ٹماٹروں کی وجہ نئی ملازمت پر میرے درجنوں دوست بنے۔ جی ہاں، ٹماٹروں کی وجہ سے۔ چلیں آپکو کہانی سناتا ہوں۔
کہانی
سٹیورٹ ہال لوگوں سے مکمل بھرا ہوا تھا، کچھ کو پہلے آنے کی وجہ سے کرسیاں مِلیں تو وہ بیٹھ گئے باقی سارے کھڑے تھے۔ ملازمین کا ماہانہ اجلاس (منتھلی امپلائی میٹنگ ) جاری تھا۔ نئے آنے والے لوگ اپنا تعارف کروا رھے تھے، انہی لوگوں میں میری بھی باری آنی تھی۔ مجھے اس جگہ کام کرتے ہوئے چند ہی دِن ہوئے تھے۔ مجھ سے پہلے بہت سے شاندار لوگوں نے اپنا تعارف کروایا۔ سبھی نے اپنے ماضی کی ملازمتوں اور تکنیکی صلاحیتوں پر بات کی، ان موضوعات سے ہٹ کر فقط ایک نوجوان نے اپنے فٹبال کے شوق کا ذکر کیا اور بتایا کہ وہ چیلسی کلب کا فین ہے۔
پھر میری باری آئی
"
میں نعیم اکرم ہوں، میں نے فلاں فلاں جگہوں پر فلاں فلاں ٹینکالوجیز میں کام کیا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔
"
وہی گھسی پٹی روکھی باتیں
"
اسکے علاوہ میں بلاگر ہوں، شعر کہتا ہوں، اور سبزیاں وغیرہ اگانے میں دلچسپی رکھتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ شہروں میں سبزیاں اگانے کے رواج کو فروغ دے کر لاکھوں نہیں تو کم از کم ہزاروں غریب لوگوں کا پیٹ بھرا جا سکتا ہے۔
"
صدر صاحب کا سوال
انصاری صاحب، کمپنی کے صدر ہیں۔ سٹیج پر میزبانی اور نظامت کے فرائض وہی نبھا رہے تھے۔ اسکے علاوہ لوگوں کے سوالات کے جواب بھی دے رہے تھے۔ مجھے کم از کم ان سے براہ راست سوال کی امید نہ تھی۔
آپ کِس قسم کی چیزیں اُگاتے ہیں؟
کیا ہم اپنے دفتر میں بھی کچھ اُگا سکتے ہیں ملِک صاحب؟
یہ سوال سن کر حیران کُن طور پر میں پریشان نہیں ہوا، بلکہ میری چھٹی حس نے ہری بتی جلا دی۔
ہرا بھرا کیفے ٹیریا
قصہ مختصر، صدر صاحب سے شام کو ایک اور ملاقات ہوئی اور طے یہ پایا کہ میں منگل والے دِن دفتر کے کیفے ٹیریا میں ٹماٹر اور ہری مرچیں لا کر لگائوں گا۔
سامان کی خریداری کی روئداد درج ذیل پوسٹ میں پڑھی جا سکتی ہے
انصاری صاحب نے نہ صرف زبانی میری حوصلہ افزائی کی، بلکہ پودوں گملوں کھاد وغیرہ کی قیمت بھی ادا کی۔
نتیجہ، بہت سارے دوست
سی ٹی او ٹونٹی فور سیون میں چند سو لوگ ملازمت کرتے ہیں۔ کم و بیش ایک سو افراد کے اوقات کار ایسے ہیں کہ ان سے میری ملاقات ہو جاتی ہے۔
سب سے پہلے تو لوگوں نے پودوں کے بارے میں اندازے وغیرہ لگائے۔
کچھ نے کہا کہ یہ چائنا کا سیب ہے، کچھ نے کہا خوبانی کا درخت۔ ایک اور صاحب یہ تک کہتے پائے گئے کہ کمپنی پودوں کو کمپیوٹرائز کرنے کا پراجیکٹ کر رہی ہے۔
جتنے منہ اتنی باتیں۔
میں دوپہر کے کھانے کے لئے اور شام کی چائے وقت پودوں کے پاس ہی بیٹھتا۔ لڑکے مجھ سے آ کر سلام دعا کرتے اور پودوں کے بارے میں پوچھنا شروع کر دیتے۔
یہ بھنگ ہے، تھوڑی میں لے لوں؟
کمرے میں اے سی چلے گا، یہ تو مر جائیں گے۔
آپ نے یہ پودے کہاں سے لئے؟ مجھے بھی چاہیئں۔
وغٰیرہ وغیرہ۔
ان تمام لوگوں سے میرا ایک مثبت تعارف ہو چکا تھا۔ انہیں معلوم تھا کہ یہ ایک ہنس مکھ آدمی ہے مغرور نہیں، وعدہ کر کے پورا کرتا ہے(صوفی کی طرح)، کچھ چیزوں کا علم رکھتا ہے، اور اس سے بات کرنا ہے بھی آسان۔
ٹیم مضبوط ہوتی ہے
روٹین سے بالکل ہٹ کر ایک چیز کے دفتر میں موجود ہونے کی وجہ سے لوگوں کو بات کرنے کا ایک مختلف موضوع ملا۔ چند دنوں کے لئے انکے پاس کرکٹ، سیاست، اور پراجیکٹس کے علاوہ بھی ایک موضوع آ گیا۔ بالکل غیر متعلقہ ڈیپارٹمنٹس کے افراد کو آپس میں گھلنے ملنے کا ایک بہانہ مِل گیا۔
ایک انگریزی بلاگ شروع کیا ہے۔ میری چھوٹی موٹی کہانیاں اور تجربے پڑھنے کے لئے وزٹ کریں۔ مثال کے طور پر کیسے میں نے ایک بےہودہ بندے کی بےہودگی کا سامنا کیا اور خون کا عطیہ دینے کا تجربہ کیسا رہا۔