سڑک کنارے کھڑی موٹر سائیکل ایمبولینسیں، لوگوں کا ایک چھوٹا سا ہجوم، اور رُک رُک کر چلتی ٹریفک۔ نہر والی سڑک پر یہ منظر روز مرہ کا معمول ہے البتہ پاس سے گُزرتے ہوئے موٹرسائیکل آہستہ کر کے کسی سے یہ پوچھنا کہ "بندے بچ گئے ہیں؟" بھی ہمارا روزمرہ کا معمول ہی ہے۔
لیکن اُس روز جب ہم ایک ایسے ہی مجمعے کے پاس سے ایسے ہی پوچھ گچھ کرنے کیلئے آہستہ ہوئے تو ہم نے ایک ایسا منظر دیکھا جسکے بعد ہم مجبورا موٹر سائیکل ایک جانب کھڑی کر کے مجمع کا حصہ بن گئے۔
سڑک پر ایک بھیجا دھرا ہوا تھا اور اسکے پاس ایک زخمی آدمی لیٹا ہوا تھا۔ ریسکیو والے پائوں کے بل بیٹھ کر کُچھ کر رہے تھے، شاید ٹیکہ وغیرہ بھر رہے تھے۔ ہمیں لگا کہ زخمی حرکت کر رہا ہے۔ اُس سے چند قدم دور ہونے کیوجہ سے ہم نے تصدیق کی خاطر مجمع میں شامل ایک اور پیٹی بھائی سے پوچھا کہ "بندہ مر گیا ہے؟" "نہیں، ابھی ہِل رہا ہے" اُسنے جواب دیا۔
لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ بھیجا باہر نِکل جائے اور آدمی پھر بھی ہِلتا رہے؟ ہم نے کندھوں کا زور استعمال کرتے ہوئے چند افراد کو دائیں بائیں سرکایا اور لامبے قد کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے مجمع کے اوپر سے جھانک کر صورتحال کا جائزہ لیا۔
سڑک پر خون بِکھرا تھا، آدمی کا سر بھی خون سے لت پت تھا، لیکن سڑک پر چند خون آلود پٹیاں گول مول کر کے رکھی ہوئی تھی۔ ہم شاید انہیں کو بھیجا سمجھے تھے۔
لیکن نہیں، انہیں پٹیوں کیساتھ ہی ایک عدد مغز بھی نیم ملیدہ حالت میں موجود تھا۔ "اوئے دفع ہو جائو، پیچھے ہٹ جائو۔ اِدھر کوئی تماشہ لگا ہے کیا؟" گرجدار آواز گونجی تو مجمع میں شامل افراد کھسیانے ہو کر چند قدم پیچھے ہٹ گئے۔ کُچھ نے ہیلمٹ پہنے اور موٹرسائیکل سٹارٹ کر چلتے بنے۔ ہم البتہ اس مُعمے کو حل کئے بغیر پیچھے ہٹنے والے نہ تھے۔ دِل ہی دِل میں خود کو ہیلمٹ کے بغیر موٹر سائیکل چلانے پر لعنت ملامت کی اور ذرا سرک کر وہیں جمے رہے۔
اب اس آدمی کی مثال ہی لے لیں، اگر ہیلمٹ پہنا ہوتا تو اسکا مغز سڑک پر نہ پڑا ہوتا۔ اچانک اُس آدمی کی چیخ گونجی۔ ہم نے اُسکی جانب دیکھا تو چکرا کر رہ گئے۔ جِس آدمی کا دِماغ سڑک پر ہو وہ چیخ کیسے سکتا ہے؟ اسی اثنا میں ایمبولینس کے ہوٹر کی صدا سنائی دی۔ ریسکیو ورکر نے ایک مرتبہ پھر لوگوں کو پیچھے ہٹ جانے کی درخواست کی مگر ایسا لگتا تھا کہ لوگوں پر سحر طاری تھا اور وہ ہِلنے کو تیار نہ تھے۔ تیزی سے اپنی جانب آتی ایمبولینس کو دیکھ کر ذمہ دار شہری فٹا فٹ بادلوں کیطرح بس اتنا سا چھٹ گئے کہ ایمبولینس کو جائے وقوعہ تک پہنچنے کا موقع مِل گیا۔
اُنہوں نے زخمی کو ایمبولینس میں منتقل کر دیا لیکن اُسکا دماغ وہی سڑک پر پڑا رِہ گیا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ کسی کو اُسکے دماغ کی کوئی پرواہ ہی نہ ہو۔ ہم نے ایک مسیحا کا کندھا پکڑ کر اُسے جھنجھوڑا اور سوال پوچھا کہ "یہ کیوں باہر چھوڑ دیا آپ نے؟" اُس نے تنک کر جواب دیا "جائو اپنا کام کرو، اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا"۔
یا حیرت! یا حیرت! ہم دو قدم پیچھے ہٹے تو اچانک ہمارا پائوں پِھسل گیا، گِرنے سے بچنے کیلئے ہمارا دایاں بازو لاشعوری طور پر پھیلا اور ہاتھ سڑک پر ٹِک گیا۔ مگرجہاں ہاتھ ٹِکا تھا اُسکو دیکھ کر ہم پر ہذیان طاری ہو گیا۔ پائوں زخمی کے خون سے پھسلا تھا اور ہاتھ جا کر سیدھا دِماغ پر ٹھہرا تھا۔
ہم نے دائیں بائیں مدد کیلئے دیکھا تو پاس ہی کھڑی موٹرسائیکل کی ٹینکی میں سے جھانکتے صفائی والے میلے کپڑے پر نظر پڑی۔ ہم نے جلدی سے کپڑا پکڑا اور رگڑ رگڑ کر اپنے ہاتھوں سے اُسکا بھیجا اُتارنے لگے۔ لیکن وہ زِندہ کیسے تھا؟ لیکن وہ چیخ کیسے رہا تھا؟ آخریہ کیسے مُمکن ہے؟
ایمبولینس رُخصت ہو چُکی تھی، تماشبین بھی جا چُکے تھے۔ چند کُتے آس پاس منڈلا رہے تھے۔ ہم ہاتھ دھونے کی نیت سے نہر کیجانب چل پڑے۔ ہاتھ دھونے کیبعد ہم نے دیکھا کہ اب وہاں کُتوں کا اجتماع لگ چُکا تھا۔ ایک بڑا سا کُتا سڑک پر پڑا مغز چاٹ رہا تھا جبکہ دیگر سگانِ کم مایہ اُسکے جانب حسرت سے دیکھ رہے تھے۔
ہم سے مغزِ انسانی کی یوں بے توقیری برداشت نہ ہوئی تو سڑک سے ایک پتھر اُٹھا کر بڑے کُتے کو دے مارا۔ اُس نے ایک دِلدوز چیخ ماری اور ایکجانب دوڑ لگا دی۔ اُسکے دیگر ساتھی بھی بھاگ نکلے، کچھ کے منہ میں چھیچھڑے تھے، کچھ کو بوٹیاں نصیب ہوئی، اور کچھ بھاگتے بھاگتے شاپر پر جھگڑ رہے تھے۔
ہم نے بھی اپنی موٹرسائیکل سٹارٹ کی اور اسکو ایکجانب دوڑا دیا۔
نعیم اکرم ملک
دس فروری دو ہزار اکیس