An Urdu Translation Of Three Hermits by Leo Tolstoy, Part 2
بوڑھے اُسے دیکھ کر ادب سے جھکے، اس نے انہیں دعا دی، جسے سن کر وہ اور بھی جھک گئے۔ پھر پادری ان سے مخاطب ہوا۔
اللہ کے بندو میں نے سنا ہے کہ تم یہاں رہتے ہو، اپنی روح کی حفاظت کی خاطر اور تم خدا سے کُل عالمین کی خیر بھی مانگتے ہو۔ میں بھی مسیح کا ادنٰی خادم ہوں، خدا کی مہربانی سے اسکی رعایا کا دھیان رکھنا اور انکی تربیت کرنا میری ذمہ داریاں ہیں۔ اللہ والو میری خواہش ہے تھی کہ تم سے مِلوں اور کچھ تمہیں بھی سکھلائوں۔
بوڑھے ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرائے، لیکن خاموش رہے۔
مجھے بتائو، پادری بولا۔۔۔ تم اپنی روح کی حفاظت کی خاطر کیا کر رہے ہو، اور تم اِس جذیرے میں رہ کر خدا کا کونسا کام کر رہے ہو؟
دوسرے درویش نے آہ بھری، اور سب سے بوڑھے... سب سے قدیم بابے کی طرف دیکھا۔ بابا مسکرایا اور گویا ہوا
بندہء خدا، ہمیں نہیں پتہ خدا کی خدمت کیسے کرنی ہے۔ ہم تو بس اپنے کام کاج کر کے گذر بسر کرتے ہیں۔
لیکن تم خدا کی عبادت کیسے کرتے ہو؟ پادری نے پوچھا۔
ہم تو ایسے عبات کرتے ہیں، درویش بولا
تم تین ہو، ہم بھی تین ہیں، ہم پر رحم کرو۔
جب بوڑھا یہ الفاظ کہہ رہا تھا، تینوں درویشوں نے نگاہیں آسمان کی سمت اٹھا لیں اور بولے
تم تین ہو، ہم بھی تین ہیں، ہم پر رحم کرو۔
پادری مسکرایا۔
تم لوگوں کو مقدس تکون کا تو پتہ ہے، لیکن تمہارا عبادت کا طریقہ درست نہیں ہے۔ اللہ والو مجھے تم سے ہمدردی ہو گئی ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ تم خدا کو خوش کرنا چاہتے ہو، لیکن تمہیں طریقہ نہیں پتہ۔
ایسے نہیں کرتے عبادت۔۔۔ میں تمہیں سکھا دوں گا، تم سنتے جائو۔ جو طریقہ میں تمہیں بتائوں گا وہ میرا اپنا گھڑا ہوا نہیں ہے، بلکہ خداوند نے مقدس صحیفوں میں بندوں کو اس طریقے سے اُسکی عبادت کرنے کا حکم دیا ہے۔
پھر پادری نے انہیں سمجھانا شروع کیا کہ کس طرح خدا نے خود کو لوگوں پر ظاہر کیا۔ اس نے انہیں باپ خدا، بیٹے خدا، اور مقدس روح خدا کے بارے میں بتایا۔
بیٹا خدا انسانوں کی جان بخشی کروانے زمین پر آیا۔ اور اس نے ہمیں عبادت کا یہ طریقہ سکھایا۔۔۔
" ہمارا باپ "
پہلا بوڑھے نے پادری کے پیچھے دہرایا، ہمارا باپ اسکے پیچھے دوسرا بولا ہمارا باپ اور پھر تیسرا بولا ہمارا باپ
جو عالم بالا میں ہے، پادری بولا
پہلے بوڑھے نے دہرایا "جو عالم بالا میں ہے" ، لیکن دوسرے والے سے الفاظ خلط ملط ہو گئے۔ اسکے بڑھے ہوئے بال اسکے منہ میں آ رہے تھے، اسلئے اس سے صحیح بولا نہیں جاتا تھا۔ سب سے بوڑھے بابے کے دانت نہیں تھے، اس نے بھی
پوپلے منہ سے کچھ انٹ شنٹ بول دیا۔
پادری نے دوبارہ الفاظ دہرائے، اسکے پیچھے پیچھے بوڑھے بھی دہرانے لگے۔ پادری ایک پتھر پر بیٹھ گیا، اور بوڑھے اسکے سامنے بیٹھ گئے، جیسے جیسے وہ بولتا بوڑھے بھی اسکے منہ کی طرف دیکھ کر دہراتے جاتے۔ سارا دِن پادری جان مارتا رہا، ایک ایک لفظ کو بیس بیس تیس تیس سو سو مرتبہ تک دہراتا رہا، اور بوڑھے۔۔۔ اسکے پیچھے پیچھے دہراتے رہے۔ وہ غلطی کرتے، وہ تصحیح کرتا، اور پھر شروع سے شروع کرا دیتا۔
پادری وہیں رہا، حتٰی کہ اس نے انہیں پوری دعا زبانی یاد کروا دی، وہ نہ صرف اسکے پیچھے دہرانے جوگے ہو گئے بلکہ اسکے بغیر بھی پوری دعا انہیں یاد ہو گئی۔ درمیانے والے نے سب سے پہلے دعا یاد کر کے زبانی سنائی۔ پادری کے
کہنے پر اس نے دوسروں کی بار بار دہرائی کروائی، بالآخر دوسروں کو بھی دعا ازبر ہو گئی۔
اندھیرا چھا رہا تھا، اور پانیوں کے پیچھے سے چاند طلوع ہو رہا تھا، تب پادری جہاز پر واپس جانے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا۔
اس نے بوڑھوں سے جانے کی اجازت مانگی، وہ سارے اسکے سامنے احتراماً جھک گئے۔ اس نے انہیں اٹھایا، اور ایک ایک کو چوما، اور انہیں اِسکے بتائے ہوئےطریقے پر عبادت کرنے کی ہدایت کی۔
کشتی میں بیٹھ کر واپس جاتے ہوئے اسے بوڑھوں کی آوازیں آ رہی تھیں، وہ اونچی اونچی دعا پڑھ رہے تھے۔ جیسے جیسے کشتی جہاز کے نزدیک ہوتی گئی، انکی آوازیں مدھم ہوتی چلی گئیں، لیکن چاند کی چاندنی میں انکے ہیولے پھر بھی دکھائی
دے رہے تھے، جہاں وہ انہیں چھوڑ کر آیا تھا اسی جگہ پر کھڑے سب سے چھوٹا درمیان میں، بڑا دائیں، اور درمیانا والا بائیں۔ پادری کے جہاز پر پہنچتے ہی لنگر اٹھا کر بادبان کھول دیئے گئے۔ ہوا نے بادبانوں کو بھر دیا، اور جہاز جذیرے سے
دور دھکیلا جانے لگا۔ پادری عرشے پر ایک جگہ بیٹھ گیا اور اس جذیرے کی جانب دیکھنے لگ پڑ جسے وہ پیچھے چھوڑ آیا تھا۔ تھوڑی دیر تک درویش نظر آتے رہے، لیکن پھر وہ نظر سے اوجھل ہو گئے، جذیرہ بہرحال نظر آتا رہا۔ آخر کار وہ بھی غائب ہو گیا، تاحد نگاہ سمندر ہی سمندر رہ گیا۔۔۔ چاندنی میں کروٹیں لیتا سمندر۔
زائرین لیٹ کر سو گئے، عرشے پر خاموشی چھا گئی۔ پادری سونا نہیں چاہتا تھا، لیکن عرشے پر اکیلا ہی بیٹھا رہا، اور سمندر میں اس سمت دیکھتا رہا جہاں اب جذیرہ نظر نہیں آ رہا تھا، بھلے مانس درویشوں کے بارے میں سوچتے ہوئے۔ اس نے سوچا کہ وہ لوگ دعا یا کر کے کتنے خوش ہوئے تھے؛ اور خدا کا شکر ادا کیا کہ اُس نے اِسے اتنے خدا پرست لوگوں کو کچھ سکھانے اور انکی مدد کرنے کا موقع دیا۔
بس جی پادری بیٹھا رہا، سوچتا رہا، اور سمندر کی جانب دیکھتا رہا جہاں جذیرہ اوجھل ہوا تھا۔ چاندنی اسکی نظروں کے سامنے ٹمٹماتی رہی، جلھملاتی رہی، ابھی یہاں ابھی وہاں لہروں کے دوش پر۔
اچانک اسے کوئی سفید اور چمکتی ہوئی چیز دکھائی دی، سمندر پر پھیلی چاندی میں۔ پتہ نہیں کوئی بگلا تھا، یا کسی کشتی کا چھوٹا سا چمکدار بادبان؟ پادری نے سوچتے سوچتے اُس پر نظر ٹکا دی۔
یہ کوئی کشتی ہی لگتی ہے، جو ہمارے پیچھے پیچھے چلی آ رہی ہے۔ لیکن قریب بڑی تیزی سے آ رہی ہے۔ ابھی چند لمحے پہلے تو بہت دور تھی، لیکن اب بہت نزدیک۔ کشتی تو نہیں ہو سکتی، کیونکہ بادبان کوئی نہیں نظر آ رہا۔ خیر جو کچھ بھی ہے، ہمارا پیچھا کر رہا ہے اور ہم تک پہنچنے ہی والا ہے۔
اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ آخر چیز تھی کیا؟ کشتی نہیں ہے، پرندہ نہیں ہے، مچھلی بھی نہیں ہے۔ آدمی سے تو وہ بہت ہی بڑی چیز تھی، اور ویسے بھی بندہ سمندر کے بیچوں بیچ تو آ ہی نہیں سکتا۔ پادری اٹھا، اور ملاح سے بولا
وہ دیکھو یار، وہ پتہ نہیں کیا چیز ہے؟پتہ نہیں کیا چیز ہے؟ پادری نے تکرار کی، حالانکہ اب اسے صاف دکھائی دے رہا تھا کہ کیا چیز ہے۔۔۔
پانی پر دوڑے چلے آتے ہوئے، تینوں درویش، نِرے چِٹے سفید، انکی بھوری داڑھیاں چمک رہی تھیں، اور وہ اتنی تیزی سے جہاز کے قریب آ رہے تھے جیسے کہ جہاز رُکا ہوا ہو۔
ان پر نظر پڑتے ہی پتوار پر بیٹھے ملاح نے خوف کے مارے پتوار چھوڑ دیا۔
اوہ میرے خدا!درویش ہمارے پیچھے پانی پر ایسے بھاگے چلے آ رہے ہیں جیسے خشک زمین پر بھاگ رہے ہوں۔
دوسرے مسافر اسکی یہ بات سنتے ہی اٹھ کھڑے ہوئے ، اور جہاز کے کنارے ان کا مجمع لگ گیا۔ انہوں نے دیکھا کہ درویش ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے انکی طرف چلے آ رہے ہیں، دائیں بائیں والے درویش جہاز کو رکنے کے لئے اشارے کر رہے رہے تھے۔ پانی کے اوپر تینوں بنا پائوں ہلائے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے اڑے چلے آ رہے تھے۔ جہاز کے رکنے سے پہلے درویش اس تک آن پہنچے، سر اوپر اٹھائے تینوں بیک آواز کہنے لگے
اللہ کے بندے، ہمیں تیری بتائی ہوئی تعلیمات بھول گئی ہیں۔ جتنی دیر ہم دہراتے رہے، ہمیں یار رہیں، لیکن جونہی ہم نے ذرا دہرائی روکی ایک حرف بھول گیا۔ اور اب حرف حرف کر کے ساری دعا ہی بھول گئی ہے۔ ہمیں کچھ یاد نہیں رہا ہے۔ ہمیں دوبارہ سکھلا دو۔
پادری نے سینے پر صلیب بنائی، اور جہاز کے کنارے پر جھک کر بولا
اللہ کے بندو، تمہاری خود کی دعا خدا کو پہنچ جائے گی، میں تمہیں کچھ نہیں پڑھا سکتا، بس ہم گنہگاروں کے لئے دعا کر دینا۔
پھر پادری اُن بوڑھوں کے سامنے بہت ادب سے جُھک گیا، وہ مڑے اور سمندر پر اڑتے ہوئے نگاہوں سے اوجھل ہو گئے۔ جس جگہ وہ نظروں سے اوجھل ہوئے تھے ایک نور سحر ہو جانے تک اس جگہ لشکارے مارتا رہا۔
ختم شد
فنٹاسٹک
جواب دیںحذف کریںبہت هی عمدھ
خیال افروز!
جواب دیںحذف کریںیہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کون اسکے زیادہ مقرب بندوں میں شامل ہے۔
کبھی عبات گزار۔ کبھی شکر گزار۔
بہت شکریہ خاور اور جاوید۔
جواب دیںحذف کریںبے شک بہت سی باتوں کا علم صرف اللہ پاک ہو ہی ہوتا ہے۔۔۔
بہت خوب، بہت اچھاترجمہ کیاہےاورکہانی کامطلب بھی بالکل واضح ہے۔ اللہ تعالی ہم کوصحیح طورپردین اسلام پرچلنےکی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین ثم آمین
جواب دیںحذف کریں