کل دوپہر جب الفتح سے واپس آ رہا تھا تو مین فردوس مارکیٹ میں یہ بڑا سا تباہ کن بلڈوزر نظر آیا۔
لاہوری بھائی سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ بلا اس پلازے کے سامنے میاں شہباز شریف کے بیڑہ غرقی پروگرام کے سلسلےمیں آیا ہے۔ ساتھ میں ملبo اٹھانے کے لئے ٹرک، اور سیکورٹی کے لئے پلس بھی موجود تھی۔ اس پلازے کا نام خان آرکیڈ ہے، کوئی ڈیڑھ دو سال پہلے بھی اس پلازے کے سامنے سے ناجائز طور پر تعمیر شدہ بیسمنٹ کی دوکانیں حکومت پنجاب نے کارروائی کر کے گرائی تھیں۔ وہ منظر زیادہ دلدوز تھا، بالکل کسی فلمی منظر کی طرح۔ دو بڑی بڑی کرینیں دھڑا دھڑ سڑک پر ہتھوڑے برسائے جا رہی ہیں اور خلق خدا دیکھے جا رہی ہے۔ تب پلازے کے مالک نے سائنسدانی کی انتہا کر دی تھی، اللہ کے بندے نے سڑے کے نیچے بیسمنٹ بنا کھود کر دوکانیں بنا کر کرائے پر چڑھا دی تھیں، ہے کوئی گل کرنے والی۔
اس مرتبہ میں خیال میں صرف سیڑھیاں ہی گرانے آئے ہیں۔
وہی بلا، ایک اور زاویے سے، ماشاءاللہ ہماری عوام کو بھی بس کوئی بہانہ مل جائے ہجوم در ہجوم اکٹھے ہو جاتے ہیں تماشہ دیکھنے۔
قانون کے محافظ، سیکورٹی مہیا کرتے ہوئے۔
یہ آخری تصویر فردوس مارکیٹ کے اندر ماڈل کالونی کی ہے۔ اوپر والے مناظر دیکھ کے میں گھر آیا، گھنٹے سارے بعد تیار ہو سہ پہر کو دفتر جانے کے لئے نکلا تو جناب بازار میں یہ بھگدڑ مچی ہوئی تھی۔ یہ ایک ہوٹل والا غریب اپنا ٹین ڈبا سنبھال رہا ہے۔
ریمنڈ ڈیوس کو تو چھوڑ دیا۔۔۔ لیکن غریبوں کی ماں کی آنکھ۔۔۔ ہیں جی۔۔۔ کیا مجال ہے کسی کی جو ناجائز تجاوزات بنائے۔۔۔
اچھا اب لیپ ٹاپ بند ہونے والا ہے، اسکی پاور کیبل دفتر میں ہی بھول آیا ہوں۔
اس لئے۔۔۔ گڈ نائٹ۔۔۔
نعیم بھائی!
جواب دیںحذف کریںآپ صر ف ایک بات پہ غور کریں۔ لاہور پاکستان کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ پاکستانی اور لاہوریوں میں بھی ٹیلنٹ کی کمی نہیں۔ انہیں جو کام دیا جائے بہ احسن طریقے سے کم وسائل کے ساتھ بھی بخوبی انجام دے لیتے ہیں۔
مسئلہ ہمارے حرامخور اداروں اور ان پہ براجمان بڑے عہدیداروں اور سیاستدانوں کی سیاسی سوجھ بوجھ جو ہونے سے ہے ۔ جو کسی بھی مسئلے کا حل براستہ ذاتی اکاؤنٹ نکالتے ہیں۔
ایک مثال۔ یہ جو بلڈوذر ہے اسکے اوپر انگریزہ کے کچھ حروف لکھے ہیں۔ یعنی انگریزی حروف تہجی میں
CASE ... 621B LDA
لکھے ہیں۔ آپ دیکھ لیں ان میں ایل ڈی اے والوں نے ایل ڈی اے کس بھونڈے طریقے سے لکھ رکھا ہے۔ دعواے سے کہا جا سکتا ہے یار لوگوں نے کالے پینٹ اور برش سے خود ہی لکھ دیا ہے۔ بات معمولی سی ہے مگر ہمارے اداروں کی ھڈ حرامی اور دیسی طریقوں کی جسمیں ڈنگ ٹپاؤ سب سے بڑی پالیسی ہے ۔ اسکا پتہ دیتی ہے۔
آپکے خیال میں کیا ایل ڈی اے میں لمبی لمبی ڈکاریں مارنے والوں کو اس بات اور بارے دیگر دورسری اسطرح کی باتوں کا پتہ نہیں ہوگا؟۔ پتہ ہوتا ہے مگر یہ مال مفت سمجھ کر سب آپس میں بانت لیتے ہیں اور برشی سے کام چلا لیتے ہیں۔ یہی کام کسی بھی پینٹر سے نہات اچھے طریقے سے کورایا جاسکتا تھا کہ آخر ایل ڈی اے لاہور کا ایک نمائیندہ ادارہ ہے۔
یہی طریقہ ہمارے سبھی اداروں اور ان میں سے حصہ لینے والے سیاستدان حکمرانوں کا ہے۔ ورنہ کوئی نہ کوئی ان کے کام کینچھتا تو سہی۔