بندہ اللہ کا چل پڑا، اللہ کا نام لے کر۔ گئے زمانوں میں سفرکوئی آسان کام نہیں ہوتا تھا، مرید دن بھر سفر کرتا اور جہاں کہیں رات آتی جیسے تیسے بسر کر لیتا۔ اسی دوران کھوتی کی طبعییت ناسار رہنا شروع ہو گئی، لیکن مرید نے پرواہ نہ کی اور دے مار ساڈھے چار سفر جاری رکھا۔ بالآخر ایک صبح جب مرید سو کر جاگا تو اسکی پیاری کھوتی دنیا و مافیہا سے بے خبر اوندھی پڑی تھی۔ مری ہوئی کھوتی کی لاش کو دیکھ کر، اوہو مری ہوئی تو آلریڈی لاش ہوتی ہے میرا مطلب ہے کہ کھوتی کی لاش کو دیکھ کر مسافر مرید کو بڑا افسوس ہوا۔ اس نے سوچا کہ یہ وقت تو ساتھ نبھانے کا تھا، لیکن بھلی لوک داغ مفارقت دے گئی۔ خیر کفن تو کھوتیوں کا کوئی کرتا نہیں، اس نے قبر کھودی اور مرحومہ کو دفن کر دیا۔ لیکن خالی خولی دفن کرنے سے اسکے دِل کو تسلی نہ ہوئی، تو اس نے بازار سے پھولوں کی پتیاں خریدیں اور قبر پر نچھاور کر دیں۔ آخر کو یہ کھوتی اسکے پیر صاحب کی نشانی بھی تھی۔
مسافر مرید نے دوبارہ سفر کا آغاز کرنا چاہا لیکن جو بوجھ کھوتی بانٹ رہی تھی اس سے گھسیٹا نہ گیا، سو وہ منہ بنا کر قبر کے سرہانے بیٹھ گیا۔ اسی اثنا میں سورج سر پر آ گیا، اور شاہراہ پر لوگوں کی آمد و رفت شروع ہو گئی۔ ذرا دیر اور گزری تو نزدیکی قصبے کی چند ادھیڑ عمر عورتوں کا ادھر سے گزر ہوا۔ قبر اور قبر کے ساتھ بیٹھے باریش خستہ حال مرید کو دیکھ کر وہ سمجھ گئیں کہ کوئی جینوئن بابا جی ہی دفن ہیں۔ خاموشی سے آ کر جو کلمہ کلام آتا تھا پڑھا، پڑھ کر قبر کے مدفون بزرگ کی ملت کر دیا۔ قبر کے مجاور سے بھی گزارش کی کہ نیک مقاصد کے حصول کے لئے خصوصی دعا فرما دیں۔ ایک بی بی کے پاس سیب تھے، اس نے دو چونمے سے لال سرخ سیب بابا جی کی خدمت میں پیش کر دیئے۔ ایک آدھی نے نیک مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے، یا شاید خریدنے کے لئے نقد و نقد ڈیلنگ یعنی کہ کیش پے منٹ کر دی۔ جدید زمانہ ہوتا تو شاید کریڈٹ کارڈ استعمال کر لیتی، یا بابا جی کے موبائل فون میں ایزی لوڈ ہی کروا دیتی۔ جو بے زر تھیں بابا جی کے گھٹنوں کو ہاتھ لگا کر، اور قبر کی مٹی کو چوم کر شرمندہ شرمندہ ایک طرف ہو لیں۔
اس ساری کارروائی کے دوران چند ٹھرکی بڈھوں کا دربار شریف کے پاس سے گزر ہوا، عجز و نیاز کے شیرے میں لتھڑی ہوئی بڈھیاں دیکھ کر بابوں پر بھی وجد طاری ہو گیا۔ یہ لوگ بھی قبر کے پاس ایک طرف دو زانو ہو کر بیٹھ گئے اور ہونٹ ہلانا شروع کر دیئے، تاکہ لوگ سمجھیں کہ مرحوم بابا جی کی روح کو ایصال ثواب وغیرہ کر رہے ہیں۔ پڑھنا بخشنا کیا تھا، ٹولی میں موجود فربہ بھربھری زنانیوں پر سے نظر یں ہی نہیں ہٹتی تھیں۔
مرید مسافر، جو کہانی کہ اس مقام تک آتی آتی مجاور ہو چکا تھا بھی بڑا گھاگ انسان تھا۔ آخر کو اس نے بھی اتنے سال پیر صاحب کی خدمت میں گزارے تھے، "کام" کی کافی سدھ بدھ اسے بھی تھی۔ اسے یہاں اپنا کیریئر بنتا ہوا صاف دکھائی دے رہا تھا۔ پیر صاحب کے جلوے تو اسکے ذہن میں پہلے سے ہی نقش تھے، فی الحال انہی کی یاد تازہ کر کے پیر صاحب کی طرح اداکاری شروع کر دی۔ آنے والے دِنوں میں اس نے اپنا ایک یونیک سٹائل ڈویلپ کر لیا، اور اس "پروفیشن" میں بڑا نام کمایا۔ دھیرے دھیرے لوگوں کی ریل پیل شروع ہو گئی، لوگ آتے بابا جی انکو کچھ پڑھنے کو اور کچھ کرنے کو بتاتے دیتے۔ جن کا کام اللہ ولوں ہو جاتا انہوں نے بابا جی کی بارگاہ میں آ کر دھمالیں ڈالنی، اور دیگیں بانٹنی شروع کر دیں۔ ہولے ہولے دربار کا احاطہ اور کھاتہ دونوں وسیع ہوتے چلے گئے۔ جن کا کام نہیں ہوتا تھا، انکو بابا جی نیک عمل کرنے، اور برائیوں سے بچنے کی تلقین فرماتے، مزید کچھ عملیات برائے دفع بلیات تجویز فرماتے خاص طور پر اپنے آپ کو ٹھیک کر کے عملیات پوری توجہ سے کرنے کو بھی کہتے۔
دِن ہفتے اور مہینے گزرے، بابا جی نے وِد دی پیسج آف ٹائم باقاعدہ مارکیٹنگ ٹیم تشکیل دے لی۔ اس ٹیم کے افراد عوام الناس کو بابا جی کی کرامات کا حال سناتے، بابا جی کا شجرہ نصب بتاتے، دربار شریف کے مدفون بزرگوں کی چلہ کشی کا حال بیان کرتے۔ ادھر استاد پیر صاحب کو اپنے چہیتے مرید کی یاد نے ستایا، یا عین ممکن ہے سفر پر کسٹوڈین بنا کر بھیجی اپنی کھوتی کی یاد نے ہی آن ستایا ہو کوئی پتہ تھوڑی لگتا ہے۔ استاد جی ڈھونڈھتے ڈھونڈتے بالآخر مرید مسافر مجاور کے دربار شریف تک آن پہنچے۔
استاد جی کو آتا دیکھ کر شاگرد مجاور جو کہ اب بذات خود مدظلہ علیہ، دامت براکتہ وغیرہ ہو چکے تھے اپنی گدی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور استاد جی کا پر تپاک استقبال کیا۔ پھر مریدین و حاضرین سے تخلیہ کی گزارش کی۔ جب سب لوگ چلے گئے تو استاد نے بے تابی سے پوچھا، " میرے مرید آخر تو کس بابے کا مجاور ہو گیا ہے، کون ہے وہ عظم ہستی جس نے یہاں دفن ہو کر تیرے وارے نیارے کر دیئے ہیں؟" ۔ مرید کے پیر صاحب سے اچھے تعلقات تھے، اس لئے اس نے انہیں سچ بتا دیا کہ حضور جو کھوتی شریف آپ نے ہمراہ کی تھی، وہی وفات پر کر یہاں دفن ہے۔
یہ سن کر پیر صاحب دھیمے سے مسکرائے اور بولے
بڑی کرماں والی کھوتی سی، ماں ایہدی میرے کولے دفن وے تے ایہنے ایتھے رونقاں لایاں ہویاں نیں۔
اردو: بڑی برکتوں والی گدھی تھی، ماں اسکی میرے پاس دفن ہے اور اس نےیہاں رونقیں لگائی ہوئی ہیں۔
بظاہر ہوشيار اور سمجھدار مگر حقيقت سے نا آشنا لوگوں کی روئيداد ۔
جواب دیںحذف کریںاگر آپ راولپنڈی سے ٹيکسلا کی طرف جائيں تو ای ايم ای انجنيئرنگ کالج کے بعد سڑک کے بائيں جانب ہی ايک گُنبد زميں سے کافی اُونچا بنا ہوا ہے جس پر ہر ماہ شايد ہزاروں روپے نچھاور کئے جاتے ہيں ۔ اسے ميں نے اور ميرے ساتھيوں نے 1963ء ميں بنتے ديکھا تھا ۔ وہاں کچھ بھی دفن نہيں ہے
آپ نے کہانی کا اختام تو لکھا نہیں کہ "پھر ایک وقت آیا یہ مجاور لوگ پاکستان کے ہر محکمے ہر وزارت بلکہ وزارت عظمیٰ پہ قابض ہوگئے۔ کھوتی بارے تو علم نہیں۔ مگر پاکستان پہ قابض کھوتے ضرور(اپنے اور اپنی اولادوں کے لئیے) بختوں والے ہیں۔ جنہوں نے ساری قوم کو فاقہ مستی کا دم پھونک رکھا ہے۔ واھ شاہ جی!۔
جواب دیںحذف کریںپاکستان کی جی ٹی روڈ ہر کچھ کلومیٹرز کے بعد محترم افتخار اجم صاحب کے بیان کئیے مزار مل جائیں گے۔ جن پہ دن بھر آتے جاتے ڈرائیور بادشا نوٹ پھیکتے ہیں۔
شکر ہے "رونقاں والی کھوتی" جاتے جاتے خالی ہاتھ گئی ورنہ تو رونقیں بڑھتی رہتیں
جواب دیںحذف کریںدرست فرمایا آپ نے اجمل صاحب۔۔۔ ایسے نو سربازوں کی وجہ سے عوام الناس کا اعتبار اصلی اولیاءاللہ سے بھی اٹھ گیا ہے، اصل نقل کا فرق پتہ چل تو جاتا ہے لیکن ذرا مشکل سے۔
جواب دیںحذف کریںگوندل صاحب انشاءاللہ قوم عنقریب ان کھوتوں، اور کھوتے کے پُتروں سے نجات حاصل کر لے گی۔ عوام میں بیداری کی ایک لہر موجود ہے، لوگ بہت اکتا چکے ہیں اپنے نا اہل حکمرانوں سے۔
عامر صاحب رونق لگانے میں مرحوم کا کوئی دوش نہیں ہوتا، کریڈٹ ان شیطان صفت انسانوں کو جاتا ہے جو لاشوں پر اپنی دوکانداری سجا کر بیٹھ جاتے ہیں۔
جب انسان مسب االاسباب کے ہوتے ہوئے بھی اوروں سے اُمیدیں لگانے لگتا ہے تو اُس کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔
جواب دیںحذف کریں