بدھ، 29 جولائی، 2009

کچھ شوگران کے بارے میں

پچھلے ہفتے مطلب پچیس چھبیس تاریخ کو میں شوگران گیا ہوا تھا۔ جس کمپنی میں میں کام کرتا ہوں انہوں نے اس سیر کا پورا خرچہ اٹھایا تھا۔ شوگران پاکستان کے شمال میں ہے، اور سطح سمندر سے تقریباً سات ہزار فٹ بلندی پر واقع ہے۔ ہم گیارہ لوگ لاہور سے جمعہ کی رات کو تقریباً دس بجے نکلے تھے۔ جی ٹی روڈ کے راستے راولپنڈی گءے، راستے میں گجرات کے پاس دریاءے چناب کے کنارے رک کر کھانا کھایا۔ یہ دو تصویریں وہاں اتاری تھیں۔





راولپنڈی سے ہم لوگ ایبٹ آباد گءے، براستہ حسن ابدال اور واہ کینٹ۔ ہم لوگوں کا ارادہ تھا کہ صبح پانچ بجے تک ایبٹ آباد پہنچ جاءیں گے، تھوڑا آرام کر کے دن میں نو دس بجے تک شوگران کے لیے روانہ ہوں گے۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ اول تو ہم لاہور سے آدھا گھنٹہ لیٹ نکلے تھے اسکے بعد چناب پرتقریباً ایک گھنٹہ رکے رہے، اور رہی سہی کسر ایبٹ آباد سے کچھ پہلے رک کر پوری ہو گءی۔ ایبٹ آباد سے کوءی پونے گھنٹے کی مسافت پر ایک پٹرول پمپ پر رکے، کچھ لوگوں نے واش روم جانا تھا۔ لیکن جناب وہاں واش روم صرف ایک تھا، پندرہ بندے باری باری واش روم جاءیں اور ہر بندہ اوسط ڈیڑھ منٹ لگاءے تو بھی تقریباً پچیس منٹ بنتے ہیں۔ سب لوگوں نے نماز بھی پڑھی، شکر ہے کہ وضو کرنے کی جگہ کچھ بہتر تھی۔


خیر جناب ہم لوگ تقریباً صبح سات بجے ایبٹ آباد پہنچے۔ سب متفق تھے کہ یہاں رکنا فضول ہے لیکن ڈراءیور کو تھوڑا آرام دینے کی نیت سے ہم لوگ رک گءے۔
یہاں ایک گڑ بڑ ہو گءی، سب لوگ اپنے اپنے کمروں میں جاتے وقت ڈراءیور کو بالکل بھول گءے اور وہ بیچارہ دو گھنٹے گاڑی میں ہی بیٹھا رہا۔ گیارہ لوگوں کے لیے چار کمرے کراءے پر لیے گءے تھے۔ میں اس قسم کی انتظامی تفصیلات جان بوجھھ کر بتا رہا ہوں، امید ہے کسی پڑھنے والے کے کام آءیں گی۔ خیر جناب نو بجے کے قریب سب جاگے نہا دھو کر فریش ہوءے۔ اور ناشتہ کرنے ہوٹل کے ڈاءننگ میں پہنچ گءے۔ وہاں آ کر ڈراءیور کی آپ بیتی پتہ چلی۔ میرے خیال سے ان معاملات میں ایک بندے کو ڈراءیور کی دیکھھ بھال کا ذمہ دار بنا دینا چاہیے۔ کیونکہ گاڑی چلانے والا ایسے دوروں میں بہت اہم ہوتا ہے۔ ہم لوگوں کا زیادہ تر وقت سفر میں گزرا ، مطلب کہ ڈراءیور کے آسرے پر۔ ڈراءیور کے کھانے پینے سونے کے علاوہ رات کے سفر میں اُس کے ساتھھ باتیں کرنے والا بھی کوءی ہونا چاہیے، ورنہ وہ سو بھی سکتا ہے۔ ڈراءیور حضرات عموماً جی ٹی روڈ پر سفر کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ جی ٹی روڈ پر گہما گہمی ہوتی ہے اور موٹر وے نِرا ویرانہ، بندے کو نیند آ ہی جاتی ہے۔ یہ دورہ کوءی خاص نہیں تھا، کیونکہ ہمارا وقت کچھھ اس طرح سے گزرا

سفر چھتیس گھنٹے
نیند آٹھ گھنٹے
گھومے پھرے چار گھنٹے
کھانا پینا چار گھنٹے

تو جناب اگر تفریحی دورے کو صحیح درست شدھ طریقے سے پلان کیا اور سنبھالا نہ جاءے تو یہ سکون کے بجاءے الٹا تھکن کا باءث بن جاتا ہے۔ آمدنی اٹھنی خرچہ روپیّا والا حساب ہو گیا۔ کم از کم میرا وہاں جانے کا مقصد تھا شوگران سے پیدل سری پاءے جانا، نہ کہ چھتیس گھنٹے بس میں بیٹھے رہنا۔ خیر بس میں کافی شغل میلہ لگا رہا، پھر بھی بنیادی مقصد پہاڑیاں چڑہنا حاصل نہ ہو سکا۔
ایبٹ آباد سے شوگران جانے کے لیے راستہ مانسہرہ اور بالا کوٹ سے ہو کر گزرتا ہے۔ ایبٹ آباد کی خاص باتیں ایوب میڈیکل یونیورسٹی، پاکستان ملٹری اکیڈمی، ایبٹ آباد پبلک سکول، صدر بازار، الیاسی مسجد، شملہ پہاڑی، اور ٹھنڈیانی ہیں۔ ہم لوگ ان میں سے کسی بھی جگہ پر رکے نہیں لیکن ایک ساتھی "شبیر خان آفریدی" کا گھر ایبٹ آباد میں ہے تو ان سے کافی معلومات مل گءیں۔ ایبٹ آباد شمالی علاقہ جات میں بہت ہی آزاد خیال تصور کیا جاتا ہے، کیونکہ سرحد کے کسی اور شر میں آپکو اس قدر خواتین گھومتی پھرتی نظر نہیں آتی۔ صوبہ سرحد میں شرح خواندگی کافی زیادہ ہے۔ مثلاً ہنزہ میں سو فیصد لوگ پڑہے لکھے ہیں۔
اسکے بعد ہم جا رُکے بالا کوٹ سے کچھ آگے دریاءے کنہار کے کنارے۔ یہ دریا جھیل سیف الملوک سے نکلتا ہا، اور وادیء کاغان میں بہتا ہے۔ دریا کا پانی۔۔۔ برف کی طرح ٹھنڈا تھا۔۔۔ دوکانداروں نے جوس بوتلیں ٹھنڈی کرنے کے لیے ڈالوں میں ڈال کر دریا کے پانی میں رکھی ہوءی تھیں۔ یہ تصویر دیکھیں


پہاڑی علاقوں میں پانی کا بہاءو بھی کافی تیز ہوتا ہے لہٰذا دریا کو دیکھھ کر اپنے جذبات قابو میں ہی رکھیے گا۔ ہو سکتا ہے کہ آپ تیر سکتے ہوں لیکن جناب ڈوبتے وہی ہیں جو تیرنا جانتے ہیں۔ دریا کی مزید تصاویر




شوگران پہنچنا ہر گاڑی کے بس کا روگ نہیں، کیونکہ اس علاقے میں کافی لمبی لمبی چڑھاءیاں ہیں۔ ہم کوسٹر میں گءے تھے اور اسکا اے سی بند کرنا پڑ گیا تھا۔ اسکے علاوہ یہاں سڑک بن رہی ہے جسکی وجہ سے کافی دھول مٹی اڑتی ہے۔ ٹریفک جام بھی ایک مسءلہ ہیں، کیونکہ سڑک تنگ ہے۔ سڑک بنانے والی مشینری کی موجودگی میں اکثر اوقات گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں۔ مثلاً

خوش قسمتی سے جس وقت ہم لوگ پہنچے تو یہ قطار کافی دیر کی لگی ہوءی تھی اور کافی لمبی تھی، جلدی جان چھوٹ گءی۔ سری پاءے جانے کا اور شوگران سے واپس آنے کا قصہ انشاءللہ اگلی مرتبہ۔۔۔
فی امان اللہ۔۔۔



پیر، 20 جولائی، 2009

دو چھٹیوں پہ کچھ نہ لکھنے کی تلافی

قارءین، دو چھٹیاں گزر گءیں۔۔۔ اور میں نے کچھ بھی نہیں لکھا۔۔۔ معذرت چاہتا ہوں۔۔۔ یہ میری کچھھ اردو اور پنجابی شاعری ہے۔۔۔ سوچا سنا دوں۔۔۔

عشق سر پر سوار ہونے تک
ہم حسیں تھے، خوار ہونے تک

راستوں کو طویل ہونا تھا
آبلے بے شمار ہونے تک

اُس نے میرا لحاظ رکھا تھا
اُس کے با اختیار ہونے تک

حسن بے شک بڑا مقدس تھا
عشق کے کاروبار ہونے تک

(*)(*)(*)(*)(*)(*)(*)(*)(*)

اندھیروں سے جھگڑتے آفتاب جیسا ہے
وہ حسیں چہرہ گلاب جیسا ہے

میرے پاس ہے تو بھول جا زمانے کو
وصل کا یہ لمحہ خواب جیسا ہے

سمجھنے بیٹھو تو پہیلی الجھتی ہی جاءے
کہنے کو وہ کھلی کتاب جیسا ہے

(*)(*)(*)(*)(*)(*)(*)(*)(*)

گیت

میرا جلتا ہی جہان چھوڑ دو
چھوڑ دو میری جان چھوڑ دو

شور سنتا ہوں تمہارا رات دن
بولنا بے تکان چھوڑ دو

جن امیدوں کے سہارے جیتا تھا
اُن کا کوءی تو نشان چھوڑ دو

گر چکے سب محل خوابوں کے
خاک اڑ لے آسمان چھوڑ دو

پھر بلاءوں تو بہاریں لوٹ آءیں
کوءی ایسا امکان چھوڑ دو

(*)(*)(*)(*)(*)(*)(*)(*)(*)

میرے دِل نوں بھاءی
اک ٹردی پھردی پرچھاءی

حیرت دی وسدی دنیا
اینی کیونکر یکتاءی

پہلوں اپنے پاس بلاءے
بعدوں کردا بے پرواہی

دل سچا ای ڈردا سی
خورے ہووے ہرجاءی

(*)(*)(*)(*)(*)(*)(*)(*)(*)

سب جر جاوو ہُن کی غم جے
کدوں ٹرنا ہر کسے دا کم جے

جنہاں تھماں چبارے چاءے نیں
نہ پاسکوں انہاں دے ہم جے

ایہہ پینڈے بڑے ہی صبر والے
نہیں پورے ہوندے اک دم جے

(*)(*)(*)(*)(*)(*)(*)(*)(*)

پیر، 13 جولائی، 2009

طاقت کا تنزل


یہ ڈاکٹر مبارک علی کی ایک تحریر کا ترجمہ ہے، جو کہ بارہ جولاءی ۲۰۰۹ بروز اتوار انگریزی روزنامہ ڈان میں چھپی تھی۔

طاقت کا تنزل
کسی سلطنت کے گرنے کی تاریخ پڑھیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ تباہی بالکل اچانک نہیں آتی بلکہ آہستہ اور بتدریج ہوتی ہے، جوکہ سیاسی، سماجی، اور معاشی بنیادوں کو اتنا کمزور کر دیتی ہے کہ گرتی ہوءی دیوار کو کسی معمولی حادثے یا سانحے کا دھکا ہی کافی ہوتا ہے۔
ایسی ایک مثال مغل سلطنت ہے جس کی بنیاد بابر نے (1526 - 30) رکھی تھی۔ اس سلطنت کو اکبر نے (1556 - 1605) پھیلایا اور مضبوط کیا، اکبر نے ریاست کے ادارے بڑے مکمل طریقے سے ترتیب دیے۔ ان اداروں کی تفصیلات اور انکے بناءے جانے کی روداد ابوالفضل کی کتاب "عنایہ اکبری" میں لکھی ہیں، اور ان سے اکبر کی عقلمندی کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ ادارے شاندار طریقے سے کام کرتے رہے جب تک کہ صورتحال ان کے کام کرنے کے لیے ٹھیک تھی۔ بہرحال، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نءے مساءل پیدا ہوءے اور نءی طاقتیں وجود میں آءیں جن سے نمٹنے کے لیے انتظامی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت تھی۔
مغل ریاست ایسی تبدیلیاں لانے میں ناکام رہی اور پرانے نظام کو جاری رکھنے پر ہی زور دیتی رہی کیونکہ یہ نظام "منصب داروں" کو فاءدے اور سہولتیں مہیا کرتا تھا، منصب دار بیورو کریٹس یا سرکاری افسر تھے جو کہ حکومت میں اونچے مرتبے اور مقام کے مزے لوٹ رہے تھے۔ اُن کی ملکیت میں زمینیں تھیں، وہ دولت رکھتے تھے، اور انہیں بڑے خطابات دیے گءے تھے جن کی وجہ سے معاشرے میں انکا مقام اونچا سمجھا جاتا تھا۔ بعد میں آنے والے وقتوں میں زیادہ تر منصب داروں میں وہ معیار، عقلمندی، اور فرض شناسی نہیں تھی جو کہ ان سے پہلے والوں کا خاصہ تھی۔ افسر شاہی کے اس نظام میں انتطامی مساءل کو ٹھیک طرح سے تقسیم نہ کیا جا سکا اور اسکے نتیجے میں ریاست کمزور ہوءی اور اپنی رِٹ کھو بیٹھی۔
درباری بھی نسلی بنیادوں پر تقسیم ہو چکے تھے مثلاً تورانی (وسط ایشیاء کے لوگ) ، ایرانی اور راجپوت، اس وجہ سے خانہ جنگی اور گروہی فسادات ہوءے، جنکی وجہ سے شاہ اور درباریوں کے تعلقات خراب ہو گءے۔ ہر آنے والا بادشاہ کسی نہ کسی گروہ کے ہاتھوں کھلونا بن جاتا اور انکے مفادات کے لیے استعمال ہوتا رہتا۔ مثال کے طور پر سید برادران اتنے طاقتور تھے کہ بادشاہ بنانے والے مانے جاتے تھے۔
بعد میں آنے والے وقتوں کی سب سے بڑی خاصیت علاقاءی طاقتوں کا اٹھ کھڑے ہونا تھا جن میں کہ مرہٹے، راجپوت، سکھھ، جاٹ، اور روہیلے شامل تھے۔ مغل سلطنت اور درباری ایسے وطن پرست جذبات کو نہیں مانتے تھے اور انہیں قطعاً کوءی جگہ دینے کو تیار نہیں تھے۔ جب ان قوتوں نے بغاوت کی، مغل سلطنت نے اسے اپنی طاقت کے خلاف ایک سنجیدہ خطرہ سمجھا اور بجاءے ان سے مذاکرات کرنے کے یا انکو حکومتی نظام میں شامل کرنے کے انہیں کچلنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا۔ سلطنت کے خلاف بغاوت کو بڑا جرم سمجھا جاتا تھا اور اس سے نمٹنے کا صرف ایک ہی حل، فوج کا استعمال تھا۔
نتیجے کے طور پر ریاست لڑاءیوں کے ایک تسلسل میں پھنس کے رہ گءی اور اسے فوجی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا، اٹھارویں صدی کے اختتام تک اسکے پاس یہ خرچے پورے کرنے کے لیے وساءل ہی نہیں تھے۔ ریاست کا فوجی نظام اب قوم پرست جذبات سے لبریز علاقاءی فوجوں کا سامنا کرنے کے قابل نہ رہا تھا۔ اسکے علاوہ اعلانِ جنگ نے مذاکرات کے تمام دروازے بند کر کے فریقین کے درمیان شدید نفرت پیدا کر دی تھی۔
مغل فوجوں نے "بندہ بیراگی" کو شکست دی، جس نے کہ فرخ سیار (1713 - 19) کے دور میں پنجاب میں بغاوت کا معیار بہتر بنایا۔ اسے قیدی بنا کر 1716 میں قتل کر دیا گیا تھا۔ سکھھ برادری اسی بنیاد پر اُسے اپنا ہیرو سمجھتی تھی، اور انہوں نے مغل سلطنت سے جنگ جاری رکھی۔ بھرت پور کا سورج مل جاٹ (1707 - 1763) اس قدر طاقتور تھا کہ دارالحکومت کے گرد و نواح میں چھاپے مارتا اور لوٹ مار کرتا جبکہ مغل سلطنت اسکا مقابلہ کرنے سے قاصر تھی۔ ان مخالفتوں کے نتیجے میں لوگوں نے اپنی وفاداریاں تبدیل کر لی اور علاقاءی حکمرانوں کے ساتھ لگ گءے، مغل بادشاہ اور ریاست باکل بے اختیار ہو گءے۔
ماضی کا مقابلہ حال سے کریں تو ہم تاریخ سے کچھ سبق سیکھ سکتے ہیں۔ پاکستانی افسر شاہی اپنے اختیارات اور رعایتوں کی وجہ سے ریاست کے خزانے پر ایک مالی بوجھھ بن چکی ہے۔ معاشرے کے نت نءے مساءل کا سامنہ کرنے کے لیے بالکل نا موزوں ہو چکی ہے اور بے ایمانی نے اسکی دیانت اور صلاحیت کو بالکل مغل منصبداری نظام کی طرح متاثر کیا ہے۔ حکومت کرنا ایک مسءلہ بن چکا ہے جسے کہ یہ افسر شاہی حل کرنے میں ناکام ہے۔
سیاسی جماعتوں میں طاقت اور اختیارات حاصل کرنے کے لیے گروہی اختلافات نے بدنظمی اور انارکی پھیلا رکھی ہے۔ یہ سب دیکھھ کر مغل درباریوں کی تمام اخلاقی حدود سے گری ہوءی سازشیں یاد آتی ہیں۔
بلوچستان، سندھ، اور سرحد میں علاقاءی تحریکوں کا اٹھھ کھڑے ہونا نظر انداز کیا جا رہا ہے اور مقتدر طبقہ اسے حکارت کی نظر سے دیکھتا ہے، بالکل مغل ریاست کی طرح۔ جو افراد ریاست کی زور آوری پر مزاحمت کرتے ہیں انہیں گرفتار کر کے تکالیف پہنچاءی جاتی ہیں اور پھر بندہ بیراگی کی طرح قتل کر دیا جاتا ہے۔ اس طرزِ عمل کا نتیجہ ہے کہ اُن علاقوں کے لوگ ملک سے وفاداریاں تبدیل کر کے علاقے سے نبھا رہے ہیں۔ علاقاءی پہچان اب ملکی پہچان کے مقابلے میں برتر ہے اور غیرت کا مسءلہ بن چکی ہے۔
صوبہ سرحد میں حالیہ جنگ نے فوج کو ایک ایسی صورتحال میں پھنسا دیا تھا جو کہ آسانی سے حل نہیں ہو سکتی تھی بالکل سورج مل جاٹ کی طرح، جس نے کہ اپنی ایک الگ ریاست بنا لی تھی، مغلوں سے آزاد۔
نتیجے کے طور پر پاکستانی ریاست اور اسکے ادارے اپنا بھروسہ اور وقار کھو چکے ہیں۔ سیاسی اور مالی طور پر ریاست اس قدر کمزور ہے کہ اسکی زندگی اپنے وساءل کے بجاءے بیرونی امداد کی مرہونِ منت ہے۔ یہ بھی ایک کٹھھ پتلی ریاست بنتی جا رہی ہے مغلوں کی طرح سے جنہوں نے کہ پہلے مرہٹوں کی اور پھر ایسٹ انڈیا کمپنی کی طاقت کا سہارا لیا تھا۔

بدھ، 8 جولائی، 2009

پروین شاکر کی ایک غزل

پروین شاکر کی ایک غزل

راہِ دشوار کی جو دھول نہیں ہو سکتے
ان کے ہاتھوں میں کبھی پھول نہیں ہو سکتے
تیرے معیار پہ پورے نہ اُترنے والے
منصب عشق سے معذول ہو نہیں سکتے
اتنا خوں ہے مرا گلشن میں کہ اب میرے خلاف
پیڑ ہو جاءیں مگر پھول نہیں ہو سکتے
حاکمِ شہر کے اطراف وہ پہرہ ہے کہ اب
شہر کے دکھ اُسے موصول نہیں ہو سکتے
فیصلے جن سے ہو وابسطہ وطن کی قسمت
صرف اندازوں پہ محمول ہیں ہو سکتے
خون پینے کو یہاں کوءی بلا آتی ہے
قتل تو روز کا معمول نہیں ہو سکتے
جنبش ابروءے شاہاں نہ سمجھنے والے
کسی دربار میں مقبول نہیں ہو سکتے

پیر، 6 جولائی، 2009

ذکی الرحمٰن چوہدری، المعروف پہلوان جی


جناب یہ بندہ جسکا میں آج ذکر کرنے جا رہا ہوں، بڑا ہی شہزادہ بندہ ہے اور میرا اصلی والا جگر ہے۔ مطلب کہ خالی خولی کہنے کو جگر نہیں، بالکُل ایک نمبر جگر ہے۔ ملاقات بی سی ایس کے پہلے سمسٹر میں ہوءی تھی، سارا بی سی ایس ہم چار دوستوں کا گروپ رہا اور یہ بندہ اُس گروپ کا نیوکلیس تھا۔ ہمارے گروپ میں سب سے زیادہ ملتی جلتی طبعیت ہم دونوں کی تھی۔ بہرحال، ذکی صاحب اخیر ہی جنونی آدمی واقع ہوءے ہیں، میں جذباتی ہوں لیکن جلدی ٹھنڈا پڑ جاتا ہوں ذکی تو جس چیز کے پیچھے پڑ جاءے اُسے کہیں پہنچا کر ہی دم لیتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ذکی صاحب سے دوستی ہونے سے پہلے مجھے پتہ ہی نہیں تھا کہ پڑہتے کیسے ہیں، اور آخر پڑھنے کا مقصد کیا ہے؟ زیادہ تر سٹوڈنٹس کا مسءلہ یہی ہے، کہ ہمارے بنیادی تصورات ہی نہیں بنے ہوتے۔ ہمیں یہ ہی نہیں پتہ ہوتا کہ آخر پڑھنا کس لیے ہے؟ فاءز سیال نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ اگر آپ کو پتہ چل جاءے کہ اس کلاس روم  میں جو آپکا رویہ ہے، آج سے دس سال بعد آپ پر اس رویے کا کیا اثر ہو گا تو یقیناً آپ کا دماغ ٹھکانے آ جاءے۔

آجکل ذکی انگلینڈ سے ایم ایس سی کمپیوٹر ساءنسز کر رہا ہے، اور اطلاعات کے مطابق پڑھاءی کے علاوہ ٹکا کے کام بھی کرتا ہے۔ ثبوت اسکے گھر کے بدلے ہوءے حالات ہیں۔ اکثر لوگ کہتے ہیں کہ باہر جا کے یا پڑہا جا سکتا ہے یا کام کیا جا سکتا ہے، لیکن جناب یہ قانون عام لوگوں کے لیے ہے جنونیوں کے لیے کبھی کہیں کوءی قانون بنا ہی نہیں۔ ذکی نے میٹرک کے پیپر برف والے پھٹے پر بیٹھ کر برف بیچتے ہوءے دیے تھے۔میرا مطلب ہے کہ تیاری وہاں بیٹھ کر کی تھی، کءی فنکار لوگ اس بات سے یہ پہلو بھی نکال لیں گے کہ جناب امتحانی سنٹر میں کرسیاں نہیں تھیں تو بیچارے کو سکول کے باہر برف والے پھٹے پر بٹھا دیا، ایسی کوءی بات نہیں۔

عدنان جاوید بٹ بھی ہمارے ساتھ ہی بیٹھتا اٹھتا تھا، بٹ صاحب کا وزن ذکی سے کوءی دوگنا تھا، ذکی اور بٹ ایک ساتھ جِم جایا کرتے تھے۔ اور ذکی بٹ کے برابر وزن اٹھایا کرتا تھا، تو جناب جب ذکی ورزش کر رہا ہوتا تھا تو نءے آنے والے رُک کے دیکھا کرتے تھے کہ یہ چڑا سا نوجوان اتنا زیادہ وزن کیسے اٹھا رہا ہے۔ بہرحال وہی بات ہے کہ جنونی بندے سے کچھ بھی بعید نہیں۔

ذکی صاحب ورزش سے واپس آ کر کیلے کا ملک شیک بنا کر پیا کرتے تھا، پورا جگ۔ ایک دن مجھے کہتا ہے یہ لے ملک شیک پی عیاشی کر۔ ملک شیک کا پہلا گھونٹ لگاتے ہی مجھے شک ہو گیا کہ بھاءی نے کوءی قانون لگایا ہو ہے۔ میں نے پوچھا کہ ذکی اس ملک شیک میں کیا کیا ڈالا تھا تم نے؟ کہتا ہے آدھا کلو دودھ، چھے کیلے اور ایک گلاس پانی۔ پانی کی وجہ سے ملک شیک پتلا پتلا محسوس ہو رہا تھا۔ میں نے کہا کہ بھاءی پانی کیوں، ملک شیک کی کچی لسی بنا رہے ہو کیا؟ کہتا ہے کہ نہیں یار ملک شیک زیادہ کرنے کے لیے۔ اس بات کو لے کر ذکی صاحب کا بڑا توا لگا، چوہدری تصدق عباس ہمارے گینگ کا چوتھا ممبر باتوں کا بڑا تیز بندہ ہوا کرتا تھا۔ جب کورم پورا ہوا، یعنی کہ ذکی، بٹ، تصدق، اور میں ایک جگہ بیٹھے تو بڑا ماحول بنا۔ بنیادی نقطہ یہ تھا کہ بھاءی مقدار نہیں، معیار کو اہمیت دینی چاہیے۔

ویسے آپس کی بات ہے، معیار اچھا  ہونا لاکھ ضروری صحیح اگر مقدار کم ہو اور بندے کی بھوک نہ مٹے تو بھی گزارا نہیں ہوتا۔ مثلاً میں کبھی کبھی کاک اینڈ بُل سے کھانا منگواتا ہوں، اُن لوگوں کا عجیب ہی حساب ہے کبھی چاول کم اور کبھی زیادہ۔ جب بھوک لگی ہو اور چاول ملیں کم، تو بہت غصہ آتا ہے کہ یار یہ کیا تماشا ہے، ابھی تو پیٹ ہی نہیں بھرا اور چاول ختم۔ خیر بھوک رکھ کے کھانا ہی بہتر ہوا کرتا ہے۔

پہلے تین سمسٹر یعنی کہ ڈیڑھ سال ہم لوگ گجرات رہے، اسکے بعد لاہور چلے آءے۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اپنے طالبعلموں کو یہ سہولت فراہم کرتی ہے کہ وہ مطالعاتی مرکز اپنی سہولت کے مطابق تبدیل کروا لیں ہمارا کورس جوں کا توں چلتا رہا اور ہم لاہور چلے آءے صرف مطالعاتی مرکز این سی سی ایس گجرات سے تبدیل ہو کر این کے فیکٹ لاہور ہو گیا۔  لاہور آنے کی بنیادی وجہ بھی ذکی صاحب کے پیٹ میں اٹھنے والے مڑوڑ تھے۔ ہم سے ایک سمسٹر پہلے ہماری ہی کلاس کے چار لوگ لاہور چلے گءے تھے۔ جب کبھی وہ لوگ گجرات آتے تو ہمیں دکھاتے کہ یہ پریزینٹیشن ہمارے ٹیچر نے دی ہے، اور جناب ہماری کلاس میں ایک لڑکا ہے اس نے یہ گیم بناءی ہے تو ذکی صاحب کو مڑوڑ اٹھنا شروع ہو جایا کرتے تھے۔ کہ دنیا چاند پر پہنچ گءی اور ہم پیچھے رہ گءے۔ اسکے علاوہ ذکی صاحب کو جاب کرنے کا بھی شوق تھا کہ یار کچھ کرنا ہے۔

ذکی کا ہاسا بھی مشہورِ زمانہ تھا، بلند آہنگ اور نان سٹاپ۔ اگلا بندہ کنفیوز ہی ہو جاتا کہ یار پتہ نہیں میرے سر پہ سینگ نکل آءے ہیں جو یہ صاحب ایسے ہنسی جا رہے ہیں۔ ایک مرتبہ ذکی کا جبڑا اٹک گیا، وہ بھی بڑی مزے کی صورتحال بنی تھی۔ جماءی لینے کے لیے منہ ذرا زور سے کھول لیا تو جبڑوں نے واپس اپنی جگہ پر جانے سے انکار کر دیا، بندے کامنہ کھلے کا کھلا۔ ہم لوگوں کا اٹھنا بیٹھنا گراءونڈ فلور والی بیٹھک میں ہوا کرتا تھا جبکہ ذکی کے گھر والے اوپر کے حصے میں ہوتے تھے۔ ذکی صاحب اتفاق سے اُس وقت اکیلے تھے، اوپر جا کے گھر والوں کو بتانا چاہا تو بڑا مزیدار سین بنا۔ ہونٹ ہلاءے بنا بول نہیں سکتا، اوں آں کر رہا تھا جسکی کسی کو کوءی سمجھ نہیں آ رہی تھی الٹا وہ بیچارے پریشان ہو گءے کہ پتہ نہیں پڑھ پڑھ کے لڑکے کا دماغ چل گیا ہے۔ خیر ڈاکٹر کے پاس گءے اسنے کوءی طاقت کا انجیکشن لگایا اور پتہ نہیں کس طرح سے باغی جبڑے کو واپس اصلی جگہ پر لے آیا۔

ایسے ہی ذکی صاحب کا پانی مُک جایا کرتا تھا، رات کو پراٹھا کھا کر فوراً ہی سو گیا صبح اٹھا تو پیٹ خراب اگلی شام تک پانی ختم اور چوہدری کو بابا عزراءیل نظر آنے شروع ہو گءے۔ بہر حال بابا جی ہر مرتبہ اکیلے ہی واپس گءے، شکر ہے چوہدری کو ساتھ نہیں لے گءے۔ اللہ معاف کرے میں بھی کیسی گندی باتیں کر رہا ہوں، جُگ جُگ جیے چوہدری ذکی پہلوان۔

لاہور آ کے تو ہم لوگ سارا وقت ایک دوسرے کے ساتھ ہی رہتے تھے، گجرات رہتے ہوءے بھی چوبیس گھنٹے سر پر سوار رہا کرتے ہر وقت ذکی کے گھر۔ میرے گھر والے تو گاءوں میں تھے اور میں گجرات میں اکیلا لیکن عدنان بٹ اور تصدق بھی زیادہ تر وقت ذکی کی طرف ہی گزارتے تھے۔ ذکی کی امی بھت اچھی طبعیت کی ہیں، انہوں نے بھی کبھی فرق نہیں رکھا تھا بالکل اپنے بچوں کی طرح خیال رکھتی تھیں۔ بریانی اور دال چاول زبردست بناتی ہیں، اور بھی چیزیں اچھی ہوتی ہیں لیکن مجھے ویسے بھی چاول پسند ہیں۔

ایک مرتبہ عید والی دن تصدق چلا گیا ذکی کے گھر ملنے، آنٹی نے کافی کچھ کھانے کے لیے بھجوا دیا۔ تصدق نے تو تھوڑا بہت کھایا اور جلدی اٹھ کے نکل گیا لیکن جب ذکی کھانے کے برتن واپس اوپر لے جانے لگا تو سیڑھیوں میں اُسکی نیت خراب ہو گءی۔ نتیجہ، کچن میں بالکل خالی برتن پہنچے۔ کچھ دن بعد شاید آنٹی نے تصدق سے کوءی بات کی کہ وءی تو تے ہویا "منہ چوہی، ٹڈ کھوءی"  تصدق نے اُس وقت تو چپ کر کے سن لیا لیکن بعد میں ذکی نے خود ہی بتا دیا کہ اس بیان کا پس منظر کیا تھا۔ مطلب کاررواءی ذکی نے ڈالی اور بدنام ہو گیا تصدق،  کر لو گل۔

 اور کیا کیا لکھوں، ابھی لاہور جانے کے بعد کا تو ایک بھی وقوعہ نہیں بتایا۔ عدنان بٹ اور چوہدری تصدق عباس ملہی پر لکھنے بیٹھوں گا تو وہ ایک اور پنڈورہ بکس کھل جاءے گا، انشاءاللہ کسی وقت لکھوں گا۔ ذکی کا چھوٹا بھاءی زبیر علی بھی بڑی دلچسپ شخصیت ہے، اب تو بہت تبدیل ہو گیا ہے جان شان بنا لی ہے باڈی بلڈنگ کے کافی مقابلوں میں حصہ بھی لے چکا ہے۔ جب میرا چھوٹا بھاءی عدیل ایف ایس سی کرنے میرے پاس گجرات آیا تو ان دونوں کی اچھی دوستی بن گءی تھی، دونوں کا کالج اور مضامین بھی ایک ہی تھے۔ گورنمنٹ سرسید کالج فار بواءز ریلوے روڈ گجرات۔

جمعرات، 2 جولائی، 2009

میرا موبائل گواچا

آج میں لکھوں گا کہ میرے کون کون سے موبائل فون گُم ہوئے اور کیسے گُم ہوَے۔ ابھی تک میں کُل تین فون گُم کر چکا ہوں۔ اِس کے علاوہ ایک ایسے فون کا قصہ بھی بیان کروں گا، جو کسی کا گواچاہوا مجھےملا تھا۔


Nokia 1100


یہ فون میں نے سن 2005 میں خریدا تھا، جب آتش جوان تھا۔ اُن دنوں میں فاسٹ میں "اعلٰ تعلیم" حاصل کر رہا تھا۔ شام کو کھانا کھانے نکلا، تو فون قمیض کی سامنے والی جیب میں تھا۔ ایک جگہ چلتے چلتے میں نے اپنے گھٹنے پر خارش کی اور چلتا چلا گیا۔ ہوٹل پہنچ کر کچھ کھانے کے لیے کہا، اور ٹی وی دیکھنے لگ پڑا۔ کسی کا فون بجا، رِنگ ٹون میرے فون والی ہی تھی۔ میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا توجناب فون ندارد ۔ میں نے اُس بندے سے جا کر پوچھ لیا کہ "یار میرا فون آپکے پاس ہے" وہ بیچارہ میری شکل دیکھنا شروع۔ کہتا ہے کہ نہیں بھاَی جی، میرا اپنا فون ہے یہ دیکھ لیں۔ توجناب میں اسی بندے کے فون سے اپنا نمبر ملایا، رِنگ جا رہی تھی اور جاتی رہی لیکن کسی نے اٹھایا نہیں۔ مجھے یاد آیا کہ ایک جگہ چلتے چلتے جھکا تھا وہیں نا گرگیا ہو۔ میں جی بھاگم بھاگ اُس جگہ پہنچ گیا۔ لیکن فون نہ ملنا تھا، نہیں مِلا۔ کمرے میں واپس آ کر بھی، میں ٹرا ئی پہ ٹرا ئی کرتا رہا۔ ایک مرتبہ کسی بندے نے فون اٹھایا لیکن کسی بات کاجواب نہیں دیا اور کاٹ دیا۔ دعا تو مانگی کہ کوئی بندے دا پُتر ہواورواپس کردے، لیکن کوئی چکر ہی نہیں۔ فون واپس نہیں مِلا۔


Nokia 6300



اُن دنوں یہ فون مارکیٹ میں نیا نیا آیا تھا۔ میرے ایک کزن نے مجھے گفٹ کیا، مجھے پسند بھی تھا۔ خیر جناب ایک سہانی شام کو میں اپنے کمرے کی گلی والی سیڑھیوں میں نیکر پہنے بیٹھا تھا، کہ میرا دوست عدنان آیا اور کہنے لگا "یار روٹی لے آ بازار سے جا کے، آج آنٹی نہیں آئی" ۔ میں خراماں خراماں تِکّوں والی دوکان کی طرف چل پڑا۔میں بیٹھا تھا سب سے اوپر والی سیڑھی پراور اترتے وقت بلاوجہ ہی گھسیٹ گھسیٹ کر سیڑھیاں اترا تھا۔ کھانا لے کر پیسے دینے کے لیے جیب میں ہاتھ ڈالا تو پتہ چلا کہ موبائل تو ہے ہی کوئی نہیں۔ پیسے دے کر میں فٹا فٹ واپس گھر آیا اور پبلک
سے گمشدہ موبائل کے بارے میں تفتیش شروع کر دی۔ دوستوں کے موبائلز سے اپنے نمبر پر کال بھی کی پہلے رِنگ جاتی تھی بعد میں آپکے مطلوبہ نمبر سے فی الحال جواب موصول نہیں ہو رہا، یعنی کہ نتیجہ صفر۔ مجھے بڑا ہی غصہ آیا، خود پراپنی لاپرواہی کی وجہ سے اور اُس بھوتنی کے پر جسکی نیت ایک موبائل فون کو دیکھ کر خراب ہو گئی۔


Blackberry 7290




مارچ 2008 میں خریدا ہوا یہ فون بھی مجھے بہت پسند تھا۔ اس فون کا پورا کی پیڈ بڑی مزےدار چیز تھا۔ فون تھا بھی ذرا مختلف، کیونکہ اس میں اوپر نیچے مینو میں گھومنے کے لیے بٹن نہیں تھےبلکہ ایک ٹریک وہیل تھا۔ میں نے ڈبہ بند خریدا تھا اور ڈبے میں چارجر کے علاوہ ایک فون کے لیے ایک ہولسٹر بھی تھا۔ ہولسٹر خطرناک لفظ ہے، سن کر فوراً دھیان پستول کی طرف جاتا ہے۔ ویسے ہمارے یہاں موبائل فونز کے ساتھ اس قسم کے ششکے آتے نہیں ہی، بہر حال یہ ہولسٹر ڈبے میں سے نکل آیا تھا۔ گھوسٹ سافٹ ویئر سے ملازمت چھوڑنے کے بعد میں کوئی پندرہ دنوں کے لیے گھر گیا تھا۔ کام نہ ہونے کی وجہ سے یہ دِن ویسے بھی کافی پریشان کُن تھے۔ صبح اباّ جی کے لیے اخبار لینے موٹر سائیکل پر کڑیانوالہ گیا، واپسی پر کافی تیز آ رہا تھا۔ فون ہولسٹر میں ڈال کر شلوار کے ساتھ لگایا ہو تھا۔


واپس آ کر ہاتھ مارا تو فون غائب۔ میں واپس گیا، اس امید پر کہ شاید کہیں دکھائی دے جائے۔ کیونکہ یقیناً موٹر سائیکل پر بیٹھے ہوئے ہی کہیں گِرا ہو گا۔ شام تک میں کال کرتا رہا، لیکن کسی نے اٹھایا نہیں۔ اس وجہ سے مجھے لگتا ہے کہ فون کسی ایسی جگہ گرا تھا جہاں کسی کی نظر نہیں پری ہو گی۔ ایک اور بات، رات کو سوتے وقت میں عموماً فون کا گلا دبا دیتا ہوں۔ مطلب سائیلنٹ یعنی خاموش کر دیتا ہوں۔خیر، یہ فون تو اِس طرح گم گیا۔ اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ کسی کو ملا بھی نہیں ہو گا سڑک کے کنارے ہی جھاڑیوں میں پڑا ہو گا۔



اب باری آتی ہے اُس فون کی، جو کہ میرے ہتھے چڑھا تھا۔


Nokia 5300 Music Phone

   



اسی سال کی بات ہے، تھوڑے ہی مہینے پہلے فاسٹ میں سافٹ ٹیک سالانہ نمائش لگی تھی۔ میں اور میرا ہائوس میٹ زبیر وہاں گھومنے پھرنے گئے۔ کافی رونق میلہ تھا۔ میرا بلیک بیری گُم ہوئے تھوڑے ہیدِن ہوئے تھے، اور مجھے فون کی ضرورت تھی۔ بھئی اسکا مطلب یہ مت نکال لینا کہ میں وہاں فون کا شکار کرنے گیا تھا۔ اس نمائش میں بچوں کے آئیڈیاز کا بھی ایک حصہ ہوتا ہے۔ گھوم گھام کر ہم لوگ اُس طرف نکل گئے، ماشاءاللہ کافی اچھے آئیڈیاز تھے بچوں کے، اور کافی خوبصورت اُستانیاں بھی۔ وہاں میری نظر روسٹرم پہ رکھے ایک عدد فون پر پڑی، جس کا کوئی والی وارث دکھائی نہیں دے رہا تھا۔

میں نے زوبی سے کہا کہ یار وہ دیکھ فون، اُسنے فون اٹھا لیا اور ایک دو مرتبہ ہوا میں لہرا کہ آواز لگائی کہ یہ کس کا ہے؟ ایک دو کوششوں کے بعد جب کوئی جواب نہ آیا تو زوبی کہتا ہے کہ یار جیب میں ہی ڈال لوں، ایویں ای کوئی اور آ کے کہہ دے گا کہ میرا ہے۔ اسکے بعد ہم لوگ باہر آ گئے، گھنٹہ بھرگھومے پھرے کھایا پیا اور گھر کی طرف آ گئے۔ فردوس مارکیٹ اتر کے میں نے زوبی سے کہاکہ یار موسم اچھا ہے، چل حفیظ سنٹر چلتے ہیں مجھے موبائل خریدنا ہے۔ ابھی ہم بس سٹاپ پر ڈیوو کا انتظار کر ہی رہے تھے کہ فون بجا۔ زوبی نے اٹھایا تو کسی نے فون والی کا پوچھا، شاید کوئی لڑکا تھا۔
زوبی نے بتا دیا کہ ایسے ایسے مجھے فون ملا ہے اور آپ اُسے بتا دیں۔ ذرا دیر بعد فون کی مالکن نے فون کھڑکا دیا۔ کچھ ایسی گفتگو ہوئی

بچی: میرا فون آپکے پاس ہے۔
زوبی: ہاں جی بالکل۔
بچی: آپ کو ملا تھا تو آپ مجھے واپس دے کر جاتے۔
زوبی: آپ نے فون ہی نہیں کیا ورنہ ہم کافی دیر فاسٹ میں گھومتے رہے تھے۔
بچی: تو اب واپس کر کے جائیں۔
زوبی: فون آپکا ہی ہے، مجھے کوئی شوق نہیں رکھنے کا لیکن ابھی میں نہیں آ سکتا۔
بچی: وٹ دا ہیل میرے کنٹیکٹس ہیں اُس میں۔ آپ ابھی دے کر جائو۔
زوبی: وٹ دا ہیل والی اس میں کونسی بات ہے بی بی۔ تمیز سے بات کریں۔
بچی: وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔
زوبی: اچھا تو میں اسے بند کر کے جیب میں ڈال رہا ہوں، لے سکتی ہو تو لے لو۔

ہم لوگ حفیظ سنٹر چلے گئے، وہاں جا کر زوبی نے فون آن کیا۔ ایک لڑکے کا فون آیا، زوبی نے مجھے پکڑا دیا۔ بات ہوئی، وہ کہتا ہے کہ آپ لوگ کہیں بھی ہییں میں خود آ کر فون لے جاتا ہوں۔ لیکن میں نےکہہ دیا کہ یار ہم لوگ لاہور سے باہر جا رہے ہیں، کل پرسوں واپس آئیں گے تو خود فون کریں گے تب لے جانا۔ میں نے نوکیا بارہ سو خریدنا تھا، اس دوران لڑکی کے والد کا فون آ گیا اور زوبی نے سنا۔ بابا جی سے زوبی نے کہا کہ جناب فون آپکا ہی ہے ہمارے قبضہ کرنے کا کوئی ارادہ اگر ہوتا تو ملتے ہی سِم نکال کر پھینک دیتے۔ وہ کہتے ہیں کہ یار جانے دو غصہ، بچی ہے اور اب رو رہی ہے اُسکی کسی فرینڈ نے مجھے فون کیا تھا کہ یہ مسئلہ ہے۔ لڑکیاں تو ہوتی ہی بےوقوف ہیں وغیرہ وغیرہ۔ دھیان رہے، یہ بابا جی نے کہا تھا میں تو صرف روایت کر رہا ہوں۔ خیر زوبی نے بابے کو گرین سگنل دے دیا کہ ہم حفیظ سنٹر ہیں آپ آ جائیں۔ دس منٹ میں وہ لوگ آ گئے، اپنی کمزور سی مہران میں۔ فرنٹ سیٹ پر ایک صحتمند سی آنٹی بھی تھیں، یقیناً بابا جی کی شریکِ حیات ہوں گی۔ زوبی نے فون بابے کو پکڑایا، اور کہا کہ جناب بچی کو تمیز بھی سکھائیں اور کہیں سے ہو سکے عقل بھی دلوا ہی دیں۔ بزرگ بڑے ممنون تھے، کہنے لگے کہ آئو کوئی ڈرنکس ہو جائیں۔ لیکن ہم لوگوں نے منع کر دیا۔
   

بدھ، 1 جولائی، 2009

اول حمد ثنا الٰہی

اول حمد ثنا الٰہی، تے جو مالک ہر ہر دا

اُس دا نام چیتارن والا، کسے میدان نہیں ہردا

میں سوچ رہا تھا کہ انٹرنیٹ پر اردو میں لکھنے والوں کی تعداد کوءی بہت زیادہ نہیں ہے۔ لہٰذہ، طبع آزماءی کر لینی چاہیے۔ حالانکہ کمپیوٹر میں اردو لکھنا کوءی مشکل کام نہیں۔

تو شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے، جو بڑا مہربان نہانت رحم کرنے والا ہے۔

اِس بلاگ کا مقصد مختلف سوچوں کو قلمبند کرنا ہے، سوچیں جو انسان کے ذہن میں آتی جاتی رہتی ہیں۔

ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ میں لکھنا چاہتا ہوں، لیکن کوءی باقاعدہ اخبار/جریدہ/یا رسالہ میری تحریروں کو جگہ نہیں دے گا۔ جگہ بنانے کے لیے باقاعدہ محنت کرنی پڑتی ہے، یکسوءی کی ضرورت ہوتی ہے اور یکسوءی میرے بس کی بات نہیں ہے۔

اور ایک اور وجہ بھی ہو سکتی ہے، وہ یہ کہ لا شعور میں ملک صاحب یہ چاہتے ہیں کہ لوگ مجھے جانیں مجھے سنیں۔ منظرِ عام پر آنےکی یہ خواہش بھی "کھلی کتاب" سلسلے کا محرک ہو سکتی ہے۔

میں نے حساب لگایا ہے اور یقیناً مجھ سے پہلے بھی لوگوں نے حساب لگایا ہی ہو گا۔۔۔ کہ نءی بات کو سُن کر لوگوں میں اُسکے بارے میں کھپ ڈالنا آسان کام ہے۔ اور اُس بات پر عمل کرنا مشکل۔ اکثر لوگ کیونکہ سست واقع ہوءے ہیں، تو اکثر لوگ بات کو سُن کر اسکے ساتھ وہ سلوک کرتے ہیں جو کہ آسانی سے ہو جاءے۔ یعنی کہ شور مچا دینا، دوسرے لفظوں میں تبلیغ کرنا۔ واضح رہے کہ میں تبلیغ کا لفظ مذہبی طبقے کے لیے نہیں استعمال کر رہا۔ تبلیغ کا لفظ ابلاغ سے نکلا ہے جسکا مطلب ہے کمیونیکیشن، بولنا، اپنی بات لوگوں تک پہنچانا۔

کاہلی کے علاوہ ایک اور وجہ بھی ہوتی ہے، وہ ہے لوگوں کی نظروں میں آنا۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ بندے کو لوگوں کی تعریفی نگاہوں، جملوں کی لت پڑ جاتی ہے۔ بلکہ نہیں، میں شاید آگے نکل گیا ہوں۔ لت تو بعد میں پڑے گی، پہلے تو یہ ایک بھوک ہے، ہر بندہ "بندے سے مراد عام بندہ ہے، ولی پیغمبر الگ ہیں"  تعریف چاہتا ہے۔ تعریف یا حوصلہ افزاءی ہرانسان کی ضرورت ہے بالکل کھانے کی طرح۔ تو جناب جب آپکو کوءی ایسی بات پتہ چلے جو کہ کم از کم آپ سمجھتے ہوں کہ صرف آپ یا چند اور آپ جیسے عظیم انسان ہی جانتے ہیں تو آپکی بھوک جاگ اٹھے گی۔ بالکل جیسے کسی بھوکے کی بھوک کھانا سامنے دیکھ کر جاگ اٹھتی ہے۔ پہلے چاہے آپ اس بھوک کو بھولے بیٹھے ہوں، بات ملتے ہی آپکا دِل کہنا شروع کر دے گا کہ "چل نا" سب کو بتا۔۔۔

 یہ جو مدح کی بھوک ہے، اسکی وجہ سے اکثر اوقات لوگ بڑی عجیب حرکتیں کرتے ہیں۔۔۔ عجیب حرکتیں عمومًا کھوکھلے لوگ ہی کرتے ہیں، جن سے کہ انکی اہمیت میں اضافہ ہو۔۔۔ یا کم از کم لوگ یہ سوچیں کہ "یار اس بندے میں کوءی بات ہے"۔۔۔ اور جن لوگوں میں واقعی ہی کوءی بات ہوتی ہے وہ راءی کا پہاڑ نہیں بنایا کرتے۔۔۔ کیونکہ ایسا کیے بنا ہی اُنکو بہت حوصلہ افزاءی مل جاتی ہے۔۔۔

کھوکھلے لوگ ایک اور قسم کے بھی ہوتے ہیں، وہ لوگ جنکا "پُھدو" لگا ہوا ہو۔۔۔ یا جنکو خود پر یقین نہ ہو، جو یہ سوچتے ہوں کہ "کہیں یہ جو نیا لڑکا آیا ہے یہ کہیں میری جگہ نہ لے لے" ۔ اور اس خوف کے مارے یہ ہستیاں نہ خود کام کر پاتی ہیں اور نہ ہی کسی اور غریب کو کرنے دیتی ہیں۔ جو کوءی کوشش کرے، تو ٹانگ کھینچ لیتے ہیں۔  

تو جناب بات کہاں سے چل کر کہاں نکل گءی۔۔۔ عموماً ہماری سوچ کے دھاگے بھی ایسے ہی ہوتے ہیں۔۔۔ اور میں نے شروع میں ہی کہا تھا کہ اس تحریر کا پہلا مقصد میری مختلف سوچوں کو ایک جگہ قلمبند کرنا ہے۔۔۔ اور جو میں یہاں لکھوں گا عمومً بے عنوان اور بے مقصد ہی  ہو گا۔۔۔ اور۔۔۔ اور۔۔۔ اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہوتا ہے۔۔۔ لہٰذا جو لوگ اچھی نیت سے ایسا کرتے ہیں، میرا مقصد انکی دل شکنی ہرگز نہیں ہے۔۔۔

Pak Urdu Installer

Pak Urdu Installer