اتوار، 13 دسمبر، 2015

ویڈیو - دو ہزار پندرہ کی کتابیں



کتابیں جو میں نے دو ہزار پندرہ میں پڑھیں from Naeem Akram on Vimeo.

دو ہزار پندرہ اس لحاظ سے اچھا سال تھا کہ مجھے کافی کتابیں پڑھنے کا موقع مِلا۔ دو ہزار چودہ میں فقط ایک کتاب پڑھ پایا تھا، ایک تیرہ میں اور ایک ہی بارہ میں 
بھی۔
آپ نے اِس سال کونسی کتابیں پڑھیں؟
کمنٹ میں اپنی کتابوں کے نام ضرور بتائیے گا۔
نعیم اکرم۔

جمعرات، 3 دسمبر، 2015

انجمن دُم پسند مصنفین



Ali Akbar Natiq - Urdu writer
علی اکبر ناطق، مصنف

تیسری دفعہ کا ذکر ہے، ایک گاﺅں میں ایک آدمی تھا۔ جس
کا ذاتی کردار کا فی مشکوک تھا ۔ ہر روز نیا اشقلہ چھوڑ دیتا اور گاﺅں والوں سے پھٹکاریں سُنتا۔ انہی کرتوتوں کے باعث ایک دن گاﺅں سے بھاگ گیا اور جنگلوں کی راہ لی ۔چلتا چلتا ایسی جگہ پہنچ گیا جہاں دُور تک آدم نہ آدم زاد ۔ جدھر نظر پڑتی بندر ہی بندر تھے ۔ کافی دنوں کی مسافت کے بعد اِن صاحب کا حلیہ بھی کچھ اُنہی کا سا ہو گیا تھا ۔چہرے اور سر کے بال بڑھ کر جھاڑ جھنکاڑ ہو گئے ۔ چنانچہ بندر اُس کو دیکھ کراپنی ہی نسل کی کوئی شے سمجھے اور بدکے وِدکے نہیں ۔ وہاں جڑی بوٹیاں کثرت سے تھیں جن پر اس کا گزارا ہونے لگا ۔ کئی سال گزر گئے ۔ بندروں کی صحبت اُس کو ایسی بھائی کہ یہ وہیں کا ہو کر رہ گیا ۔

 رفتہ رفتہ اُسے بھی یقین ہونے لگا کہ در اصل وہ بھی ایک بندر ہے ۔ کمی ہے تو صرف دُم کی ۔اُس نے سوچا اِس سے کیا فرق پڑتا ہے ۔چنانچہ اپنے بندر ہونے کی دریافت پر بہت خوش ہوا ۔ اِسی خوشی میں بھاگا بھا گا دوبارہ گاﺅں پہنچا اور آتے ہی اعلان کر دیا کہ وہ بندر ہے اور ناصرف وہ بندر ہے بلکہ سب گاﺅں والے بھی بندر ہیں ۔ یہ سُن کر حسبِ توقع گاﺅں کی اکثریت نے اُس کا حقہ پانی بند کر دیا اور اُسے دُر فٹے منہ کہا مگر وہ اپنی بات پر اڑا رہا ، اپنے اور اُن کے بندر ہونے پر اصرار کرتا رہا ۔کچھ عرصے بعد اُنہی میں سے کچھ لوگ اُس باندر کے ہم خیال ہو گئے (اب میں بندر کو ِ،،باندر،، لکھوں گا) ۔ ویسے بھی وہ اپنے آپ کو انسان کہلاتے کہلاتے اُکتا چکے تھے ۔انہوں نے اُس باندر سے اتفاق کرتے ہوئے کہا واقعی تم ٹھیک کہتے ہو ۔اتنا عرصہ تم انسانوں سے دور بندروں میں رہے اس لیے ہم سے بہتر جانتے ہوگے ۔ ہوتے ہوتے یہ بات پھیل گئی جس پر گاﺅں کی کابینہ فیصلہ کرنے بیٹھ گئی ۔دونوں طرف سے بھاری اکثریت تھی ۔ دلائل دیے جانے لگے ۔کچھ لوگوں نے اعتراض اُٹھایا،اگر ہم واقعی بندر ہیں تو ہماری دُم کہاں گئی ؟ اس کا جواب دینا ضروری تھا ورنہ بندر ہونے کی دلیل کمزور پڑ جاتی ۔کچھ دنوں بعد باندروں نے اس کا جواب ڈھونڈ لیا ۔ اُس اولین باندر اور اُس کے حواریوں نے ایک دن دلیل پیش کی، چونکہ ہم کافی عرصہ پہلے پیٹھ کے بَل بیٹھنے لگے تھے جس کی وجہ سے وہ رفتہ رفتہ گھس گئی ۔ دوسرا یہ کہ ہم نے دُم کا استعمال کم کر دیاتھا اور دماغ کا زیادہ ۔اور فطرت کا اصول ہے، جس چیز کا استعمال کم کر دیا جائے وہ شے بے کار ہو کر آہستہ آہستہ ختم ہو جاتی ہے۔ اس لیے ہماری دُم ختم ہو گئی اور دماغ کے زیادہ استعمال کی وجہ سے وہ مزید تیز ہو گیا۔اُس باندر کی یہ بات سب کو بڑی مدلل لگی ۔وہاں موجود بہت سے لوگوں نے اُس کی بات پر واہ واہ کیا اور بے چون و چرا اپنے آپ کو باندر اور اُسے اپنا رہبر مان لیا ۔ 

انجمن دم پسند مصنفین

اب سب کو اس بات پر افسوس ہونے لگا کہ اپنی نا اہلی کی وجہ سے ہم نے اتنی اچھی چیز کھو دی ۔ اگر ہماری دُم ہوتی تو زندگی کا لُطف دوبالا ہو جاتا۔ مثلاً اُس کی وجہ سے ہم کپڑوں سے آزاد ہو جاتے ۔ آسانی سے اپنی پیٹھ چھُپا سکتے تھے ۔درختوں پر مزے مزے سے جھولتے ۔ایک شاخ سے دوسری شاخ پر بلاجھجک دُم کا سہارا لے کر چھلانگیں لگا تے۔ ایک دوسرے کے کان میں کھُجلی کر لیتے ۔ کوئی حملہ آور ہوتا تو دم دبا کر بھاگ جاتے ۔ الغرض ایک دُم سے کئی کام لیے جا سکتے تھے ۔ ان باتوں کے پیش ِ نظر انہوں نے فیصلہ کیا کہ جو ہو گیا سو ہو گیا ۔ نا سمجھی سے کیے گئے اس بے پایاں نقصان کا ازالہ تو ممکن نہیں البتہ یہ ہے کہ اب اپنی کھوئی ہوئی دُم واپس حاصل کرنے کی طرف توجہ دی جائے ۔ چنانچہ گاﺅں والوں نے مل کر ایک انجمن بنائی ۔ اُس کا نام انجمن دُم پسند مصنفین رکھ دیا ۔اُسے یہ کام سونپا گیا کہ وہ اس بات پر سوچ بچار کرے کہ کھوئی ہوئی دُم کس طرح واپس لائی جا سکتی ہے۔ انجمن دُم پسند مصنفین نے آخر یہ فیصلہ کیا، چونکہ دُم کا نقصان دماغ کے زیادہ استعمال کی وجہ سے ہوا ہے اور فطرت کا یہ اصول ہے کہ چیز جس طرح ختم ہوتی ہے اُسی قاعدے سے واپس لائی جا سکتی ہے ۔لہذا آئندہ دماغ کا استعمال کم سے کم کیا جائے اور پیٹھ زمین پر یا سخت جگہ پر رکھنے کی بجائے فوم کے گدوں یا بڑے ہوٹلوں کی نرم نرم کرسیوں پر رکھی جائے تاکہ پیدا ہوتی ہوئی دُم کے گھِسنے کا خطرہ نہ رہے اور وہ لمبی سے لمبی ہوتی جائے ۔ 
اب اُن کے سامنے مسئلہ یہ تھا کہ دماغ کا استعما ل کیسے کم کیا جائے ۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہے ۔ ایک دن یہ معما بھی حل کر لیا گیا ۔ وہ اس طرح کہ شراب زیادہ سے زیادہ پی جائے اور اُس کے نشے میں بندر ہونے سے انکار کرنے والوں اور اپنے اشرف مخلوق کہلانے والوں بلکہ جس نے اُنہیں اشرف بنایا ہے ،اُنہیں بے دریغ گالیاں دی جائیں اور مسلسل دی جائیں ۔لہذا اس پر عمل ہونے لگا۔ مسلسل شراب پی جانے لگی اور بغیر وقفے کے انسانوں اور اُس کے بنانے والے کو گالیاں دی جانے لگیں ۔یہ عمل کافی کارآمد ثابت ہوا ۔رفتہ رفتہ دماغ نے واقعی کام کرنا چھوڑ دیا ۔ جس کا پہلا نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے کائنات کو ایک حادثہ قرار دے دیا ۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ سروں میں بھیجے کی بجائے بھوسا پیدا ہو گیا اور دماغ بالکل نہ رہا ۔مگر حیرت کی بات یہ ہوئی کہ دماغ کے چلے جانے سے دُم ، جس کے واپس آنے کی بہت توقع تھی ،وہ بھی پیدا نہ ہوئی۔ یہ ایک سانحہ عظیم تھا جس کی اُنہیں خبر تک نہ ہوئی ۔عرصے بعد جب اُن کو بتایا گیا کہ اُن کا نقصان دوہرا ہو چکا ہے ۔ دُم کے ساتھ ساتھ دماغ سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں تو وہ کچھ اونگھے ۔ اس بات پر مزید غور کرنے کے لیے انجمن دُم پسند مصنفین کے تمام ارکان دوبارہ سر جوڑ کر بیٹھ گئے ۔مگر اب مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ سوچ بچار دماغ کے ذریعے سے کرنا تھی اور وہ پاس نہیں تھا ۔ یہ بات اُن کو سمجھائی بھی نہیں جا سکتی تھی کہ اس کے لیے دماغ ہونا ضروری ہے ۔ جب اُن سے کہا گیا کہ دماغ کی واپسی اب آپ کے بس کا کام نہیں ہے۔ آپ اُٹھ کر کوئی اور کام کریں یا کم از کم مولوی بن جائیں کہ تمھاری بیشتر عادتیں اُنہی سے ملتی جُلتی ہیں ۔ مگر اب وہ یہ باتیں کہاں سُن اور سمجھ سکتے تھے ۔ وہ مکمل طور پر احساسِ کمتری میں مبتلا ہوگئے ، وہ دیکھتے تھے کہ کچھ کے پاس دُم ہے اور کچھ کے پاس دماغ ہے اور خود اُن کے پاس اِن میں سے کچھ بھی نہیں رہا ، تو وہ بے دریغ اور متواتر سب کو کوسنے دینے لگے ۔دُم والے بندر جنگلوں میں ہونے کی وجہ سے اِن کے شر سے بچے ہوئے تھے ۔ اور مولویوںسے ،اُن کے ڈر کی وجہ سے یہ خود اُ ن سے دُور رہتے تھے یا ملتے بھی تھے تو بڑے ادب و احترام سے کیونکہ مولویوں کی اکثریت بھی انہی کی طر ح شراب پی کر گالیاں دینے کی عادی تھی ۔ لہذا اِن کے مشق ِ ستم وہی انسان بنتے تھے جن کے پاس دماغ بھی تھے اور وہ شریف النفس بھی تھے۔ ہوتے ہوتے یہ مسئلہ لا ینحل صورت اختیار کر گیا اور یہ بے دُم کے بندر انسانوں کے شہر میں ایک وبا کی شکل اختیار کر گئے ۔

تو حضرات۔۔۔
 تب سے اب تک ایک عرصہ ہو گیا ہے،انجمن دُم پسند مصنفین کے تمام ارکان سوائے خُدا اور انسانوں کو گالیاں دینے کے اور شراب پینے کے، کچھ نہیں کرتے ۔اِن کے پاس اب نہ دُم ہے نہ دماغ ہے ۔کسی دوسرے کی بات نہ سُنتے ہیں نہ سمجھتے ہیں ۔ کام کاج کچھ نہیں کرتے ،جس کی وجہ سے دیگر اعضا بھی ناکارہ ہو کر آہستہ آہستہ ختم ہو چکے ہیں ۔ البتہ مسلسل گالیاں دینے اور شراب پینے کی وجہ سے اِن کی دو چیزیں کام کر رہی ہیں ایک زبان اور دوسرا مثانہ۔ ہمارا مشورہ ہے کہ کوئی اللہ کا بندہ ایسا آ ئے جو اِنہیں دوبارہ جنگلوں میں اِن کی برادری کے پاس چھوڑ آئے جہاں کم از کم اِن کا دماغی احسا سِ کمتری تو ختم ہو۔اور یہ بھی ممکن ہے وہاں ایک دو نسلیں گزارنے کے بعد ان کی دوبارہ دُم نکل آئے۔اگر اتنی بڑی کائنات حادثے سے پیدا ہو سکتی ہے تو ایک چھوٹی سی دُم کیوں پیدا نہیں ہو سکتی ۔

Pak Urdu Installer

Pak Urdu Installer