طالب حسین کا تعلق بورے والا کے علاقے کچی پکی سے ہے۔ تلاش معاش میں بیوی بچوں کو لے کر کافی عرصہ پہلے لاہور آ گیا تھا۔ طالب حسین کی چار بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا۔ آمدنی کا ذریعہ گورنمنٹ کی روزگار سکیم سے قسطوں پر لیا گیا
رکشہ۔ طالب حسین کے اکلوتے بیٹے سونی کی عمر صرف چودہ سال تھی اور اسے رکشہ چلانے کا بڑا شوق تھا۔ پڑھنے لکھنے کے جھنجھٹ میں وہ کبھی پڑا ہی نہیں تھا۔ طالب نے روزی کمانے کی ذمہ داری خود ہی اٹھا رکھی تھی، بہرحال سونی
کبھی کبھار شوقیہ رکشہ لے کر سواری وغیرہ اتارنے نکل جاتا تھا۔
اُس دِن بھی ایسے ہی رکشہ لے کر گھر سے نکلا، فردوس مارکیٹ کے سٹینڈ پر جانے کے تھوڑی دیر بعد اسکے پاس دو نوجوان آئے۔ بھائو تائو کے بعد وہ انکو واہگہ بارڈر لے جانے پر رضا مند ہو گیا۔ چلا تو وہ گیا، لیکن چھے ماہ گزر گئے وہ
واپس نہ آیا۔ ماں باپ نے بڑی بھاگ دوڑ کی، جو جمع پونجی تھی خرچ کر دی لیکن بے سود۔ سونی کی ماں راتوں کو اٹھ کر روتی اور دعائیں کرتی رہی۔ اسے رہ رہ کر اپنے لاڈلے بیٹے کی یاد آتی تھی۔
رکشہ البتہ دوسرے ہی دِن بھٹہ چوک کے علاقے سے پکڑا گیا۔
پولیس افسر بڑی دیر سے اپنے سالے کو فون کر رہا تھا لیکن سالے کا فون بند جا رہا تھا۔ بالآخر کال مِل ہی گئی۔
افسر: کیا تکلیف ہے تمہارے فون کو؟
سالا: یار فون خراب ہے اچانک بند ہو جاتا ہے۔
افسر: اچھا میرے پاس ایک سیٹ پڑا ہے وہ لے لے لینا۔
کچھ اور گفتگو کے بعد فون بند ہو گیا۔ چند دِن بعد سالے نے افسر سے فون لے کر اس میں اپنی سِم ڈال لی۔
یہ فون افسر نے کچھ ڈکیتوں کے قبضے سے برآمد کیا تھا۔ فون آن ہوتے ہی آئی ایم ای آئی نمبر سی آئے اے والوں کے نوٹس میں آ گیا۔ سی آئی اے والے اِس فون کو ٹریس کرتے کرتے سالے کے پاس جا پہنچے، سالے سے افسر کا پتہ چلا، اور
افسر سے ان ڈکیتوں کا جن کے قبضے سے یہ موبائل برآمد ہوا تھا۔۔۔ سونی کا موبائل۔۔۔
پولیس نے ڈکیتوں کا جسمانی ریماںڈ لے لیا، جسکے نتیجے میں ان لوگوں نے سونی کے بارے میں دِلدوز انکشاف کر ہی دیا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ سونی کو بارڈر والے علاقے میں لے گئے، وہاں جا کر انہوں نے اس سے رکشہ چھین لیا اور اسے
بھاگ جانے کو کہا۔ لیکن سونی ضد پر اڑ گیا، اور کہنے لگا کہ وہ رکشہ لے کر ہی جائے گا۔ ان لوگوں نے اسے کسی طریقے سے نشہ آور دوا پلائی، لیکن رات کے بارہ بجے تک اسے نشہ نہ ہوا۔ بالآخر بارہ بجے کے بعد بچہ بے ہوش ہو گیا۔
ڈکیتوں نے اسکی شلوار میں سے نالہ نکال کر پھندا بنایا، اور اس سے سونی کا گلا گھونٹ ڈالا۔ قتل کرنے کے بعد اس معصوم کی لاش کو پاس ہی دفنا کر اور اسکے کپڑے جلا کر وہاں سے فرار ہو گئے۔قاتلوں کی نشاندہی پر سونی کی لاش برآمد ہو
چکی ہے۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ ابھی نہیں آئی۔ پولیس کو شک ہے کہ کہیں بچے کے ساتھ قتل سے پہلے زیادتی نہ کی گئی ہو۔
مجھے یہ بات کچھ دیر پہلے سونی کی ایک رشتہ دار خاتون سے پتہ چلی۔ اس وقت سے لے کر اب تک مجھے بے چینی لگی ہوئی ہے۔ ایک سو ایک سوال میرے دِل میں آ رہے ہیں۔ ڈیڑھ دو لاکھ کے رکشے کی خاطر ایک انسان دوسرے انسان کی جان کیسے لے سکتا ہے۔ شاید یہی اسفل السافلین ہیں، انسانیت کے نام پر داغ۔
ہاہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرے خدا، میرے رب
جواب دیںحذف کریںاس ملک میں غریب کے ساتھ یہی ہوتا ہے،اسی لیئے مجرمین دیدہ دلیر ہیں،پولس کا تاریک کردار بھی سب کے سامنے ہے،گوکہ مشرف نے شعیب سڈل کے ذریعے اعلی افسران کی تطہیر اور تربیت کروائی ہے مگر نیچے کا گند صاف ہونا ابھی باقی ہے،
جواب دیںحذف کریںاللہ بچے کےماں باپ کوصبر اوربہترین بدل عطا فرمائیں،اورتمام ظالموں کی جڑ ہمیشہ کے لیئےکاٹ دیں،آمین یا رب العالمین
Abdullah
آج کی دنيا مين بے رسوخ ہونا بھی ايک جُرم بن گيا ہے ۔
جواب دیںحذف کریں