گائیڈ نے مجھے بتایا کہ یہاں پر پشاور یونیورسٹی کا گرما کیمپس بھی ہے، اس کیمپس کے پاس سے ہو کر بھی ایک ٹریک گزرتا ہے۔ گائیڈ کو ساتھ لے ہی لیا، میں نے سوچا کہ چلو اچھا ہے لوکل کو ساتھ لے لیتا ہوں، ورنہ مجھے علاقے کا کوئی خاص اتہ پتہ نہیں ہے۔ میں نے بڑی کوشش کی کہ گائیڈ شروع میں ہی پیسے طے کر لے تاکہ بعد میں سیاپا نہ پڑی لیکن وہ اللہ کا بندہ اس طرف بات جانے ہی نہیں دیتا تھا، کچھ بھی کہو اسکا ایک ہی جواب ہوتا تھا کہ سر جی آپ گھومیں پھریں اگر جگہ اچھی لگی تو جو دل کرے دے دینا۔ خیر وہاں اوپر گورنر ہائوس تک گئے، راستے میں چرچ بھی دیکھا لیکن مجھے ٹریک پر جانے کی جلدی تھی سو میں اندر نہیں گیا۔ اور گورنر ہائوس کے اندر مجھے کسی نے جانے نہیں دینا تھا، کامن مین مینگو پیپل جو ہوا۔
پشاور یونیورسٹی سمر کیمپس کا ٹریک
پھر ہم نے سفر شروع کیا وادی میں واقع گائوں نملی میرا کی طرف، بس عام سا ہی گائوں ہے۔ راستے میں ایک جگہ پر آبشار بھی آتی ہے، یہ جگہ گزارے لائق خوبصورت تھی۔ کوئی تین چار کلومیٹر نیچے جا کر اسی آبشار کا پانی سڑک کے بیچ میں سے گزرتا ہے۔ میں تھوڑی دیر پانی میں پائوں ڈال کر بیٹھا تھا، منہ پر بھی چھینٹے مارے، یخ ٹھنڈے پانی نے آنکھیں کھول کر رکھ دیں۔
یہ پوری ڈرائیو کوئی تیس ایک کلومیٹر کا چکر ہو گی، نتھیا گلی سے چل کر نملی میرا اور پھر شوگران ایبٹ آباد روڈ پر سے ہو کر واپس نتھیا گلی، رائونڈ ٹرپ۔ خیر اس کے بعد گائیڈ نے مجھے جا اتارا شوگران ایبٹ آباد سے آنے والی یا اس طرف جانے والی کہہ لیں، سڑک پر۔ یہ میرے خیال میں نتھیا گلی سے کوئی آٹھ دس کلومیٹر پیچھے جگہ ہے، سڑک پر بائیں طرف پشاور یونیورسٹی سمر کیمپ, باڑہ گلی کا بورڈ لگا ہوا ہے۔ یہ جو ٹریک ہے جناب یہ ٹریک شریک کوئی نہیں تقریباً باقاعدہ سڑک ہی ہے، باریک بجری نما پتھروں سے والی۔ ڈھائی تین کلومیٹر ہو گا۔ پہلے چڑھائی آتی ہے، پشاور یونیورسٹی کے کیمپس تک چڑھائی ہی ہے۔ بس یہی ٹریک کا مشکل حصہ ہے۔ کیمپس جو کہ ہو گا آدھا کلومیٹر پہنچ کر آپ دائیں طرف بغلی راستے پر ہو لیں، اور چل پڑیں اللہ کا نام لے کر۔ کوئی زیادہ سفر نہیں ہے۔ اور چڑھائی بھی نہیں ہے۔ اس لئے بندہ بڑے آرام سے پر سکون والک کرتا کرتا ٹریک کر لیتا ہے، بہت خاموشی ہوتی ہے، اور ٹھنڈ بھی۔ اتنے میں بادل آ گئے اور چھا گئے، میں نے سوچا کہ یا میرے مالک میں تو کپڑوں کا دوسرا جوڑا بھی نہیں لے کر آیا یہ ظالم برس گئے تو ٹٹھر جائوں گا، تیری مہربانی تھوڑی دیر بعد بارش وارش کا پروگرام کر لئیں۔ اس سے پہلے سدھن گلی آزاد کشمیر کی بارش میں بھیگنے، اولے کھانے اور ٹھٹھرنے کا تجربہ ہے۔ خیر تب تو میں سارا ساز و سامان ساتھ لے کر گیا تھا۔ اس ٹریک کا کوئی خاص مزا نہیں آیا، گائیڈ کہہ رہا تھا کہ صاحب آپکو دو گھنٹے لگیں گے لیکن ٹریک صاحب تو بس ٹھیک ایک گھنٹے میں خلاص ہو گئے۔ گائیڈ ٹریک کے اختتام پر ہی کھڑا تھا۔
نتھیا گلی واپسی، اور ہوٹل کی بکنگ
گائیڈ نے مجھے کریدنا شروع کر دیا کہ سر جی آپ ہوٹل کہاں لیں گے؟ میں نے کہا کہ یار میں تو سستے سے بستر کی تلاش میں ہوں جہاں مِل گیا رات بسر کر لوں گا، کوئی فیملی تو ہے نہیں ساتھ۔ خیر اس اللہ کے بندے نے مجھے نتھیا گلی بازار کے بجائے تھوڑا اوپر جا کے ایک ریسٹ ہائوس میں کمرہ لے دیا، پانچ سو روپے میں جو کہ میں نے ایڈوانس ہی دے دیئے۔ میں جب گیا تو وہ لوگ کھانا کھانے ہی والے تھے، اتنا اصرار کیا کہ مجھے دو نوالے لگانے ہی پڑے۔ یہ الگ بات ہے کہ ایک نوالے کا مطلب ایک روٹی بنتا ہے۔ کھانے کے بعد چائے بھی ادھر ہی مِل گئی۔
نتھیا گلی سے ڈونگا گلی کا ٹریک، اور لالہ زار
نتھیا گلی سے تھوڑا سا اوپر جا کے ایوبیہ نیشنل پارک شروع ہو جاتا ہے۔ یہ بھی والکنگ ڈسٹنس پر ہی ہے۔ اس پارک میں چھوٹا سا ایک چڑیا گھر ہے، آجکل اس چڑیا گھر میں صرف ایک برفانی چیتا ہے۔ برفباری نہ ہونے کی وجہ سے باقی جانوروں کو چیچو کی ملیاں شفٹ کر دیا گیا ہے۔ خیر یہ چیچو کی ملیاں والی تو بونگی ہی تھی، پتہ نہیں کہاں کسی سرد علاقے میں بھیج دیا ہے۔ یہ ٹریک البتہ دلچسپ ثابت ہوا۔ چڑیا گھر میں سے سیدھا ہی آگے نکل جائیں ، اور بس راستے کو فالو کرتے جائیں، کہیں کوئی موڑ چوک چوراہا دوراہا سہ راہا نہیں آتا۔ ہاں تھوڑا سا آگے جا کر ایک دو راہا آتا ہے، اس پر سے آپ نے دائیں ہاتھ ہو جانا ہے، جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے وہاں لکڑی کا بورڈ بھی لگا ہوا ہے۔ بائیں طرف والا راستہ میرانجانی چوٹی کی طرف جاتا ہے۔ بائیں طرف والا راستہ تقریباً آٹھ گھنٹے کے ایک پروفیشنل ٹریک کا سِرا ہے۔ یہ ٹریک میرانجانی کی چوٹی سے ہوتا ہوا ٹھنڈیانی ایبٹ آباد جا نکلتا ہے۔ ریسٹ ہائوس میں ملنے والے گائیڈ وقاص کے مطابق اگر بندہ ہمت والا ہو تو صبح چھے بجے چل کر شام چار بجے تک یہ ٹریک مکمل کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پہ کچھ عرصہ پہلے اُس نے عمران خان کے ساتھ یہ ٹریک کیا تھا، اور بقول اسکے عمران خان اب بھی بہت ایکٹو اور پھرتیلا ہے بالکل کسی نوجوان کی طرح۔
اس ٹریک میں کوئی خاص چڑھائی تو نہیں ہے، لیکن ٹریک کا کچھ حصہ بڑا نیچرل ہے، دائیں طرف کھائی، بائیں طرف پہاڑ، اور پگڈنڈی بہت چھوٹی تو نہیں، بس ایک بندے کی چوڑائی جتنی ہے۔ شام کے کوئی چار بج چکے تھے۔ اس ٹریک کی لمبائی بھی کوئی تین ساڑھے تین کلومیٹر ہو گی۔ اس مرتبہ میں نے ٹائم نوٹ نہیں کیا کیونکہ میں نے سوچا آرام آرام سے چلتا ہوں، جلدی کاہے کی ہے؟ اور ایک مزے کی بات، پورے ٹریک پر یو فون اور ٹیلی نار کے سگنلز پورے آ رہے تھے۔
دِن کا اختتام
دِن کا اختتام
مغرب کی اذانیں ہو رہی تھیں، گو میں کافی تھک چکا تھا لیکن، اس ٹریک کا مزا آیا۔ ٹریک کا اختتام ڈونگا گلی میں مین بازار سے کافی اوپر ہے، سمجھ لیں کوئی آدھا کلومیٹر کی ڈھلوان ہے۔ اور وہ اپنا جو گائیڈ تھا، اسے میں نے سولہ سو روپئے دیئے۔ نیچے آ کر پبلک ٹرانسپورٹ کے انتظار میں سڑک پر بیٹھ گیا، تھوڑی دیر میں ایک کیری ڈبہ مِل گیا۔ ڈرائیور کی شکل دِن والے گائیڈ سے ملتی جلتی تھی، میں تو سمجھا وہی ہے۔ بہرحال اسکے ساتھ میں واپس نتھیا گلی آ گیا۔ اس سے راستے میں گپ شپ ہوئی تو پتہ چلا کہ دن والے گائیڈ کا بڑا بھائی ہے، یہ لفٹ تو مفت میں ہی مِل گئی۔ مین بازار میں رک کر کھانا وانا کھایا، چائے شائے پی۔ بازار کا ایک چکر لگایا، زیادہ رونق نہیں تھی۔ کیونکہ یہ دن یہاں آف سیزن سمجھے جاتے ہیں۔
ٹریجڈی
ٹریجڈی
جس ہوٹل سے کھانا کھایا اسکا نام میرا خیال ہے الخیام تھا، یہاں سے میں نے کمرے کا کرایہ پوچھا تو کائونٹر پر بیٹھے سوبر سے مینیجر کہتے ہیں کہ یار پانچ سو سے لے کر آٹھ سو ہزار تک جہاں بات بن جائے، کیونکہ آف سیزن ہے۔ خیر پھر میں نکلا اوپر گیسٹ ہائوس میں جانے کے لئے۔ چلا چلا چلا لمبی سی چڑھائی چڑہ لی اور چلتا ہی چلا گیا لیکن کمبخت ریسٹ ہائوس کہیں دکھائی ہی نہیں دیا۔ دِن بھر کی تھکن اور پھر ریسٹ ہائوس نا ملنے کی وجہ سے جو کوفت ہوئی بس کچھ نا پوچھیں۔ خیر میں نے وقاص کا نمبر ملایا، تو فون بند۔ بہت مربتہ کال کی لیکن اسکا فون ہی بند جا رہا تھا، میں نے کہا بھئی فٹے منہ۔ خیر تنگ آ کر میں واپس چل پڑا۔ نیچے بازار میں آ کر نتھیا ہائیٹس نامی ہوٹل میں کمرہ لیا، جسکا کرایہ مبلغ پان صد روپے سکہ رائج الوقت تھا، پانچ سو روپے یار سیدھی زبان میں۔
بس پھر بستر پر گرنے کی دیر تھی، سو گیا۔۔۔ لیکن اوپر والے فلور پر کوئی بدتمیز فیملی ٹھہری ہوئی تھی انہوں نے رات کو بارہ بجے کے قریب کھپ ڈالنی شروع کر دی۔ اب میں کیا کہتا، آنکھ کھلی تو کوئی تین بجے تک نیند ہی نہیں آئی۔ خیر، پھر میں سو گیا اور اس طرح پہلا دِن اختتام کو پہنچا۔
پائپ لائن ٹریک اور خانسپور کی روداد انشاءاللہ اگلی پوسٹ میں، جو کہ میں کوشش کروں گا کہ کل رات لکھ لوں ورنہ فیر اگلے جمعے کی رات۔۔۔
پچھلی پوسٹ
پچھلی پوسٹ
بہت ہی عمدہ پوسٹ، آپ کی پوسٹس نے مجھے اپنے مری ٹرپ یاد دلا دیے۔۔۔مجھے اب افسوس ہورہا ہے کہ کشمیر روڈ سے مری روڈ پر برف پے چلتے ہوئے میں نے آپ کی طرح تب اپنے بلاگ پر پوسٹس کیوں نہیں لکھی تھیں (ہممم یاد آیا تب بلاگ خود بھی تو معرض وجود میں نہیں آیا تھا ):) آپ نے بہت بہت اچھا کیا جو اتنا تفصیل سے لکھا۔۔۔مجھ جیسی کمزور یاداشت کی مالکہ کو اپنا سفر تو یاد ہے۔۔۔مقام سفر نہیں۔۔۔نعیم آپ بھوربن نہیں گئے۔۔۔؟وہاں کے پی سی ہوٹل کے باہر دو تین فٹ کی جنگلی چھپکلیاں مجھے آج بھی یاد ہیں
جواب دیںحذف کریںایک بات یہ بھی کہ۔۔۔قذافی سٹیڈیم بھی شاید لاہوریوں کو اپنا لگتا ہے۔۔آپ کے سفرمری کی ابتدائی تیاریاں پڑھ کے بھی بڑا مزا آیا۔۔۔میں نے مستنصر حسین تاڑر کے سفرنامے پڑھ رکھے ہیں آپ کے اس سادہ سفر نامےکا ویسے ہی مزا آیا ہے
اور ایک اور بات بھی۔۔۔ اس ٹاپک سے ہٹ کر ہے آپ چاہیں تو اسے ڈیلیٹ بھی کرسکتے ہیں۔۔۔آپ کی اتنی بہترین پوسٹ پر کسی نے کمنٹ نہیں لکھا۔۔۔آپ کو کیسا محسوس ہوا۔۔؟؟؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اچھی تحریر کو سراہنا حوصلہ افزا ہوتا ہے جو مزید لکھتے رہنے پر اکساتا ہے۔۔؟
ہائیںںںںں میں تو سمجھی تھی کہ آپ نے موڈریشن آپشن کھول رکھا ہے۔۔۔آپ نے پچھلی پوسٹ میں لکھا تھا نا کہ کمنٹس میں نے ڈیلیٹ تو کر دینے ہیں (نتھیا گلی والی پوسٹ کے آخر میں) تو میں سمجھی کہ آپ کے پڑھنے سے پہلے کمنٹ پبلش نہیں ہوگا لیکن یہ تو ہو گیا :(
جواب دیںحذف کریںبہت شکریہ امن۔ تاڑڑ صاحب کے سفرنامے میں نے بھی پڑھ رکھے ہیں مجھے پسند بھی ہیں، لیکن کیا ہے کہ مجھے اُن کی طرح خوبصورت خواتین سے واسطہ نہیں پڑا۔ وہ تو کے ٹو کے بیس کیمپ جا کر بھی کوئی نا کوئی مہ جبیں ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ میرے ساتھ والی سیٹ پر ہمیشہ کوئی گل خان ہی بیٹھتا ہے۔
جواب دیںحذف کریںاس سلسلے میں ایک آخری پوسٹ ابھی باقی ہے، وہ انشاءاللہ اس جمعہ ہفتہ کی درمیانی رات کو لکھوں گا۔
بھوربن، ہنی مون منانے والوں کی جنت ہے۔۔۔ وہاں تن تنہا آوارہ گرد درویشوں کا کیا کام؟ البتہ ڈریگنز کی موجودگی خاصی دلچسپ بات معلوم ہوتی ہے، پھر بھی جب کبھی رشتہ ازدواج میں بندھا تو بیگم کو لے کر جائوں گا، زیادہ تنگ کرے گی تو جنگلی چھپکلیوں کے سامنے لے جائوں گا۔
کمنٹس ماڈریٹ نہیں کئے ہوئے، لیکن پھر بھی ڈیلیٹ تو کر ہی سکتا ہوں۔
بلاشبہ حوصلہ افزائی کرنے سے تخلیق کار کو جذباتی تقویت ملتی ہے، بہرحال اگر کوئی کمنٹ نا کرے تو میں زبردستی تھوڑی کر سکتا ہوں۔ ویسے بھی کنٹروورسی ہو تو کمنٹس آتے ہیں، ان تحریروں میں کنٹروورسی نہیں تھی۔
البتہ خواتین کے بلاگز پر تو ایویں ہی کمنٹ آ جاتے ہیں، پتہ نہیں کیوں؟ مثال کے طور پر حجاب شب نے کچھ دن پہلے ایک تحریر لکھی تھی، اتنے کمنٹس آئے اُس پر کہ الامان الحفیظ۔ ویسے دو کمنٹس میرے بھی تھے لیکن میں سچ میں تنگ پڑ گیا تھا کہ یار کیا سیاپا ہے, چھوڑ بھی دو بات کی جان۔
سچے تخلیق کار البتہ اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ ان کو پذیرائی مِل رہی ہے یا نہیں، وہ تو بس پاگل لوگ ہوتے ہیں۔ ساری عمر بھوک ننگ میں گزار کر مر جاتے ہیں، تب دنیا انکو نوبیل انعام دینا شروع کر دیتی ہے۔۔۔ کیا عجب بات ہے۔۔۔
:)
جواب دیںحذف کریںتاڑڑ انکل کے بارے میں تو آپ نے ٹھیک کہا ہے۔۔۔آپ کی پوسٹ اور ان کی تحریر میں جو مطابقت مجھے لگی وہ تھی۔۔ تحریر کی شگفتگی اور روانگی۔۔۔خیر آپ کی تیسری پوسٹ کا مجھے انتظار رہے گا۔اور جی۔۔۔نعیم بھائی ذرا خیال سے۔۔۔خواتین دو انچ کی چھپکلی کو دیکھ کر بے ہوش ہوجاتیں ہیں۔۔۔وہاں دو فٹ کا معاملہ ہے :)
آپ کی آخری بات۔۔۔حجاب شب میری بہترین سہیلی ہیں۔۔۔آپ میری بات سمجھ گئے نا:) خیر میں آپ کی اس بات سے متفق نہیں کہ خواتین کے بلاگ پر کمنٹس زیادہ کیے جاتے ہیں۔۔میں نے 2007 میں ہالہ کے نام سے بلاگ بنایا اردو ٹیک کی پہلی فی میل بلاگر ہوں۔۔۔میرا بلاگ بہت ایکٹیو رہا لیکن پھر جیسے جیسے اردو بلاگ زیادہ بنتے گئے۔۔ویسے ویسے بلاگرز حضرات کے گروپس بنتے گئے۔۔۔آپ کبھی غور کیجئے گا۔۔۔آپ کو بسااوقات بہت شاندار تحریر پڑھنے کو ملے گی لیکن اس جان بوجھ کر نظرانداز کیا گیا ہوگا۔۔۔خیر چھوڑیں آپ کا میری بات سے متفق ہونا ضروری نہیں : ) لیکن مجھے آپ کی آخری بات بہت اچھی لگی کہ سچے تخلیق کار اس چیز کی پرواہ نہیں کرتے۔
تعریف کا شکریہ، میں بس ایسے ہی لکھتا چلا جاتا ہوں۔ جو منہ میں آئے یا قلم میں آئے پھبتا نہیں، کی بورڈ ہے تو جو انگلیوں میں آئے لکھ مارتا ہوں تحریر کی روانی اللہ کی دین ہے، الحمدللہ۔
جواب دیںحذف کریںہاں جی مجھے پتہ ہے آپ اچھی خاصی سلیبرٹی ہیں، زمانے میں آپکے انٹرویوز بھی ہو چکے ہیں۔ میں نے سوچا کہ کیا گمنام خاتون بلاگر لکھنا، سیدھا نام ہی بتاتا ہوں چلو شاید اسی بہانے کچھ مصالحہ اکٹھا ہو جائے لیکن افسوس صد افسوس میری یہ کوشش رائیگاں گئی۔ دھڑے بازی تو ہر جگہ ہوتی ہے، فی الحال میں کسی بھی دھڑے سے وابستہ نہیں ہوں۔ میں نے کہیں دو ہزار پانچ میں ونڈوز ایکس پی پر اردو انسٹال کر کے لکھنا شروع کر دی تھی۔ بلکہ اپنے دوستوں کو ایک ای میل میں اردو کنفگر انسٹال کرنے کا طریقہ بھی بھیجا تھا۔ بلاگ تب ایک بنایا تھا لیکن وہ انگریزی میں تھا اور اس قسم کا تڑپتا پھڑکتا شاہکار تھا کہ میں نے دو ہزار آٹھ نو میں دوبارہ بلاگنگ کی طرف واپس آنے کے بعد فوراً اُسے چھپا دیا۔
دو فٹ کی چھپکلی کے سامنے اس لئے لے کر جائوں گا تاکہ مستقبل میں ڈراوا دے سکوں۔
اور کوئی کمنٹ کرے نا کرے، پسند کرے نا کرے مجھے تو بس اپنی انگلیوں کی خارش کم کرنی ہے سو وہ میں کرتا رہوں گا، تاوقتیکہ میرا اپنا جی اس کارِ بے سود سے بھر جائے۔ ویسے میں شاعری بھی کرتا ہوں، وہ دیکھی کیا؟ سائیڈ بار میں لنک موجود ہے۔
http://khizan.wordpress.com
مزید مصالحہ:
اور خواتین بلاگرز والی کیا بات پوچھتی ہیں، ابھی پچھلے دنوں پھپھے کٹنی اسما نامی بلاگر کے بلاگ اور گرد و نواح میں جو تماشہ لگا وہ تو سب نے دیکھا، حسب توفیق شرکت بھی فرمائی۔ تو جی پشیمان خواتین مردوں کی کمزوری ہوتی ہیں، اور جہاں بھی دستیاب ہوں ہم سے رہا نہیں جاتا۔ ہم جی جان سے انکی مدد کرنا چاہتے ہیں، چاہے اسکے لئے انکل بھائی وغیرہ ہی کیوں نہ بننا پڑ جائے۔
پنجابی کے ایک صرف بالغوں کے لئے محاورے کا پہلا مصرعہ لکھ رہا ہوں، اگر طبعیت جستجو کی جانب مائل ہو تو دوسرا مصرعہ کھوج نکالیں گی
اوہنے پگ عشق دی بدھی نا
جنے بہن بنا کے ؟؟؟؟؟؟؟
جلدی میں روانی کی جگہ روانگی لکھ دیا تھا۔۔۔معذرت۔
جواب دیںحذف کریںآپ کی تحریروں سے ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ آپ کو اس دشت کی سیاہی کرتے ماہ وسال بیت چکے ہیں۔۔میں آپ کا خزاں بلاگ دیکھوں گی لیکن اس سے پہلے پروگرامنگ والا :)
آپ کی باقی باتیں مجھے سمجھ نہیں آسکیں۔۔۔اپنے بلاگ کا تعارف اس لیے دیا تھا کہ آپ کو لگتا ہے نا کہ خواتین کے بلاگ پر زیادہ لکھا جاتا ہے تو میرے ساتھ ایسا معاملہ نہیں رہا۔
اسماء کا ذکر خیر میں نے اپنی سہیلی سے سنا تھا۔۔۔میں تب نیٹ سے دور تھی۔۔۔اس کارخیر میں اپنا حصہ نہیں ڈال سکی۔ : )
آپ کی تیسری اور آخری پوسٹ کا انتظار ہے۔
میں کوشش کروں گا۔۔۔ لیکن مشکل نظر آ رہا ہے، کیونکہ جمعے والے دن میرے کزن کی شادی ہے، اُدھر جانا ہے۔ شاید جانے سے پہلے لکھ ماروں، لیکن اگر نا لکھ سکا تو بات اگلے ہفتے پر جا پڑے گی۔
جواب دیںحذف کریںجن باتوں کی سمجھ نہیں آئی انکو ردی کی ٹوکری میں پھینکیں اور بھول جائیں۔
پروگرامنگ سے کوئی تعلق واسطہ ہے کیا؟
گوگل بڑا گندہ ہے، پروفائل کی عدم دستیابی کا اعلان کر رہا ہے۔ اب بھلا ایسے میں آپکے بلاگ تک رسائی کیسے ممکن ہو گی؟ ڈھیروں ڈھیر تو رزلٹ ملتے ہیں امن ایمان یا ہالہ تلاش کرنے پر۔۔۔ اپنے کام کا کوئی ڈائریکٹ لنک پوسٹ کریں۔۔۔
میں نے اس ٹرپ کی کہانی دونوں پوسٹس میں بہت دلچسپی سے پڑھی۔ کمنٹ کرنے میں اس لیے سستی ہوئی کیونکہ بلاگ سپاٹ کا کمنٹنگ انٹر فیس بہت بورنگ ہے اور خیر خواہ عامل(یعنی یوزر فرینڈلی) نہیں ہے۔ لیکن چونکہ آپ کا سفر نامہ پڑھ کر واقعی مزا آیا تھا اس لیے دل میں تھا کہ انشاء اللہ کچھ فیڈ بیک ضرور دوں گا۔
جواب دیںحذف کریںاب جب تبصروں میں امن ایمان نے یہ بات کی کہ آپ کی اتنی بہترین پوسٹ پر کسی نے کمنٹ نہیں لکھا۔۔۔آپ کو کیسا محسوس ہوا۔۔تو میں نے سوچا اب کمنٹ میں مزید تاخیر زیادتی ہے۔ لکھنے والے کی کچھ تو حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔ آپ کی یہ بات شاید غلط نہیں کہ سچے تخلیق کار البتہ اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ ان کو پذیرائی مِل رہی ہے یا نہیں۔۔۔لیکن بہر حال ایک بلاگر کو اپنی تحریر پر کمنٹس دیکھ کر اچھا تو لگتا ہے۔ اسے کم از کم یہ احساس نہیں ہوتا کہ اتنے بڑے سائیبر اسپیس وہ محض خود کلامی ہی نہیں کر رہا بلکہ کوئی اس کی بات سن رہا ہے۔ البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سرے سے کمنٹس نہ ہونے کا بہرحال یہ مطلب بھی نہیں ہوتا بلاگ کی تحریر سرے سے پڑھی ہی نہیں گئی کیونکہ اکثریت بلاگ قارئین کی ایسی ہوتی ہے جو تحریر کو پڑھ تو لیتے ہیں مگر کمنٹ کیے بنا گزر جاتے ہیں۔ اور اردو میں کمنٹ لکھنا تو ویسے بھی اتنا عام نہیں۔
آپ کی یہ بات صحیح ہے کہ خواتین کے بلاگ پر زیادہ کمنٹس آ تے ہیں۔جیسے چیٹ رومز میں خواتین کے نام والوں کی طرف لوگ زیادہ مائل ہوتے ہیں، چاہے اس نسوانی نک کے پس پردہ کوئی موٹا سا، گنجا سا، کئی دن سے نہ نہایا ہوا آدمی ہی بیٹھا ہو۔
خزاں کے حوالے سے آپ سے شناسائی تھی۔ یہ معلوم نہ تھا کہ آپ نثر بھی لکھتے ہیں۔آپ کے سفر نامے کی تیسری قسط کا انتظار رہے گا۔
لو جی دو فرمائشیں ہو گئیں، اب تو مجھے تیسرا حصہ بھی لکھنا ہی پڑے گا۔ بالکل صحیح بات ہے، کوئی شاوا شاوا کرنے والا ہو تو بندے کا دِل بہلا رہتا ہے۔ زیادہ تر ویب انگریزی میں ہی ہے، اس لئے اگر کوئی انگریزی میں بھی تبصرہ کر دے تو کوئی قباحت نہیں۔ بلاگ کے نیچے جھٹ پٹ کمنٹ دینے کے وجٹس موجود تو ہیں، کسی دن وقت نکال کر لگا دوں گا۔
جواب دیںحذف کریںشاعری پبلش کرنے سے بہت پہلے میں کالم نما تحریریں لکھ رہا تھا، البتہ شاعری والا بلاگ ورڈ پریس کی بلٹ ان واٹس نیو اور واٹس ہاٹ سہولتوں کے باعث جلد مشہور ہو گیا تھا۔ ویسے بھی تب تک مجھے پتہ چل چکا تھا کہ دوسروں کے بلاگ پر کمنٹ کر کے ٹریفک اپنے بلاگ کی طرف کھینچی جا سکتی ہے، خالی خولی دوستوں کو ای میل کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پھر خزاں شروع کرنے کے تھوڑے عرصے بعد اردو سیارہ پر رجسٹر کروا دیا، وہاں سے کافی مشہوری ہو گئی۔ اب بھی زیادہ تر ٹریفک سیارہ سے ہی آتی ہے۔
آپ جب بھی آسانی سے وقت پائیں تب اس تحریر کا تیسرا حصہ لکھ دیجیئے گا۔ جلدی والی کوئی بات نہیں۔
جواب دیںحذف کریںخزاں پر آپ نے اپنی ناسازی طبیعت کی با بت ایک مرتبہ لکھا تھا۔ بعد میں وہ پوسٹ شاید ہٹا لی گئی تھی۔ یہ بتائیں اب آپ کیسے ہیں؟
گوگل گندہ نہیں بلکہ بہت اچھا ہے کیونکہ مجھے یقین آگیا کہ میرا بلاگ محفوظ ہاتھوں میں ہے :) نعیم بلاگ کو میں نے پرسنل کردیا ہے۔۔اس لیے آپ کو میرا لکھا نہیں ملے گا۔۔۔آپ کی طرح شاعرانہ روح مجھ میں بھی ہے۔۔۔چالیس پچاس کے قریب نظمیں لکھ چکی ہوں۔۔۔کبھی فرصت میں وہ اگر دیکھنا چاہیں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک بار پھرسوچ لیجئے گا :)
جواب دیںحذف کریںہمممم پروگرامنگ سے تھوڑی شد بد ہے۔۔۔پی جی ڈی ان کمپیوٹرسائنس اور پھر ایم سی ایس کے دو سمسٹرز (ادھورا چھوڑنا پڑ گیا تھا)
چلیں ٹھیک ہے۔۔۔آپ کے پاس جب فرصت ہو آپ لکھ دیجیئے گا۔۔۔میں آپ کے بلاگ پر آتی جاتی رہوں گی۔۔۔۔ابھی تو آپ کی پرانی پوسٹس پڑھ رہی ہوں۔۔۔آپ کا لکھنے کا اسٹائل بالکل لاہوری ہے۔۔۔مطلب جس طرح لاہوری فری اسٹائل میں بولتے ہیں۔۔۔کسی اور کو پتہ نہیں ایسا لگا یا نہیں۔۔۔مجھے تو لگا ہے۔
احمد عرفان شفقت صاحب بڑوں کی بات ماننے کا شکریہ۔ :)
عرفان: جولائی میں ایک آپریشن ہو گیا تھا۔اسکے بعد سے کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ البتہ ٹیومر ابھی دماغ میں موجود ہے، لیکن ڈاکٹر کہتے ہیں کہ فی الحال اسے مت چھیڑیں۔ جون جولائی میں دوبارہ ایم آر آئی کروا کے دیکھیں گے کہ کیا سین ہے۔ ہاں جی وہ پوسٹ میں نے ہٹا دی تھی۔
جواب دیںحذف کریںامن: عوامی انداز میں لکھنے کی کوشش کرتا ہوں، فصاحت و بلاغت سے چیزیں وزنی ہو جاتی ہیں۔ فصاحت بلاغت سب کو ہضم نہیں ہوتی نا۔ لاہور میں کافی عرصے سے رہ رہا ہوں، اسلئے تحریر سے بھی لاہوری عوامی لب و لہجہ جھلکتا ہے۔
نعیم
جواب دیںحذف کریں# برین ٹیومر، ہائیڈروسفالس، اور وی پی شنٹ ڈاکٹر شہریار کے ساتھ ایک نشست
# ایم آر آئی، مشکل کیا ہے؟
مجھے اب اُس پوسٹ کی جگہ ان پوسٹس کا بہت انتظار رہے گا۔۔۔۔۔میں پھر اس کے بعد ہی آپ سے کچھ پوچھنا چاہوں گی۔