ہفتہ، چھے نومبر دو ہزار دس، رات کے کوئی ڈیڑھ بجے ہیں قذافی سٹیڈیم کی مارکیٹ والے سردار کی مچھلی پہ ہاتھ صاف کرتے ہوئے میں سوچ رہا ہوں کہ کیا کروں، مری جائوں یا نا جائوں؟ کوئی دوست بھی ساتھ جانے کو تیار نہیں ہے، اور اکیلے اتنا سفر کیسے کروں گا۔ خیر وہاں میں نے کولیگز کے سامنے اعلان کر دیا کہ درویش تو جائے گا نتھیا گلی۔ وجہ یہ بنی کہ نو نومبر منگل کو یوم اقبال کی چھٹی آ رہی تھی، میرے دفتر والوں نے فیاضی دکھاتے ہوئے یہ چھٹی آٹھ نومبر بروز سوموار دے دی۔ اب تین چھٹیاں بندہ کیبل دیکھ کر یا سو کر گزار دے تو میرے حساب سے تو فِٹے مُنہ ہی کہا جا سکتا ہے۔ گائوں جا کر بھی کیا کرنا ہے، آپے اگلے ہفتے عید پر جائوں گا۔ کوئی آدھا گھنٹہ اسی کشمکش میں ٹی وی کے سامنے بیٹھا رہا۔ پھر سوچا کہ چل جیا، ہمت کر۔ یار بیلی ساتھ نہیں جا رہے تو کھان کھسماں نوں، اس مرتبہ اکیلے ہی چلنا چاہئیے۔
اگلا سوال، سامان کیا اٹھائوں؟ ایک دو شرٹس اور ٹرائوزر اٹھائے بیگ میں ڈالے پھر سوچا کہ اس مرتبہ بے سر و سامانی کا تجربہ کیا جائے۔ بس ایک فل سلیو شرٹ نکال کر استری کی جینز جوگر پہنے، گرم چادر اٹھا لی اور چل وئی گُڈ ٹو گو۔ ویسے آنلائن شاپنگ اور کریڈٹ کارڈ پلاسٹک پیسہ کے زمانے میں بے سروسامانی خاصی بے معنی ہو گئی ہے، وہ بھی مری جیسے کافی ترقی یافتہ علاقے میں۔ بس پیسے ہیں تو رہائش، کھانا، کپڑا، علاج معالجہ کہیں سے بھی کچھ بھی خرید لیں۔
تقریباً ساڑھے تین بجے فردوس مارکیٹ سے رکشہ پکڑا اور جا اُترا نیازی اڈہ یتیم خانہ۔ دوست نے بتایا تھا کہ لاہور سے مری نان سٹاپ گاڑیاں بھی چلتی ہیں۔ لیکن جناب اُس گاڑی کا ایک ٹائم رات بارہ بجے نکل جاتا ہے۔ میں نے پنڈی والی گاڑی کا ٹکٹ لے لیا، یہ بس صبح چار بجے چلنی تھی۔ رات کا وقت اور موٹر وے کا سفر، چُپ چپیتے گزر گیا۔ زیادہ وقت میں نے اگلی سیٹ پر سر ٹکا کے گزارا۔ اکیلا بندہ اور کر بھی کیا سکتا ہے۔ نیند نہیں آئی، آ جاتی تو سفر آسانی سے کٹ جاتا۔ ایک بات اچھی ہو گئی کہ گاڑی راستے میں کہیں رکی نہیں، اور آٹھ بجے میں راولپنڈی فیض آباد اڈے پر بیٹھا چائے پی رہا تھا۔
فیض آباد ہی سے نیو مری کی ٹویوٹا ویگن مِل گئی، اس ویگن نے مجھے سوا گھنٹے میں مری کے پاس کلڈنہ جا اتارا۔ عوام الناس میں مشہور مال روڈ والے مری جانا میرا مقصد نہیں تھا، میں نے تو جانا تھا نتھیا گلی اس لئے مری سے کوئی تین کلومیٹر آگے جا اُترا۔ یہاں سے ایبٹ آباد جانے والی گاڑی پر بیٹھیں تو وہ آپ کو کوئی ڈیڑھ گھنٹے میں نتھیا گلی پہنچائے گی۔ لیکن بس کا سفر بڑا سست رفتار اور اکتا دینے والا ہوتا ہے، اور میرے تو آپکو پتہ ہونا چاہئے تنگ سیٹوں میں گھٹنے پھنس جاتے ہیں، لمبے قد کی قیمت۔ یہاں دن کے سوا دس بجے اٹھائیس تیس کے قریب درجہ حرارت ہو گا۔ مطلب کہ کوئی خاص ٹھنڈ نہیں تھی۔
اچھا اب آپ لوگ سوچ رہے ہوں گے کہ کوئی فوٹو شوٹو نہیں لگائی تو جناب پہلی بات کہ میرے پاس اپنا کیمرہ نہیں ہے، کیمرے والا موبائل بھی اتفاق سے نہیں ہے۔ رات کے دو بجے پروگرام فائنل ہوا تو اُس وقت کسی یار دوست سے جا کے کیمرہ لا بھی نہیں سکتا تھا۔ لیکن اگر مِل بھی جاتا تو میں شاید ساتھ لے کر نا جاتا کیونکہ میرا ارادہ تھا گلیات کے علاقے میں پہاڑی راستوں پر ٹریکنگ کرنے کا، اور بارہ پندرہ ہزار کا کیمرہ اکیلے ویرانے میں لے کے میں تو کبھی نہ جائوں۔ ایسے گھومتے پھرتے کیمرے کا ایک اور نقصان بھی ہوتا ہے، بندہ سیر کے لمحات کا لطف اٹھانے کے بجائے کیمرے کے ساتھ ہی کھیلتا رہتا ہے۔ اس پورے ٹرپ کی ایک سنگل فوٹو بھی نہیں ہے میرے پاس۔
تو جناب میں نے لوگوں سے پوچھا کہ نتھیا جانے والی گاڑی کہاں آئے گی، کسی نے کہا کہ ادھر ہی آتی ہے۔ میں وہاں کھڑا ہو کے انتظار کرنے لگ پڑا، کوئی دس منٹ بعد سڑک کی دوسری طرف ایک بھر پُری بس آ کے رکی، اور سواریاں اتار چڑھا کر چلی گئی۔ ایسے ہی پندرہ بیس منٹ گزر گئے، میں نے ایک بندے سے پوچھا کہ جناب ایبٹ آباد جانے والی گاڑی نہیں آ رہی کیا چکر ہے؟ جواب مِلا کہ بھائی صاحب وہ گاڑیاں تو سڑک کے دوسری جانب آتی ہیں اور آجکل آف سیزن میں گھنٹے بعد ہی ایک بس آتی ہے۔ مجھے شرمندگی بھی ہوئی اور دھچکا بھی لگا کہ لو جی میں کسی سے پہلے ہی پوچھ لیتا کہ سڑک کی کونسی جانب کھڑا ہونا ہے؟ اور دھچکا اس بات کا کہ اب کھڑے رہو یہاں گھنٹہ بھر۔
لیکن جناب اللہ کی کرنی کہ تھوڑی سی دیر کے بعد ایک سفید کیری ڈبہ آ کے سٹاپ پر رکا، مجھ سے پہلے چند مقامی لوگ آگے بڑھ کے اس میں بیٹھ گئے۔ میں نے بھی پوچھا کہ بھائی کدھر؟ تو جواب مِلا ایبٹ آباد۔۔۔ اور میں نے سکھ کا سانس لیا، اس علاقے میں ایسی چھوٹی گاڑیاں بہت چلتی ہیں۔ در اصل یہ گاڑیاں سیزن کے دنوں میں ( اپریل مئی تا ستمبر اکتوبر ) گائیڈ لوگ استعمال کرتے ہیں اور اُن دنوں یہ اس قسم کے چھوٹے موٹے کام نہیں کرتی۔ بہرحال آف سیزن میں لوگ ان گاڑیوں پر ایسے بھی دیہاڑ لگا لیتے ہیں۔ اس گاڑی نے مجھے آدھے گھنٹے میں کلڈنہ سے نتھیا گلی پہنچا دیا۔ نتھیا اور کلڈنہ کا درمیانی فاصلہ تیس کلومیٹر کے لگ بھگ ہے۔ پہاڑی علاقوں کی گھمن گھیریوں اور چڑھائیوں والی سڑکوں پر تیس کلومیٹر کافی سفر ہوتا ہے۔
تو جناب دِن کے بارہ بجنے کو ہیں، اور میں نتھیا گلی کھڑا ہوں۔ آس پاس کافی کیری ڈبے اور گائیڈ موجود ہیں۔ ایک گاڑی میرے پاس آ کے رکتی ہے، ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا نوجوان مسکرا کر سلام کرتا ہے۔
نوجوان: آ جائیں سر آپ کو سیر کراتے ہیں۔
میں: نہیں یار، ابھی تو میں آیا ہوں، سیر بھی کر لوں گا۔
نوجوان: سر جی اوپرکافی دیکھنے والی جگہیں ہیں، پارک ہے، چرچ ہے، اور گورنر ہائوس بھی۔
میں: اچھا یہ بتائو ڈونگا گلی والا ٹریک کہاں سے شروع ہوتا ہے؟
اس ٹرپ پر ہونے والے خرچے کی تفصیلات یقیناً کافی لوگوں کے لئے دلچسپی کا سامان ثابت ہو گی، کمنٹ کرتے ہوئے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، ویسے بھی جو کمنٹ میرے خلاف ہوا میں نے ڈیلیٹ ہی کر دینا ہے۔۔۔ ہا ہا ہا
جتنی دير آپ نے سوچنے اور تحرير لکھنے ميں لگائی يار لوگ اتنی دير ميں نتھيا گلی پہنچ جاتے ہيں
جواب دیںحذف کریں:lol:
بہت مزا آیا اس سفر کی روداد پڑھ کر۔ اور یہ جو آپ نے خرچ کا گوشوارہ بنا دیا ہے یہ بہت دلچسپی کا حامل ہے۔
جواب دیںحذف کریںپچھلے سال شوگران وغیرہ گیا تھا، اُس سفر کی روداد بھی آپکے لئے دلچسپی کا باعث ہو گی
جواب دیںحذف کریںhttp://kehna.blogspot.com/2009/07/blog-post_29.html
اور
http://kehna.blogspot.com/2009_07_01_archive.html