رات کے ڈھائی بج چکے ہیں، ابھی پزا ہٹ سے لوٹا ہوں۔ ایک دوست کا آج دفتر میں آخری دن تھا، اسکو الوداعی دفع دوری پارٹی دینی تھی۔ دِل تو نہیں چاہ رہا تھا لکھنے کو، لیکن اگر لٹکاتا رہا تو لکھنے نہیں ہو گا۔ لہٰذا اپنی تمام تر ذہنی و فکری صلاحیتوں کو پیزے، پیپسی اور سلاد سے مدہوش کر کے شروع کرتا ہوں رودادِ درویش کا تیسرا حصہ اور آخری حصہ۔۔۔
نتھیا گلی کی صبح
اگلی صبح دس بجے تک مجھے کوئی ہوش نہیں آیا، خیر جاگ کر ناشتہ واشتہ کیا۔ نتھیا گلی میں آفاق ہوٹل ہے، انہوں نے جہاں کرسیاں لگائی ہوئی ہیں وہاں سے وادی کا کافی خوبصورت ویو ملتا ہے۔ ناشتے کے بعد میں سڑک پر گاڑی کے انتظار میں کھڑا ہو گیا۔ اتفاق سے دوبارہ گائیڈ کا بھائی ہی مِل گیا۔ مجھے دیکھتے ہی گاڑی روکی اور نیچے اتر آیا
واجد: صاحب آپ کل رات ریسٹ ہائوس نہیں آئے، کدھر چلے گئے تھے؟
میں: یار مجھے رات کو ریسٹ ہائوس ہی نہیں مِلا، بہت ڈھونڈا میں نے۔
واجد: ہم تو بڑے پریشان تھے کہ پتہ نہیں صاحب اکیلا تھا تو کوئی مسئلہ ہی نہ ہو گیا ہو، پتہ نہیں جنگل میں راستہ بھول گئے یا کوئی چیتا ویتا ہی نہ پڑ گیا ہو۔
میں، ہنستے ہوئے: نہیں یار چیتا ویتا نہیں پڑا، بس رات کے وقت پتہ نہیں چلا ریسٹ ہائوس کہاں ہے۔ ویسے میں نے وقار کو کافی مرتبہ فون کیا لیکن اسکا نمبر بند جا رہا تھا۔
واجد: او ہو، وہ تو نیچے گائوں میں چلا گیا، شادی ہے۔ وہاں سگنل نہیں آتے موبائل کے۔
میں: اچھا یار موبائل تو اب بھی اسکا بند ہے، پھر بھی ریسٹ ہائوس جاتے ہیں شاید وقار مِل جائے تو اس سے پانچ سو روپے ہی واپس لے لوں گا۔ اسکے بعد مجھے ڈونگا گلی پائپ لائن والے ٹریک پر اتار دینا۔
قصہ مختصر ہم ریسٹ ہائوس گئے، اور وہاں جا کر مجھے خود پر بہت غصہ آیا۔ رات کے وقت میں فون پر بات کرتا کرتا ریسٹ ہائوس کے قریب سے گزر کر آگے چلا گیا تھا۔ ورنہ وہ تو چڑھائی ختم ہوتے ساتھ ہی تھا۔ لہٰذا جب بھی کہیں جائیں، اپنا ہوٹل دھیان سے دیکھ کر آس پاس کی چند نشانیاں یاد رکھ لیں۔ وقار وہاں نہِں تھا، جو لڑکا تھا پیسوں کا حساب اسکے پاس نہیں ہوتا تھا اس لئے میرا یہ پانچ سو تو ڈوب گیا۔
پائپ لائن ٹریک اور گائیڈ کی چالاکیاں
واجد گائیڈ نے مجھ سے پوچھا کہ صاحب اب آپکا کیا پروگرام ہے؟ جب میں نے کہا کہ یار پائپ لائن والا ٹریک کرنا ہے، تو وہ سوچ میں پڑ گیا۔ پھر کہنے لگا کہ صاحب آپ اکیلے اس طرف نا جائیں، آجکل چیتے بہت بھوکے ہیں کہیں کوئی حادثہ ہی نہ ہو جائے۔ میں نے کہا کہ نہیں یار، پر رونق ٹریک ہے شیر چیتے کچھ نہیں کہتے مجھے۔ پھر جوان کہنے لگا کہ صاحب سرد علاقوں کے سانپ بہت زہریلے ہوتے ہیں، کاٹ لیں تو بندہ فوراً سے پہلے پورا ہو جاتا ہے۔ آپ نہ جائیں، آپکو میں نیچے گائوں میں لے جاتا ہوں۔ مجھے سمجھ آ گئی کہ استاد اپنی دیہاڑی بنانے کے چکر میں میری چھٹی خراب کرے گا۔ اتنے میں ڈونگا گلی پہنچ گئے، یہ ٹریک بالکل مین روڈ پر ہی شروع ہو جاتا ہے۔ دنیا بھر میں مانا ہوا صحت بخش ٹریک ہے۔ اب مجھے یاد نہیں لیکن یہ ٹریک شاید انیس سو تیس کے آس پاس بنایا گیا تھا۔ ایک طرف پہاڑی ہے اور دوسری طرف کھائی، کھائی والی طرف پہ جنگلا لگا ہوا ہے۔ پورے ٹریک پر تین چار جگہ آرام کرنے کے لئے بنچ اور شیڈ بھی موجود ہیں۔ لیکن ان بینچوں کے آس پاس پلاسٹک کی بوتلیں اور لفافے بہت ہی برے لگتے ہیں، اتنی خوبصورت جگہوں کو لوگ پتہ نہیں کیسے گندا مندا چھوڑ کر آ جاتے ہیں، میں تو جو بسکٹ چپس بوتلیں وغیرہ کھاتا پیتا رہا انکے لفافے وغیرہ جمع کر کے جہاں کوڑا دانی ملی ٹھکانے لگائے۔ اس ٹریک کی لمبائی چار کلو میٹر ہے۔ کافی خوبصورت ٹریک ہے،چڑہائی بالکل نہیں ہے۔ مشہور ہونے کی وجہ سے کافی آباد رہتا ہے، ڈرنے والی کوئی بات نہیں۔ ٹریک کا ٹکٹ صرف دس روپے ہے، اور میرے خیال میں منت ترلے سے بھی کام چلایا جا سکتاہے۔ بہر حال ریکارڈ کی درستگی کے لئے باتا چلوں کہ میں نے دس روپے دیئے تھے۔ گھنٹے سوا میں یہ ٹریک بھی ہو گیا۔ اور جناب میں جا نکلا ایوبیہ۔
باندروں کی باجی
نتھیا گلی سے ایوبیہ دس کلومیٹر دور ہے۔ یہاں ایک دلچسپ واقع ہوا۔ ایوبیہ کے بازار میں کافی بندر گھوم رہے ہوتے ہیں، ایک نمبر بندروں کی بات کر رہا ہوں، موٹر سائیکلوں والے بندر مری سے آگے نہیں جاتے انکی تفنن طبع کا سامان مال روڈ پر وافر مِل جاتا ہے۔ یہاں ایک بابا مکئی بیچ رہا تھا، میں نے تھوڑ مکئی خریدی، اور ہتھیلی پر رکھ کر ایک بندر یا پتہ نہیں بندریا تھی کے سامنے کر دی۔ اس نے کھانی شروع کر دی، جب تھوڑ سی رہ گئی تو مجھے لاڈ سوجھا، میں نے چُک اُسکے سر پر ہاتھ پھیرا۔ ہاتھ لگانے کی دیر تھی جناب بندر بے شرم بے حیا نے فائٹنگ پوز ہی بنا لیا، ایسی خوفناک آوازیں نکالی، ایسے وحشیانہ ایکسپریشن دیئے کہ میں تو گھبرا گیا۔ سونے پہ سہاگا اسکے خاندان کے دیگر "معززین" بھی ارد گرد اکٹھے ہو کر شدید غم و غصے کا اظہار کرنے لگ پڑے۔ میں نے سوچا کہ "استاد لگتا ہے باندروں کی باجی کو ہاتھ لگا دیا تو نے" ۔ خیر ہاتھ کھڑے کر دیئے، پیچھے ہٹ گیا، رونی شکل بنا لی، تب کہیں جا کر بندرز سے جان بچی۔
خانسپور
ایوبیہ سے نیچے دو کلومیٹر ڈھلوان اتر کر خانسپور کا گائوں ہے۔ خانسپور میں پنجاب یونیورسٹی کا ریسرچ سنٹر ہے، یونیورسٹی کے رہائشی کاٹیجز بھی ہیں جن کی بکنگ شاید لاہور سے ہوتی ہے۔ اسکے علاوہ وائس چانسلر صاحب کے لئے شاندار رہائش بھی ہے۔ یہاں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کا ریسٹ ہائوس، اور یوتھ ہاسٹل بھی ہیں۔ ان جگہوں کے علاوہ کوئی خاص رہائشی انتظام نہیں ہے۔ ایک آدھا اوسط درجے کا ہوٹل ہے، بازار سےروزمرہ استعمال ہونے والی تمام اشیاء مِل جاتی ہیں۔ بلکہ ایک ویلڈنگ کی دکان بھی ہے، اگرپہاڑیاں چڑہتے اترتے آپکا کوئی ٹانکا ٹوٹ جائے تو یہاں سے ویلڈ کروا لیجئے گا۔ اب مجھے کافی تھکن محسوس ہو رہی تھی، لہٰذا میں نے ایک ہوٹل سے کوئی دو تین کپ چائے پی، ساتھ کچھ کھایا بھی تھا شاید۔ پھر سوچا کہ چلو شیو کرواتا ہوں، اسی بہانے مقامی لوگوں کے ساتھ گپ شپ بھی ہو جائے گی۔ وہاں لوگوں سے پتہ چلا کہ نیچے جا کے گائوں میں کوئی چشمہ ہے، لیکن وہ کافی دور ہے اور پیدل جانا مشکل ہے۔ آسان بھی ہوتا تو میں نہ جاتا کیونکہ میرے پائوں دکھ رہے تھے۔ خیر میں نے حساب لگایا کہ یہاں رہنا فضول، بہتر ہو گا آج ہی ایوبیہ واپس چلا جائوں اور کل صبح لاہور۔ لیکن واپسی ساری چڑھائی ہے، سوچ سوچ کر مجھے واپسی کا سفر پہاڑ لگ رہا تھا۔ خانسپور ذرا ہٹ کر ہے تو اس طرف زیادہ عوامی سواریاں نہیں آتیں۔ جیسے تیسے، گرتا پڑتا واپس اوپر پہنچا۔ ایوبیہ سے خانسپور جاتے وقت اگر پیدل ہیں تو ضروری نہیں کہ سڑک پر ہی چلیں، دو جگہ پر شارٹ کٹ موجود ہیں۔ لیکن صرف دو جگہ پر۔ باقی پگڈنیڈیاں پہاڑی پر واقع مکانوں میں جا نکلتی ہیں، جہاں اِن علاقوں کے لوگوں کے دوستانہ رویے کے باوجود چھترول کے امکانات کافی روشن ہیں۔
ایوبیہ میں رات
میں کہیں پانچ بجے کے آس پاس ایوبیہ واپس پہنچ گیا۔ ایوبیہ میں چار پانچ ہوٹل ہیں، پی ٹی ڈی سی کا موٹل بھی ہے، مجھے ایک ہوٹل میں ڈبل بیڈ روم مِل گیا، کرایہ وہی پانچ سو روپے۔ بیڈ کے پیروں والی سائیڈ پر جو دیوار تھی اس میں یہ بڑی کھڑکی تھی، میں نے پردے ہٹا ئے تو باہر مبہوت کر دینے والا نظارہ تھا۔ خیر جناب میں بستر پر گِرا، اور پھر کمبل میں اکٹھا ہو گیا، اور پھر سو گیا۔ سات بجے کے قریب ظہیر( آف سیزن کی وجہ سے ہوٹل مینجر، بیرا، کُک، وغیرہ وغیرہ سب کچھ) نے دروازہ بجانا شروع کر دیا۔ دِل تو میرا کوئی نہیں تھا اٹھنے پر لیکن جب اس نے دس ایک منٹ ہمت نہ ہاری تو میں بستر سے نکل ہی آیا۔ در اصل وہ ساتھ ساتھ اعلان بھی کر رہا تھا کہ صاحب کھانا وانا کھا لو، رش نہیں ہے، کافی ٹھنڈ ہے تھوڑی دیر میں مجھے سونا بھی ہے۔ خیر جناب کھانا وانا کھایا، جو کہ کافی مزے کا تھا، ایوبیہ کا چوچا مشہور ہے لیکن میں نے یہاں آ کر بھی دال چنا ہی کھائی۔ چائے وائے پی، ظہیر کے ساتھ گپ شپ لگائی۔ اسکے مطابق بندر مقامی لوگوں کے ساتھ بد تمیزی نہیں کرتے، البتہ ٹورسٹوں کو معاف نہیں کرتے۔ مقامی لوگ انکے ساتھ سختی سے پیش آتے ہیں، ڈرتے نہیں ان سے اس لئے وہ مقامی لوگوں سے ڈر ور کے گزارا کرتے ہیں۔ اچھی خاصی ٹھنڈ تھی، میں تو جناب ٹھنڈ سے دوڑ کے کمرے میں آیا اور سپرد کمبل ہو کے سو گیا۔
ایوبیہ کی چیئر لفٹ
اگلی صبح اٹھ کر وہی روٹین، ناشتہ پانی کر کے میں نے چائے کا کپ ہاتھ میں اٹھایا اور ایوبیہ کی واحد سڑک پر تھوڑی چہل قدمی کی۔ بلکہ شاید گائوں والا چشمہ خانسپور نہیں ایوبیہ میں تھا، مجھے اب صحیح یاد نہیں آ رہا۔ اسکے بعد میں چلا ایوبیہ چیئر لفٹ کی طرف۔ ایک بات بتاتا چلوں، کہ عوام میں زیادہ مشہور پتریاٹہ کی چیئر لفٹ اور کیبل کار ہے، ایوبیہ میں الگ چیئر لفٹ ہے جو کہ صدر ایوب کے زمانے میں لگائی گئی تھی۔ ایوبیہ کا پرانا نام گھوڑا ڈاکہ تھا، جسے کہ ایوب صاحب کے دور میں بدل کر ایوبیہ کر دیا گیا۔ یہ چیئر لفٹ تقریباً آدھا کلومیٹر طویل ہے، اور اوپر پہاڑی پر جا کے ختم ہوتی ہے۔ پہاڑی پر پارک ہے، چائے وائے مِل جاتی ہے اور شمالی علاقہ جات کے پہاڑ یہاں سے دکھائی دیتے ہیں۔ کافی خوبصورت نظارے ہیں اوپر۔ اوپر ایک چائے کے کھوکھے سے جب میں نے پوچھا کہ یار چائے کے ساتھ صرف بسکٹ، کوئی پکوڑے شکوڑے ہی رکھ لیتے؟ مجھے یاد ہے شوگران سری پائے اوپر جا کے ٹھنڈ میں چائے پینے اور تازہ پکوڑے کھانے کا بڑا مزا آیا تھا۔ اس پر یہ بھائی صاحب جو کہ ڈیڑھ سو روپے کِلو چینی کی وجہ سے کافی پریشان تھے، پھٹ ہی پڑے۔ بقول انکے پہلے سیزن لگا کر اتنے پیسے بچ جاتے تھے کہ باقی پانچ چھے مہنیے سکون سے گزارے جا سکیں لیکن اب تو ستیا ہی ناس ہو گیا ہے، خرچے تک پورے کرنے مشکل ہو گئے ہیں۔ واپسی پر جو وادی کا نظارہ چیئر لفٹ سے دکھا تو میں سمجھیں حیران پریشان ہی رہ گیا۔ سامنے پوری وادی پھیلی ہوئی ہے، تاحد نظر سبزہ اور خوبصورتی۔
واپسی کا سفر
ایوبیہ سے مری جانے کے لئے پہلے کوزہ گلی جانا پڑتا ہے، جو کہ دو کلومیٹر دور ہے۔ میں نے پانی کی بوتل پکڑی اور اللہ کا نام لے کر چل پڑا، اس سفر میں بھی چڑھائی نہیں ہے اور راستہ بہت خوبصورت ہے۔ بندے کے ہتھ پلے کچھ نا ہو تو یہ بڑی سہولت رہتی ہے، منہ اٹھا کر چل پڑو، ڈر ور نہیں لگتا۔ کوزہ گلی سے نتھیا گلی بارہ کلومیٹر اور ایبٹ آباد اٹھارہ کلومیٹر ہے، مری بیس بائیس کلومیٹر ہے۔ یہاں سے میں اک سوزوکی پک اپ میں بیٹھا، مری تک کا کرایہ پچاس روپے اور سفر تقریباً آدھے گھنٹے میں طے ہوا۔ اس سفر میں ساتھ بیٹھے مقامی نوجوان کی باتوں میں بیزاری کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ مجھے کہتا ہے کہ یار آپ لوگ یہاں لینے کیا آتے ہیں؟ کیا ملتا ہے آپ کو یہاں؟ ہم لوگ تو اس جگہ سے تنگ ہیں، پہاڑوں پر رہنا بہت مشکل ہے۔ پھر کام کاج روزگار وغیرہ کا بہت مسئلہ ہے، نا کوئی فیکٹری نا دفتر جائیں تو جائیں کہاں؟ اسکے علاوہ بتاتا چلوں کہ مری صوبہ پنجاب میں ہے، اور نتھیا گلی صوبہ خیبر پختونخواہ میں۔ خیبر پختونخواہ کی اس علاقہ میں سخت مخالفت کی جاتی ہے، ہر جگہ پر صوبہ ہزارہ کا بورڈ ہی مِلا، کہیں خیبر پختونخواہ نہیں لکھا تھا۔
اسکے بعد میں مری آیا، مال روڈ پر تھوڑی شاپنگ کی، آنکھیں ٹھنڈی کی۔ حلقہ ارباب ذوق والے عامر فراز مِل گئے، اپنی والدہ کے ساتھ آئے ہوئے تھے۔ شام پانچ بجے مری سے پنڈی والی ویگن پر بیٹھا، سات بجے پنڈی، ساڑھے سات بجے پنڈی سے چل کر کوئی بارہ بجے واپس لاہور۔ اور یوں میرا ایک سفر اپنے اختتام کو پہنچا۔
نوٹ: نتھیا گلی سطح سمندر سے آٹھ ہزار پانچ سو فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔