یہ قصہ ہے گرمیوں کی ایک دوپہر کا۔ بچے گرمیوں کی چھٹیاں منانے اپنی نانی اماں کے
گھر گئے ہوئے تھے۔
ہمیں دفتر سے چُھٹی تھی، اور بجلی کو واپڈا سے۔ رات بھی ڈھنگ سے نیند پوری نہ ہوئی تھی
اور اب تو سونے کا کوئی چانس ہی نہ تھا۔ بجلی کی طویل رخصت کی بدولت یو پی ایس
بے ہوش ہو چکا تھا
اور پنکھے ساکت۔ اس پسِ منظر میں ہم نے دِن کا بقیہ حصہ نہر کنارے سو کرگزارنے کا فیصلہ کیا۔
یوں ہم بوریا بستر یعنی کہ چٹائی اور پانی کا کولر وغیرہ اُٹھا کر نہر کیجانب چل نکلے۔
سامعین و حاضرین میں سے کئی کو نہر کے گندے ہونے پر اعتراض ہو گا۔ البتہ ہم اس قسم کی باتوں کی پرواہ نہیں کرتے، کیونکہ "گندی ہے پر ٹھنڈی ہے"۔
پس اشنان کرنے کیبعد، طے شُدہ پروگرام کے مطابق قریب ہی ایک درخت کی چھائوں میں چٹائی بچھائی
اور چاروں شانے چِت ہو کر لیٹ رہے۔ ارادہ تھا کہ تھوڑی دیر سولیا جائے۔
البتہ نہر پر برپا طوفانِ بد تمیزی اور ٹریفک کی پاں پاں کیوجہ سے سونے کی تمام کوششیں ناکام ٹھہریں۔
گھر واپس جانا بھی بیکار تھا۔ موسم البتہ ابر آلود ہو رہا تھا، سو نہر میں چند مزید ڈُبکیاں لگانے کیبعد
ہم جلو پارک کیجانب عازمِ سفر ہوئے۔ سوچا کہ باغ کی خامشی میں کسی برگِ گُل کی چھائوں سے لُطف
اندوز ہوتے ہوتے خوابِ خرگوش کے مزے لوٹیں گے۔
منزلِ مقصود پر پہنچنے کیبعد ہم نے پہلے سے سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق گھنے درختوں کی
چھائوں میں استراحت کا انتظام کیا، یعنی چٹھائی بچھائی کر کولر کو پاس ہی ٹکایا اور ایک مرتبہ پھر دراز
ہو گئے۔ کچھ دیر بعد اسطرف تین چار بچے اپنے دو عدد والدین سمیت آ دھمکے۔
انہوں نے "شیطانوں کا کھیل" کرکٹ کھیلنا شروع کر دیا جسکی وجہ سے ماحول کا سکون پہلے جیسا نہ رہا۔
البتہ یہ "تبدیلی" قابلِ برداشت تھی اور اسکے باوجود نیند کی دیوی ہم پر مہربان ہو ہی گئی۔
مگر قدرت کو ہمارا سونا منظور نہ تھا، کچی پکی نیند کو ایک بچے کی آواز نے کرچی کرچی کر دیا۔
"انکل، پانی ہے"
"ہاں ہے" میں نے اُکتائی ہوئی آواز میں جواب دیا۔
"پی لوں؟" اُسکا اگلا سوال تھا۔
"اوہ پی لے بھائی" جواب دیکرمیں نے آنکھیں دوبارہ بند کر لیں۔
لیکن پکچرابھی باقی ہے دوست۔ بچے کو ایک سوال اور پوچھنا تھا۔
"انکل گلاس کہاں ہے؟"
اتنے سوال اگر اب تک میرے اپنے بچے نے پوچھے ہوتے تو عین ممکن ہے معالمہ اسکی والدہ کی سپریم
کورٹ تک جا چُکا ہوتا اور بچے کو پانی کے بجائے سوئے ہوئے والد کو سے حتی الامکان دور رہنے پر
لیکچر مِل رہا ہوتا۔ لیکن افسوس یہ ممکن نہ تھا۔ لفافے سےگلاس نکالا اور خود ہی بھر کر اُسکی خدمت
میں پیش کیا کہ جلدی سے پیئے اور جائے۔
بچے نے پانی پیا، گلاس واپس رکھا، اور جانے سے پہلے ایک مرتبہ پھر بوُل پڑا۔
"انکل تھینک یو"۔
اس مرتبہ اُس نے ایسی بات کی تھی کہ باوجود اکتاہٹ کے مجھے مسکرانا ہی پڑا۔
"یو آر ویلکم"اب میں نے خوشدلی سے جواب دیا اور آنکھیں بند کر لیں۔
بمشکل دو منٹ گُذرے ہونگے کہ ایک اور بچہ پانی پینے آ دھمکا۔
میں نے سوچا کہ کولر انہی کو دے دیتا ہوں کہ جائو جتنا مرضی پانی پیو، جاتے ہوئے کولر لوٹا جانا۔
پانی پی کر یہ بچہ بھی "تھینک یو انکل" کہہ گیا۔
اسی طرح کچھ دیر بعد انکی ننھی بہن کو بھی پیاس لگی اور اسنے بھی آ کر پوچھا "انکل پانی پی لوں؟"
جاتے جاتے اسنے بھی "انکل تھینک یو" کی پُھلجھڑی چلائی۔
اچھی تربیت کے اثرات صاف ظاہر تھے۔
اِن بچوں کیبعد اور بھی کئی لوگ پانی پینے آئے۔ گملے بھرنے والا لڑکا، بوُڑھا مالی، اور
جوڑوں کے شکاری دو موٹرسائیکل سوار پولیس والے۔ ان سب نے پانی پیا،
لیکن بچوں جیسا تھینک یو کسی نے نہیں کہا۔
اُس روز مجھے اندازہ ہوا کہ زندگی میں شُکریہ ادا کرنے کی کیا اہمیت ہے۔
"تھینک یو"، "مہربانی"، "معذرت"، "پلیز"، کرشماتی الفاظ ہیں جو کہ اُکتائے ہوئے انسان کو بھی مُسکرانے
پر مجبور کر دیتے ہیں۔
رہا سوال میرے سونے کا، تو جناب کُچھ ہی دیر بعد موسا دھار بارش شروع ہو گئی۔
اس سے بھاگنا کُفرانِ نعمت ہوتا۔ پس ہم بارش میں خوب نہائے اور کئی مرتبہ بے اختیار منہ سے یہ الفاظ
نکلے
"تھینک یو اللہ میاں"