تو اُس بھی بڑھ کر کام کر دکھایا۔ بلی کو اگر کمرے میں بند کر دیں تو وہ بھی اپنا دفاع کرنے کی آخری کوشش ضرور کرتی ہے، اور یہی کوشش فیاض نے کی۔ مجھے کاٹ کھایا ظالم نے۔ بیڑا ہی غرق ہو جاءے۔۔۔ نشان ڈال دیا ہے، کتنے تیز دانت ہی اس بندے کے مجبوراً چھوڑنا ہی پڑا۔ نیلا نشان ڈال دیا ہے چول نے۔ اسکی بقا کا مسءلہ جو تھا، آخری حد تک چلا گیا۔ اب تھو تھو کر رہا ہے، کہ پسینہ نمکین تھا۔ بھءی یہ تو کامن سینس کی بات ہے پسینہ نمکین ہی ہوا کرتا ہے۔ کہہ رہا ہے کہ منہ کا ذاءقہ پہلے ہی خراب تھا رہی سہی کسر تم نے پوری کر دی۔۔۔
کہانی ختم پیسہ ہضم۔۔۔ ہا ہا ہا ہا۔۔۔

ہفتہ، 1 اگست، 2009

شوگران اور پھر سری پاءے



جوں توں کر کے شوگران پہنچے، گاڑی میں بیٹھھ بیٹھھ کر کمر اکڑ گءی تھی، اور بول بول کے باتیں ختم۔ لیکن منزل کے پاس پہنچ جانے کا سُن کر پورے گروپ میں دوبارہ جان پڑ گءی۔ شوگران چھوٹی سی جگہ ہے لیکن کافی خوبصورت۔ اس علاقے میں پہاڑ مٹی کے ہیں، پہاڑوں کی دوسری قسم پتھر کے پہاڑ ہے۔ مٹی کے پہاڑوں پر بارش نہ ہو تو بہت گرد اڑتی ہے جب ہم گءے تو شاید دو ایک دن سے بارش نہیں ہوءی تھی اور ہر چیز مٹیالی مٹیالی تھی۔ مین شوگران کی تصاویر اتارنی چاہیے تھیں لیکن میں تو بڑا تھکا ہوا تھا سو نہیں اتاری۔ پتہ ہے مجھے "فراءض سے غفلت" تھی، لیکن اب ہو گءی تو کیا کریں۔ ہوٹل کی پچھلی طرف ایک مسجد ہے، وہاں جا کر ہم لوگوںنے منہ سر دھوءے وضو کیا اور عصر کی نماز بھی پڑھی۔
مسجد کے دروازے کی ایک تصویر

شوگران میں ٹور ازم ڈیولپمنٹ کا ریسٹ ہاءوس
فکر کی کوءی بات نہیں، شوگران میں موباءل کے سگنلز آتے ہیں۔
کافی خوبصورت پھول تھے
بیک گراءونڈ میں ہوٹل ہے، جسکا تذکرہ میں پہلے بھی کر چکا ہوں۔
کافی اچھی چگہ ہے، ہوٹل کا لان تو مجھے بہت پسند آیا تھا۔
ایک اور خوبصورت پھول۔۔۔

شام کے تقریباً پانچ بج چکے تھے، جتنی دیر میں اور کچھھ دوسرے دوست نماز وغیرہ پڑھ رہے تھے باقی لوگوں نے سری پاءے جانے کے لیے دو جیپوں کا بندوبست کرلیا۔ اصل پروگرام تو پیدل چل کے جانے کا تھا لیکن کافی دیر ہو جانے کی وجہ سے ہمیں جیپ پر ہی اوپر جانا پڑا۔ کچا راستہ ہے، اور جیپ پر اوپر پہنچتے پہنچتے بندے کا انجر پنجر ہل جاتا ہے۔
اس طرح کی جیپیں ہوتی ہیں، فورباءی فور۔۔۔
اوپر جا کے میری طبعیت خراب ہو گءی، ٹھنڈے پسینے اور چکر آ رہے تھے۔۔۔اس لیے میں تو جلدی ہی ساءیڈ پر ہو کے بیٹھ گیا۔۔۔ باقی لوگ اچھل کود کرتے رہے۔۔۔

پاءے میں محکمہ موسمیات کی کچھ تنصیبات،اور بادلوں کی اوٹ میں جاتا ہوا سورج۔

بتاتا چلوں کہ سری کا مقام پہلے آتا ہے، اور پاءے اسکے بعد میں۔ لوگ کہتے ہیں کہ سری میں ایک جھیل ہے، کوءی جھیل شیل نہِیں ہے بس ایک چھپڑ سا ہے۔ پاءے بے شک ایک خوبصورتاور دیکھنے کے لاءق جگہ ہے۔ یہاں کافی ٹھنڈ ہوتی ہے لہٰذا ہیرو بننے کی کوءی ضرورت نہیں، ساتھ کوءی ہلکی پھلی جیکٹ یا اپر لے کے جانا۔
باقی اگلی مرتبہ۔۔۔ بس اب میں لکھھ لکھھ کے تھک گیا ہوں۔۔۔

بدھ، 29 جولائی، 2009

کچھ شوگران کے بارے میں

پچھلے ہفتے مطلب پچیس چھبیس تاریخ کو میں شوگران گیا ہوا تھا۔ جس کمپنی میں میں کام کرتا ہوں انہوں نے اس سیر کا پورا خرچہ اٹھایا تھا۔ شوگران پاکستان کے شمال میں ہے، اور سطح سمندر سے تقریباً سات ہزار فٹ بلندی پر واقع ہے۔ ہم گیارہ لوگ لاہور سے جمعہ کی رات کو تقریباً دس بجے نکلے تھے۔ جی ٹی روڈ کے راستے راولپنڈی گءے، راستے میں گجرات کے پاس دریاءے چناب کے کنارے رک کر کھانا کھایا۔ یہ دو تصویریں وہاں اتاری تھیں۔





راولپنڈی سے ہم لوگ ایبٹ آباد گءے، براستہ حسن ابدال اور واہ کینٹ۔ ہم لوگوں کا ارادہ تھا کہ صبح پانچ بجے تک ایبٹ آباد پہنچ جاءیں گے، تھوڑا آرام کر کے دن میں نو دس بجے تک شوگران کے لیے روانہ ہوں گے۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ اول تو ہم لاہور سے آدھا گھنٹہ لیٹ نکلے تھے اسکے بعد چناب پرتقریباً ایک گھنٹہ رکے رہے، اور رہی سہی کسر ایبٹ آباد سے کچھ پہلے رک کر پوری ہو گءی۔ ایبٹ آباد سے کوءی پونے گھنٹے کی مسافت پر ایک پٹرول پمپ پر رکے، کچھ لوگوں نے واش روم جانا تھا۔ لیکن جناب وہاں واش روم صرف ایک تھا، پندرہ بندے باری باری واش روم جاءیں اور ہر بندہ اوسط ڈیڑھ منٹ لگاءے تو بھی تقریباً پچیس منٹ بنتے ہیں۔ سب لوگوں نے نماز بھی پڑھی، شکر ہے کہ وضو کرنے کی جگہ کچھ بہتر تھی۔


خیر جناب ہم لوگ تقریباً صبح سات بجے ایبٹ آباد پہنچے۔ سب متفق تھے کہ یہاں رکنا فضول ہے لیکن ڈراءیور کو تھوڑا آرام دینے کی نیت سے ہم لوگ رک گءے۔
یہاں ایک گڑ بڑ ہو گءی، سب لوگ اپنے اپنے کمروں میں جاتے وقت ڈراءیور کو بالکل بھول گءے اور وہ بیچارہ دو گھنٹے گاڑی میں ہی بیٹھا رہا۔ گیارہ لوگوں کے لیے چار کمرے کراءے پر لیے گءے تھے۔ میں اس قسم کی انتظامی تفصیلات جان بوجھھ کر بتا رہا ہوں، امید ہے کسی پڑھنے والے کے کام آءیں گی۔ خیر جناب نو بجے کے قریب سب جاگے نہا دھو کر فریش ہوءے۔ اور ناشتہ کرنے ہوٹل کے ڈاءننگ میں پہنچ گءے۔ وہاں آ کر ڈراءیور کی آپ بیتی پتہ چلی۔ میرے خیال سے ان معاملات میں ایک بندے کو ڈراءیور کی دیکھھ بھال کا ذمہ دار بنا دینا چاہیے۔ کیونکہ گاڑی چلانے والا ایسے دوروں میں بہت اہم ہوتا ہے۔ ہم لوگوں کا زیادہ تر وقت سفر میں گزرا ، مطلب کہ ڈراءیور کے آسرے پر۔ ڈراءیور کے کھانے پینے سونے کے علاوہ رات کے سفر میں اُس کے ساتھھ باتیں کرنے والا بھی کوءی ہونا چاہیے، ورنہ وہ سو بھی سکتا ہے۔ ڈراءیور حضرات عموماً جی ٹی روڈ پر سفر کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ جی ٹی روڈ پر گہما گہمی ہوتی ہے اور موٹر وے نِرا ویرانہ، بندے کو نیند آ ہی جاتی ہے۔ یہ دورہ کوءی خاص نہیں تھا، کیونکہ ہمارا وقت کچھھ اس طرح سے گزرا

سفر چھتیس گھنٹے
نیند آٹھ گھنٹے
گھومے پھرے چار گھنٹے
کھانا پینا چار گھنٹے

تو جناب اگر تفریحی دورے کو صحیح درست شدھ طریقے سے پلان کیا اور سنبھالا نہ جاءے تو یہ سکون کے بجاءے الٹا تھکن کا باءث بن جاتا ہے۔ آمدنی اٹھنی خرچہ روپیّا والا حساب ہو گیا۔ کم از کم میرا وہاں جانے کا مقصد تھا شوگران سے پیدل سری پاءے جانا، نہ کہ چھتیس گھنٹے بس میں بیٹھے رہنا۔ خیر بس میں کافی شغل میلہ لگا رہا، پھر بھی بنیادی مقصد پہاڑیاں چڑہنا حاصل نہ ہو سکا۔
ایبٹ آباد سے شوگران جانے کے لیے راستہ مانسہرہ اور بالا کوٹ سے ہو کر گزرتا ہے۔ ایبٹ آباد کی خاص باتیں ایوب میڈیکل یونیورسٹی، پاکستان ملٹری اکیڈمی، ایبٹ آباد پبلک سکول، صدر بازار، الیاسی مسجد، شملہ پہاڑی، اور ٹھنڈیانی ہیں۔ ہم لوگ ان میں سے کسی بھی جگہ پر رکے نہیں لیکن ایک ساتھی "شبیر خان آفریدی" کا گھر ایبٹ آباد میں ہے تو ان سے کافی معلومات مل گءیں۔ ایبٹ آباد شمالی علاقہ جات میں بہت ہی آزاد خیال تصور کیا جاتا ہے، کیونکہ سرحد کے کسی اور شر میں آپکو اس قدر خواتین گھومتی پھرتی نظر نہیں آتی۔ صوبہ سرحد میں شرح خواندگی کافی زیادہ ہے۔ مثلاً ہنزہ میں سو فیصد لوگ پڑہے لکھے ہیں۔
اسکے بعد ہم جا رُکے بالا کوٹ سے کچھ آگے دریاءے کنہار کے کنارے۔ یہ دریا جھیل سیف الملوک سے نکلتا ہا، اور وادیء کاغان میں بہتا ہے۔ دریا کا پانی۔۔۔ برف کی طرح ٹھنڈا تھا۔۔۔ دوکانداروں نے جوس بوتلیں ٹھنڈی کرنے کے لیے ڈالوں میں ڈال کر دریا کے پانی میں رکھی ہوءی تھیں۔ یہ تصویر دیکھیں


پہاڑی علاقوں میں پانی کا بہاءو بھی کافی تیز ہوتا ہے لہٰذا دریا کو دیکھھ کر اپنے جذبات قابو میں ہی رکھیے گا۔ ہو سکتا ہے کہ آپ تیر سکتے ہوں لیکن جناب ڈوبتے وہی ہیں جو تیرنا جانتے ہیں۔ دریا کی مزید تصاویر




شوگران پہنچنا ہر گاڑی کے بس کا روگ نہیں، کیونکہ اس علاقے میں کافی لمبی لمبی چڑھاءیاں ہیں۔ ہم کوسٹر میں گءے تھے اور اسکا اے سی بند کرنا پڑ گیا تھا۔ اسکے علاوہ یہاں سڑک بن رہی ہے جسکی وجہ سے کافی دھول مٹی اڑتی ہے۔ ٹریفک جام بھی ایک مسءلہ ہیں، کیونکہ سڑک تنگ ہے۔ سڑک بنانے والی مشینری کی موجودگی میں اکثر اوقات گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں۔ مثلاً

خوش قسمتی سے جس وقت ہم لوگ پہنچے تو یہ قطار کافی دیر کی لگی ہوءی تھی اور کافی لمبی تھی، جلدی جان چھوٹ گءی۔ سری پاءے جانے کا اور شوگران سے واپس آنے کا قصہ انشاءللہ اگلی مرتبہ۔۔۔
فی امان اللہ۔۔۔



پیر، 20 جولائی، 2009

دو چھٹیوں پہ کچھ نہ لکھنے کی تلافی

قارءین، دو چھٹیاں گزر گءیں۔۔۔ اور میں نے کچھ بھی نہیں لکھا۔۔۔ معذرت چاہتا ہوں۔۔۔ یہ میری کچھھ اردو اور پنجابی شاعری ہے۔۔۔ سوچا سنا دوں۔۔۔

عشق سر پر سوار ہونے تک
ہم حسیں تھے، خوار ہونے تک

راستوں کو طویل ہونا تھا
آبلے بے شمار ہونے تک

اُس نے میرا لحاظ رکھا تھا
اُس کے با اختیار ہونے تک

حسن بے شک بڑا مقدس تھا
عشق کے کاروبار ہونے تک

(*)(*)(*)(*)(*)(*)(*)(*)(*)

اندھیروں سے جھگڑتے آفتاب جیسا ہے
وہ حسیں چہرہ گلاب جیسا ہے

میرے پاس ہے تو بھول جا زمانے کو
وصل کا یہ لمحہ خواب جیسا ہے

سمجھنے بیٹھو تو پہیلی الجھتی ہی جاءے
کہنے کو وہ کھلی کتاب جیسا ہے

(*)(*)(*)(*)(*)(*)(*)(*)(*)

گیت

میرا جلتا ہی جہان چھوڑ دو
چھوڑ دو میری جان چھوڑ دو

شور سنتا ہوں تمہارا رات دن
بولنا بے تکان چھوڑ دو

جن امیدوں کے سہارے جیتا تھا
اُن کا کوءی تو نشان چھوڑ دو

گر چکے سب محل خوابوں کے
خاک اڑ لے آسمان چھوڑ دو

پھر بلاءوں تو بہاریں لوٹ آءیں
کوءی ایسا امکان چھوڑ دو

(*)(*)(*)(*)(*)(*)(*)(*)(*)

میرے دِل نوں بھاءی
اک ٹردی پھردی پرچھاءی

حیرت دی وسدی دنیا
اینی کیونکر یکتاءی

پہلوں اپنے پاس بلاءے
بعدوں کردا بے پرواہی

دل سچا ای ڈردا سی
خورے ہووے ہرجاءی

(*)(*)(*)(*)(*)(*)(*)(*)(*)

سب جر جاوو ہُن کی غم جے
کدوں ٹرنا ہر کسے دا کم جے

جنہاں تھماں چبارے چاءے نیں
نہ پاسکوں انہاں دے ہم جے

ایہہ پینڈے بڑے ہی صبر والے
نہیں پورے ہوندے اک دم جے

(*)(*)(*)(*)(*)(*)(*)(*)(*)

پیر، 13 جولائی، 2009

طاقت کا تنزل


یہ ڈاکٹر مبارک علی کی ایک تحریر کا ترجمہ ہے، جو کہ بارہ جولاءی ۲۰۰۹ بروز اتوار انگریزی روزنامہ ڈان میں چھپی تھی۔

طاقت کا تنزل
کسی سلطنت کے گرنے کی تاریخ پڑھیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ تباہی بالکل اچانک نہیں آتی بلکہ آہستہ اور بتدریج ہوتی ہے، جوکہ سیاسی، سماجی، اور معاشی بنیادوں کو اتنا کمزور کر دیتی ہے کہ گرتی ہوءی دیوار کو کسی معمولی حادثے یا سانحے کا دھکا ہی کافی ہوتا ہے۔
ایسی ایک مثال مغل سلطنت ہے جس کی بنیاد بابر نے (1526 - 30) رکھی تھی۔ اس سلطنت کو اکبر نے (1556 - 1605) پھیلایا اور مضبوط کیا، اکبر نے ریاست کے ادارے بڑے مکمل طریقے سے ترتیب دیے۔ ان اداروں کی تفصیلات اور انکے بناءے جانے کی روداد ابوالفضل کی کتاب "عنایہ اکبری" میں لکھی ہیں، اور ان سے اکبر کی عقلمندی کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ ادارے شاندار طریقے سے کام کرتے رہے جب تک کہ صورتحال ان کے کام کرنے کے لیے ٹھیک تھی۔ بہرحال، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نءے مساءل پیدا ہوءے اور نءی طاقتیں وجود میں آءیں جن سے نمٹنے کے لیے انتظامی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت تھی۔
مغل ریاست ایسی تبدیلیاں لانے میں ناکام رہی اور پرانے نظام کو جاری رکھنے پر ہی زور دیتی رہی کیونکہ یہ نظام "منصب داروں" کو فاءدے اور سہولتیں مہیا کرتا تھا، منصب دار بیورو کریٹس یا سرکاری افسر تھے جو کہ حکومت میں اونچے مرتبے اور مقام کے مزے لوٹ رہے تھے۔ اُن کی ملکیت میں زمینیں تھیں، وہ دولت رکھتے تھے، اور انہیں بڑے خطابات دیے گءے تھے جن کی وجہ سے معاشرے میں انکا مقام اونچا سمجھا جاتا تھا۔ بعد میں آنے والے وقتوں میں زیادہ تر منصب داروں میں وہ معیار، عقلمندی، اور فرض شناسی نہیں تھی جو کہ ان سے پہلے والوں کا خاصہ تھی۔ افسر شاہی کے اس نظام میں انتطامی مساءل کو ٹھیک طرح سے تقسیم نہ کیا جا سکا اور اسکے نتیجے میں ریاست کمزور ہوءی اور اپنی رِٹ کھو بیٹھی۔
درباری بھی نسلی بنیادوں پر تقسیم ہو چکے تھے مثلاً تورانی (وسط ایشیاء کے لوگ) ، ایرانی اور راجپوت، اس وجہ سے خانہ جنگی اور گروہی فسادات ہوءے، جنکی وجہ سے شاہ اور درباریوں کے تعلقات خراب ہو گءے۔ ہر آنے والا بادشاہ کسی نہ کسی گروہ کے ہاتھوں کھلونا بن جاتا اور انکے مفادات کے لیے استعمال ہوتا رہتا۔ مثال کے طور پر سید برادران اتنے طاقتور تھے کہ بادشاہ بنانے والے مانے جاتے تھے۔
بعد میں آنے والے وقتوں کی سب سے بڑی خاصیت علاقاءی طاقتوں کا اٹھ کھڑے ہونا تھا جن میں کہ مرہٹے، راجپوت، سکھھ، جاٹ، اور روہیلے شامل تھے۔ مغل سلطنت اور درباری ایسے وطن پرست جذبات کو نہیں مانتے تھے اور انہیں قطعاً کوءی جگہ دینے کو تیار نہیں تھے۔ جب ان قوتوں نے بغاوت کی، مغل سلطنت نے اسے اپنی طاقت کے خلاف ایک سنجیدہ خطرہ سمجھا اور بجاءے ان سے مذاکرات کرنے کے یا انکو حکومتی نظام میں شامل کرنے کے انہیں کچلنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا۔ سلطنت کے خلاف بغاوت کو بڑا جرم سمجھا جاتا تھا اور اس سے نمٹنے کا صرف ایک ہی حل، فوج کا استعمال تھا۔
نتیجے کے طور پر ریاست لڑاءیوں کے ایک تسلسل میں پھنس کے رہ گءی اور اسے فوجی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا، اٹھارویں صدی کے اختتام تک اسکے پاس یہ خرچے پورے کرنے کے لیے وساءل ہی نہیں تھے۔ ریاست کا فوجی نظام اب قوم پرست جذبات سے لبریز علاقاءی فوجوں کا سامنا کرنے کے قابل نہ رہا تھا۔ اسکے علاوہ اعلانِ جنگ نے مذاکرات کے تمام دروازے بند کر کے فریقین کے درمیان شدید نفرت پیدا کر دی تھی۔
مغل فوجوں نے "بندہ بیراگی" کو شکست دی، جس نے کہ فرخ سیار (1713 - 19) کے دور میں پنجاب میں بغاوت کا معیار بہتر بنایا۔ اسے قیدی بنا کر 1716 میں قتل کر دیا گیا تھا۔ سکھھ برادری اسی بنیاد پر اُسے اپنا ہیرو سمجھتی تھی، اور انہوں نے مغل سلطنت سے جنگ جاری رکھی۔ بھرت پور کا سورج مل جاٹ (1707 - 1763) اس قدر طاقتور تھا کہ دارالحکومت کے گرد و نواح میں چھاپے مارتا اور لوٹ مار کرتا جبکہ مغل سلطنت اسکا مقابلہ کرنے سے قاصر تھی۔ ان مخالفتوں کے نتیجے میں لوگوں نے اپنی وفاداریاں تبدیل کر لی اور علاقاءی حکمرانوں کے ساتھ لگ گءے، مغل بادشاہ اور ریاست باکل بے اختیار ہو گءے۔
ماضی کا مقابلہ حال سے کریں تو ہم تاریخ سے کچھ سبق سیکھ سکتے ہیں۔ پاکستانی افسر شاہی اپنے اختیارات اور رعایتوں کی وجہ سے ریاست کے خزانے پر ایک مالی بوجھھ بن چکی ہے۔ معاشرے کے نت نءے مساءل کا سامنہ کرنے کے لیے بالکل نا موزوں ہو چکی ہے اور بے ایمانی نے اسکی دیانت اور صلاحیت کو بالکل مغل منصبداری نظام کی طرح متاثر کیا ہے۔ حکومت کرنا ایک مسءلہ بن چکا ہے جسے کہ یہ افسر شاہی حل کرنے میں ناکام ہے۔
سیاسی جماعتوں میں طاقت اور اختیارات حاصل کرنے کے لیے گروہی اختلافات نے بدنظمی اور انارکی پھیلا رکھی ہے۔ یہ سب دیکھھ کر مغل درباریوں کی تمام اخلاقی حدود سے گری ہوءی سازشیں یاد آتی ہیں۔
بلوچستان، سندھ، اور سرحد میں علاقاءی تحریکوں کا اٹھھ کھڑے ہونا نظر انداز کیا جا رہا ہے اور مقتدر طبقہ اسے حکارت کی نظر سے دیکھتا ہے، بالکل مغل ریاست کی طرح۔ جو افراد ریاست کی زور آوری پر مزاحمت کرتے ہیں انہیں گرفتار کر کے تکالیف پہنچاءی جاتی ہیں اور پھر بندہ بیراگی کی طرح قتل کر دیا جاتا ہے۔ اس طرزِ عمل کا نتیجہ ہے کہ اُن علاقوں کے لوگ ملک سے وفاداریاں تبدیل کر کے علاقے سے نبھا رہے ہیں۔ علاقاءی پہچان اب ملکی پہچان کے مقابلے میں برتر ہے اور غیرت کا مسءلہ بن چکی ہے۔
صوبہ سرحد میں حالیہ جنگ نے فوج کو ایک ایسی صورتحال میں پھنسا دیا تھا جو کہ آسانی سے حل نہیں ہو سکتی تھی بالکل سورج مل جاٹ کی طرح، جس نے کہ اپنی ایک الگ ریاست بنا لی تھی، مغلوں سے آزاد۔
نتیجے کے طور پر پاکستانی ریاست اور اسکے ادارے اپنا بھروسہ اور وقار کھو چکے ہیں۔ سیاسی اور مالی طور پر ریاست اس قدر کمزور ہے کہ اسکی زندگی اپنے وساءل کے بجاءے بیرونی امداد کی مرہونِ منت ہے۔ یہ بھی ایک کٹھھ پتلی ریاست بنتی جا رہی ہے مغلوں کی طرح سے جنہوں نے کہ پہلے مرہٹوں کی اور پھر ایسٹ انڈیا کمپنی کی طاقت کا سہارا لیا تھا۔

بدھ، 8 جولائی، 2009

پروین شاکر کی ایک غزل

پروین شاکر کی ایک غزل

راہِ دشوار کی جو دھول نہیں ہو سکتے
ان کے ہاتھوں میں کبھی پھول نہیں ہو سکتے
تیرے معیار پہ پورے نہ اُترنے والے
منصب عشق سے معذول ہو نہیں سکتے
اتنا خوں ہے مرا گلشن میں کہ اب میرے خلاف
پیڑ ہو جاءیں مگر پھول نہیں ہو سکتے
حاکمِ شہر کے اطراف وہ پہرہ ہے کہ اب
شہر کے دکھ اُسے موصول نہیں ہو سکتے
فیصلے جن سے ہو وابسطہ وطن کی قسمت
صرف اندازوں پہ محمول ہیں ہو سکتے
خون پینے کو یہاں کوءی بلا آتی ہے
قتل تو روز کا معمول نہیں ہو سکتے
جنبش ابروءے شاہاں نہ سمجھنے والے
کسی دربار میں مقبول نہیں ہو سکتے

پیر، 6 جولائی، 2009

ذکی الرحمٰن چوہدری، المعروف پہلوان جی


جناب یہ بندہ جسکا میں آج ذکر کرنے جا رہا ہوں، بڑا ہی شہزادہ بندہ ہے اور میرا اصلی والا جگر ہے۔ مطلب کہ خالی خولی کہنے کو جگر نہیں، بالکُل ایک نمبر جگر ہے۔ ملاقات بی سی ایس کے پہلے سمسٹر میں ہوءی تھی، سارا بی سی ایس ہم چار دوستوں کا گروپ رہا اور یہ بندہ اُس گروپ کا نیوکلیس تھا۔ ہمارے گروپ میں سب سے زیادہ ملتی جلتی طبعیت ہم دونوں کی تھی۔ بہرحال، ذکی صاحب اخیر ہی جنونی آدمی واقع ہوءے ہیں، میں جذباتی ہوں لیکن جلدی ٹھنڈا پڑ جاتا ہوں ذکی تو جس چیز کے پیچھے پڑ جاءے اُسے کہیں پہنچا کر ہی دم لیتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ذکی صاحب سے دوستی ہونے سے پہلے مجھے پتہ ہی نہیں تھا کہ پڑہتے کیسے ہیں، اور آخر پڑھنے کا مقصد کیا ہے؟ زیادہ تر سٹوڈنٹس کا مسءلہ یہی ہے، کہ ہمارے بنیادی تصورات ہی نہیں بنے ہوتے۔ ہمیں یہ ہی نہیں پتہ ہوتا کہ آخر پڑھنا کس لیے ہے؟ فاءز سیال نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ اگر آپ کو پتہ چل جاءے کہ اس کلاس روم  میں جو آپکا رویہ ہے، آج سے دس سال بعد آپ پر اس رویے کا کیا اثر ہو گا تو یقیناً آپ کا دماغ ٹھکانے آ جاءے۔

آجکل ذکی انگلینڈ سے ایم ایس سی کمپیوٹر ساءنسز کر رہا ہے، اور اطلاعات کے مطابق پڑھاءی کے علاوہ ٹکا کے کام بھی کرتا ہے۔ ثبوت اسکے گھر کے بدلے ہوءے حالات ہیں۔ اکثر لوگ کہتے ہیں کہ باہر جا کے یا پڑہا جا سکتا ہے یا کام کیا جا سکتا ہے، لیکن جناب یہ قانون عام لوگوں کے لیے ہے جنونیوں کے لیے کبھی کہیں کوءی قانون بنا ہی نہیں۔ ذکی نے میٹرک کے پیپر برف والے پھٹے پر بیٹھ کر برف بیچتے ہوءے دیے تھے۔میرا مطلب ہے کہ تیاری وہاں بیٹھ کر کی تھی، کءی فنکار لوگ اس بات سے یہ پہلو بھی نکال لیں گے کہ جناب امتحانی سنٹر میں کرسیاں نہیں تھیں تو بیچارے کو سکول کے باہر برف والے پھٹے پر بٹھا دیا، ایسی کوءی بات نہیں۔

عدنان جاوید بٹ بھی ہمارے ساتھ ہی بیٹھتا اٹھتا تھا، بٹ صاحب کا وزن ذکی سے کوءی دوگنا تھا، ذکی اور بٹ ایک ساتھ جِم جایا کرتے تھے۔ اور ذکی بٹ کے برابر وزن اٹھایا کرتا تھا، تو جناب جب ذکی ورزش کر رہا ہوتا تھا تو نءے آنے والے رُک کے دیکھا کرتے تھے کہ یہ چڑا سا نوجوان اتنا زیادہ وزن کیسے اٹھا رہا ہے۔ بہرحال وہی بات ہے کہ جنونی بندے سے کچھ بھی بعید نہیں۔

ذکی صاحب ورزش سے واپس آ کر کیلے کا ملک شیک بنا کر پیا کرتے تھا، پورا جگ۔ ایک دن مجھے کہتا ہے یہ لے ملک شیک پی عیاشی کر۔ ملک شیک کا پہلا گھونٹ لگاتے ہی مجھے شک ہو گیا کہ بھاءی نے کوءی قانون لگایا ہو ہے۔ میں نے پوچھا کہ ذکی اس ملک شیک میں کیا کیا ڈالا تھا تم نے؟ کہتا ہے آدھا کلو دودھ، چھے کیلے اور ایک گلاس پانی۔ پانی کی وجہ سے ملک شیک پتلا پتلا محسوس ہو رہا تھا۔ میں نے کہا کہ بھاءی پانی کیوں، ملک شیک کی کچی لسی بنا رہے ہو کیا؟ کہتا ہے کہ نہیں یار ملک شیک زیادہ کرنے کے لیے۔ اس بات کو لے کر ذکی صاحب کا بڑا توا لگا، چوہدری تصدق عباس ہمارے گینگ کا چوتھا ممبر باتوں کا بڑا تیز بندہ ہوا کرتا تھا۔ جب کورم پورا ہوا، یعنی کہ ذکی، بٹ، تصدق، اور میں ایک جگہ بیٹھے تو بڑا ماحول بنا۔ بنیادی نقطہ یہ تھا کہ بھاءی مقدار نہیں، معیار کو اہمیت دینی چاہیے۔

ویسے آپس کی بات ہے، معیار اچھا  ہونا لاکھ ضروری صحیح اگر مقدار کم ہو اور بندے کی بھوک نہ مٹے تو بھی گزارا نہیں ہوتا۔ مثلاً میں کبھی کبھی کاک اینڈ بُل سے کھانا منگواتا ہوں، اُن لوگوں کا عجیب ہی حساب ہے کبھی چاول کم اور کبھی زیادہ۔ جب بھوک لگی ہو اور چاول ملیں کم، تو بہت غصہ آتا ہے کہ یار یہ کیا تماشا ہے، ابھی تو پیٹ ہی نہیں بھرا اور چاول ختم۔ خیر بھوک رکھ کے کھانا ہی بہتر ہوا کرتا ہے۔

پہلے تین سمسٹر یعنی کہ ڈیڑھ سال ہم لوگ گجرات رہے، اسکے بعد لاہور چلے آءے۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اپنے طالبعلموں کو یہ سہولت فراہم کرتی ہے کہ وہ مطالعاتی مرکز اپنی سہولت کے مطابق تبدیل کروا لیں ہمارا کورس جوں کا توں چلتا رہا اور ہم لاہور چلے آءے صرف مطالعاتی مرکز این سی سی ایس گجرات سے تبدیل ہو کر این کے فیکٹ لاہور ہو گیا۔  لاہور آنے کی بنیادی وجہ بھی ذکی صاحب کے پیٹ میں اٹھنے والے مڑوڑ تھے۔ ہم سے ایک سمسٹر پہلے ہماری ہی کلاس کے چار لوگ لاہور چلے گءے تھے۔ جب کبھی وہ لوگ گجرات آتے تو ہمیں دکھاتے کہ یہ پریزینٹیشن ہمارے ٹیچر نے دی ہے، اور جناب ہماری کلاس میں ایک لڑکا ہے اس نے یہ گیم بناءی ہے تو ذکی صاحب کو مڑوڑ اٹھنا شروع ہو جایا کرتے تھے۔ کہ دنیا چاند پر پہنچ گءی اور ہم پیچھے رہ گءے۔ اسکے علاوہ ذکی صاحب کو جاب کرنے کا بھی شوق تھا کہ یار کچھ کرنا ہے۔

ذکی کا ہاسا بھی مشہورِ زمانہ تھا، بلند آہنگ اور نان سٹاپ۔ اگلا بندہ کنفیوز ہی ہو جاتا کہ یار پتہ نہیں میرے سر پہ سینگ نکل آءے ہیں جو یہ صاحب ایسے ہنسی جا رہے ہیں۔ ایک مرتبہ ذکی کا جبڑا اٹک گیا، وہ بھی بڑی مزے کی صورتحال بنی تھی۔ جماءی لینے کے لیے منہ ذرا زور سے کھول لیا تو جبڑوں نے واپس اپنی جگہ پر جانے سے انکار کر دیا، بندے کامنہ کھلے کا کھلا۔ ہم لوگوں کا اٹھنا بیٹھنا گراءونڈ فلور والی بیٹھک میں ہوا کرتا تھا جبکہ ذکی کے گھر والے اوپر کے حصے میں ہوتے تھے۔ ذکی صاحب اتفاق سے اُس وقت اکیلے تھے، اوپر جا کے گھر والوں کو بتانا چاہا تو بڑا مزیدار سین بنا۔ ہونٹ ہلاءے بنا بول نہیں سکتا، اوں آں کر رہا تھا جسکی کسی کو کوءی سمجھ نہیں آ رہی تھی الٹا وہ بیچارے پریشان ہو گءے کہ پتہ نہیں پڑھ پڑھ کے لڑکے کا دماغ چل گیا ہے۔ خیر ڈاکٹر کے پاس گءے اسنے کوءی طاقت کا انجیکشن لگایا اور پتہ نہیں کس طرح سے باغی جبڑے کو واپس اصلی جگہ پر لے آیا۔

ایسے ہی ذکی صاحب کا پانی مُک جایا کرتا تھا، رات کو پراٹھا کھا کر فوراً ہی سو گیا صبح اٹھا تو پیٹ خراب اگلی شام تک پانی ختم اور چوہدری کو بابا عزراءیل نظر آنے شروع ہو گءے۔ بہر حال بابا جی ہر مرتبہ اکیلے ہی واپس گءے، شکر ہے چوہدری کو ساتھ نہیں لے گءے۔ اللہ معاف کرے میں بھی کیسی گندی باتیں کر رہا ہوں، جُگ جُگ جیے چوہدری ذکی پہلوان۔

لاہور آ کے تو ہم لوگ سارا وقت ایک دوسرے کے ساتھ ہی رہتے تھے، گجرات رہتے ہوءے بھی چوبیس گھنٹے سر پر سوار رہا کرتے ہر وقت ذکی کے گھر۔ میرے گھر والے تو گاءوں میں تھے اور میں گجرات میں اکیلا لیکن عدنان بٹ اور تصدق بھی زیادہ تر وقت ذکی کی طرف ہی گزارتے تھے۔ ذکی کی امی بھت اچھی طبعیت کی ہیں، انہوں نے بھی کبھی فرق نہیں رکھا تھا بالکل اپنے بچوں کی طرح خیال رکھتی تھیں۔ بریانی اور دال چاول زبردست بناتی ہیں، اور بھی چیزیں اچھی ہوتی ہیں لیکن مجھے ویسے بھی چاول پسند ہیں۔

ایک مرتبہ عید والی دن تصدق چلا گیا ذکی کے گھر ملنے، آنٹی نے کافی کچھ کھانے کے لیے بھجوا دیا۔ تصدق نے تو تھوڑا بہت کھایا اور جلدی اٹھ کے نکل گیا لیکن جب ذکی کھانے کے برتن واپس اوپر لے جانے لگا تو سیڑھیوں میں اُسکی نیت خراب ہو گءی۔ نتیجہ، کچن میں بالکل خالی برتن پہنچے۔ کچھ دن بعد شاید آنٹی نے تصدق سے کوءی بات کی کہ وءی تو تے ہویا "منہ چوہی، ٹڈ کھوءی"  تصدق نے اُس وقت تو چپ کر کے سن لیا لیکن بعد میں ذکی نے خود ہی بتا دیا کہ اس بیان کا پس منظر کیا تھا۔ مطلب کاررواءی ذکی نے ڈالی اور بدنام ہو گیا تصدق،  کر لو گل۔

 اور کیا کیا لکھوں، ابھی لاہور جانے کے بعد کا تو ایک بھی وقوعہ نہیں بتایا۔ عدنان بٹ اور چوہدری تصدق عباس ملہی پر لکھنے بیٹھوں گا تو وہ ایک اور پنڈورہ بکس کھل جاءے گا، انشاءاللہ کسی وقت لکھوں گا۔ ذکی کا چھوٹا بھاءی زبیر علی بھی بڑی دلچسپ شخصیت ہے، اب تو بہت تبدیل ہو گیا ہے جان شان بنا لی ہے باڈی بلڈنگ کے کافی مقابلوں میں حصہ بھی لے چکا ہے۔ جب میرا چھوٹا بھاءی عدیل ایف ایس سی کرنے میرے پاس گجرات آیا تو ان دونوں کی اچھی دوستی بن گءی تھی، دونوں کا کالج اور مضامین بھی ایک ہی تھے۔ گورنمنٹ سرسید کالج فار بواءز ریلوے روڈ گجرات۔

جمعرات، 2 جولائی، 2009

میرا موبائل گواچا

آج میں لکھوں گا کہ میرے کون کون سے موبائل فون گُم ہوئے اور کیسے گُم ہوَے۔ ابھی تک میں کُل تین فون گُم کر چکا ہوں۔ اِس کے علاوہ ایک ایسے فون کا قصہ بھی بیان کروں گا، جو کسی کا گواچاہوا مجھےملا تھا۔


Nokia 1100


یہ فون میں نے سن 2005 میں خریدا تھا، جب آتش جوان تھا۔ اُن دنوں میں فاسٹ میں "اعلٰ تعلیم" حاصل کر رہا تھا۔ شام کو کھانا کھانے نکلا، تو فون قمیض کی سامنے والی جیب میں تھا۔ ایک جگہ چلتے چلتے میں نے اپنے گھٹنے پر خارش کی اور چلتا چلا گیا۔ ہوٹل پہنچ کر کچھ کھانے کے لیے کہا، اور ٹی وی دیکھنے لگ پڑا۔ کسی کا فون بجا، رِنگ ٹون میرے فون والی ہی تھی۔ میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا توجناب فون ندارد ۔ میں نے اُس بندے سے جا کر پوچھ لیا کہ "یار میرا فون آپکے پاس ہے" وہ بیچارہ میری شکل دیکھنا شروع۔ کہتا ہے کہ نہیں بھاَی جی، میرا اپنا فون ہے یہ دیکھ لیں۔ توجناب میں اسی بندے کے فون سے اپنا نمبر ملایا، رِنگ جا رہی تھی اور جاتی رہی لیکن کسی نے اٹھایا نہیں۔ مجھے یاد آیا کہ ایک جگہ چلتے چلتے جھکا تھا وہیں نا گرگیا ہو۔ میں جی بھاگم بھاگ اُس جگہ پہنچ گیا۔ لیکن فون نہ ملنا تھا، نہیں مِلا۔ کمرے میں واپس آ کر بھی، میں ٹرا ئی پہ ٹرا ئی کرتا رہا۔ ایک مرتبہ کسی بندے نے فون اٹھایا لیکن کسی بات کاجواب نہیں دیا اور کاٹ دیا۔ دعا تو مانگی کہ کوئی بندے دا پُتر ہواورواپس کردے، لیکن کوئی چکر ہی نہیں۔ فون واپس نہیں مِلا۔


Nokia 6300



اُن دنوں یہ فون مارکیٹ میں نیا نیا آیا تھا۔ میرے ایک کزن نے مجھے گفٹ کیا، مجھے پسند بھی تھا۔ خیر جناب ایک سہانی شام کو میں اپنے کمرے کی گلی والی سیڑھیوں میں نیکر پہنے بیٹھا تھا، کہ میرا دوست عدنان آیا اور کہنے لگا "یار روٹی لے آ بازار سے جا کے، آج آنٹی نہیں آئی" ۔ میں خراماں خراماں تِکّوں والی دوکان کی طرف چل پڑا۔میں بیٹھا تھا سب سے اوپر والی سیڑھی پراور اترتے وقت بلاوجہ ہی گھسیٹ گھسیٹ کر سیڑھیاں اترا تھا۔ کھانا لے کر پیسے دینے کے لیے جیب میں ہاتھ ڈالا تو پتہ چلا کہ موبائل تو ہے ہی کوئی نہیں۔ پیسے دے کر میں فٹا فٹ واپس گھر آیا اور پبلک
سے گمشدہ موبائل کے بارے میں تفتیش شروع کر دی۔ دوستوں کے موبائلز سے اپنے نمبر پر کال بھی کی پہلے رِنگ جاتی تھی بعد میں آپکے مطلوبہ نمبر سے فی الحال جواب موصول نہیں ہو رہا، یعنی کہ نتیجہ صفر۔ مجھے بڑا ہی غصہ آیا، خود پراپنی لاپرواہی کی وجہ سے اور اُس بھوتنی کے پر جسکی نیت ایک موبائل فون کو دیکھ کر خراب ہو گئی۔


Blackberry 7290




مارچ 2008 میں خریدا ہوا یہ فون بھی مجھے بہت پسند تھا۔ اس فون کا پورا کی پیڈ بڑی مزےدار چیز تھا۔ فون تھا بھی ذرا مختلف، کیونکہ اس میں اوپر نیچے مینو میں گھومنے کے لیے بٹن نہیں تھےبلکہ ایک ٹریک وہیل تھا۔ میں نے ڈبہ بند خریدا تھا اور ڈبے میں چارجر کے علاوہ ایک فون کے لیے ایک ہولسٹر بھی تھا۔ ہولسٹر خطرناک لفظ ہے، سن کر فوراً دھیان پستول کی طرف جاتا ہے۔ ویسے ہمارے یہاں موبائل فونز کے ساتھ اس قسم کے ششکے آتے نہیں ہی، بہر حال یہ ہولسٹر ڈبے میں سے نکل آیا تھا۔ گھوسٹ سافٹ ویئر سے ملازمت چھوڑنے کے بعد میں کوئی پندرہ دنوں کے لیے گھر گیا تھا۔ کام نہ ہونے کی وجہ سے یہ دِن ویسے بھی کافی پریشان کُن تھے۔ صبح اباّ جی کے لیے اخبار لینے موٹر سائیکل پر کڑیانوالہ گیا، واپسی پر کافی تیز آ رہا تھا۔ فون ہولسٹر میں ڈال کر شلوار کے ساتھ لگایا ہو تھا۔


واپس آ کر ہاتھ مارا تو فون غائب۔ میں واپس گیا، اس امید پر کہ شاید کہیں دکھائی دے جائے۔ کیونکہ یقیناً موٹر سائیکل پر بیٹھے ہوئے ہی کہیں گِرا ہو گا۔ شام تک میں کال کرتا رہا، لیکن کسی نے اٹھایا نہیں۔ اس وجہ سے مجھے لگتا ہے کہ فون کسی ایسی جگہ گرا تھا جہاں کسی کی نظر نہیں پری ہو گی۔ ایک اور بات، رات کو سوتے وقت میں عموماً فون کا گلا دبا دیتا ہوں۔ مطلب سائیلنٹ یعنی خاموش کر دیتا ہوں۔خیر، یہ فون تو اِس طرح گم گیا۔ اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ کسی کو ملا بھی نہیں ہو گا سڑک کے کنارے ہی جھاڑیوں میں پڑا ہو گا۔



اب باری آتی ہے اُس فون کی، جو کہ میرے ہتھے چڑھا تھا۔


Nokia 5300 Music Phone

   



اسی سال کی بات ہے، تھوڑے ہی مہینے پہلے فاسٹ میں سافٹ ٹیک سالانہ نمائش لگی تھی۔ میں اور میرا ہائوس میٹ زبیر وہاں گھومنے پھرنے گئے۔ کافی رونق میلہ تھا۔ میرا بلیک بیری گُم ہوئے تھوڑے ہیدِن ہوئے تھے، اور مجھے فون کی ضرورت تھی۔ بھئی اسکا مطلب یہ مت نکال لینا کہ میں وہاں فون کا شکار کرنے گیا تھا۔ اس نمائش میں بچوں کے آئیڈیاز کا بھی ایک حصہ ہوتا ہے۔ گھوم گھام کر ہم لوگ اُس طرف نکل گئے، ماشاءاللہ کافی اچھے آئیڈیاز تھے بچوں کے، اور کافی خوبصورت اُستانیاں بھی۔ وہاں میری نظر روسٹرم پہ رکھے ایک عدد فون پر پڑی، جس کا کوئی والی وارث دکھائی نہیں دے رہا تھا۔

میں نے زوبی سے کہا کہ یار وہ دیکھ فون، اُسنے فون اٹھا لیا اور ایک دو مرتبہ ہوا میں لہرا کہ آواز لگائی کہ یہ کس کا ہے؟ ایک دو کوششوں کے بعد جب کوئی جواب نہ آیا تو زوبی کہتا ہے کہ یار جیب میں ہی ڈال لوں، ایویں ای کوئی اور آ کے کہہ دے گا کہ میرا ہے۔ اسکے بعد ہم لوگ باہر آ گئے، گھنٹہ بھرگھومے پھرے کھایا پیا اور گھر کی طرف آ گئے۔ فردوس مارکیٹ اتر کے میں نے زوبی سے کہاکہ یار موسم اچھا ہے، چل حفیظ سنٹر چلتے ہیں مجھے موبائل خریدنا ہے۔ ابھی ہم بس سٹاپ پر ڈیوو کا انتظار کر ہی رہے تھے کہ فون بجا۔ زوبی نے اٹھایا تو کسی نے فون والی کا پوچھا، شاید کوئی لڑکا تھا۔
زوبی نے بتا دیا کہ ایسے ایسے مجھے فون ملا ہے اور آپ اُسے بتا دیں۔ ذرا دیر بعد فون کی مالکن نے فون کھڑکا دیا۔ کچھ ایسی گفتگو ہوئی

بچی: میرا فون آپکے پاس ہے۔
زوبی: ہاں جی بالکل۔
بچی: آپ کو ملا تھا تو آپ مجھے واپس دے کر جاتے۔
زوبی: آپ نے فون ہی نہیں کیا ورنہ ہم کافی دیر فاسٹ میں گھومتے رہے تھے۔
بچی: تو اب واپس کر کے جائیں۔
زوبی: فون آپکا ہی ہے، مجھے کوئی شوق نہیں رکھنے کا لیکن ابھی میں نہیں آ سکتا۔
بچی: وٹ دا ہیل میرے کنٹیکٹس ہیں اُس میں۔ آپ ابھی دے کر جائو۔
زوبی: وٹ دا ہیل والی اس میں کونسی بات ہے بی بی۔ تمیز سے بات کریں۔
بچی: وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔
زوبی: اچھا تو میں اسے بند کر کے جیب میں ڈال رہا ہوں، لے سکتی ہو تو لے لو۔

ہم لوگ حفیظ سنٹر چلے گئے، وہاں جا کر زوبی نے فون آن کیا۔ ایک لڑکے کا فون آیا، زوبی نے مجھے پکڑا دیا۔ بات ہوئی، وہ کہتا ہے کہ آپ لوگ کہیں بھی ہییں میں خود آ کر فون لے جاتا ہوں۔ لیکن میں نےکہہ دیا کہ یار ہم لوگ لاہور سے باہر جا رہے ہیں، کل پرسوں واپس آئیں گے تو خود فون کریں گے تب لے جانا۔ میں نے نوکیا بارہ سو خریدنا تھا، اس دوران لڑکی کے والد کا فون آ گیا اور زوبی نے سنا۔ بابا جی سے زوبی نے کہا کہ جناب فون آپکا ہی ہے ہمارے قبضہ کرنے کا کوئی ارادہ اگر ہوتا تو ملتے ہی سِم نکال کر پھینک دیتے۔ وہ کہتے ہیں کہ یار جانے دو غصہ، بچی ہے اور اب رو رہی ہے اُسکی کسی فرینڈ نے مجھے فون کیا تھا کہ یہ مسئلہ ہے۔ لڑکیاں تو ہوتی ہی بےوقوف ہیں وغیرہ وغیرہ۔ دھیان رہے، یہ بابا جی نے کہا تھا میں تو صرف روایت کر رہا ہوں۔ خیر زوبی نے بابے کو گرین سگنل دے دیا کہ ہم حفیظ سنٹر ہیں آپ آ جائیں۔ دس منٹ میں وہ لوگ آ گئے، اپنی کمزور سی مہران میں۔ فرنٹ سیٹ پر ایک صحتمند سی آنٹی بھی تھیں، یقیناً بابا جی کی شریکِ حیات ہوں گی۔ زوبی نے فون بابے کو پکڑایا، اور کہا کہ جناب بچی کو تمیز بھی سکھائیں اور کہیں سے ہو سکے عقل بھی دلوا ہی دیں۔ بزرگ بڑے ممنون تھے، کہنے لگے کہ آئو کوئی ڈرنکس ہو جائیں۔ لیکن ہم لوگوں نے منع کر دیا۔
   

Pak Urdu Installer

Pak Urdu Installer