اتوار، 13 دسمبر، 2015

ویڈیو - دو ہزار پندرہ کی کتابیں



کتابیں جو میں نے دو ہزار پندرہ میں پڑھیں from Naeem Akram on Vimeo.

دو ہزار پندرہ اس لحاظ سے اچھا سال تھا کہ مجھے کافی کتابیں پڑھنے کا موقع مِلا۔ دو ہزار چودہ میں فقط ایک کتاب پڑھ پایا تھا، ایک تیرہ میں اور ایک ہی بارہ میں 
بھی۔
آپ نے اِس سال کونسی کتابیں پڑھیں؟
کمنٹ میں اپنی کتابوں کے نام ضرور بتائیے گا۔
نعیم اکرم۔

جمعرات، 3 دسمبر، 2015

انجمن دُم پسند مصنفین



Ali Akbar Natiq - Urdu writer
علی اکبر ناطق، مصنف

تیسری دفعہ کا ذکر ہے، ایک گاﺅں میں ایک آدمی تھا۔ جس
کا ذاتی کردار کا فی مشکوک تھا ۔ ہر روز نیا اشقلہ چھوڑ دیتا اور گاﺅں والوں سے پھٹکاریں سُنتا۔ انہی کرتوتوں کے باعث ایک دن گاﺅں سے بھاگ گیا اور جنگلوں کی راہ لی ۔چلتا چلتا ایسی جگہ پہنچ گیا جہاں دُور تک آدم نہ آدم زاد ۔ جدھر نظر پڑتی بندر ہی بندر تھے ۔ کافی دنوں کی مسافت کے بعد اِن صاحب کا حلیہ بھی کچھ اُنہی کا سا ہو گیا تھا ۔چہرے اور سر کے بال بڑھ کر جھاڑ جھنکاڑ ہو گئے ۔ چنانچہ بندر اُس کو دیکھ کراپنی ہی نسل کی کوئی شے سمجھے اور بدکے وِدکے نہیں ۔ وہاں جڑی بوٹیاں کثرت سے تھیں جن پر اس کا گزارا ہونے لگا ۔ کئی سال گزر گئے ۔ بندروں کی صحبت اُس کو ایسی بھائی کہ یہ وہیں کا ہو کر رہ گیا ۔

 رفتہ رفتہ اُسے بھی یقین ہونے لگا کہ در اصل وہ بھی ایک بندر ہے ۔ کمی ہے تو صرف دُم کی ۔اُس نے سوچا اِس سے کیا فرق پڑتا ہے ۔چنانچہ اپنے بندر ہونے کی دریافت پر بہت خوش ہوا ۔ اِسی خوشی میں بھاگا بھا گا دوبارہ گاﺅں پہنچا اور آتے ہی اعلان کر دیا کہ وہ بندر ہے اور ناصرف وہ بندر ہے بلکہ سب گاﺅں والے بھی بندر ہیں ۔ یہ سُن کر حسبِ توقع گاﺅں کی اکثریت نے اُس کا حقہ پانی بند کر دیا اور اُسے دُر فٹے منہ کہا مگر وہ اپنی بات پر اڑا رہا ، اپنے اور اُن کے بندر ہونے پر اصرار کرتا رہا ۔کچھ عرصے بعد اُنہی میں سے کچھ لوگ اُس باندر کے ہم خیال ہو گئے (اب میں بندر کو ِ،،باندر،، لکھوں گا) ۔ ویسے بھی وہ اپنے آپ کو انسان کہلاتے کہلاتے اُکتا چکے تھے ۔انہوں نے اُس باندر سے اتفاق کرتے ہوئے کہا واقعی تم ٹھیک کہتے ہو ۔اتنا عرصہ تم انسانوں سے دور بندروں میں رہے اس لیے ہم سے بہتر جانتے ہوگے ۔ ہوتے ہوتے یہ بات پھیل گئی جس پر گاﺅں کی کابینہ فیصلہ کرنے بیٹھ گئی ۔دونوں طرف سے بھاری اکثریت تھی ۔ دلائل دیے جانے لگے ۔کچھ لوگوں نے اعتراض اُٹھایا،اگر ہم واقعی بندر ہیں تو ہماری دُم کہاں گئی ؟ اس کا جواب دینا ضروری تھا ورنہ بندر ہونے کی دلیل کمزور پڑ جاتی ۔کچھ دنوں بعد باندروں نے اس کا جواب ڈھونڈ لیا ۔ اُس اولین باندر اور اُس کے حواریوں نے ایک دن دلیل پیش کی، چونکہ ہم کافی عرصہ پہلے پیٹھ کے بَل بیٹھنے لگے تھے جس کی وجہ سے وہ رفتہ رفتہ گھس گئی ۔ دوسرا یہ کہ ہم نے دُم کا استعمال کم کر دیاتھا اور دماغ کا زیادہ ۔اور فطرت کا اصول ہے، جس چیز کا استعمال کم کر دیا جائے وہ شے بے کار ہو کر آہستہ آہستہ ختم ہو جاتی ہے۔ اس لیے ہماری دُم ختم ہو گئی اور دماغ کے زیادہ استعمال کی وجہ سے وہ مزید تیز ہو گیا۔اُس باندر کی یہ بات سب کو بڑی مدلل لگی ۔وہاں موجود بہت سے لوگوں نے اُس کی بات پر واہ واہ کیا اور بے چون و چرا اپنے آپ کو باندر اور اُسے اپنا رہبر مان لیا ۔ 

انجمن دم پسند مصنفین

اب سب کو اس بات پر افسوس ہونے لگا کہ اپنی نا اہلی کی وجہ سے ہم نے اتنی اچھی چیز کھو دی ۔ اگر ہماری دُم ہوتی تو زندگی کا لُطف دوبالا ہو جاتا۔ مثلاً اُس کی وجہ سے ہم کپڑوں سے آزاد ہو جاتے ۔ آسانی سے اپنی پیٹھ چھُپا سکتے تھے ۔درختوں پر مزے مزے سے جھولتے ۔ایک شاخ سے دوسری شاخ پر بلاجھجک دُم کا سہارا لے کر چھلانگیں لگا تے۔ ایک دوسرے کے کان میں کھُجلی کر لیتے ۔ کوئی حملہ آور ہوتا تو دم دبا کر بھاگ جاتے ۔ الغرض ایک دُم سے کئی کام لیے جا سکتے تھے ۔ ان باتوں کے پیش ِ نظر انہوں نے فیصلہ کیا کہ جو ہو گیا سو ہو گیا ۔ نا سمجھی سے کیے گئے اس بے پایاں نقصان کا ازالہ تو ممکن نہیں البتہ یہ ہے کہ اب اپنی کھوئی ہوئی دُم واپس حاصل کرنے کی طرف توجہ دی جائے ۔ چنانچہ گاﺅں والوں نے مل کر ایک انجمن بنائی ۔ اُس کا نام انجمن دُم پسند مصنفین رکھ دیا ۔اُسے یہ کام سونپا گیا کہ وہ اس بات پر سوچ بچار کرے کہ کھوئی ہوئی دُم کس طرح واپس لائی جا سکتی ہے۔ انجمن دُم پسند مصنفین نے آخر یہ فیصلہ کیا، چونکہ دُم کا نقصان دماغ کے زیادہ استعمال کی وجہ سے ہوا ہے اور فطرت کا یہ اصول ہے کہ چیز جس طرح ختم ہوتی ہے اُسی قاعدے سے واپس لائی جا سکتی ہے ۔لہذا آئندہ دماغ کا استعمال کم سے کم کیا جائے اور پیٹھ زمین پر یا سخت جگہ پر رکھنے کی بجائے فوم کے گدوں یا بڑے ہوٹلوں کی نرم نرم کرسیوں پر رکھی جائے تاکہ پیدا ہوتی ہوئی دُم کے گھِسنے کا خطرہ نہ رہے اور وہ لمبی سے لمبی ہوتی جائے ۔ 
اب اُن کے سامنے مسئلہ یہ تھا کہ دماغ کا استعما ل کیسے کم کیا جائے ۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہے ۔ ایک دن یہ معما بھی حل کر لیا گیا ۔ وہ اس طرح کہ شراب زیادہ سے زیادہ پی جائے اور اُس کے نشے میں بندر ہونے سے انکار کرنے والوں اور اپنے اشرف مخلوق کہلانے والوں بلکہ جس نے اُنہیں اشرف بنایا ہے ،اُنہیں بے دریغ گالیاں دی جائیں اور مسلسل دی جائیں ۔لہذا اس پر عمل ہونے لگا۔ مسلسل شراب پی جانے لگی اور بغیر وقفے کے انسانوں اور اُس کے بنانے والے کو گالیاں دی جانے لگیں ۔یہ عمل کافی کارآمد ثابت ہوا ۔رفتہ رفتہ دماغ نے واقعی کام کرنا چھوڑ دیا ۔ جس کا پہلا نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے کائنات کو ایک حادثہ قرار دے دیا ۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ سروں میں بھیجے کی بجائے بھوسا پیدا ہو گیا اور دماغ بالکل نہ رہا ۔مگر حیرت کی بات یہ ہوئی کہ دماغ کے چلے جانے سے دُم ، جس کے واپس آنے کی بہت توقع تھی ،وہ بھی پیدا نہ ہوئی۔ یہ ایک سانحہ عظیم تھا جس کی اُنہیں خبر تک نہ ہوئی ۔عرصے بعد جب اُن کو بتایا گیا کہ اُن کا نقصان دوہرا ہو چکا ہے ۔ دُم کے ساتھ ساتھ دماغ سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں تو وہ کچھ اونگھے ۔ اس بات پر مزید غور کرنے کے لیے انجمن دُم پسند مصنفین کے تمام ارکان دوبارہ سر جوڑ کر بیٹھ گئے ۔مگر اب مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ سوچ بچار دماغ کے ذریعے سے کرنا تھی اور وہ پاس نہیں تھا ۔ یہ بات اُن کو سمجھائی بھی نہیں جا سکتی تھی کہ اس کے لیے دماغ ہونا ضروری ہے ۔ جب اُن سے کہا گیا کہ دماغ کی واپسی اب آپ کے بس کا کام نہیں ہے۔ آپ اُٹھ کر کوئی اور کام کریں یا کم از کم مولوی بن جائیں کہ تمھاری بیشتر عادتیں اُنہی سے ملتی جُلتی ہیں ۔ مگر اب وہ یہ باتیں کہاں سُن اور سمجھ سکتے تھے ۔ وہ مکمل طور پر احساسِ کمتری میں مبتلا ہوگئے ، وہ دیکھتے تھے کہ کچھ کے پاس دُم ہے اور کچھ کے پاس دماغ ہے اور خود اُن کے پاس اِن میں سے کچھ بھی نہیں رہا ، تو وہ بے دریغ اور متواتر سب کو کوسنے دینے لگے ۔دُم والے بندر جنگلوں میں ہونے کی وجہ سے اِن کے شر سے بچے ہوئے تھے ۔ اور مولویوںسے ،اُن کے ڈر کی وجہ سے یہ خود اُ ن سے دُور رہتے تھے یا ملتے بھی تھے تو بڑے ادب و احترام سے کیونکہ مولویوں کی اکثریت بھی انہی کی طر ح شراب پی کر گالیاں دینے کی عادی تھی ۔ لہذا اِن کے مشق ِ ستم وہی انسان بنتے تھے جن کے پاس دماغ بھی تھے اور وہ شریف النفس بھی تھے۔ ہوتے ہوتے یہ مسئلہ لا ینحل صورت اختیار کر گیا اور یہ بے دُم کے بندر انسانوں کے شہر میں ایک وبا کی شکل اختیار کر گئے ۔

تو حضرات۔۔۔
 تب سے اب تک ایک عرصہ ہو گیا ہے،انجمن دُم پسند مصنفین کے تمام ارکان سوائے خُدا اور انسانوں کو گالیاں دینے کے اور شراب پینے کے، کچھ نہیں کرتے ۔اِن کے پاس اب نہ دُم ہے نہ دماغ ہے ۔کسی دوسرے کی بات نہ سُنتے ہیں نہ سمجھتے ہیں ۔ کام کاج کچھ نہیں کرتے ،جس کی وجہ سے دیگر اعضا بھی ناکارہ ہو کر آہستہ آہستہ ختم ہو چکے ہیں ۔ البتہ مسلسل گالیاں دینے اور شراب پینے کی وجہ سے اِن کی دو چیزیں کام کر رہی ہیں ایک زبان اور دوسرا مثانہ۔ ہمارا مشورہ ہے کہ کوئی اللہ کا بندہ ایسا آ ئے جو اِنہیں دوبارہ جنگلوں میں اِن کی برادری کے پاس چھوڑ آئے جہاں کم از کم اِن کا دماغی احسا سِ کمتری تو ختم ہو۔اور یہ بھی ممکن ہے وہاں ایک دو نسلیں گزارنے کے بعد ان کی دوبارہ دُم نکل آئے۔اگر اتنی بڑی کائنات حادثے سے پیدا ہو سکتی ہے تو ایک چھوٹی سی دُم کیوں پیدا نہیں ہو سکتی ۔

اتوار، 8 نومبر، 2015

موسٰی علیہ السلام اور سمجھدار چیونٹی




موسیٰ ؑ اور چیونٹی from Naeem Akram on Vimeo.



کچھ عرصے سے میں ویڈیو ایڈیٹنگ اور ویڈیو بلاگنگ میں دلچسپی لے رہا ہوں۔ اس ہفتے ذرا فرصت مِلی تو ایک ویڈیو بنا  ڈالی۔ ایک ہاتھ میں کیمرا ہونے کی وجہ سے ویڈیو کافی ہِل رہی ہے۔ 
یہاں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ میں نے گرین سکرین یا کروما کا استعمال کیا ہے اور اپنے پس منظر میں گندم کے کھیت کی فوٹو لگا رکھی ہے۔
میرے ہاتھ میں جو مائک ہے اسکا ماڈل نیچے لکھا ہے
Samson Q1U Cardioid
اسکے علاوہ ویڈیو بنانے کے لئے آئی فون فائیوایس کافرنٹ کیمرہ استعمال کیا ہے۔
ایڈیٹنگ کے لئے
Camtasia Studio 8.0

جمعہ، 26 جون، 2015

کریڈٹ کارڈ پر آئس کریم خریدنا صحیح یا غلط

بٹ صاحب میرے دوست ہیں، کل رات دفتر سے فارغ ہو کر مجھے میٹرو سٹور سے کھجوریں خریدنی تھیں۔ بِل دے کر نکلنے لگا کہ بٹ صاحب سے ٹاکرا ہو گیا۔ کہنے لگے کہ آئس کریم کھائیں گے؟ میں نے کہا کہ نہیں جناب، شکریہ۔ لیکن میرے دوست نے ایک سے زیادہ مرتبہ اصرار کیا تو میں نے کہا کہ بہتر ہے جناب، کھا لیتے ہیں آئس کریم۔
بٹ صاحب نے فریزر کھولا اور دو عدد کارنیٹو نکال لیں۔ ہاں جی، یہ فوٹو والی کون آئسکریم۔

کلائمکس سین

 بِل دینے کی باری آئی۔
میرے دوست نے کچھ اور بھی سامان خرید رکھا تھا۔
باتیں کرتے کرتے موصوف نے کریڈٹ کارڈ بٹوے سے نکالا اور کیشیئر کے حوالے کر دیا۔
میں نہیں جانتا کہ میرے دوست کے معاشی معاملات اندرونی طور پر کیسے ہیں۔ ضروری نہیں کہ انہوں نے کارڈ پر ادھار شاپنگ کی ہو۔
البتہ ایک مفروضہ ذہن میں آیا کہ اگر اس بندے کے پاس پیسے نہیں ہیں اور یہ کریڈٹ کارڈ پر آئس کریم اور دیگر اضافی اشیائ خرید رہا ہے تو کیا یہ غلط نہیں کر رہا؟
ایسے شخص کے دوست کو کیا خاموشی سے مفت آئس کریم کھا کر اپنی راہ لینی چاہیئے یا اسے احتیاط کا مشورہ دینا چاہیئے؟ وہ کہتے ہیں نا کہ بیٹا آم کھائو، پیڑ مت گِنو۔

فساد کی جڑ

دراصل یہ سارا فتور مسٹر منی مسٹیش نامی بلاگر کا ہے۔ اس شخص کے گمراہ کن بلاگز پڑھ پڑھ کر مجھے کنجوسی کا بخار سا ہوا چاہتا ہے۔ یہ صاحب امریکی معاشرے کے حساب سے لکھتے ہیں۔ اور فرماتے ہیں کہ اگر آپ صرف دس سال سمجھداری سے خرچ کر لیں اور سلیقہ مندی کو اپنی عادت بنا لیں تو آپ چالیس سال کی عمر میں ریٹائر ہو سکتے ہیں اور باقی عمر بیٹھ کر کھا سکتے ہیں۔ ہمیشہ کے لئے گدھوں کی طرح کام کرنا کوئی فرض نہیں ہے۔

 البتہ میں پاکستانی معاشرے میں بھی ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جنہوں نے لاکھوں روپے بینکوں سے ادھار لے رکھے ہیں۔ چند ماہ تک میں خود بینکوں کے قرضے تلے مرنے والا ہو رہا تھا۔ اب حالات بہتر ہیں، الحمدللہ۔

حاصل  بحث

کریڈٹ کارڈ، قسطوں پر گاڑی، قسطوں پر مکان، ریڈی کیش، بینک بڑی شفقت سے یہ سب آپ کی جیب میں ڈال دیتا ہے۔ بلاشبہ آپ چاہیں تو انکار کر سکتے ہیں لیکن بہت سارے لوگ انکار نہیں کر پاتے۔
اور پھر جب آنکھ کھلتی ہے تو پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چُکا ہوتا ہے۔

money-credit-card

پوچھنے لائق سوال

بہادر قاری، یہاں تک آن پہنچے۔ اگر آپکے پاس کریڈٹ کارڈ اور دیگر بینکاری سہولتیں موجود ہیں تو کوئی بھی ادھار اٹھانے سے پہلے خود سے سوال پوچھیں کہ

کیا آپکو واقعی باون انچ کا سمارٹ ٹی وی چاہیئے؟
کیا  بڑی گاڑی آپکی ضرورت ہے بھی یا نہیں؟
کیا آئی فون سِکس کے بغیر آپکا دم گُھٹ جائیگا؟
کیا آپ اس کھانے یا شاپنگ کا بِل کریڈٹ کارڈ کے بجائے نقد دے سکتے ہیں؟
کیا آپکو قسطوں پر آج ہی لیپ ٹاپ لینا چاہیئے یا دو ماہ صبر کرنے سے بھی کام چل جائیگا؟


نوٹ: زیر بحث مسئلے سے قطع نظر میں اپنے دوست کی محبت کے لئے انکا شکر گزار ہوں۔

جمعہ، 12 جون، 2015

Suzuki Wagon R Test Drive

Suzuki Wagon-R Test Drive

گاڑی ورکشاپ سے واپس لینی تھی، سہ پہر کو سوزوکی ٹائون شپ موٹرز گیا۔ وہاں ایک سوزوکی ویگن آر پر نظر پڑی، اس
 پر بڑا بڑا لکھا تھا ٹیسٹ ڈرائیو می۔
یہاں انوائس وغیرہ کلیئر کروانا جوائے نامی صاحب کی ذمہ داری تھی۔ میں نے انہیں کہا کہ جناب میرے دو کام کریں، پہلا تو میری گاڑی کا بِل کلیئر کروائیں اور دوسرا ویگن آر کی ٹیسٹ ڈرائیو لے کر دیں۔ انہوں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

لائسنس کا مسئلہ

نوجوان سیلز مین ہاتھ میں ویگن آر کی چابی لئے میرے پاس آیا، سلام دعا کے بعد پوچھنے لگا کہ بھائی آپکے پاس ڈرائیونگ لائسنس ہے؟ میں نے کہا کہ یار اسوقت تو دفتر میں پڑا رہ گیا، اسکے بغیر کام نہیں چلے گا؟ جواب مِلا کہ نہیں جناب لائسنس ضروری ہے۔
 میں سمجھا شاید کمپنی کی ریکوائرمنٹ ہو گی۔ لیکن اتنی دیر میں نوجوان نے جوائے صاحب سے کہا کہ "پہلے علی بھائی نے دو مرتبہ اپنے شناختی کارڈ پر چالان کروایا ہے۔" مجھے سمجھ آ گئی کہ کیا چکر ہے۔
"کوئی مسئلہ نہیں یار، اس مرتبہ میں اپنے شناختی کارڈ پر چالان کروا لوں گا"
میں نے صورتحال کو سمجھتے ہوئے پیشکش کر دی۔ اس پر نوجوان مسکرا کر کہنے لگا کہ چلیں سر جیسے آپکی مرضی اور مجھے چابی تھما دی۔

100% discount on my socket and network programming course using C#

مہران اور ویگن آر میں فرق

مہران کی بریک بالکل چنگ چی رکشے جیسی ہے، پورے زور سے دبائو تو لگتی ہے۔ ویگن آر کی بریک تو بس اشارے سے ہی لگی جا رہی تھی ٹھک کر کے۔
پاور سٹیئرنگ کی وجہ سے گاڑی کا سٹیئرنگ انگلی کے اشارے پر گھومتا ہے۔
گیئر بالکل مکھن کی طرح نرم اور ملائم لگتے ہیں۔
اسکے علاوہ سائیڈ ویو مرر یعنی بغلی نظارے والا شیشہ بھی کافی بڑا ہے۔
گاڑی کا اے سی بھی بہترین ہے۔

مجھے ذاتی طور پر یہ گاڑی پسند آئی ہے۔ سوزوکی سوئفٹ بھی اچھی ہے لیکن اسکی قیمت بہت زیادہ ہے۔ جب کبھی مہران بیچی تو امید ہے کہ میں خود ویگن آر ہی خریدوں گا۔

اتوار، 31 مئی، 2015

TiE Walks - نئے کاروباری لوگوں کی تربیت کا بہترین موقع

TiE Walks Mentors Lahore
تقریب کے آغاز پراستاد کاروباری ماہرین ایک ساتھ


ہفتے والے دِن رائل پام گالف کلب کے فیئر ویز ہال کا سماں دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ سہ پہر تین بجے شروع ہونے والے اس ایونٹ کے شرکاء پونے تین بجے ہی آن موجود ہوئے تھے اور پرتپاک تعارف، گرما گرم بحث کا شور بپا تھا۔

The Indus Entrepreneur (TiE)

کاروباری لوگوں کی فلاح و بہبود کی ایک تنظیم ہے اور نو آموز کاروباریوں کی حوصلہ افزائی، تربیت کے لئے بہت سی تقریبات وغیرہ کا انتظام کرتی رہتی ہے۔ اسوقت دنیا کے اٹھارہ ملکوں میں ٹائی کے ساٹھ سے زیادہ ابواب یا چیپٹر فعال ہیں۔ لاہور اور اسلام آباد کے چیپٹر چند فعال ترین ادارے سمجھے جاتے ہیں۔ ٹائی لاہور کا فیس بک پیج لائک کریں اور مستقبل میں سیکھنے کے مواقع سے فائدہ اٹھائیں



TiE Walks

تقریب کے آغاز میں کریسنٹ گروپ کے سی ای او ہمایوں قریشی نے ٹائی والکس پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اکثر تربیتی مواقع پر ایک مینٹر یا استاد ہوتا ہے اور ساٹھ طالبعلم یا سیکھنے کے خواہشمند۔ میں سیکھنے کے خواہشمند کو سیکھمند لکھنا چاہوں گا۔ ٹائی والکس ایک ایسا موقع ہے جہاں پر دس استاد ہیں اور پچاس سیکھمند، یعنی فی کس ڈھائی استادوں کے ساتھ آمنے سامنے بے تکلف گفتگو کا شاندار موقع۔
ناہل محمود کے ساتھ ایک سیلفی


استادوں کی فہرست


جن لوگوں کے ساتھ مجھے ملنے کا موقع مِلا، انکے نام 

  • ناہل محمود، ڈیٹا سائنسدان (Nahil)
  • عبدالعزیز، لیومن سافٹ کے سی ای او Lumensoft 
  • علی ملک Shirt & Tie Shop
  •  ValorSoft شکیل طارق
  • محترمہ توشیبا سرور COO imanagers
  • حیدر رضوی Microsoft

کے عبدالعزیز کو پاکستانی مارکیٹ کا وسیع تجربہ ہے جسے یہ کھل کر بیان کرتے ہیںLumensoft



شکیل طارق سعودی عرب میں کئی سال کام کرنے کے بعد آجکل پاکستان میں ویلر سافٹکے نام  سے اپنا کام شروع کر چکے ہیں

روز مرہ کے چھوٹے فیصلے ایک ہی مرتبہ کریں اور وقت بچائیں

ان دنوں میری توجہ  فیس بک والے مارک زکربرگ کی گرے شرٹ اور ایپل والے سٹیو جابز کی کالی ٹرٹل نیک نیلی جینز اور جاگروں جیسی چیزوں پر مرکوز ہے۔
یہ لوگ کہتے ہیں کہ ایک ہی جیسے بہت سارے کپڑے ہونے کی وجہ سے انہیں بار بار یہ نہیں سوچنا پڑتا کہ آج کیا پہنیں۔ سب کومعلوم ہے کہ اس بندے نے اپنے "یونیفارم" میں آنا ہے۔ ایسا کرنے کی وجہ سے یہ لوگ روزانہ ایک سے ڈیڑھ گھنٹا بچا لیتے ہیں۔
کچھ پیشے ایسے ہوتے ہیں جہاں ٹائی اور کلف والے کپڑوں کی ضرورت پڑتی ہے، انکو چھوڑ کر جہاں ممکن ہو سادگی بہترین ہے۔

اب بات کرتے ہیں توشیبا سرور کی۔ 

آئی مینیجرز کی توشیبا سرور ، سادگی کی بہترین مثال



محترمہ توشیبا سرور آئی مینیجرز نامی ایونٹ مینجمنٹ کی کمپنی چلا رہی ہیں۔
امریکہ پلٹ بہت ہی کھلے دِل سے اظہار خیال کرنے والی خاتون ہیں۔
میں نے ان سے سادگی کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ ہش پپیز کا ایک جوڑا کپڑوں کے چارجوڑے پورے سیزن کے لئے کافی ہوتے ہیں۔ ہر ایونٹ کے بعد گھر جانا اور کپڑے میک اپ وغیرہ تبدیل کرنے پر ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ صرف ہوتا ہے۔ 
ایسی سادگی اختیار کر کے وہ اٹھارہ گھنٹے کے دِن میں ایک آدھے گھنٹے کی بچت کر لیتی ہیں۔

نتیجہ

اس ایونٹ کی وجہ سے مجھے بہت سارے سمجھدار لوگوں سے ملنے کا موقع ملا۔ اسکے علاوہ بہت سارے فون نمبر، ایمیل ایڈریس، اور وزٹنگ کارڈ ملے۔ آنجہانی سٹیو جابز رحمت اللہ علیہ نے کہا تھا کہ 
"آپ آگے دیکھ کر نقطوں کو نہیں جوڑ سکتے"
You cannot connect the dots looking forward.
مجھے پورا یقین ہے کہ ایک وقت آئے گا جب میں پیچھے دیکھوں گا اور یہ نقطے مل کر ایک ہی لفط بنائیں گے

کامیابی

Connect with me on Skype: naeem.akram.malik
Protospeak اسی تحریر کا انگریزی ورزن یہاں ملاحظہ فرمائیں
http://protospeak.blogspot.com/2015/05/tie-walks-great-opportunity-for-new.html

ہفتہ، 30 مئی، 2015

المحبوب ہوٹل جی ٹی روڈ سادھوکی سے ایک وی لاگ


المحبوب ہوٹل بر لبِ جی ٹی روڈ نزد سادھوکی واقع ہے۔

اس ہوٹل کے بارے میں ایک موٹا موٹا سا ویڈیو جائزہ۔


vlog-mehboob-hotel from Naeem Akram on Vimeo.



جمعرات، 21 مئی، 2015

ٹماٹروں کی وجہ سے میرے درجنوں دوست بنے، مگر کیسے؟


ٹماٹروں کی وجہ نئی ملازمت پر میرے درجنوں دوست بنے۔ جی ہاں، ٹماٹروں کی وجہ سے۔ چلیں آپکو کہانی سناتا ہوں۔

کہانی

سٹیورٹ ہال لوگوں سے مکمل بھرا ہوا تھا، کچھ کو پہلے آنے کی وجہ سے کرسیاں مِلیں تو وہ بیٹھ گئے باقی سارے کھڑے تھے۔ ملازمین کا ماہانہ اجلاس (منتھلی امپلائی میٹنگ ) جاری تھا۔ نئے آنے والے لوگ اپنا تعارف کروا رھے تھے، انہی لوگوں میں میری بھی باری آنی تھی۔ مجھے اس جگہ کام کرتے ہوئے چند ہی دِن ہوئے تھے۔ مجھ سے پہلے بہت سے شاندار لوگوں نے اپنا تعارف کروایا۔ سبھی نے اپنے ماضی کی ملازمتوں اور تکنیکی صلاحیتوں پر بات کی، ان موضوعات سے ہٹ کر فقط ایک نوجوان نے اپنے فٹبال کے شوق کا ذکر کیا اور بتایا کہ وہ چیلسی کلب کا فین ہے۔

پھر میری باری آئی

"
میں نعیم اکرم ہوں، میں نے فلاں فلاں جگہوں پر فلاں فلاں ٹینکالوجیز میں کام کیا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔
"
  وہی گھسی پٹی روکھی باتیں
"
اسکے علاوہ میں بلاگر ہوں، شعر کہتا ہوں، اور سبزیاں وغیرہ اگانے میں دلچسپی رکھتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ شہروں میں سبزیاں اگانے کے رواج کو فروغ دے کر لاکھوں نہیں تو کم از کم ہزاروں غریب لوگوں کا پیٹ بھرا جا سکتا ہے۔
"

صدر صاحب کا سوال

انصاری صاحب، کمپنی کے صدر ہیں۔ سٹیج پر میزبانی اور نظامت کے فرائض وہی نبھا رہے تھے۔ اسکے علاوہ لوگوں کے سوالات کے جواب بھی دے رہے تھے۔  مجھے کم از کم ان سے براہ راست سوال کی امید نہ تھی۔

آپ کِس قسم کی چیزیں اُگاتے ہیں؟

کیا ہم اپنے دفتر میں بھی کچھ اُگا سکتے ہیں ملِک صاحب؟

یہ سوال سن کر حیران کُن طور پر میں پریشان نہیں ہوا، بلکہ میری چھٹی حس نے ہری بتی جلا دی۔

ہرا بھرا کیفے ٹیریا

قصہ مختصر، صدر صاحب سے شام کو ایک اور ملاقات ہوئی اور طے یہ پایا کہ میں منگل والے دِن دفتر کے کیفے ٹیریا میں ٹماٹر اور ہری مرچیں لا کر لگائوں گا۔ 
سامان کی خریداری کی روئداد درج ذیل پوسٹ میں پڑھی جا سکتی ہے

انصاری صاحب نے نہ صرف زبانی میری حوصلہ افزائی کی، بلکہ پودوں گملوں کھاد وغیرہ کی قیمت بھی ادا کی۔ 


نتیجہ، بہت سارے دوست

سی ٹی او ٹونٹی فور سیون میں چند سو لوگ ملازمت کرتے ہیں۔ کم و بیش ایک سو افراد کے اوقات کار ایسے ہیں کہ ان سے میری ملاقات ہو جاتی ہے۔ 
سب سے پہلے تو   لوگوں نے پودوں کے بارے میں اندازے وغیرہ لگائے۔ 
کچھ نے کہا کہ یہ چائنا کا سیب ہے، کچھ نے کہا خوبانی کا درخت۔ ایک اور صاحب یہ تک کہتے پائے گئے کہ کمپنی پودوں کو کمپیوٹرائز کرنے کا پراجیکٹ کر رہی ہے۔
جتنے منہ اتنی باتیں۔
میں دوپہر کے کھانے کے لئے اور شام کی چائے وقت پودوں کے پاس ہی بیٹھتا۔ لڑکے مجھ سے آ کر سلام دعا کرتے اور پودوں کے بارے میں پوچھنا شروع کر دیتے۔
یہ بھنگ ہے، تھوڑی میں لے لوں؟
کمرے میں اے سی چلے گا، یہ تو مر جائیں گے۔
آپ نے یہ پودے کہاں سے لئے؟ مجھے بھی چاہیئں۔ 
وغٰیرہ وغیرہ۔


ان تمام لوگوں سے میرا ایک مثبت تعارف ہو چکا تھا۔ انہیں معلوم تھا کہ یہ ایک ہنس مکھ آدمی ہے مغرور نہیں، وعدہ کر کے پورا کرتا ہے(صوفی کی طرح)، کچھ چیزوں کا علم رکھتا ہے، اور اس سے بات کرنا ہے بھی آسان۔

ٹیم مضبوط ہوتی ہے

روٹین سے بالکل ہٹ کر ایک چیز کے دفتر میں موجود ہونے کی وجہ سے لوگوں کو بات کرنے کا ایک مختلف موضوع ملا۔  چند دنوں کے لئے انکے پاس کرکٹ، سیاست، اور پراجیکٹس کے علاوہ بھی ایک موضوع آ گیا۔  بالکل غیر متعلقہ ڈیپارٹمنٹس کے افراد کو آپس میں گھلنے ملنے کا ایک بہانہ مِل گیا۔

ایک انگریزی بلاگ شروع کیا ہے۔ میری چھوٹی موٹی کہانیاں اور تجربے پڑھنے کے لئے وزٹ کریں۔ مثال کے طور پر کیسے میں نے ایک بےہودہ بندے کی بےہودگی کا سامنا کیا اور خون کا عطیہ دینے کا تجربہ کیسا رہا۔

جمعرات، 23 اپریل، 2015

انجینئر سعید قادر گارڈ، ایک با ہمت نوجوان

engineer

دفتر کے ساتھ ہی میٹرو سپر سٹور ہے۔ پڑوس میں ہونے کی وجہ سے گاہے گاہے چکر لگتا رہتا ہے۔ میری عادت خاصی دوستانہ ہے، جہاں جائوں دوست بن جاتے ہیں۔ سو میٹرو میں بھی  ایک گارڈ سے تھوڑی سلام دعا ہو گئی۔ ایک دِن اس نوجوان نے مجھے بتایا کہ وہ نوکری ڈھونڈ رہا ہے، اور پوچھا کہ کیا میں اسکی کوئی مدد کر سکتا ہوں؟ میرا اگلا منطقی سوال تھا کہ بھائی آپکی تعلیم کتنی ہے؟

"میں نے بی ایس سی الیکٹریکل انجینئرنگ کی ہوئی ہے، بہاولپور یونیورسٹی سے۔"

مجھے کم از کم اس جواب کی توقع نہیں تھی۔ 

اب تک چند دوستوں کو انجینئر صاحب کا سی وی دے چکا ہوں، ایک آدھی جگہ نے انٹرویو کی کال بھی آئی البتہ ابھی تک ملازمت کا بندوبست نہیں ہوا۔

اس مسئلے پر فلسفیانہ بحث کرنا مقصد نہیں، کسی کو کوسنے اور برا بھلا کہنے سے بھی کچھ نہیں بدلے گا۔ 
آپکی بڑی مہربانی ہو گی اگر آپ اس محنتی، سیلف لیس، اور اعلٰی تعلیم یافتہ نوجوان کے لئے روزگار کا کوئی بندوبست کر سکیں۔

سعید کا سی وی حاصل کرنے کے لئے مجھے فون یا ای میل کریں۔

والسلام
نعیم اکرم ملک
03420009717
nakram1@hotmail.com




منگل، 21 اپریل، 2015

ہزار روپے کا جعلی نوٹ، کیشیئر کی غلطی یا بے ایمانی؟

یہ رہا وہ "اصلی جعلی" نوٹ۔ واہ کیا اوکسی موران نکالی ہے آپکے بھائی نے۔

کہانی کا پس منظر

گاڑی کی تھوڑی مرمت درستگی کا کام ہونے والا تھا۔ گھر کے پاس سوزوکی کا شوروم ہے، جمعرات والے دن میں گاڑی وہاں لے گیا۔ کُل مِلا کر کوئی تین ہزار کے قریب بل بنا۔ میرے بٹوے میں پانچ ہزار کا ایک ہی نوٹ تھا، وہ کیشیئر خاتون کو دے دیا۔ دو ہزار ایک سو کچھ روپے بقایا آئے۔ نوٹوں پر موٹی سی نظر مار کے بٹوے میں ڈال لئے۔

شام کی شاپنگ

شام سات بجے کے قریب میٹرو لنک روڈ سے کچھ سامان خریدا۔ بِل ایک ہزار سے کچھ کم ہی تھا۔ صبح والے دو نوٹوں میں سے ایک نکال کر کیشیئر کو دیا۔ لڑکی نے نوٹ کو ہاتھ لگاتے ہی بتا دیا کہ جناب نوٹ جعلی ہے۔ ایک آدھے اور بندے کو دکھایا تو تصدیق بھی ہو گئی۔ دوسرا نوٹ دے کر جان بچائی۔

ورکشاپ بند

جمعے کی صبح پہلا کام یہ کیا کہ نو بجے کے قریب سوزوکی منی موٹرز والٹن روڈ چلا گیا۔ وہاں تمام دروازے بند تھے، گارڈ نے بتایا کہ آج چھٹی ہے آپ کل آنا۔
ہفتہ اور اتوار کو میں اپنے گائوں چلا جاتا ہوں۔ سوچا پیر والے دن دیکھی جائیگی۔

سوموار کی صبح

گائوں سے لاہور پہنچتے پہنچتے ساڑھے نو بج گئے۔ البتہ می سیدھا سوزوکی ورکشاپ چلا گیا۔ وہاں جا کر بات کی تو ایک صاحب مجھے کیشیئر کے سامنے لے گئے۔ کیشیئر نے صاف انکار کر دیا کہ نوٹ اس نے دیا ہی نہیں۔ 
اسکا کہنا تھا کہ مجھے رقم کائونٹر پر چیک کر لینی چاہیئے تھی۔ میں نے پیسے گنے تو تھے لیکن یہاں سے جعلی نوٹ ملنے کا خدشہ میرے وہم گمان میں نہ تھا۔
میں تھوڑ اونچا بول کر اوپر مین شوروم میں آ گیا۔
یہاں ایک اور صاحب کو سارا مسئلہ بتایا، انہوں نے بھی یہی کہا کہ جناب آپکی غلطی ہے ہم تو بے قصور ہیں۔

ملتا جُلتا ایک اور واقعہ، ہائپر سٹار

مجھے کسی نے بتایا کہ جب ہائپر سٹار نیا نیا بنا تھا تو انکا بھی ایک کیش ہینڈل کرنے والا بندہ پانچ سو ہزار کا جعلی نوٹ بینک جانیوالی کرنسی میں مکس کر دیا کرتا تھا۔
اصلی نوٹ نکال کر وہ آدمی اپنی جیب میں ڈال لیتا۔
چند ایک مرتبہ بینک سے شکایت آئی تو انتظامیہ نے چپکے سے چھان بین اور نگرانی شروع کر دی۔
آخر کار نوسرباز پکڑا گیا۔

کہیں سوزوکی منی موٹرز والٹن میں بھی تو ایسا نہیں؟

میری اس ورکشاپ والوں سے نہ کوئی دوستی ہے نہ دشمنی۔ ایک ہزار کا نقصان ہوا ہے، لیکن وقتی غصہ تھا اتر گیا۔ اب صرف معلومات عام کرنے کے لئے لکھ رہا ہوں۔
عین ممکن ہے کہ سوزوکی والوں کے تالاب کو بھی کوئی ایک مچھلی گندا کر رہی ہو۔
شاید وہی کیشیئر جس نے مجھے بقایا دیا تھا، یا کوئی اور ملازم۔
ان لوگوں کو چاہیئے کہ اپنے سٹاف کی نگرانی کریں اور اپنے معاملات درست کریں۔ 
دوسرا رُخ: اگر فرض کریں کہیں غلطی سے جعلی نوٹ آ ہی گیا ہو تو اسکو گاہکوں کے گلے مت ڈالیں۔

نتیجہ

کم از کم میں خود آئندہ کبھی بھی سوزوکی منی موٹرز والٹن پر گاڑی کا کام کروانے نہیں جائوں گا۔ اور نہ ہی میں کسی دوست کو وہاں جانے کا مشورہ دوں گا۔

ہفتہ، 11 اپریل، 2015

جوتے کی واپسی


میاں جی کا ہوٹل کھاریاں اور  لالہ موسٰی کے درمیان واقع ہے۔ راولپنڈی سے لاہور تک جاتے ہوئے میں یہاں چائے وغیرہ پینے کے لئے رکتا ہوں۔ ایسے ہی ایک سوموار کی صبح گاڑی ہوٹل کی پارکنگ میں لگا کر جو باہر نکلا تو دیکھا کہ سامنے درخت کے نیچے ایک خان صاحب بیٹھے جوتوں کو رگڑا لگا رہے ہیں۔ میں نے جاگر پہن رکھے تھے اور ایک ڈریس شوز کا جوڑا گاڑی میں پڑا تھا، سوچا انکو پالش کروا لیتے ہیں۔
واپس جا کر گاڑی میں سے جوتا نکالا اور خان صاحب کے حوالے کر دیا۔ اس لمحے مجھے خیال آیا کہ کہیں جاتے وقت جوتا بھول نہ جائوں، لیکن خیر میں نے کہا کہ ایسی بھی کوئی بات نہیں اور ہوٹل میں گھس گیا۔
چائے کا کپ پی کر باہر نکلا، انگڑائی وغیرہ لی، واشروم کا چکر لگایا، اور ہاتھ منہ بھی دھویا کہ ابھی ڈھائی تین گھنٹے کی ڈرائیونگ باقی تھی۔ پھر میں اللہ کا نام لے کر گاڑی میں بیٹھا اور چند ہی لمحوں بعد لاہور کی طرف رواں دواں تھا۔

ماموں زاد بہن کا فون آتا ہے

کھاریاں کے قریب میں نے ماموں کی بیٹی کو میسج کیا تھا کہ اگر سارے یونیورسٹی اور کام وغیرہ پر نہیں گئے، مطلب کہ کوئی گھر پر ہے تو میں چکر لگاتا ہوں۔ لالہ موسیٰ کے پاس پہنچا تو انکا فون آ گیا کہ  نعیم صاحب پوچھنے والی کونسی بات تھی، ہمیشہ کی طرح منہ اٹھا کے چلے آنا تھا آپکا اپنا ہی گھر ہے۔ دِل تو چاہا کہ گاڑی واپس گھما لوں مگر پھر سوچا کہ دفتر سے دیر ہو جائیگی اور واپسی کا ارادہ ترک کر دیا۔

مریدکے 

مریدکے پہنچ کر اچانک مجھے پر یہ انکشاف ہوا کہ جوتے تو میں نے واپس لئے ہی نہیں۔ فوری طور پر واپس جانا ناممکن تھا۔ ہمیں تئیس مارچ کی چھٹی نہیں تھی، اورمجھ میں مزید چھے گھنٹے گاڑی چلانے کی ہمت بھی نہیں تھی۔
خفت، شرمندگی، اور غصے کی لہر ذرا مدھم ہوئی تو خیال آیا کہ آج تو عدیل صاحب (چھوٹا بھائی)واپس لاہور تشریف لا رہے ہیں۔ انہوں نے گجرات سے لاہور آنا ہے اور ایک گھنٹے میں وہ میاں جی کے ہوٹل سے میرا جوتا لے سکتے ہیں۔ بشرطیکہ خاں صاحب وہیں موجود ہوں۔

جوتے کی خاص بات

یہ میرا مہنگا ترین جوتا ہے۔ میں نے زندگی میں ایک مرتبہ چھے ہزار روپے کا جوتا خریدا، اور اسے دو سال سے بہت سنبھال کر استعمال کر رہا ہوں۔ اسکے ایسے کھو جانے کا مجھے شدید افسوس تھا۔

میں نے فون ملایا

"یار میرا جوتا لانا ہے میاں جی کے ہوٹل سے"
اس فقرے کا رسپانس اتنا ہی حیران پریشان تھا جتنا مجھے توقع تھی۔ 
میں نے پوری داستان سنائی تو بہرحال بھائی کو سمجھ آ ہی گئی۔ گھر سے ایک  گھنٹہ جلدی نکل پڑے۔
وہاں پہنچ کرخان صاحب کو ڈھونڈنا آسان کام تھا۔ موٹی نشانی کہ خان صاحب درخت کے نیچے بیٹھے تھے۔ جوتا پالش کیا ہوا سامنے پڑا تھا، بھائی نے جاتے ہی خانصاحب کو کہا کہ یہ والا جوتا لینا ہے۔ خان کی یاد داشت اچھی تھی، کہنے لگا کہ یہ آپ تو نہیں دے کر گئے۔ اسلئے عدیل صاحب کو میری خانصاحب سے فون پر بات کروانی پڑی۔

"میں نے یہ جوتا صبح سے چار بار پالش کیا ہے"

بھائی نے خان صاحب کو سو روپے دینے کی کوشش کی، لیکن اس جوان نے بھی اپنی جائز مزدوری سے اوپر لینے سے انکار کر دیا اور باقی پیسے واپس کئے۔
البتہ اس نے یہ ضرور کہا کہ میں نے یہ جوتا صبح سے چار مرتبہ پالش کیا ہے کہ شاید ابھی کوئی لینے آ جائے۔

سبق

بٹوے کی واپسی کے بعد جوتے کی واپسی کا ایک اور پہلے بٹوے کی گمشدگی اور جوتے کی گمشدگی بھی ہے۔ یہ چیزیں پہلے گم ہوئیں اور بعد میں ملیں۔
چھوٹے چھوٹے نقصان اور انسے ریکوریاں بندے کے لئے تنبیہ ہوتی ہیں۔
میں تب سے پوری احتیاط کر رہا ہوں کہ مزید کوئی چیز گمنے کی نوبت نہ آئے۔
یہ الگ بات ہے کہ گاڑی ریورس کرتے ہوئے کھمبے کو دے ماری۔ مگر شکر ہے وہاں بھی بچت ہوگئی۔

اتوار، 29 مارچ، 2015

اکیسویں صدی میں سائنس اور ادب، تضاد کہاں


"
ا گر آپ کمپیوٹر چلا لیتے ہیں اور اس پر انٹرنیٹ استعمال کر لیتے ہیں تو یہ آپکو ہنرمند بناتا ہے، مفکر نہیں بناتا۔" ڈاکٹر عالیہ امام

ممتاز دانشور، معلمہ، اور مصنفہ ڈاکٹر عالیہ امام آجکل کینیڈا سے پاکستان تشریف لائی ہوئی ہیں۔ ہفتہ 28 مارچ دو ہزار پندرہ کی شام انکی کتاب کی تقریب رونمائی پاکستان اکادمی ادبیات میں منعقد ہوئی۔ تقریب میں کئی ممتاز سکالرز نے شرکت کی۔

اکادمی ادبیات کے چیئرمین ڈاکٹر قاسم بگھیو، ڈاکٹر عالیہ امام اور دیگر دانشور جلوہ افروز ہیں۔ جناح کیپ والے ڈاکٹر صاحب مہمان خصوصی تھے، انکے ساتھ دائیں جانب ڈاکٹر جعفری صاحب فلسفہ اور ادب میں دو ڈاکٹریٹ رکھتے ہیں، اور انکے ساتھ "میں نے پاکستان بنتے دیکھا" کتاب کے مصنف۔ ان احباب کے نام میں یاد نہیں رکھ سکا اور کاغذ قلم کی عدم دستیابی کی وجہ سے لکھ بھی سکا۔
تقریب میں ایک نوجوان طالبہ بھی موجود تھیں جو کہ ڈاکٹر صاحبہ پر تحقیقی مقالہ لکھ رہی ہیں۔



فیض احمد فیضؔ نے ڈاکٹر صاحبہ کو بلبلِ پاکستان کا خطاب دیا تھا۔

فہرست مضامین


Pakistan Academy of Letters
مجھے دعوت نامہ واٹس ایپ پر بھیجا گیا، میں نے اسکا اردو ترجہ لفظ بلفظ کیا اور "پاکستان اکیڈمی برائے خطوط" کا بورڈ ڈھونڈتا رہا۔ وہ تو بعد میں پتہ چلا کہ اردو  نام "اکادمی ادبیات پاکستان" بنتا ہے۔ 

مرزا غالبؔ، اقبالؔ، اور فیض احمد فیضؔ اردو زبان کے درخشاں ستارے۔

جوشؔ، کاظمیؔ، اور نیازیؔ۔

اکادمی کی دیواروں پر اردو شاعروں اور ادیبوں کے لاتعداد پورٹریٹ موجود ہیں اسکے علاوہ کئی علاقائی شعراء و ادبا بھی زینتِ دیوار بنے نظر آتے ہیں۔

رائٹرز ہائوس اور حلقہ ارباب ذوق اسلام آباد


اکادمی کی بلڈنگ میں رائٹرز ہائوس اور رائٹرز کیفے بھی موجود ہیں۔ 
اس کیفے میں ہر جمعے کی شام سات بجے حلقہ ارباب ذوق اسلام آباد کا تنقیدی اجلاس ہوتا ہے۔
میرا المیہ یہ ہے کہ اتوار کو میں راولپنڈی اسلام آباد میں ہوتا ہوں، اور لاہور کے حلقہ اربابِ ذوق کا جلسہ گزر جاتا ہے۔ جمعہ کو میں لاہور میں ہوتا ہوں تو اسلام آباد کا اجلاس ہو جاتا ہے۔

اس تقریب میں بہرحال ڈاکٹر جعفری اور ڈاکٹر عالیہ کو سن کر لطف آیا۔ اسقدر ضعیف دکھنے والی خاتون سے ایسی گھن گرج کا مظاہرہ متوقع نہ تھا۔ پورے اعتماد کے ساتھ بہت خوبصورت زبان میں بولتی ہیں اور بہترین مقررہ ہیں۔

بدھ، 25 مارچ، 2015

بٹوے کی واپسی - بھلے لوگ آج بھی موجود ہیں


شام کا وقت تھا اور ہلکی ہلی بوندا باندی ہو رہی تھی۔ آفس چیئر مہران کی ڈگی میں رکھنا تھی میں نے کرسی کو جھٹکے سے سر کے اوپر رکھا اور بائیں جیب میں سے چابی نکال کر ڈگی کھولی۔ کرسی اندر رکھ کر ایڈجسٹ کر دی۔ اتنی دیر میں ڈاکٹر زبیر باقی سامان بھی لے کر آ گیا جسے ہم نے کرسی کے ساتھ ہی رکھ دیا۔ 
کمرشل مارکیٹ والے برسا مال کے سامنے گاڑی کھڑی تو یاد آیا کہ چاندنی چوک والی اے ٹی ایم سے پیسے تو نکلوائے ہی نہیں، یہ سوچ کر کوفت ہوئی کہ دوبارہ چکر لگے گا۔
 لیکن میرا بٹوہ کہاں ہے؟ گاڑی کا ڈیش بورڈ دیکھا، سیٹوں کے نیچے جھانکا، کرسی کے پاس دیکھا مگر بٹوہ ندارد۔
"وہیں گرا ہو گا جہاں کرسی لوڈ کی تھی" 
یہ سوچتے ہی میں نے گاڑی واپس مڈ سٹی مال کی طرف بھگا دی۔ وہاں بھی کافی چھان پھٹک کی، جس دفتر سے سامان اٹھایا تھا ادھر بھی دیکھ لیا۔ پلازہ کے گارڈ اور منیجر وغیرہ نے بھی پورا تعاون کیا۔ ایک گارڈ نے تو پانی کی چھپڑی میں بھی ہاتھ مار لیا کہ چلو بعد میں دھو لوں گا۔
بٹوہ نہ ملا، آٹھ ہزار سات سو کچھ روپے نقد، شناختی کارڈ، اور اے ٹی ایم کارڈ کا نقصان خاصہ تکلیف دہ تھا۔
اگلی صبح میں لاہور واپس آ گیا۔ 

ٹیلیفون بجتا ہے

"ہیلو، نعیم اکرم پئے بولنے او"
میں نے اس پہلے کشمیری لہجہ نہیں سنا تھا، میں سمجھا کوئی پوٹھواری آدمی ہے۔ ان صاحب نے میرا حدود اربعہ وغیرہ پوچھا۔ مجھے شک ہو گیا کہ انکو میرا بٹوہ مل گیا ہے۔ میرے پوچھنے پر الٹا سوال آیا کہ بٹوے میں تھا کیا کچھ؟
میں نے چیزوں کی تفصیل بتادی۔ 
"ٹھیک اے، آ کے لے جائو۔"
"لیکن میں تو لاہور میں ہوں، اپنے کزن کو بھیجتا ہوں اسے دے دیں۔"
"نہیں بھائی آپکی چیز ہے، آپکو ہی دونگا۔"
"چلیں کوئی فکر کی بات نہیں، آپ اپنے پاس امانت کر کے رکھ لیں میں اگلے ہفتے آ کر لے لونگا۔ آپ نے کھانا ہوتا تو مجھے فون ہی کیوں کرتے۔"۔
"ہلا ٹھیک اے۔"
میں نے فون نمبر اور نام وغیرہ پوچھ کر نوٹ کر لئے، اور فون بند ہو گیا۔
دفتر آ کے میں نے کافی ساتھیوں کو حیرت کے ساتھ یہ بات بتائی۔


اسکی نیت کبھی بھی خراب ہو سکتی ہے

ایک ساتھی نے اس خیال کا اظہار کیا اور ساتھ ہی ایک واقعہ بھی سنا دیا جب اسکی کسی کزن کا فون گم ہوا تھا۔ جسے فون ملا تھا اس نے پہلے تو کہا کہ آ کر فون لے جائیں، جب یہ لوگ فون لینے گئے تو دوسرا بندہ فون دینے نہ آیا۔ اسے فون کیا تو نمبر بند۔
میرا نقطہ نظر یہ تھا کہ میں سوائے مثبت سوچ رکھنے کے اور کچھ نہیں کر سکتا۔

احتیاط کا دامن، شک کا سانپ

اپنی چیزیں لینے اکیلے جانا غیر محفوظ ہوگا۔ کیا پتہ آگے چار بندے بیٹھے ہوں، جو کچھ میرے پاس ہو وہ بھی لے لیں۔  گھٹیا بات معلوم ہو گی، لیکن احتیاط لازم ہے۔
دوسرا خیال یہ آیا کہ کارڈ وغیرہ وقتی طور پر بند کروا دیتا ہوں کہیں کوئی غلط استعمال نہ ہو۔ پھر سوچا کہ رہنے دو کچھ نہیں ہوتا۔
ویسے بہتر ہوتا اگر بند کروا ہی دیتا، برے وقت کا کوئی پتہ نہیں ہوتا۔

ہفتہ اکیس مارچ، موبائل سروس بند

میں راولپنڈی تو پہنچ گیا، لیکن تئیس مارچ پریڈ کی فل ڈریس ریہرسل کی وجہ سے شہر میں موبائل سروس بند تھی۔ دوپہر دو بجے تک کافی کوشش کی لیکن بات نہ ہو پائی۔
دو بجے شہزاد صاحب سے بات ہوئی تو پتہ چلا کہ وہ تو راولا کوٹ آزاد کشمیر میں ہیں۔ میرا بٹوہ اور کارڈ وغیرہ پنڈی میں ہی اپنے چھوٹے بھائی کے حوالے کر کے گئے ہیں، نقدی البتہ انکے اپنے پاس ہے۔


صدر پوڑھی پل، العمر ہوٹل

میں اور ڈاکٹر زبیر فوری طور پر صدر کے لئے نکل کھڑے ہوئے۔ اس علاقے میں کشمیری برادری کے بہت سارے ہوٹل ہیں جن کے مالکان اور عملہ وغیرہ زیادہ تر کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں۔ 
لڑکا تو ہوٹل پر نہیں تھا، لیکن اسنے کائونٹر پر بیٹھے ہوئے بندے سے بات کروانے کو کہا۔
اس بندے نے بات سن کر مجھ سے دو ایک سوال کئے اور پھر مجھے بٹوہ دے دیا۔ بٹوے میں میرے تمام کارڈ وغیرہ موجود تھے جنہیں دیکھ کر میری جان میں جان آئی۔


لیکن کیش کا کیا ہوا؟

بٹوہ واپس لینے سے اگلے دن مجھے شہزاد صاحب کا فون آیا، میں نے بتایا کہ بٹوہ مل گیا ہے۔ کہنے لگے کہ پیسے میرے پاس ہیں اور وہ میں آپکوچند دن تک پنڈی واپس آ کر دے دوں گا۔ 
بھلے مانس آدمی شہزاد صاحب راولا کوٹ سے آگے تولی پیر کے علاقے بیٹھک کے رہنے والے ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ کیش بھی مجھے واپس مل ہی جائیگا۔


نتیجہ

ہمارا معاشرہ بالکل دودھ کا دھلا نہ سہی، لیکن اچھے لوگ پھر بھی موجود ہیں۔ بہت سی بری باتیں برے لوگوں نے پھیلائی ہوئی ہیں۔ مثال کے طور پر "چوروں کو تالے اور ٹریکر کیا کہتے ہیں؟" چوروں کا پھیلایا ہوا فقرہ ہے۔  "اس ملک کا کچھ نہیں ہو سکتا" وہ کہتے ہیں جو اس ملک کا کچھ ہونا نہیں دیکھنا چاہتے۔ 

جمعرات، 19 مارچ، 2015

لاہور میں سبزیوں کی پنیری اور بیج کہاں سے ملیں گے؟ سبزیاں اگانے کا موسم ہے


بہت سے احباب پوچھتے ہیں کہ لاہور میں سبزیوں کے بیج اور پنیری وغیرہ کہاں سے ملے گی۔ میں نے حال ہی میں ایک  جگہ دریافت کی ہے۔ خیال رہے کہ مصنف کا آرائیں زرعی کارپوریشن سے کوئی ذاتی مفاد ہرگز وابستہ نہیں ہے۔

کوٹ لکھپت پرانی سبزی منڈی

ارفع کریم آئی ٹی ٹاور کی بغل میں واقع کوٹ لکھپت کی پرانی سبزی منڈی میں فیروز پور روڈ والی سائیڈ پر "آرائیں زرعی کارپوریشن" نامی دوکان والوں کے پاس ابھی بھی پنیریاں اور بیج موجود ہیں۔
تصویر میں ارفع ٹاور کی پرشکوہ بلڈنگ کے ساتھ متذکرہ بالا دوکان بھی دکھائی دے رہی ہے۔



آج کل دستیاب سبزی کی پنیری

ٹماٹر
ہری مرچ
بینگن
بند گوبھی

میں نے اس دوکان سے ٹماٹر ہری مرچ کے علاوہ پانچ کلو کھاد اور کھرپا وغیرہ بھی خریدا۔ انکے پاس پلاسٹک کے گملے بھی ہوتے ہیں لیکن وہ اُس دن تھے نہیں۔ مٹی وغیرہ یہاں دستیاب نہیں ہوتی۔ میں نے مٹی ماڈل ٹائون میں نرسری سے خریدی۔
کلمہ چوک میں بھی نرسریاں مٹی گملے وغیرہ بیچ رہی ہیں۔ 
بلکہ یوں کہنا بہتر ہوگا کہ میں نے چار عدد گملے خریدے جنکے ساتھ مٹی نرسری والوں نے مفت دے دی۔

گملے کی قیمت کتنی تھی؟ ایک سو اسی روپیہ فی گملہ۔
سبزیاں کتنی مہنگی تھیں؟ چوبیس روپے کی چار مرچیں اور چار ٹماٹر۔
کھاد کی قیمت؟ ایک سو روپے کی پانچ کلو، چار سے پانچ بڑے گملوں کے لئے کافی ہو گی۔



کیا آپ گھٹیا ٹی وی ٹالک شوز اور نقلی بریکنگ نیوز سے تنگ آ چکے ہیں؟

 آج ہی پودے لگائیں، صحت بخش مفت سبزیاں کھائیں

 سُستی چھوڑیں اور آج ہی اپنے گھر کی چھت یا بالکونی وغیرہ میں چند گملوں میں سبزیاں لگانے کا چارہ کریں۔
اپنے پودوں کو پھلتا پھولتا دیکھ کر آپکی خوشی میں اضافہ اور پریشانی میں کمی ہو گی۔
اسکے علاوہ، 
آپ لوگوں سے "سیاہ ست" کے علاوہ بھی کسی موضوع پر بات کرنے کے قابل ہوں گے۔
جیسا کہ میں اپنی نئی ملازمت پر بہت سار لوگوں سے فقط ان گملوں کی وجہ سے متعارف ہوا ہوں۔ ان میں ہماری کمپنی کے صدر صاحب تک شامل ہیں جن سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا۔




یہ گملے ہمارے دفتر کے کیفے ٹیریا میں پڑے ہیں

یہاں انکو لگ بھگ دو گھنٹے براہ راست دھوپ ملتی ہے اور باقی دن کافی روشنی ہوتی ہے۔

سبزیوں کو روزانہ پانی نہیں ڈالا جاتا، پودوں کی جڑیں گل جاتی ہیں اسلئے ایک دن چھوڑ کر ایک دن بعد پانی لگائیں۔
تصویر میں دکھائے گئے گملے کے لئے دو سے تین گلاس پانی کافی ہوتا ہے۔
اگر آپ ہفتے دس دن میں پودے لگا لیں گے تو مئی کے پہلے دوسرے ہفتے میں پھل پھول لگنے شروع ہو جائیں گے۔ اور عنقریب آپکو صاف ستھری، تازہ اور مفت سبزیاں دستیاب ہوں گی۔

 آج ہی پودے لگائیں، صحت بخش مفت سبزیاں کھائیں




میرے ٹیک بلاگ کا لنک

منگل، 17 مارچ، 2015

آلو کی فصل آ گئی، گملوں میں کاشت کا تجربہ کامیاب




یہ آلو میں نے چودہ نومبر دو ہزار چودہ کو لگائے تھے۔
ایک رنگ والی دس لیٹر کی بالٹی میں، ایک سبزی والی درمیانی ٹوکری میں، اور ایک چھوٹے گملے میں مٹی وغیرہ ڈال کر۔
تمام کنٹینر چھت پر پڑے ہوئے تھے۔


یہ پودے مجھے بہت پسند تھے، انکے بارے میں میں نے نیچے دکھائی گئی ویڈیو میں کافی بات کی ہے۔


My Roof Top Urban Kitchen Garden in Rawalpindi, Pakistan from Naeem Akram on Vimeo.

مٹی کی صحیح قسم

میں نے غلطی سے گملوں میں چکنی مٹی بھر دی، دراصل اسوقت مجھے دستیاب ہی چکنی مٹی تھی۔ یہ مٹی ذرا سی خشک ہو تو بہت سخت ہو جاتی ہے اور اسی لئے پرانے وقتوں میں مکان، برتن وغیرہ بنانے کے کام آتی تھی۔
جب آپ آلو لگائیں تو کوشش کریں کہ مٹی میں تھوڑی سی ریت بھی مکس کر لیں، یہی کوئی دوس پندرہ فیصد۔  نرم مٹٰی میں آلوئوں کو پھولنے پھلنے کا موقع ملتا ہے۔ بہت زیادہ ریت میں البتہ غذائی اجزا کی کمی ہوتی ہے اسلئے وہ نقصاندہ ہوگی۔

آلو کب لگائے جاتے ہیں؟

ہمارے یہاں آلو نومبر میں لگائے جاتے ہیں۔ انکی فصل ڈھائی تین ماہ میں تیار ہو جاتی ہے یعنی کہ فروری مارچ میں۔

کیا میں لاہور یا کراچی میں بھی یہ کام کر سکتا ہوں؟

جی ہاں بالکل، بس اتنا خیال رہے کہ سبزیوں کو پھلنے پھولنے کے لئے لگ بھگ آٹھ گھنٹے سورج کی روشنی درکار ہوتی ہے۔

مزید معلومات کے لئے بلاجھجک کمنٹ کریں۔ ای میل وغیرہ پر رابطے میں بھی کوئی حرج نہیں۔
والسلام، نعیم اکرم۔
سترہ مارچ، دوہزار پندرہ۔

جمعرات، 12 مارچ، 2015

ویلیو ایڈڈ سروس کی مثال کالٹیکس سے موبل آئل تبدیل کروانے کا اچھا تجربہ


ایک بجے سے دو بجے تک لنچ بریک ہوتی ہے، سوچا کھانا کھانے سے پہلے گاڑی کا موبل آئل تبدیل کروا لیا جائے۔ میرا دفتر لنک روڈ میٹرو والی بلڈنگ میں ہے اور باہر احاطے میں گارڈ والوں کا شیڈ موجود ہے۔ لیکن جب وہاں پہنچا تو پہلے ہی کافی رش تھا۔
سوچا چلو پھر کسی دن سہی، پیکو روڈ والی گورمے بیکری کی طرف پانی خریدنے نکل گیا۔ میٹرو کے سامنے والے گورمے پر پانی دستیاب نہیں تھا۔ یہاں میری نظر سڑک کی دوسری جانب کالٹیکس کی موبل آئل شاپ پر پڑی۔ موبائل پر ٹائم دیکھا تو ابھی بریک کا پونا گھنٹا باقی تھا سو میں نے سڑک پار کر لی۔


ویلیو ایڈیشن

ٹشو پیپر کا ڈبہ، لسٹرکی دو پڑیاں، اور گاڑی صاف کرنیوالا کپڑا۔ اسکے علاوہ سٹاف نے بڑی تمیز سے چائے پانی بھی پوچھا ۔ 
گاڑی کی ہوا پوری کر دی، گاڑی پر کپڑا مار دیا۔


یہ سٹکر ہمیں یاد دلائے گا کہ گاڑی کا موبل آئل دوبارہ کب تبدیل ہونا ہے۔


مزید لکھنا چاہتا ہوں لیکن بتی جانے والی ہے، یہاں بیک اپ پاور نہیں ہے۔ گیم پروگرامنگ سیریز کا اگلا آرٹیکل بھی لکھنا ہے۔ میں آجکل تمام سوشل میڈیا اور بلاگنگ وغیرہ کا شغل فجر کی نماز کے بعد دفتر جانے سے پہلے کرتا ہوں۔
یا پھر شام کو دفتر سے واپس آنے کے بعد۔ دفتر میں یہ چیزیں وقت کے زیاں کا باعث بن کر ترقی میں رکاوٹ کی صورت اختیار کر جاتی ہیں۔ 
چند ہفتے پہلے تک نیند خراب ہونے کا تلخ تجربہ ہو چکا ہے اسلئے آجکل دس بجے بتی بند اور بندہ سلیپر شد۔
آخر میں اس منظر کی فوٹو جسے دیکھ کر ہر پٹرول پمپ وزٹ پر میرا دِل باغ باغ ہو جاتا ہے۔


خوش رہیں، والسلام نعیم اکرم۔

جمعہ، 6 مارچ، 2015

اقوالِ زریں وال پیپر


کافی دن ہوئے کچھ لکھا نہیں۔ البتہ ایک علیحدہ پراجیکٹ کے طور پر ماٹیویشنل اقوال زریں ٹویٹر پر ڈال رہا ہوں۔ دو چار دن بعد ایک آدھا وال پیپر بنا رہا ہوں۔ آنے والے دنوں میں ہفتہ وار دو وال پیپر بنانے کا ارادہ ہے۔ اسکے علاوہ یہ اکائونٹ آٹو  پائلٹ پر چلا کریگا۔ یہاں مختلف گیلریز بنا کر رکھنے کا ارادہ ہے، لاکھ پچاس ہزار فالورز ہو جائیں تو اچھی ٹریفک مل جاتی ہے۔ 

 آپ بھی ضرور فالو کریں، انشاءاللہ اچھی کوالٹی کے اقوال زریں، اور معلوماتی تفریحی مواد پیش خدمت کیا جائیگا۔

@MotivateQuo


 ابھی تک جو کام کیا حاضر خدمت ہے۔


کوئی بھی دوستی اعتماد کے بغیر نہیں چل سکتی، اور اعتماد کھرے پن کے بغیر نہیں آتا۔
سٹیفن کووے(انتہاری کارگر لوگوں کی سات عادتیں)۔
Seven Habits of Highly Effective People



"کوئی خاص خواب نہ دیکھا تھا، بس یہ جذبہ تھا کہ اپنی ابتدائی تقدیر کو قبول نہیں کرنا۔ " 

مہید التراد، شامی فرانسیسی مسلمان کامیاب انسان، کمپیوٹر سائنس پی ایچ ڈی،  کاروباری، رگبی ٹیم کا مالک۔




"ایک مرتبہ ہم اپنی حدوں کی پہچان کر لیں تو پھر انکو توڑ بھی لیتے ہیں۔"

بابائے ایٹم بم و جدید فزکس، حضرت آئن سٹائن۔



"کونجیں اتنی لمبا سفر کیسے کر لیتی ہیں؟ تنظیم سے۔"

نعیم اکرم 


"سکون کرو اور او ڈیسک پر لگے رہو"
نعیم اکرم۔

"سکون کرو اور کرکٹ ورلڈ کپ مت دیکھو۔"
نعیم اکرم

"معجزہ یہ ہے کہ جتنا ہم دیتے ہیں، اتنا ہمیں اور ملتا ہے"

لینرڈ نیموئے۔ 





Pak Urdu Installer

Pak Urdu Installer