بدھ، 29 دسمبر، 2010

لبرٹی مارکیٹ کے قریب ریس لگاتی گاڑیوں کا حادثہ، تین نوجوان جاں بحق

اب سے دو ڈھائی گھنٹے قبل، ساڑھے بارہ بجے کے آس پاس میں منی مارکیٹ والے برگر کارنر پر تھا، کہ لوگوں کی کی آواز کانوں میں پڑی۔
پہلا: تین تو موقع پر ہی مر گئے ہیں، اسکے بھائی شانی کی حالت نازک ہے جنرل ہسپتال لے گئے ہیں۔
 دوسرا: یہ صرف دو ہی بھائی ہیں نا۔ اسکے باپ بیچارے کی حالت دیکھی تھی؟

اسی نوع کی کچھ اور گفتگو ہوئی تو میں نے پوچھ لیا کہ ایکسیڈنٹ کہاں ہوا ہے؟ پتہ چلا لبرٹی مارکیٹ گول چکر کے پاس لاہور پلازہ کے نزدیک، دو گاڑیاں تھیں اور ریس لگا رہے تھے۔ ان دو میں سے ایک گاڑی بے قابو ہو کر فٹ پاتھ پر چڑھ گئی۔
ڈبل ون ڈبل ٹو والے فٹا فٹ ہی آ گئے تھے، گاڑی سے نکالے ہی انہوں نے لڑکوں کے دل پمپ کئے لیکن جلد ہی اعلان کر دیا کہ جان نکل چکی ہے۔




میں ذاتی طور پر ایکسٹریم سپورٹس کے حق میں ہوں، گذشتہ دنوں جب بحریہ ٹائوں والے ایکسیڈنٹ کی ویڈیو سامنے آئی تودفتر میں خاصی گرما گرم بحث ہوئی جس میں میرا نقطہ نظر تھا کہ ایسی سرگرمیاں ہونی چاہئیں کیونکہ ان سے معاشرے کی رگوں میں خون چلتا ہے۔ نوجوانوں کے گرم خون میں موجود ٹھاٹیں مارتی توانائی کو اظہار کرنے موقع ملتا ہے۔ ایسے کاموں کی بدولت سائنس اور ٹیکنالوجی کو فروغ ملتا ہے۔ 
اب بھی میں اسی نظریے کا قائل ہوں، اور سمجھتا ہوں کہ مصلٰے پر بیٹھ کر نوجوانی کا زور قابو میں نہیں آتا۔ اس منہ زور سیلاب کو بالکل بند کرنا ناممکن ہے، اگر مناسب ناکہ بندی کر لی جائے تو منہ زور دھاروں کے آگے جنریٹرز لگائے جا سکتے ہیں، اور دور دراز کی بنجر دھرتیوں کو سیراب کیا جا سکتا ہے۔
لیکن آج کے واقعے کے بعد میرے ذہن میں امی جی کی ایک بات فورًا آئی، وہ کہتی ہیں کہ "بندہ ایک پودا لگاتا ہے اور اسے دیکھنے بیٹھ جاتا ہے"۔ چھوٹا سا بچہ ہوتا ہے، ہم اسکو دیکھ دیکھ کے جیتے ہیں۔ آج اس نے بات کی، آج اس نے مجھے ماما کہا، آج چلنا شروع کر دیا، سکول جانے لگ پڑا، ماں باپ بوٹے کو دیکھتے رہتے ہیں دیکھتے رہتے ہیں، اسکی ایک ایک کونپل پر انکی نظر ہوتی ہے۔ قدرت کا نظام ہے کہ جب پودا تناور ہوتا ہے تو مالی بوڑھا ہو جاتا ہے۔ ناتواں بوڑھے مالیوں کی آس امید پھر اسی بوٹے سے لگ جاتی ہے۔
لیکن۔۔۔ لیکن۔۔۔ جن کے یہ بوٹے تھے، ان پر کیا گزری؟ وہ بوٹے جنکو پانی دیتے جسکی کونپلیں گنتے انکے ان گنت بال سفید ہو گئے تھے جب آن کی آن میں جڑ سے اکھڑ گئے، تو باقی کیا بچا؟
کوئی کہہ رہا تھا کہ یہی لڑکے ہر ہفتے لبرٹی آیا کرتے تھے، پچھلے ہفتے آٹھ ہونڈے لے کر آئے تھے۔ لبرٹی کے پارکنگ پلازہ میں ویلنگ کر کے چڑھتے اور خوش ہو رہے تھے۔ اسی طرح جس جگہ آج کا حادثہ ہوا ہے، وہ بھی ریسنگ کے لئے نہایت غیر موزوں ہے۔



ایڈرنالین رش بڑی بری چیز ہے، بندے کی مت مار دیتا ہے۔ میٹر ایک سو پچاس سے اوپر جاتے ہیں، اگلا پہیہ ہوا میں اٹھتے ہی، دوسری گاڑی کے پیچھے نکلتے ہی ایڈرنالین رش شروع ہو جاتا ہے۔ جن لوگوں کو اسکا چسکا پڑ جائے وہ طرح طرح کے جتن کر کےسکون حاصل کرتے ہیں۔ نوجوانوں کے ابلتے خون میں مِل کر اس کیفیت کا اثر اور بھی دوبالا ہو جاتا ہے۔
مسئلہ تو بیان کر دیا، اب حل کیا ہے؟
ایکسٹریم سپورٹس کا اگر کوئی دیوانہ ہے تو اسے ہوش سے کام لینا چاہیئے۔ مناسب حفاظتی انتظامات کے بغیر ایسے کام کرنے سے پرہیز کرنا چاہیئے۔ اور ون ویلنگ کسی بھی طرح سپورٹ نہیں ہے، خاص طور پر مصروف سڑکوں پر ستر اسی کی رفتار سے پہیا اٹھا دینے کا مردانگی سے ہرگز کوئی تعلق نہیں ہے۔ میرے خیال میں بڑی بڑی موٹر کمپنیوں، آئل کمپینوں، اور حکومت وقت کے اشتراک سے ہر شہر میں باقاعدہ ان کاموں کے ٹریکس بننے چاہیئیں۔ جہاں پر لوگ ریسنگ، ون ویلنگ جیسے کام کر کے اپنا خون ٹھنڈا کر سکیں۔

ہفتہ، 25 دسمبر، 2010

Nokia C3-00 میرا نیا

nokia_c3_blue_front_blue_pink_silver_all_colors
کوئی دو مہینے پہلے کی بات ہے، میرا کزن لاہور آیا اور میں اسے کھانا کھلانے لے گیا۔ لبرٹی والے بندو خان میں بیٹھے تھے کہ میرے نوکیا بارہ سو پر کال آنا شروع ہو گئی۔ کزن کہتا ہے کہ "یار یہ تو نے کیا رکھا ہوا ہے، شرم کر شرم اچھی خاصی تنخواہ ہے اور موبائل دیکھو ذرا"۔ اس وقت میں ہنس کے ٹال گیا۔ پھر جناب نتھیا گلی جانے کا اتفاق ہوا تو کیمرہ کہیں سے نہ مِلا، پورا ٹرپ میں نے کیمرہ بہت مِس کیا کہ اگر ہوتا تو چلو شغل رہتا۔ بہت اعلٰی کوالٹی کی نہ سہی، تصویریں اور ویڈیوز ہونی چاہیئے تھیں۔ پھر آ گئی میرے کزن کی شادی، جہاں پر موخر الذکر کزن کے علاوہ باقی بھی پورے خاندان کی موجودگی یقینی تھی۔ یہاں آ کر میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ اور ساتھ ہی میری تنخواہ بھی اکائونٹ میں ٹرانسفر ہو گئی، اور آپکو پتہ ہونا چاہئیے کہ تنخواہ دار بندے کی تنخواہ آتے ہی اسکو خاص قسم کی خارش شروع ہو جاتی ہے جسکا علاج عام طور پر کہیں پیسے خرچ کرنا ہی ہوتا ہے۔ مجھے تو لگتا ہے نوٹوں کی تاثیر گرم ہوتی ہے۔
nokia_1200_front_urduتو جناب میں نے کزن کو ساتھ لیا اور جا پہنچا حفیظ سینٹر، موبائل خریدنے۔ انٹرنیٹ پر ایک سائٹ نے بارہ ہزار نو سو روپے قیمت لکھی ہوئی تھی۔ مارکیٹ گیا تو پہلے دوکاندار نے بارہ ہزار پورے بتائی، دوسرے دوکاندار نے گیارہ ہزار پانچ سو بتائی۔ ویسے میں نے سیکنڈ ہینڈ ای سیونٹی ٹو بھی تلاش کیا لیکن کوئی اچھا دانہ  ملا نہیں۔
سی تھری میں اچھا کیا ہے؟
اس قیمت میں اتنے فیچرز والا سیٹ نوکیا نے آج سے پہلے کبھی نہیں نکالا تھا، اس مرتبہ نوکیا والوں نے صحیح مارکیٹ سگمنٹ کو پکڑا کیا ہے۔ وجہ شاید یہ ہے کہ نوکیا ہائی اینڈ سمارٹ فونز میں پٹ چکا تھا، وہاں آئی فون، اینڈرائڈ، بلیک بیری جیسے پہلوانوں کا راج ہے۔ اسکے علاوہ کچھ عرصہ پہلے سام سنگ کی کوربی لائن مارکیٹ میں آ چکی تھی، اسکی دیکھا دیکھی۔
تو جناب سب سے بڑی خوبی ہے وائی فائی نیٹ ورکنگ۔ اگر آپ کے پاس گھر میں یا دفتر میں وائی فائی نیٹ ورک ہے تو آپکی تو لگ گئی موجیں، بالکل میری طرح۔ سی تھری کا وائی فائی بلاشبہ بہترین ہے۔

پہلے سے انسٹال شدہ انٹرنیٹ میسجنگ کا سافٹ ویئر بھی اچھا ہے، ایم ایس این میسنجر، یاہو، جی ٹالک، اور نوکیا کی اپنی او وی چیٹ پر آپ ایک ہی وقت میں لاگ ان ہو سکتے ہیں، ہر اکائونٹ کے روابط الگ الگ دکھائی دیتے ہیں۔ میں نے یہ پروگرام وائی فائی کے علاوہ جی پی آر ایس پر بھی چلا کر دیکھا ہے، فٹا فٹ کانٹیکٹس اٹھا کر لے آتا ہے اور اے ون چلتا ہے۔
Nokia_C3-00_Blue_Side
فیس بک اور ٹوٹر والی جو بلٹ ان اپلیکشن ہے، نوکیا کمیونٹیز وہ ہر مرتبہ کمیونیکیشن ایرر دے کے بند ہو جاتی ہے پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے اس کے ساتھ۔ بہرحال میں نے ان کاموں کے لئے سنیپ ٹو انسٹال کر لیا ہے۔ جو کہ میرے خیال سے بہتر ہے، کیونکہ اس میں آر ایس ایس ریڈر، روزنامہ گارڈین، بگ پکچر، اور کافی کچھ ہے۔ مزا آتا ہے جب اپ انگیجیٹ یا ٹیک کرنچ پر کچھ پڑھ رہے ہوں اور اسے آرام سے فیس بک پر شیئر کر سکیں یا ٹوٹر پر چوں چوں کر سکیں۔
او وی سٹور کے ذریعے ایپلیکیشنز ڈائونلوڈ کرنے کی سہولت بھی بہت اعلٰی ہے، کافی ساری مفت اپلیکیشنز مل جاتی ہیں۔ جن پر پیسے لگے ہیں وہ بھی کوئی زیادہ مہنگی نہیں ہیں، مثال کے طور پر پینتالیس روپے سے لے کر ڈھائی تین سو روپے تک۔ 
پورا کی پیڈ تو آپ نے دیکھ ہی لیا ہو گا، ایس ایم ایس کے دیوانوں کے لئے اسے سے اچھی اور کیا چیز ہو سکتی ہے؟ 
میں نے اپنے کمپیوٹر پر نوکیا او وی پی سی سوئٹ بھی انسٹال کیا ہوا ہے۔ یو ایس بی یا بلو ٹوتھ کے ذریعے کمپیوٹر کی سی تھری کے ساتھ گپ شپ کا بندوبست کیا جا سکتا ہے۔ مجھے خود کمپیوٹر پر ایس ایم ایس پڑھنا، انکا جواب دینا اور انکو فارورڈ کرنا آسان لگتا ہے، خاص طور پر جب دفتر بیٹھا ہوں۔

موبائل گم جائے تو ساتھ ہی کانٹیکٹس بھی جاتے رہتے ہیں، بہرحال او وی سوئٹ کی موجودگی میں یہ مسئلہ سمجھیں حل ہو جاتا ہے بشرطیکہ آپ نوکیا کا ایک فون گم کر کے ایک اور نوکیا فون خرید لیں۔ کانٹیکٹس کو مفتو مفت نوکیا کی انٹرنیٹ سروس پر محفوظ کیا جا سکتا ہے، یعنی کہ موجاں ای موجاں، خیر ایسی بھی کوئی بات نہیں۔
سی تھری میں اوپرا برائوزر پہلے سے انسٹال شدہ آتا ہے، میں نے نیا ورژن کیا ہے جو کہ پہلے والے سے کافی بہتر ہے۔ میں نے تو کافی سارے گانے، اور ویڈیوز ڈائریکٹ ڈائونلوڈ بھی کئے ہیں۔ سانگز ڈاٹ پی کے ڈیسک ٹاپ وغیرہ سے استعمال کرتے وقت محسوس نہیں ہوتا، لیکن موبائل پر بار بار زورے آ جانے والے پاپ اپ بہت برےلگتے ہیں۔
Nokia_OVi_Store_Logoاسکے علاوہ آٹھ جی بی تک کا میموری کارڈ لگایا جا سکتا ہے، میں نے دو جی بی کا لگایا ہوا ہے میرے لئے کافی ہے۔ اس میں بھی کافی گانے آ جاتے ہیں۔ سائونڈ کوالٹی اچھی ہے، آئی پوڈ، زون، سونی والک مین سیریز، یا آئی فون کی ٹکر کی تونہیں ہے بہر حال ٹھیک ہے۔
کال ریکارڈنگ کی اپلیکشن بھی موجود ہے، آنے جانے والی کالز کو بڑے سکون سے ریکارڈ کیا جا سکتا ہے، اگر آپ گندے بندے ہیں یا آپکا واسطہ گندے بندوں سے پڑتا رہتا ہے تو خوش ہو جائیں۔
ای میل کی بھی ایپلیکیشن ہے، جس میں کہ ہاٹ میل یاہو جی میل اور سکے علاوہ بھی پاپ یا ایس ایم ٹی پی میلز چیک کی جا سکتی ہیں۔
Nokia_C3-00_Pink_front_urduآپ سوچ رہے ہوں گے کہ سافٹ ویئر ہی سافٹ ویئر بتائی جا رہا ہے، تو جناب اس موبائل کا ہارڈ ویئر بھی اچھا ہے۔ پچپن ایم بی انٹرنل میموری ہے۔ کانٹیکٹس اور ایس ایم ایس جتنے مرضی محفوظ رکھیں۔
اسکے علاوہ نوکیا والوں نے ایک اور اچھا کام یہ کیا ہے، کہ ایک جناب گلابی رنگ کا سی تھری بھی بنا دیا ہے۔ یقین مانیں نیلے والا سی تھری نوجوان لڑکوں کے لئے زبردست ہے، اور گلابی والا لڑکیوں کے لئے۔ جہاں تک میرا خیال ہے مارکیٹ میں جلد ہی اس فون کی اور بھی رنگ برنگی کیسنگز آ جائیں گی۔
سب کچھ اچھا ہی نہیں ، کچھ کمزوریاں بھی ہیں؟
ہاں جی میں نے کوئی نوکیا والوں سے پیسے نہیں پکڑے ہوئے جو تعریفیں ہی کری جائوں۔ دو تین ہفتے کے استعمال میں مجھے سی تھری کی چند باتیں بری بھی لگی ہیں۔
بیٹری لائف زیادہ نہیں ہے، ایک مرتبہ فُل کروں تو کوئی ڈیڑھ دن نکالتا ہے۔ شاید اگرمیں صرف فون کالز اور ایس ایم ایس کروں تو زیادہ چل جائے لیکن میں نے دو ایک گھنٹے تو وائی فائی آن کرنا ہی ہوتا ہے، اور گانے بھی چلانے ہوتے ہیں۔
samsung_corby_plus_open_flip_urdu
سام سنگ کاربی
اگر آپ فیس بک پر کسی کے میسج کا جواب دے رہے ہیں، یا کسی کی ای میل کا جواب لکھنے بیٹھ گئے ہیں، یا اپنے بلاگ پر کسی کے کمنٹ کا طویل جواب تحریر کر رہے ہیں اور ساتھ میں گانے بھی چلے ہوئے ہیں تو لکھائی کی رفتار آہستہ ہو جاتی ہے۔ کوئی بھی حرف ضائع تو نہیں ہوتا لیکن، حروف ٹھہر ٹھہر کے سکرین پر نظر آتے ہیں۔
کیمرہ پر دو میگا پکسل لکھا ہوا ہے لیکن کیمرہ کی کوالٹی بالکل فارغ ہے، کیا تھا اگر ذرا سنسر اچھی کوالٹی کا لگا کر ساتھ میں کمزور سا فلیش بھی دے دیتے؟
جی پی آر ایس کو زبردستی بند کرنے کا کوئی آپشن کہیں نہیں ملتا، اگر آپکا وائی فائی سوئچ کسی وجہ سے اچانک آف لائن ہو گیا ہے تو سی تھری چول اپنے اپ جی پی آر ایس یا ایج کے ذریعے رابطہ چالو کر دے گا۔ غلطی سے بندہ ایم ایس این چلتا چھوڑ کے سو جائے، اوپر سے بجلی بند ہو جائے، تو جناب آپکے جاگنے تک کافی پیسے خرچ ہو چکے ہوں گے۔
samsung-corby-txt-front-urdu
سام سنگ کاربی ٹی ایکس ٹی
اس سے ملتا جلتا مسئلہ ای میل اپلیکشن کے ساتھ بھی ہے، الو کی کان تھوڑی تھوڑی دیر بعد خود ہی آن ہو کے آپکی ای میل چیک کرنا شروع کر دیتی ہے۔ اگر کوئی نئی میل ہو تو بیل بجا کر بتاتی ہے کہ جناب نئی میل آئی ہے، پاڈی وڈی۔ گھر یا دفتر میں تو بھائی وائی فائی سے کام چل جاتا ہے، بصورت دیگر جی پی آر ایس آن اور خرچہ پروگرام شروع۔ بھئی بندہ کبھی صرف مِس کال کا بیلنس بمعہ ایس ایم ایس پیکج رکھ کر بھی کام چلا رہا ہوتا ہے، لیکن اس بات کا تو کسی کو خیال ہی نہیں جیسے۔
چیٹ اپلیکشن کی طرح برائوزر کو بھی بیک گرائونڈ میں لے جانا ممکن ہونا چاہیئے، ورنہ اگر آپ برائوزنگ کر رہے ہوں اور ایس ایم ایس آ جائے تو سارے ٹیب بند کر کے ایس ایم ایس دیکھنا پڑتا ہے۔ 
اسکے علاوہ ایم پی فور فائلز کچھ چلتی ہیں اور کچھ نہیں چلتی۔ فیس بک کی تو اکثر ویڈیوز نہیں چلتی، صرف آواز آتی ہے تصویر کوئی نہیں۔
انٹرنیٹ پر ہر جگہ لکھا ہوا ہے کہ دو جی بی کا کارڈ ساتھ مفت آتا ہے، لیکن ہماری لوکل مارکیٹ میں کوئی بھی نہیں دے رہا۔ پتہ نہیں کیا چور بازاری لگائی ہوئی ہے لوگوں نے؟؟؟
کافی مرتبہ فون کا سافٹ ویئر اپ ڈیٹ کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ہر مرتبہ فیل ہو جاتا ہے، یہ بات مجھے بری لگتی ہے۔ نوکیا والوں کے پاس لے کر گیا تو انکی نمائندی کا رویہ بڑا غیر پیشہ ورانہ بدتمیزانہ لعنتیانہ تھا۔ میں نے جا کے مشین سے ٹکٹ لیا، وہ فارغ بیٹھی تھی میں جا کے کھڑا ہو گیا کہ جی یہ سی تھری کا مسئلہ ہے۔
 بد تمیز نمائندی: ٹوکن لیا ہے۔
میں: ہاں جی۔
بدتمیز نمائندی: نمبر کیا ہے؟
میں: اٹھانوے۔
بدتمیز نمائندی: اوپر سکرین پر کہیں لکھا نظر آ رہا ہے؟
میں: نہیں۔
بد تمیز نمائندی: تو پھر جا کے بیٹھیں، جب نمبر آئے گا تو آ جانا۔
مجھے بڑی تپ چڑھی کہ بھلا یہ کوئی طریقہ ہے، بندے کے پتروں کی طرح کہو بھئی آپ انتظار کریں، جب سکرین پر ٹوکن نمبر آئے تو آ جانا۔ بلاوجہ سکرین والی فلم چلائی اس نے، اوپر سے اسکا لہجہ ایسے تھا جیسے میں پتہ نہیں اللہ واسطے کام کروانے آیا ہوں۔ یا مجھ پر بڑا احسان کر رہی ہے، مِس ورلڈ۔
مجھے کہتی ہے کہ جی فون چھوڑ جائیں، تین دن بعد ملے گا اور آپکا تمام ڈیٹا بھی فارغ ہو جائے گا۔ میں نے کہا کہ چل بھاگ جا بی بی، میں خود ہی کوئی جگاڑ لگا لوں گا۔
کال ویٹنگ سے متعلقہ کسی مسئلے کی بھنک سنی تھی میں نے، مجھے اس قسم کا کوئی مسئلہ نہیں پیش آیا۔
اب آپ لوگ سمجھ رہے ہوں گے کہ میں فون کی سپیکس کا ٹیبل کاپی پیسٹ کروں گا، کوئی چکر نہیں وئی۔ سی تھری کا انگریزی میں سیدھا سادا جائزہ آپکو پندرہ سو ویب سائٹوں پر مل جائے گا، اور ساتھ سپیکس بھی ہوں گی۔ جا کے وہاں سے دیکھ لیں۔ مطلب خالی کانپی پیسٹ کرنے کا کیا فائدہ بھئی۔
اچھا چلیں نراض نا ہوں، یہ جی ایس ایم ارینا کا لنک لے لیں، یہاں سارے سپیکس لکھے ہیں
سی تھری کا جامع ریویو، از نعیم اکرم ملک
جی ایس ایم ارینا پر نوکیا سی تھری

حال ہی میں نوکیا سی سِکس کا بھی ریویو لکھا ہے، وہ بھی ضرور دیکھیں
نوکیا سی تھری کا جائزہ از نعیم اکرم م لک



بدھ، 15 دسمبر، 2010

کچھ خوش قسمت بےوقوفوں کے بارے میں

روز مرہ زندگی میں ہمیں اکثر بڑی عجیب ہستیوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ بندہ حریان رہ جاتا ہے کہ "یار یہ نمونہ اور اتنی اچھی پوزیشن پر"۔۔۔ مزید پڑھنے کے لئے ملاحظہ فرمائیں میرے انگریزی بلاگ کا دوسرا جنم

ہفتہ، 11 دسمبر، 2010

نتھیا گلی کے گرد و نواح میں ٹریکنگ، تیسرا اور آخری حصہ

رات کے ڈھائی بج چکے ہیں، ابھی پزا ہٹ سے لوٹا ہوں۔ ایک دوست کا آج دفتر میں آخری دن تھا، اسکو الوداعی دفع دوری پارٹی دینی تھی۔ دِل تو نہیں چاہ رہا تھا لکھنے کو، لیکن اگر لٹکاتا رہا تو لکھنے نہیں ہو گا۔ لہٰذا اپنی تمام تر ذہنی و فکری صلاحیتوں کو پیزے، پیپسی اور سلاد سے مدہوش کر کے شروع کرتا ہوں رودادِ درویش کا تیسرا حصہ اور آخری حصہ۔۔۔

نتھیا گلی کی صبح
اگلی صبح دس بجے تک مجھے کوئی ہوش نہیں آیا، خیر جاگ کر ناشتہ واشتہ کیا۔ نتھیا گلی میں آفاق ہوٹل ہے، انہوں نے جہاں کرسیاں لگائی ہوئی ہیں وہاں سے وادی کا کافی خوبصورت ویو ملتا ہے۔ ناشتے کے بعد میں سڑک پر گاڑی کے انتظار میں کھڑا ہو گیا۔ اتفاق سے دوبارہ گائیڈ کا بھائی ہی مِل گیا۔ مجھے دیکھتے ہی گاڑی روکی اور نیچے اتر آیا
واجد: صاحب آپ کل رات ریسٹ ہائوس نہیں آئے، کدھر چلے گئے تھے؟
میں: یار مجھے رات کو ریسٹ ہائوس ہی نہیں مِلا، بہت ڈھونڈا میں نے۔
واجد: ہم تو بڑے پریشان تھے کہ پتہ نہیں صاحب اکیلا تھا تو کوئی مسئلہ ہی نہ ہو گیا ہو، پتہ نہیں جنگل میں راستہ بھول گئے یا کوئی چیتا ویتا ہی نہ پڑ گیا ہو۔
میں، ہنستے ہوئے: نہیں یار چیتا ویتا نہیں پڑا، بس رات کے وقت پتہ نہیں چلا ریسٹ ہائوس کہاں ہے۔ ویسے میں نے وقار کو کافی مرتبہ فون کیا لیکن اسکا نمبر بند جا رہا تھا۔
واجد: او ہو، وہ تو نیچے گائوں میں چلا گیا، شادی ہے۔ وہاں سگنل  نہیں آتے موبائل کے۔
میں: اچھا یار موبائل تو اب بھی اسکا بند ہے، پھر بھی ریسٹ ہائوس جاتے ہیں شاید وقار مِل جائے تو اس سے پانچ سو روپے ہی واپس لے لوں گا۔ اسکے بعد مجھے ڈونگا گلی پائپ لائن والے ٹریک پر اتار دینا۔
قصہ مختصر ہم ریسٹ ہائوس گئے، اور وہاں جا کر مجھے خود پر بہت غصہ آیا۔ رات کے وقت میں فون پر بات کرتا کرتا ریسٹ ہائوس کے قریب سے گزر کر آگے چلا گیا تھا۔ ورنہ وہ تو چڑھائی ختم ہوتے ساتھ ہی تھا۔ لہٰذا جب بھی کہیں جائیں، اپنا ہوٹل دھیان سے دیکھ کر آس پاس کی چند نشانیاں یاد رکھ لیں۔  وقار وہاں نہِں تھا، جو لڑکا تھا پیسوں کا حساب اسکے پاس نہیں ہوتا تھا اس لئے میرا یہ پانچ سو تو ڈوب گیا۔

پائپ لائن ٹریک اور گائیڈ کی چالاکیاں
واجد گائیڈ نے مجھ سے پوچھا کہ صاحب اب آپکا کیا پروگرام ہے؟ جب میں نے کہا کہ یار پائپ لائن والا ٹریک کرنا ہے، تو وہ سوچ میں پڑ گیا۔ پھر کہنے لگا کہ صاحب آپ اکیلے اس طرف نا جائیں، آجکل چیتے بہت بھوکے ہیں کہیں کوئی حادثہ ہی نہ ہو جائے۔ میں نے کہا کہ نہیں یار، پر رونق ٹریک ہے شیر چیتے کچھ نہیں کہتے مجھے۔ پھر جوان کہنے لگا کہ صاحب سرد علاقوں کے سانپ بہت زہریلے ہوتے ہیں، کاٹ لیں تو بندہ فوراً سے پہلے پورا ہو جاتا ہے۔ آپ نہ جائیں، آپکو میں نیچے گائوں میں لے جاتا ہوں۔ مجھے سمجھ آ گئی کہ استاد اپنی دیہاڑی بنانے کے چکر میں میری چھٹی خراب کرے گا۔ اتنے میں ڈونگا گلی پہنچ گئے، یہ ٹریک بالکل مین روڈ پر ہی شروع ہو جاتا ہے۔ دنیا بھر میں مانا ہوا صحت بخش ٹریک ہے۔ اب مجھے یاد نہیں لیکن یہ ٹریک شاید انیس سو تیس کے آس پاس بنایا گیا تھا۔ ایک طرف پہاڑی ہے اور دوسری طرف کھائی، کھائی والی طرف پہ جنگلا لگا ہوا ہے۔ پورے ٹریک پر تین چار جگہ آرام کرنے کے لئے بنچ اور شیڈ بھی موجود ہیں۔ لیکن ان بینچوں کے آس پاس پلاسٹک کی بوتلیں اور لفافے بہت ہی برے لگتے ہیں، اتنی خوبصورت جگہوں کو لوگ پتہ نہیں کیسے گندا مندا چھوڑ کر آ جاتے ہیں، میں تو جو بسکٹ چپس بوتلیں وغیرہ کھاتا پیتا رہا انکے لفافے وغیرہ جمع کر کے جہاں کوڑا دانی ملی ٹھکانے لگائے۔ اس ٹریک کی لمبائی چار کلو میٹر ہے۔ کافی خوبصورت ٹریک ہے،چڑہائی بالکل نہیں ہے۔ مشہور ہونے کی وجہ سے کافی آباد رہتا ہے، ڈرنے والی کوئی بات نہیں۔ ٹریک کا ٹکٹ صرف دس روپے ہے، اور میرے خیال میں منت ترلے سے بھی کام چلایا جا سکتاہے۔ بہر حال ریکارڈ کی درستگی کے لئے باتا چلوں کہ میں نے دس روپے دیئے تھے۔ گھنٹے سوا میں یہ ٹریک بھی ہو گیا۔ اور جناب میں جا نکلا ایوبیہ۔ 

باندروں کی باجی
نتھیا گلی سے ایوبیہ دس کلومیٹر دور ہے۔ یہاں ایک دلچسپ واقع ہوا۔ ایوبیہ کے بازار میں کافی بندر گھوم رہے ہوتے ہیں، ایک نمبر بندروں کی بات کر رہا ہوں، موٹر سائیکلوں والے بندر مری سے آگے نہیں جاتے انکی تفنن طبع کا سامان مال روڈ پر وافر مِل جاتا ہے۔ یہاں ایک بابا مکئی بیچ رہا تھا، میں نے تھوڑ مکئی خریدی، اور ہتھیلی پر رکھ کر ایک بندر یا پتہ نہیں بندریا تھی کے سامنے کر دی۔ اس نے کھانی شروع کر دی، جب تھوڑ سی رہ گئی تو مجھے لاڈ سوجھا، میں نے چُک اُسکے سر پر ہاتھ پھیرا۔ ہاتھ لگانے کی دیر تھی جناب بندر بے شرم بے حیا نے فائٹنگ پوز ہی بنا لیا، ایسی خوفناک آوازیں نکالی، ایسے وحشیانہ ایکسپریشن دیئے کہ میں تو گھبرا گیا۔ سونے پہ سہاگا اسکے خاندان کے دیگر "معززین" بھی ارد گرد اکٹھے ہو کر شدید غم و غصے کا اظہار کرنے لگ پڑے۔ میں نے سوچا کہ "استاد لگتا ہے باندروں کی باجی کو ہاتھ لگا دیا تو نے" ۔ خیر ہاتھ کھڑے کر دیئے، پیچھے ہٹ گیا، رونی شکل بنا لی، تب کہیں جا کر بندرز سے جان بچی۔

خانسپور
ایوبیہ سے نیچے دو کلومیٹر ڈھلوان اتر کر خانسپور کا گائوں ہے۔ خانسپور میں پنجاب یونیورسٹی کا ریسرچ سنٹر ہے، یونیورسٹی کے رہائشی کاٹیجز بھی ہیں جن کی بکنگ شاید لاہور سے ہوتی ہے۔ اسکے علاوہ وائس چانسلر صاحب کے لئے شاندار رہائش بھی ہے۔ یہاں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کا ریسٹ ہائوس، اور یوتھ ہاسٹل بھی ہیں۔ ان جگہوں کے علاوہ کوئی خاص رہائشی انتظام نہیں ہے۔ ایک آدھا اوسط درجے کا ہوٹل ہے، بازار سےروزمرہ استعمال ہونے والی تمام اشیاء مِل جاتی ہیں۔ بلکہ ایک ویلڈنگ کی دکان بھی ہے، اگرپہاڑیاں چڑہتے اترتے آپکا کوئی ٹانکا ٹوٹ جائے تو یہاں سے ویلڈ کروا لیجئے گا۔ اب مجھے کافی تھکن محسوس ہو رہی تھی، لہٰذا میں نے ایک ہوٹل سے کوئی دو تین کپ چائے پی، ساتھ کچھ کھایا بھی تھا شاید۔ پھر سوچا کہ چلو شیو کرواتا ہوں، اسی بہانے مقامی لوگوں کے ساتھ گپ شپ بھی ہو جائے گی۔ وہاں لوگوں سے پتہ چلا کہ نیچے جا کے گائوں میں کوئی چشمہ ہے، لیکن وہ کافی دور ہے اور پیدل جانا مشکل ہے۔ آسان بھی ہوتا تو میں نہ جاتا کیونکہ میرے پائوں دکھ رہے تھے۔ خیر میں نے حساب لگایا کہ یہاں رہنا فضول، بہتر ہو گا آج ہی ایوبیہ واپس چلا جائوں اور کل صبح لاہور۔ لیکن واپسی ساری چڑھائی ہے، سوچ سوچ کر مجھے واپسی کا سفر پہاڑ لگ رہا تھا۔ خانسپور ذرا ہٹ کر ہے تو اس طرف زیادہ عوامی سواریاں نہیں آتیں۔ جیسے تیسے، گرتا پڑتا واپس اوپر پہنچا۔ ایوبیہ سے خانسپور جاتے وقت اگر پیدل ہیں تو ضروری نہیں کہ سڑک پر ہی چلیں، دو جگہ پر شارٹ کٹ موجود ہیں۔ لیکن صرف دو جگہ پر۔ باقی پگڈنیڈیاں پہاڑی پر واقع مکانوں میں جا نکلتی ہیں، جہاں اِن علاقوں کے لوگوں کے دوستانہ رویے کے باوجود چھترول کے امکانات کافی روشن ہیں۔
 ایوبیہ میں رات
میں کہیں پانچ بجے کے آس پاس ایوبیہ واپس پہنچ گیا۔ ایوبیہ میں چار پانچ ہوٹل ہیں، پی ٹی ڈی سی کا موٹل بھی ہے، مجھے ایک ہوٹل میں ڈبل بیڈ روم مِل گیا، کرایہ وہی پانچ سو روپے۔ بیڈ کے پیروں والی سائیڈ پر جو دیوار تھی اس میں یہ بڑی کھڑکی تھی، میں نے پردے ہٹا ئے تو باہر مبہوت کر دینے والا نظارہ تھا۔ خیر جناب میں بستر پر گِرا، اور پھر کمبل میں اکٹھا ہو گیا، اور پھر سو گیا۔ سات بجے کے قریب ظہیر(  آف سیزن کی وجہ سے ہوٹل مینجر، بیرا، کُک، وغیرہ وغیرہ سب کچھ) نے دروازہ بجانا شروع کر دیا۔ دِل تو میرا کوئی نہیں تھا اٹھنے پر لیکن جب اس نے دس ایک منٹ ہمت نہ ہاری تو میں بستر سے نکل ہی آیا۔ در اصل وہ ساتھ ساتھ اعلان بھی کر رہا تھا کہ صاحب کھانا وانا کھا لو، رش نہیں ہے، کافی ٹھنڈ ہے تھوڑی دیر میں مجھے سونا بھی ہے۔ خیر جناب کھانا وانا کھایا، جو کہ کافی مزے کا تھا، ایوبیہ کا چوچا مشہور ہے لیکن میں نے یہاں آ کر بھی دال چنا ہی کھائی۔ چائے وائے پی، ظہیر کے ساتھ گپ شپ لگائی۔ اسکے مطابق بندر مقامی لوگوں کے ساتھ بد تمیزی نہیں کرتے، البتہ ٹورسٹوں کو معاف نہیں کرتے۔ مقامی لوگ انکے ساتھ سختی سے پیش آتے ہیں، ڈرتے نہیں ان سے اس لئے وہ مقامی لوگوں سے ڈر ور کے گزارا کرتے ہیں۔ اچھی خاصی ٹھنڈ تھی، میں تو جناب ٹھنڈ سے دوڑ کے کمرے میں آیا اور سپرد کمبل ہو کے سو گیا۔

ایوبیہ کی چیئر لفٹ
اگلی صبح اٹھ کر وہی روٹین، ناشتہ پانی کر کے میں نے چائے کا کپ ہاتھ میں اٹھایا اور ایوبیہ کی واحد سڑک پر تھوڑی چہل قدمی کی۔ بلکہ شاید گائوں والا چشمہ خانسپور نہیں ایوبیہ میں تھا، مجھے اب صحیح یاد نہیں آ رہا۔  اسکے بعد میں چلا ایوبیہ چیئر لفٹ کی طرف۔ ایک بات بتاتا چلوں، کہ عوام میں زیادہ مشہور پتریاٹہ کی چیئر لفٹ اور کیبل کار ہے، ایوبیہ میں الگ چیئر لفٹ ہے جو کہ صدر ایوب کے زمانے میں لگائی گئی تھی۔ ایوبیہ کا پرانا نام گھوڑا ڈاکہ تھا، جسے کہ ایوب صاحب کے دور میں بدل کر ایوبیہ کر دیا گیا۔  یہ چیئر لفٹ تقریباً آدھا کلومیٹر طویل ہے، اور اوپر پہاڑی پر جا کے ختم ہوتی ہے۔ پہاڑی پر پارک ہے، چائے وائے مِل جاتی ہے اور شمالی علاقہ جات کے پہاڑ یہاں سے دکھائی دیتے ہیں۔ کافی خوبصورت نظارے ہیں اوپر۔ اوپر ایک چائے کے کھوکھے سے جب میں نے پوچھا کہ یار چائے کے ساتھ صرف بسکٹ، کوئی پکوڑے شکوڑے ہی رکھ لیتے؟ مجھے یاد ہے شوگران سری پائے اوپر جا کے ٹھنڈ میں چائے پینے اور تازہ پکوڑے کھانے کا بڑا مزا آیا تھا۔ اس پر یہ بھائی صاحب جو کہ ڈیڑھ سو روپے کِلو چینی کی وجہ سے کافی پریشان تھے، پھٹ ہی پڑے۔ بقول انکے پہلے سیزن لگا کر اتنے پیسے بچ جاتے تھے کہ باقی پانچ چھے مہنیے سکون سے گزارے جا سکیں لیکن اب تو ستیا ہی ناس ہو گیا ہے، خرچے تک پورے کرنے مشکل ہو گئے ہیں۔ واپسی پر جو وادی کا نظارہ چیئر لفٹ سے دکھا تو میں سمجھیں حیران پریشان ہی رہ گیا۔  سامنے پوری وادی پھیلی ہوئی ہے، تاحد نظر سبزہ اور خوبصورتی۔

واپسی کا سفر
ایوبیہ سے مری جانے کے لئے پہلے کوزہ گلی جانا پڑتا ہے، جو کہ دو کلومیٹر دور ہے۔ میں نے پانی کی بوتل پکڑی اور اللہ کا نام لے کر چل پڑا، اس سفر میں بھی چڑھائی نہیں ہے اور راستہ بہت خوبصورت ہے۔ بندے کے ہتھ پلے کچھ نا ہو تو یہ بڑی سہولت رہتی ہے، منہ اٹھا کر چل پڑو، ڈر ور نہیں لگتا۔ کوزہ گلی سے نتھیا گلی بارہ کلومیٹر اور ایبٹ آباد اٹھارہ کلومیٹر ہے، مری بیس بائیس کلومیٹر ہے۔ یہاں سے میں اک سوزوکی پک اپ میں بیٹھا، مری تک کا کرایہ پچاس روپے اور سفر تقریباً آدھے گھنٹے میں طے ہوا۔ اس سفر میں ساتھ بیٹھے مقامی نوجوان کی باتوں میں بیزاری کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ مجھے کہتا ہے کہ یار آپ لوگ یہاں لینے کیا آتے ہیں؟ کیا ملتا ہے آپ کو یہاں؟ ہم لوگ تو اس جگہ سے تنگ ہیں، پہاڑوں پر رہنا بہت مشکل ہے۔ پھر کام کاج روزگار وغیرہ کا بہت مسئلہ ہے، نا کوئی فیکٹری نا دفتر جائیں تو جائیں کہاں؟ اسکے علاوہ بتاتا چلوں کہ مری صوبہ پنجاب میں ہے، اور نتھیا گلی صوبہ خیبر پختونخواہ میں۔ خیبر پختونخواہ کی اس علاقہ میں سخت مخالفت کی جاتی ہے، ہر جگہ پر صوبہ ہزارہ کا بورڈ ہی مِلا، کہیں خیبر پختونخواہ نہیں لکھا تھا۔
اسکے بعد میں مری  آیا، مال روڈ پر تھوڑی شاپنگ کی، آنکھیں ٹھنڈی کی۔ حلقہ ارباب ذوق والے عامر فراز مِل گئے، اپنی والدہ کے ساتھ آئے ہوئے تھے۔ شام پانچ بجے مری سے پنڈی والی ویگن پر بیٹھا، سات بجے پنڈی، ساڑھے سات بجے پنڈی سے چل کر کوئی بارہ بجے واپس لاہور۔ اور یوں میرا ایک سفر اپنے اختتام کو پہنچا۔
نوٹ: نتھیا گلی سطح سمندر سے آٹھ ہزار پانچ سو فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔

جمعرات، 2 دسمبر، 2010

جلتے "کیوں"۔۔۔

کتھئی آنکھوں والا وہ کلین شیو نوجوان میرے سامنے آیا اور اس نے ہاتھ جوڑ دیئے۔ میں اُن آنکھوں میں بھری بےچارگی دیکھ کر بوکھلا سا گیا۔ وہ بولا بھائی اللہ کے واسطے مجھے بس کھانا کھلا دو، ایک انڈہ ایک پراٹھا اور ایک کپ چائے۔ کہاں خلیفتہ اللہ، اور کہاں ایک انڈہ ایک پراٹھا اور ایک کپ چائے، کیوں۔۔۔ آخر کیوں؟
آٹھ سو روپے، اس سے کم نہیں ہو سکتے۔۔۔ ستائیسویں رمضان المبارک ہے۔۔۔  کافی دیر سے سر ماری کر رہا ہوں لیکن اُسکی سوئی آٹھ سو پر آ کے اٹک ہی گئی ہے۔۔۔ "دیکھ پہلے ہی رمضان کی وجہ سے بہت بُرا حال ہے، پھر ساری رات ذلیل ہونا کوئی سوکھا کام نہیں ہے۔۔۔ دل کرتا ہے تو چل ورنہ جا اپنا کام کر"۔۔۔ یہ کیا بات ہوئی۔۔۔ شیطان تو سُنا تھا رمضان کا چاند طلوع ہوتے ہیں قید ہو جاتا ہے۔۔۔ تو پھر یہ آٹھ سو روپے پر بحث کرنے والوں کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟
جانوروں کو لگانے والا بڑا ٹیکا پکڑے وہ سامنے والے لکڑی کے بینچ پر لیٹی ہے۔ پیروں والی طرف ایک بارہ تیرہ سال کی بچی بیٹھی اپنے جوتے سے کھیل رہی ہے۔ ٹیکے کے ساتھ ایک سوئی گیس والا پائپ لگا ہے جو کہ اسکی میلی پرانی قمیض کے نیچے کہیں گم ہو جاتا ہے۔ کیوں؟ خوراک کی نالی میں کینسر ہے، کچھ نگل نہیں سکتی۔ خوراک ٹیکے میں بھر کر سیدھی معدے میں انڈیلتی ہے۔ بارہ سال سے کم عمر کے تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے، خاوند چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ بہن بھائی ماں باپ کوئی نہیں ہے۔ گھر کرائے کا ہے، بیٹا محلے کے لوگوں کے چھوٹے موٹے کام کرتا ہے اور لوگ۔۔۔ ترس کھا کے کچھ کھانے پہننے کو دے دیتے ہیں۔ میں نے اسکی مٹھی میں ایک نوٹ تھمایا، مٹھی کھول کر دیکھی اور میرے پیروں پر اپنے ہاتھ رکھ دیئے۔ میرا دِل چاہا زمین پھٹ جائے اور میں اس میں اتر جائوں۔ اس سے زیادہ پیسوں کا تو یہ جوتا ہے جو میں نے پہنا ہے۔
مٹی سے بال اٹے ہیں۔ قمیض اتری ہوئی ہے۔ چہرے پر خون اور مٹی سے بنا گارا لپا ہے۔ لوگ اسے مار رہے ہیں، ڈنڈے جوتے ٹھڈے مکے جسکو جو ملتا ہے اس سے مار رہے ہیں۔ ساتھ ہی ایک ننگے دھڑ والا ساکن جسم پڑا ہے، جان نکل گئی اسکی شاید۔ وہ اٹھتا ہے، ہاتھ جوڑتا ہے لیکن مجمع ایک نہیں سنتا۔ مار مار کے اسے زمین پر گرا دیتے ہیں۔ اسکے ناک سے خون بہہ رہا ہے، اسکا پنڈا چور چور ہو چکا ہے، اسے سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ بھائی۔۔۔ اسکا بھائی جسکے ساتھ صبح وہ کرکٹ کھیلنے آیا تھا اسکے ساتھ بے سدھ پڑا یا شاید مر گیا ہے۔ دو ہی تو وہ بھائی تھے۔
ویر ویراں دا درد ونڈاندے، تے ویر ویراں دیا بانہواں
اُسکا ویر تو مر گیا۔۔۔ مار دیا ظالموں نے۔۔۔ اسکی بانہیں تو نوچ لی گئیں۔۔۔ پھر اسکی آنکھوں کے آگے بھی منظر دھندلا گیا۔۔۔ ایک ڈوبتی سی یاد ماں کی آئی۔۔۔ وہی ماں جو آج صبح کہہ رہی تھی کہ "جا پتر، رب راکھا" شاید وہ بھی مرنے والا تھا۔۔۔


میرے دِل میں ہول اٹھتے ہیں، میں پوچھتا ہوں ذوالجلال جبار قہار رزاق رحمان غفور رحیم یہ کیا ہے؟ تجھے تیری شان کریمی کا واسطہ مجھے سمجھا کہ یہ کیا ہے؟ تو قادر مطلق ہے، تو سمجھا سکتا ہے نا۔۔۔ کوئی ایک عذاب ہو تو میں اسکا رونا روئوں یہاں تو تا حد نظر عجائب پھیلے ہوئے ہیں۔۔۔ میں کمی کمین ہی سہی، تیرا بنایا ہی سہی، مطلق تیرا محتاج ہی سہی۔۔۔ تو مجھے بتا میں کیا کروں، کہاں جائوں؟ تو انہیں سکون کیوں نہیں دیتا؟ اتنی لاچارگی کیوں پھیلا رکھی ہے اس دنیا میں؟ اتنی بے رحمی کہاں سے آ گئی تیری تخلیق میں؟ تیرا خلیفہ تھوڑے سے پیسوں کے لئے ننگا کیوں ہو جاتا ہے؟ ہاتھ کیوں جوڑ دیتا ہے؟ پیر کیوں پکڑ لیتا ہے؟ لاشوں کے ساتھ کھڑا ہو کے تصویریں کیوں بنواتا ہے؟ زندہ ماس پر ڈنڈے مارتے ہوئے جب خون کے چھینٹے اڑتے ہیں تو اسکو تسکین ملی ہے، ہیں کیوں؟ کیا پاکھنڈ مچا رکھا ہے تو نے؟ تو کوئی بچہ ہے جس نے کھیل کھیل میں سب بنا ڈالا، اور اب ڈمیز کو کرتب کرتا دیکھ کر خوش ہو رہا ہے؟ یا تو کوئی حکیم تخلیق کار ہے، جسے اپنے ایک ایک شعر ایک ایک جملے اور ایک ایک مجسمے سے پیار ہوتا ہے؟ پیار ہے تو پھر میرے بادشاہ یہ کیسا پیار ہے؟
بے شک میں بڑا بے صبرا اور بڑا کم علم ہوں، تو ضرور مجھ پر کرم کرے گا۔۔۔ مجھے قرار بخش، ہدایت دے۔۔۔ تجھے مجھ سے سات مائوں جتنا پیار ہے۔۔۔ اور تو کسی پر اسکی برداشت سے زیادہ بوجھ بھی نہیں ڈالتا۔۔۔


نوٹ: سفرنامے کے سلسلے کی تیسری تحریر لکھنی تھی لیکن بس آمد شروع ہو گئی تو یہ تحریر سپرد قرطاس کر چھوڑی۔۔۔

ہفتہ، 27 نومبر، 2010

نتھیا گلی کے گرد و نواح میں ٹریکنگ حصہ دوم

گائیڈ نے مجھے بتایا کہ یہاں پر پشاور یونیورسٹی کا گرما کیمپس بھی ہے، اس کیمپس کے پاس سے ہو کر بھی ایک ٹریک گزرتا ہے۔ گائیڈ کو ساتھ لے ہی لیا، میں نے سوچا کہ چلو اچھا ہے لوکل کو ساتھ لے لیتا ہوں، ورنہ مجھے علاقے کا کوئی خاص اتہ پتہ نہیں ہے۔ میں نے بڑی کوشش کی کہ گائیڈ شروع میں ہی پیسے طے کر لے تاکہ بعد میں سیاپا نہ پڑی لیکن وہ اللہ کا بندہ اس طرف بات جانے ہی نہیں دیتا تھا، کچھ بھی کہو اسکا ایک ہی جواب ہوتا تھا کہ سر جی آپ گھومیں پھریں اگر جگہ اچھی لگی تو جو دل کرے دے دینا۔ خیر وہاں اوپر گورنر ہائوس تک گئے، راستے میں چرچ بھی دیکھا لیکن مجھے ٹریک پر جانے کی جلدی تھی سو میں اندر نہیں گیا۔ اور گورنر ہائوس کے اندر مجھے کسی نے جانے نہیں دینا تھا، کامن مین مینگو پیپل جو ہوا۔

پشاور یونیورسٹی سمر کیمپس کا ٹریک
پھر ہم نے سفر شروع کیا وادی میں واقع گائوں نملی میرا کی طرف، بس عام سا ہی گائوں ہے۔ راستے میں ایک جگہ پر آبشار بھی آتی ہے، یہ جگہ گزارے لائق خوبصورت تھی۔ کوئی تین چار کلومیٹر نیچے جا کر اسی آبشار کا پانی سڑک کے بیچ میں سے گزرتا ہے۔ میں تھوڑی دیر پانی میں پائوں ڈال کر بیٹھا تھا، منہ پر بھی چھینٹے مارے، یخ ٹھنڈے پانی نے آنکھیں کھول کر رکھ دیں۔
یہ پوری ڈرائیو کوئی تیس ایک کلومیٹر کا چکر ہو گی، نتھیا گلی سے چل کر نملی میرا اور پھر شوگران ایبٹ آباد روڈ پر سے ہو کر واپس نتھیا گلی، رائونڈ ٹرپ۔ خیر اس کے بعد گائیڈ نے مجھے جا اتارا شوگران ایبٹ آباد سے آنے والی یا اس طرف جانے والی کہہ لیں، سڑک پر۔ یہ میرے خیال میں نتھیا گلی سے کوئی آٹھ دس کلومیٹر پیچھے جگہ ہے، سڑک پر بائیں طرف پشاور یونیورسٹی سمر کیمپ, باڑہ گلی کا بورڈ لگا ہوا ہے۔  یہ جو ٹریک ہے جناب یہ ٹریک شریک کوئی نہیں تقریباً باقاعدہ سڑک ہی ہے، باریک بجری نما پتھروں سے والی۔ ڈھائی تین کلومیٹر ہو گا۔ پہلے چڑھائی آتی ہے، پشاور یونیورسٹی کے کیمپس تک چڑھائی ہی ہے۔ بس یہی ٹریک کا مشکل حصہ ہے۔ کیمپس جو کہ ہو گا آدھا کلومیٹر پہنچ کر آپ دائیں طرف بغلی راستے پر ہو لیں، اور چل پڑیں اللہ کا نام لے کر۔ کوئی زیادہ سفر نہیں ہے۔ اور چڑھائی بھی نہیں ہے۔ اس لئے بندہ بڑے آرام سے پر سکون والک کرتا کرتا ٹریک کر لیتا ہے، بہت خاموشی ہوتی ہے، اور ٹھنڈ بھی۔ اتنے میں بادل آ گئے اور چھا گئے، میں نے سوچا کہ یا میرے مالک میں تو کپڑوں کا دوسرا جوڑا بھی نہیں لے کر آیا یہ ظالم برس گئے تو ٹٹھر جائوں گا، تیری مہربانی تھوڑی دیر بعد بارش وارش کا پروگرام کر لئیں۔ اس سے پہلے سدھن گلی آزاد کشمیر کی بارش میں بھیگنے، اولے کھانے اور ٹھٹھرنے کا تجربہ ہے۔ خیر تب تو میں سارا ساز و سامان ساتھ لے کر گیا تھا۔ اس ٹریک کا کوئی خاص مزا نہیں آیا، گائیڈ کہہ رہا تھا کہ صاحب آپکو دو گھنٹے لگیں گے لیکن ٹریک صاحب تو بس ٹھیک ایک گھنٹے میں خلاص ہو گئے۔ گائیڈ ٹریک کے اختتام پر ہی کھڑا تھا۔

نتھیا گلی واپسی، اور ہوٹل کی بکنگ
گائیڈ نے مجھے کریدنا شروع کر دیا کہ سر جی آپ ہوٹل کہاں لیں گے؟ میں نے کہا کہ یار میں تو سستے سے بستر کی تلاش میں ہوں جہاں مِل گیا رات بسر کر لوں گا، کوئی فیملی تو ہے نہیں ساتھ۔ خیر اس اللہ کے بندے نے مجھے نتھیا گلی بازار کے بجائے تھوڑا اوپر جا کے ایک ریسٹ ہائوس میں کمرہ لے دیا، پانچ سو روپے میں جو کہ میں نے ایڈوانس ہی دے دیئے۔ میں جب گیا تو وہ لوگ کھانا کھانے ہی والے تھے، اتنا اصرار کیا کہ مجھے دو نوالے لگانے ہی پڑے۔ یہ الگ بات ہے کہ ایک نوالے کا مطلب ایک روٹی بنتا ہے۔ کھانے کے بعد چائے بھی ادھر ہی مِل گئی۔
نتھیا گلی سے ڈونگا گلی کا ٹریک، اور لالہ زار
نتھیا گلی سے تھوڑا سا اوپر جا کے ایوبیہ نیشنل پارک شروع ہو جاتا ہے۔ یہ بھی والکنگ ڈسٹنس پر ہی ہے۔ اس پارک میں چھوٹا سا ایک چڑیا گھر ہے، آجکل اس چڑیا گھر میں صرف ایک برفانی چیتا ہے۔ برفباری نہ ہونے کی وجہ سے باقی جانوروں کو چیچو کی ملیاں شفٹ کر دیا گیا ہے۔ خیر یہ چیچو کی ملیاں والی تو بونگی ہی تھی، پتہ نہیں کہاں کسی سرد علاقے میں بھیج دیا ہے۔ یہ ٹریک البتہ دلچسپ ثابت ہوا۔ چڑیا گھر میں سے سیدھا ہی آگے نکل جائیں ، اور بس راستے کو فالو کرتے جائیں، کہیں کوئی موڑ چوک چوراہا دوراہا سہ راہا نہیں آتا۔ ہاں تھوڑا سا آگے جا کر ایک دو راہا آتا ہے، اس پر سے آپ نے دائیں ہاتھ ہو جانا ہے، جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے وہاں لکڑی کا بورڈ بھی لگا ہوا ہے۔ بائیں طرف والا راستہ میرانجانی چوٹی کی طرف جاتا ہے۔ بائیں طرف والا راستہ تقریباً آٹھ گھنٹے کے ایک پروفیشنل ٹریک کا سِرا ہے۔   یہ ٹریک میرانجانی کی چوٹی سے ہوتا ہوا ٹھنڈیانی ایبٹ آباد جا نکلتا ہے۔ ریسٹ ہائوس میں ملنے والے گائیڈ وقاص کے مطابق اگر بندہ ہمت والا ہو تو صبح چھے بجے چل کر شام چار بجے تک یہ ٹریک مکمل کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پہ کچھ عرصہ پہلے اُس نے عمران خان کے ساتھ یہ ٹریک کیا تھا، اور بقول اسکے عمران خان اب بھی بہت ایکٹو اور پھرتیلا ہے بالکل کسی نوجوان کی طرح۔
اس ٹریک میں کوئی خاص چڑھائی تو نہیں ہے، لیکن ٹریک کا کچھ حصہ بڑا نیچرل ہے، دائیں طرف کھائی، بائیں طرف پہاڑ، اور پگڈنڈی بہت چھوٹی تو نہیں، بس ایک بندے کی چوڑائی جتنی ہے۔ شام کے کوئی چار بج چکے تھے۔ اس ٹریک کی لمبائی بھی کوئی تین ساڑھے تین کلومیٹر ہو گی۔ اس مرتبہ میں نے ٹائم نوٹ نہیں کیا کیونکہ میں نے سوچا آرام آرام سے چلتا ہوں، جلدی کاہے کی ہے؟ اور ایک مزے کی بات، پورے ٹریک پر یو فون اور ٹیلی نار کے سگنلز پورے آ رہے تھے۔

دِن کا اختتام
مغرب کی اذانیں ہو رہی تھیں، گو میں کافی تھک چکا تھا لیکن، اس ٹریک کا مزا آیا۔ ٹریک کا اختتام ڈونگا گلی میں مین بازار سے کافی اوپر ہے، سمجھ لیں کوئی آدھا کلومیٹر کی ڈھلوان ہے۔ اور وہ اپنا جو گائیڈ تھا، اسے میں نے سولہ سو روپئے دیئے۔ نیچے آ کر پبلک ٹرانسپورٹ کے انتظار میں سڑک پر بیٹھ گیا، تھوڑی دیر میں ایک کیری ڈبہ مِل گیا۔ ڈرائیور کی شکل دِن والے گائیڈ سے ملتی جلتی تھی، میں تو سمجھا وہی ہے۔ بہرحال اسکے ساتھ میں واپس نتھیا گلی آ گیا۔ اس سے راستے میں گپ شپ ہوئی تو پتہ چلا کہ دن والے گائیڈ کا بڑا بھائی ہے، یہ لفٹ تو مفت میں ہی مِل گئی۔ مین بازار میں رک کر کھانا وانا کھایا، چائے شائے پی۔ بازار کا ایک چکر لگایا، زیادہ رونق نہیں تھی۔ کیونکہ یہ دن یہاں آف سیزن سمجھے جاتے ہیں۔

ٹریجڈی
جس ہوٹل سے کھانا کھایا اسکا نام میرا خیال ہے الخیام تھا، یہاں سے میں نے کمرے کا کرایہ پوچھا تو کائونٹر پر بیٹھے سوبر سے مینیجر کہتے ہیں کہ یار پانچ سو سے لے کر آٹھ سو ہزار تک جہاں بات بن جائے، کیونکہ آف سیزن ہے۔ خیر پھر میں نکلا اوپر گیسٹ ہائوس میں جانے کے لئے۔ چلا چلا چلا لمبی سی چڑھائی چڑہ لی اور چلتا ہی چلا گیا لیکن کمبخت ریسٹ ہائوس کہیں دکھائی ہی نہیں دیا۔ دِن بھر کی تھکن اور پھر ریسٹ ہائوس نا ملنے کی وجہ سے جو کوفت ہوئی بس کچھ نا پوچھیں۔ خیر میں نے وقاص کا نمبر ملایا، تو فون بند۔ بہت مربتہ کال کی لیکن اسکا فون ہی بند جا رہا تھا، میں نے کہا بھئی فٹے منہ۔ خیر تنگ آ کر میں واپس چل پڑا۔ نیچے بازار میں آ کر نتھیا ہائیٹس نامی ہوٹل میں کمرہ لیا، جسکا کرایہ مبلغ پان صد روپے سکہ رائج الوقت تھا، پانچ سو روپے یار سیدھی زبان میں۔
 بس پھر بستر پر گرنے کی دیر تھی، سو گیا۔۔۔ لیکن اوپر والے فلور پر کوئی بدتمیز فیملی ٹھہری ہوئی تھی انہوں نے رات کو بارہ بجے کے قریب کھپ ڈالنی شروع کر دی۔ اب میں کیا کہتا، آنکھ کھلی تو کوئی تین بجے تک نیند ہی نہیں آئی۔ خیر، پھر میں سو گیا اور اس طرح پہلا دِن اختتام کو پہنچا۔

پائپ لائن ٹریک اور خانسپور کی روداد انشاءاللہ اگلی پوسٹ میں، جو کہ میں کوشش کروں گا کہ کل رات لکھ لوں ورنہ فیر اگلے جمعے کی رات۔۔۔
پچھلی پوسٹ

ہفتہ، 13 نومبر، 2010

نتھیا گلی کے گرد و نواح میں ٹریکنگ

ہفتہ، چھے نومبر دو ہزار دس، رات کے کوئی ڈیڑھ بجے ہیں قذافی سٹیڈیم کی مارکیٹ والے سردار کی مچھلی پہ ہاتھ صاف کرتے ہوئے میں سوچ رہا ہوں کہ کیا کروں، مری جائوں یا نا جائوں؟ کوئی دوست بھی ساتھ جانے کو تیار نہیں ہے، اور اکیلے اتنا سفر کیسے کروں گا۔ خیر وہاں میں نے کولیگز کے سامنے اعلان کر دیا کہ درویش تو جائے گا نتھیا گلی۔  وجہ یہ بنی کہ نو نومبر منگل کو یوم اقبال کی چھٹی آ رہی تھی، میرے دفتر والوں نے فیاضی دکھاتے ہوئے یہ چھٹی آٹھ نومبر بروز سوموار دے دی۔ اب تین چھٹیاں بندہ کیبل دیکھ کر یا سو کر گزار دے تو میرے حساب سے تو فِٹے مُنہ ہی کہا جا سکتا ہے۔ گائوں جا کر بھی کیا کرنا ہے، آپے اگلے ہفتے عید پر جائوں گا۔ کوئی آدھا گھنٹہ اسی کشمکش میں ٹی وی کے سامنے بیٹھا رہا۔ پھر سوچا کہ چل جیا، ہمت کر۔ یار بیلی ساتھ نہیں جا رہے تو کھان کھسماں نوں، اس مرتبہ اکیلے ہی چلنا چاہئیے۔
اگلا سوال، سامان کیا اٹھائوں؟ ایک دو شرٹس اور ٹرائوزر اٹھائے بیگ میں ڈالے پھر سوچا کہ اس مرتبہ بے سر و سامانی کا تجربہ کیا جائے۔ بس ایک فل سلیو شرٹ نکال کر استری کی جینز جوگر پہنے، گرم چادر اٹھا لی اور چل وئی گُڈ ٹو گو۔ ویسے آنلائن شاپنگ اور کریڈٹ کارڈ پلاسٹک پیسہ کے زمانے میں بے سروسامانی خاصی بے معنی ہو گئی ہے، وہ بھی مری جیسے کافی ترقی یافتہ علاقے میں۔ بس پیسے ہیں تو رہائش، کھانا، کپڑا، علاج معالجہ کہیں سے بھی کچھ بھی خرید لیں۔
تقریباً ساڑھے تین بجے فردوس مارکیٹ سے رکشہ پکڑا اور جا اُترا نیازی اڈہ یتیم خانہ۔ دوست نے بتایا تھا کہ لاہور سے مری نان سٹاپ گاڑیاں بھی چلتی ہیں۔ لیکن جناب اُس گاڑی کا ایک ٹائم رات بارہ بجے نکل جاتا ہے۔ میں نے پنڈی والی گاڑی کا ٹکٹ لے لیا، یہ بس صبح چار بجے چلنی تھی۔ رات کا وقت اور موٹر وے کا سفر، چُپ چپیتے گزر گیا۔ زیادہ وقت میں نے اگلی سیٹ پر سر ٹکا کے گزارا۔ اکیلا بندہ اور کر بھی کیا سکتا ہے۔ نیند نہیں آئی، آ جاتی تو سفر آسانی سے کٹ جاتا۔ ایک بات اچھی ہو گئی کہ گاڑی راستے میں کہیں رکی نہیں، اور آٹھ بجے میں راولپنڈی فیض آباد اڈے پر بیٹھا چائے پی رہا تھا۔
فیض آباد ہی سے نیو مری کی ٹویوٹا ویگن مِل گئی، اس ویگن نے مجھے سوا گھنٹے میں مری کے پاس کلڈنہ جا اتارا۔ عوام الناس میں مشہور مال روڈ والے مری جانا میرا مقصد نہیں تھا، میں نے تو جانا تھا نتھیا گلی اس لئے مری سے کوئی تین کلومیٹر آگے جا اُترا۔ یہاں سے ایبٹ آباد جانے والی گاڑی پر بیٹھیں تو وہ آپ کو کوئی ڈیڑھ گھنٹے میں نتھیا گلی پہنچائے گی۔  لیکن بس کا سفر بڑا سست رفتار اور اکتا دینے والا ہوتا ہے، اور میرے تو آپکو پتہ ہونا چاہئے تنگ سیٹوں میں گھٹنے پھنس جاتے ہیں، لمبے قد کی قیمت۔ یہاں دن کے سوا دس بجے اٹھائیس تیس کے قریب درجہ حرارت ہو گا۔ مطلب کہ کوئی خاص ٹھنڈ نہیں تھی۔
اچھا اب آپ لوگ سوچ رہے ہوں گے کہ کوئی فوٹو شوٹو نہیں لگائی تو جناب پہلی بات کہ میرے پاس اپنا کیمرہ نہیں ہے، کیمرے والا موبائل بھی اتفاق سے نہیں ہے۔ رات کے دو بجے پروگرام فائنل ہوا تو اُس وقت کسی یار دوست سے جا کے کیمرہ لا بھی نہیں سکتا تھا۔ لیکن اگر مِل بھی جاتا تو میں شاید ساتھ لے کر نا جاتا کیونکہ میرا ارادہ تھا گلیات کے علاقے میں پہاڑی راستوں پر ٹریکنگ کرنے کا، اور بارہ پندرہ ہزار کا کیمرہ اکیلے ویرانے میں لے کے میں تو کبھی نہ جائوں۔ ایسے گھومتے پھرتے کیمرے کا ایک اور نقصان بھی ہوتا ہے، بندہ سیر کے لمحات کا لطف اٹھانے کے بجائے کیمرے کے ساتھ ہی کھیلتا رہتا ہے۔ اس پورے ٹرپ کی ایک سنگل فوٹو بھی نہیں ہے میرے پاس۔
تو جناب میں نے لوگوں سے پوچھا کہ نتھیا جانے والی گاڑی کہاں آئے گی، کسی نے کہا کہ ادھر ہی آتی ہے۔ میں وہاں کھڑا ہو کے انتظار کرنے لگ پڑا، کوئی دس منٹ بعد سڑک کی دوسری طرف ایک بھر پُری بس آ کے رکی، اور سواریاں اتار چڑھا کر چلی گئی۔ ایسے ہی پندرہ بیس منٹ گزر گئے، میں نے ایک بندے سے پوچھا کہ جناب ایبٹ آباد جانے والی گاڑی نہیں آ رہی کیا چکر ہے؟ جواب مِلا کہ بھائی صاحب وہ گاڑیاں تو سڑک کے دوسری جانب آتی ہیں اور آجکل آف سیزن میں گھنٹے بعد ہی ایک بس آتی ہے۔ مجھے شرمندگی بھی ہوئی اور دھچکا بھی لگا کہ لو جی میں کسی سے پہلے ہی پوچھ لیتا کہ سڑک کی کونسی جانب کھڑا ہونا ہے؟ اور دھچکا اس بات کا کہ اب کھڑے رہو یہاں گھنٹہ بھر۔
لیکن جناب اللہ کی کرنی کہ تھوڑی سی دیر کے بعد ایک سفید کیری ڈبہ آ کے سٹاپ پر رکا، مجھ سے پہلے چند مقامی لوگ آگے بڑھ کے اس میں بیٹھ گئے۔ میں نے بھی پوچھا کہ بھائی کدھر؟ تو جواب مِلا ایبٹ آباد۔۔۔ اور میں نے سکھ کا سانس لیا، اس علاقے میں ایسی چھوٹی گاڑیاں بہت چلتی ہیں۔ در اصل یہ گاڑیاں سیزن کے دنوں میں ( اپریل مئی تا ستمبر اکتوبر ) گائیڈ لوگ استعمال کرتے ہیں اور اُن دنوں یہ اس قسم کے چھوٹے موٹے کام نہیں کرتی۔ بہرحال آف سیزن میں لوگ ان گاڑیوں پر ایسے بھی دیہاڑ لگا لیتے ہیں۔ اس گاڑی نے مجھے آدھے گھنٹے میں کلڈنہ سے نتھیا گلی پہنچا دیا۔ نتھیا اور کلڈنہ کا درمیانی فاصلہ تیس کلومیٹر کے لگ بھگ ہے۔ پہاڑی علاقوں کی گھمن گھیریوں اور چڑھائیوں والی سڑکوں پر تیس کلومیٹر کافی سفر ہوتا ہے۔

تو جناب دِن کے بارہ بجنے کو ہیں، اور میں نتھیا گلی کھڑا ہوں۔ آس پاس کافی کیری ڈبے اور گائیڈ موجود ہیں۔ ایک گاڑی میرے پاس آ کے رکتی ہے، ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا نوجوان مسکرا کر سلام کرتا ہے۔
نوجوان: آ جائیں سر آپ کو سیر کراتے ہیں۔
میں: نہیں یار، ابھی تو میں آیا ہوں، سیر بھی کر لوں گا۔
نوجوان: سر جی اوپرکافی دیکھنے والی جگہیں ہیں، پارک ہے، چرچ ہے، اور گورنر ہائوس بھی۔
میں: اچھا یہ بتائو ڈونگا گلی والا ٹریک کہاں سے شروع ہوتا ہے؟
  

اس ٹرپ پر ہونے والے خرچے کی تفصیلات یقیناً کافی لوگوں کے لئے دلچسپی کا سامان ثابت ہو گی، کمنٹ کرتے ہوئے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، ویسے بھی جو کمنٹ میرے خلاف ہوا میں نے ڈیلیٹ ہی کر دینا ہے۔۔۔ ہا ہا ہا

Nathia Gali 3 Day Trip Expenses

جمعرات، 11 نومبر، 2010

ستیندر سرتاج۔۔۔ سائیں بمعہ بول Satinder Sartaj Sai along with Lyrics

ستیندر سرتاج کا یہ گانا میرے دل کو لگا ہے۔۔۔ سوچا قارئین کے ساتھ بھی شیئر کروں۔۔۔ ایک دعا ہے۔۔۔ اپنے اپنے سائیں۔۔۔ اپنے اپنے رب سے۔۔۔



کوئی علی آکھے کوئی ولی آکھے
کوئی کہے داتا سچے مالکاں نوں
مینوں سمجھ نا آوے، کی نام دیواں
اس دو چکی دیا چالکاں نوں

سائیں وے ساڈی فریاد تیرے تائیں
سائیں وے باہوں پھڑ بیڑا بنے لائیں
سائیں وے میریاں غناہاں نوں لُکائیں
سائیں وے حق وچ فیصلے سنائیں
سائیں وے ڈگئے تاں پھڑ کے اٹھائیں
سائیں وے اوکھے سوکھے راہاں چوں لنگاہیں
سائیں وے زندگی دے بوجھ نوں چُکائیں
سائیں وے فکراں نوں ہوا چ اڈائیں
سائیں وے ہولی ہولی خامیاں گھٹائیں
سائیں وے کھوٹیاں نوں کھرےچ ملائیں
سائیں وے ماڑیاں دی منڈی نا وکائیں
سائیں وے محنتاں دے مُل وی پوائیں
سائیں وے سِلے سِلے نیناں نوں سکائیں
سائیں وے پاک صاف روحاں نوں ملائیں
سائیں وے سارے لگے داغ وی دھوائیں

سائیں وے بھلیاں نوں انگلی پھڑائیں
سائیں وے بس پٹی پیار دی پڑھائیں
سائیں وے دلاں دے غلاب مہکائیں
سائیں وے مِہراں والے مینہ وی ورسائیں
سائیں وے زمین جہیاں خوبیاں لے آئیں
Satinder_Sartaj_Sai_Lyrics
سائیں وے ہوا جئی ہی ہستی بنائیں
سائیں وے میل میرے اندروں مکائیں
سائیں وے پیاریاں دے پیراں چ وچھائیں
سائیں وے جذبے دی ویل نو ودھائیں
سائیں وے شاعری چ اثر وسائیں
سائیں وے سیر تو خیالاں نوں کرائیں
سائیں وے تاریاں دے دیس لے کے جائیں

ہو او سائیں وے میرے نال نال تو وی گائیں
سائیں وے روحانی کوئی تال چھیڑ جائیں

سائیں وے صوفیاں دے وانگ رنگ جائیں
سائیں وے میں ہر ویلے کراں سائیں سائِں
سائیں وے وے فاصلے دی لیک نوں مٹائِں
سائیں وے دراں تے کھڑے آں خیر پائیں
سائیں وے دیکھیں ہُن دیر نا لگائیں

سائیں وے اسی سج بیٹھے چائیں چائیں
سائیں وے وے آپے ای واج مار کے بلائیں
سائیں وے سچیں سرتاج ہی بنائیں

Just to increase search engine visiblity:
Satinder Sartaj's song Sai along with lyrics in Urdu language.

بدھ، 27 اکتوبر، 2010

کچھ گم شدہ موبائلوں کے بارے میں۔۔۔

اسی سال کی بات ہے، تھوڑے ہی مہینے پہلے فاسٹ میں سافٹ ٹیک سالانہ نمائش لگی تھی۔ میں اور میرا ہائوس میٹ زبیر وہاں گھومنے پھرنے گئے۔ کافی رونق میلہ تھا۔ میرا بلیک بیری گُم ہوئے تھوڑے ہی دِن ہوئے تھے، اور مجھے فون کی ضرورت تھی۔ بھئی اسکا مطلب یہ مت نکال لینا کہ میں وہاں فون کا شکار کرنے گیا تھا۔ اس نمائش میں بچوں کے آئیڈیاز کا بھی ایک حصہ ہوتا ہے۔ گھوم گھام کر ہم لوگ اُس طرف نکل گئے، ماشاءاللہ کافی اچھے آئیڈیاز تھے بچوں کے، اور کافی خوبصورت اُستانیاں بھی۔ وہاں میری نظر روسٹرم پہ رکھے ایک عدد فون پر پڑی، جس کا کوئی والی وارث دکھائی نہیں دے رہا تھا۔


میں نے زوبی سے کہا کہ یار وہ دیکھ فون، اُسنے فون اٹھا لیا اور ایک دو مرتبہ ہوا میں لہرا کہ آواز لگائی کہ یہ کس کا ہے؟ ایک دو کوششوں کے بعد جب کوئی جواب نہ آیا تو زوبی کہتا ہے کہ یار جیب میں ہی ڈال لوں، ایویں ای کوئی اور آ کے کہہ دے گا کہ میرا ہے۔ اسکے بعد ہم لوگ باہر آ گئے، گھنٹہ بھرگھومے پھرے کھایا پیا اور گھر کی طرف آ گئے۔ فردوس مارکیٹ اتر کے میں نے زوبی سے کہاکہ یار موسم اچھا ہے، چل حفیظ سنٹر چلتے ہیں مجھے موبائل خریدنا ہے۔ ابھی ہم بس سٹاپ پر ڈیوو کا انتظار کر ہی رہے تھے کہ فون بجا۔ زوبی نے اٹھایا تو کسی نے فون والی کا پوچھا، شاید کوئی لڑکا تھا۔
زوبی نے بتا دیا کہ ایسے ایسے مجھے فون ملا ہے اور آپ اُسے بتا دیں۔ ذرا دیر بعد فون کی مالکن نے فون کھڑکا دیا۔ کچھ ایسی گفتگو ہوئی

بچی: میرا فون آپکے پاس ہے۔
زوبی: ہاں جی بالکل۔
بچی: آپ کو ملا تھا تو آپ مجھے واپس دے کر جاتے۔
زوبی: آپ نے فون ہی نہیں کیا ورنہ ہم کافی دیر فاسٹ میں گھومتے رہے تھے۔
بچی: تو اب واپس کر کے جائیں۔
زوبی: فون آپکا ہی ہے، مجھے کوئی شوق نہیں رکھنے کا لیکن ابھی میں نہیں آ سکتا۔
بچی: وٹ دا ہیل میرے کنٹیکٹس ہیں اُس میں۔ آپ ابھی دے کر جائو۔
زوبی: وٹ دا ہیل والی اس میں کونسی بات ہے بی بی۔ تمیز سے بات کرو۔
بچی: وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔
زوبی: اچھا تو میں اسے بند کر کے جیب میں ڈال رہا ہوں، لے سکتی ہو تو لے لو آ کے۔


اسکے بعد کیا ہوا۔۔۔ دیکھئے میری یہ والی پوسٹ
میرا موبائل گواچا
http://kehna.blogspot.com/2009/07/blog-post_02.html


نوٹ: اردو بلاگنگ شروع کرنے کے بعد یہ میری دوسری تحریر تھی، اور میرے خیال میں کافی دلچسپ تحریر تھی۔ اسوقت میں سیارہ اور ماورائی پر لسٹڈ نہیں تھا، اس لئے پوسٹ کو دوبارہ پبلش کر رہا ہوں۔۔۔

ہفتہ، 23 اکتوبر، 2010

جیتے جاگتے حوصلے، مدثر اقبال شاہ

مدثر اقبال شاہ کی عمر ستائیس سال ہے۔ بچپن سے ہی سیریبرل پالسی Cerebral palsy نامی بیماری کا شکار ہیں۔ مدثر کو لکھنے، بولنے، اور چلنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حال ہی میں شادی بھی ہو گئی۔ کمپیوٹر سائنس میں ایم فِل کیا ہے۔ تقریباً چار سال سے مختلف کمپنیوں میں (M.Soft, Cure MD) سافٹ ویئر انجینئر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔

Mudaser Iqbal
اِن دنوں پاکستان میں زندگی گزارنا دن بدن مشکل ہوتا جا رہا ہے، بہت سے ہنرمند پہلا جیک لگتے ہی ملک چھوڑ کے جا رہے ہیں۔ اچھے بھلے تندرست لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں۔ لہٰذا جب کوئی ایسا بندہ ملتا ہے جس میں ظاہری طور پر کوئی کمی ہو، اور وہ بندہ اُس کمی یا معذوری کے باوجود کامیابی کی منزلیں طے کر رہا ہو تو کم از کم مجھے بڑی خوشگوار حیرت ہوتی ہے۔ مدثر سے میری پہلی ملاقات کوئی ڈھائی سال پہلے بطور کولیگ منشاء سافٹ میں ہوئی۔
مدثر کا انٹرویو پیش خدمت ہے۔
     
س: انفرمیشن ٹیکنالوجی کی طرف کس طرح رجحان بنا؟
مدثر: میں میٹرک کے بعد چاہتا تھا کہ آئی سی ایس کر لوں لیکن میٹرک میں اتنے نمبر ہی نہیں آئے۔ اس وقت اتنی کونسلنگ (counciling) بھی نہیں تھی کوئی بتانے والا نہیں تھا کہ کیا کروں۔ اس وقت میں نے آئی کام (I.Com) میں ایڈمیشن لے لیا۔  مارکیٹ کا اتنا پتہ نہیں تھا۔ کسی بندے کو اتنا تھا ہی نہیں۔ لوگ سمجھتے تھے کہ یہ معمولی سی جاب کرے گا تھوڑا کمائے گا بلکہ کمانا بھی کیا کئی لوگ کہتے تھے کہ یہ بھائیوں پہ ڈیپینڈ (depend) کرے گا۔
میرے ائی کام میں اچھے مارکس آئے تو ہیلی کالج میں ایڈمیشن مل گیا۔ میں نے وہاں سے بی کام کمپلیٹ کر لیا۔  بی کام کے دوران ہی میرے کچھ این جی اوز (NGOs) سے رابطے ہوئے۔ وہ این جی او ڈس ایبلڈ پرسنز (disabled persons) کو فری کورسز آفر کرتی تھی۔ میں نے کہا چلو کونسے پیسے لگنے ہیں، فری کورسز کرنے چاہئیں۔ میرے پاس سائیکل ہوتی تھی اپنی، میں ادھر اُدھر گھومتا رہتا تھا۔ تو ایج (Edge) انسٹیوٹ ہے وہاں وی بی سکس (VB 6) کا کورس آفر ہو رہا تھا۔ وہاں سے پہلی مرتبہ میں نے بی کام کے دوران وی بی سکس سیکھی۔ صبح میں یونیورسٹی جاتا تھا اور شام کو ایج۔

نعیم: اچھا بی کام سے پہلے کمپیوٹر استعمال کرتے آپ؟
مدثر: بس انٹرنیٹ استعمال کر لیتا تھا اور چیٹنگ وغیرہ۔ وی بی میرے سر کے اوپر سے گزر گئی۔ لیکن مجھے لگا کہ پروگرامنگ اور کمپیوٹر میں میرا انٹرسٹ ہے۔ پھر میں نے ڈاٹ نیٹ کا کورس کیا، تب بھی مجھے خاص سمجھ نہیں آئی۔ میں نے بی کام کے اینڈ میں اوریکل (Oracle) ڈی بی اے کی ٹریننگ لی نائیکون (NICON) سے، وہ بھی فری تھی۔ بی کام کے بعد میرا دل تھا کہ مارکیٹ میں جائوں۔ تب تک مجھے پتہ چل چکا تھا کہ میں پروگرامنگ بہتر کر سکتا ہوں۔
Mudaser Iqbal Portraitمارکیٹ میں گیا جاب ڈھونڈنے تو پہلے تو مجھے فری کام کرنا پڑا، فری کام ایسے کہ پہلے تو انہوں نے انٹرن شپ پہ رکھا ۔ایک آڈٹ فرم  ہے ادھر میں کام کرتا تھا۔ انہوں نے مجھے ایک این جی او میں آڈٹ کرنے بھیجا، این جی او کا آڈٹ کروانا مسٹ ہوتا ہے۔ اس این جی او نے مجھے جاب آفر کر دی، تین ہزار روپے پہ۔ میں نے وہ جاب ایک مہینہ کی، پھر میرے ایک ٹیچر ہیں انہوں نے مجھے کہا کہ آپ کمپیوٹر سائیڈ پہ جائو، وہاں آپ کامیاب ہو سکتے ہو۔ میں اُس این جی او کے سارے اکائونٹس پہلے ہی مہینے میں پیچ ٹری (Peach Tree) سافٹ ویئر پہ شفٹ کر دیئے، لیکن ادھر نا میں رہا نہیں کیونکہ کام بہت زیادہ لے رہے تھے اور پے (pay) بہت کم کر رہے تھے۔
اکائونٹس میں لکھنا پڑتا ہے اور مجھے لکھنے کا پرابلم ہوتا ہے۔ آجکل کمپیوٹر آ گیا ہے لین پھر بھی مینولی اکائونٹس رکھے جاتے ہیں کیونکہ کمپیوٹر ابھی اتنی اعتبار والی چیز نہیں ہے۔


پھر میں نے ایم سی ایس میں ایڈمیشن لے لیا، جاب کو میں نے گڈ بائی کر دیا۔ اور ذہن میں میں نے ایک اپنے بنا لیا بھئی جب میں دو سال بعد ایم سی ایس کر کے نکلوں گا تو مجھے اچھی جاب مل جائے گی۔ وہی ہوا کہ آفٹر ٹو ایئرز میں نے کمپیوٹر سائنس پر پوری توجہ لگائی۔ اور سب سے بڑی بات ہے کہ میں نے ایم سی ایس ڈگری حاصل کرنے کے لئے نہیں کیا، میں نے ایم سی ایس کام سیکھنے کے لئے کیا ہے۔ میں یونیورسٹی ایسے جاتا تھا جیسے میں کام سیکھنے جا رہا ہوں۔ آئی فورگیٹ ابائوٹ مائی سی جی پی اے ( I forget about my CGPA)، کہ میرا سی جی پی اے کیا ہوتا ہے کہ بس مجھے سیکھنا ہے۔ تو وہ بس ایک بندے کا جب سیکھنے کا مائینڈ ہو، کمپیوٹر فیلڈ ہو تو وہ کافی کچھ سیکھ لیتا ہے۔ ایم سی ایس کے دوران ابھی میں پروجیکٹ کر رہا تھا تو ایم سافٹ (MSoft) نے مجھے آفر کر دی، ادھر میں نے جائننگ دے دی۔ وہاں پہ پھر میں نے کام کیا ڈیڑھ سال، کیونکہ ایم سی ایس میں میری اپنے بیچ میں ٹاپ پوزیشن تھی۔ پھر اسی یونیورسٹی نے مجھے فری ایم فل آفر کر دیا۔ ایم سی ایس میں مجھے ففٹی پرسنٹ ڈسکائونٹ ملا تھا۔ ایک دن میں یو سی پی (UCP) کی ویب سائیٹ دیکھ رہا تھا تو مجھے پتہ چلا کہ یہ ڈس ایبلڈ پرسنز کو فری ایجوکیشن دے رہے ہیں۔ تو میں ادھر گیا، انہوں نے ایڈمیشن دے دیا۔میں نے بس چلتے پھرتے ایڈمیشن لے لیا، ایسے ہی گیا تھا یونیورسٹی فارم فِل کر کے دے دیا۔
نعیم: اچھا وہ کونسی این جی او ہے جو آپکی ایجوکیشن پہ خرچہ کرتی تھی؟
مدثر: خرچہ نہیں اٹھاتی تھی، صرف ریکمنڈ (recommend) کر دیتی تھی کہ یہ بندہ ڈیزرو (deserve) کرتا ہے۔ کبھی کوئی این جی او پے نہیں کرتی۔ یونیورسٹی پھر اپنا امیج بہتر بنانے کے لئے ڈسکائونٹ دیتی ہے۔

اس طرح میں آئی ٹی میں آیا، کیونکہ مجھے پتہ چل گیا تھا کہ یہ فیلڈ میرے لئے سوٹ ایبل ہے۔ یہی بات مجھے میٹرک میں پتہ چل جاتی تو اور بھی اچھا ہوتا۔ لاہور میں میرے کافی کانٹیکٹس ہیں، اور میں انہیں کہتا ہوں کہ آئی ٹی کی طرف آئو۔
نعیم: اچھا میں پڑھ رہا تھا کہ سیریبرل پالسی میں لوگوں کی ذہنی صلاحیت یا کاگنیشن (cognition) میں بھی مسئلہ ہو جاتا ہے۔
مدثر: ہاں ہو جاتا ہے، لیکن ضروری نہیں ہے، میں بہت لوگوں سے ملا ہوں۔ ان لوگوں کے اندر کچھ کرنے کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے۔ زیادہ تر جو لوگ ہیں اس طرح کے انکو سائیڈ پر کر دیا جاتا ہے، کہ آپ سے تو یہ کام ہونا ہی نہیں ہے۔ حالانکہ وہ چاہتے ہیں کہ کریں کام۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہوتا تھا، ایون کہ سکول کے دور میں بینچ اٹھانے ہوتے تھے، جب آپ نے واپس جانا ہوتا تھا نا تو بینچ آپ نے الٹے کر کے ڈیسک پہ رکھنے ہوتے تھے صفائی کرنے کے لئے۔ تو وہ مجھے نہیں کرنے دیتے ہوتے تھے، کہ آپ سے نہیں ہو گا۔ آئی کین ڈو اٹ، لیکن نہیں جی آپ نے تو کرنا ہی نہیں ہے۔ اس وجہ سے میرے میں جذبہ پیدا ہوتا تھا۔ ابھی بھی میں لرننگ پراسیس میں ہوں، ابھی تک سیکھ رہا ہوں۔
تو اب کافی لوگ ہیں جو مجھ پر انحصار کرتے ہیں۔ اپنی فیملی میں اور کمیونٹی میں، ایک اچھا مقام پیدا کیا ہے۔ اور ان لوگوں کو کافی پیچھے چھوڑا ہے، جو کسی زمانے میں اپنے آپ کو پتہ نہیں کیا سمجھتے تھے۔ وہ اب بہت کم کما رہے ہیں، وہ اپنےگھر کا خرچہ نہیں چلا رہے۔ کیونکہ وہ پڑھے نہیں ہیں۔


نعیم: اور کھانے پینے میں کیا پسند ہے، مطلب دیسی فوڈ پسند ہے یا فاسٹ فوڈ؟
مدثر: دیسی فوڈ پسند ہے، مٹن کافی شوق سے کھاتا ہوں۔ اور میٹھا پسند ہے، گڑ والے چاول، چینی والے پراٹھے کھاتا ہوں۔ ناشتے میں ڈبل روٹی نہیں کھاتا، پراٹھا ہی کھاتا ہوں۔
نعیم: فارغ وقت میں کیا کرتے ہیں، کوئی مشغلہ، کوئی ہابی یا ایکٹیوٹی؟

مدثر: فارغ ٹائم میں کمپیوٹر گیمز کھیلتا ہوں۔ کوئی گیم سلیکٹ کر لیتا ہوں، جیسے آجکل میں فیفا (FIFA) کے پیچھے پڑا ہوا ہوں۔
نعیم: فیفا کونسی، ٹو تھائوزنڈ ٹین (2010)؟
مدثر: ٹونٹی ٹین بھی انسٹال کی تھی لیکن وہ میرے لیپ ٹاپ پہ چلی ہی نہیں۔ تو سیون کھیل رہا ہوں، ٹورنامنٹ جیتا ہوں۔ سپورٹس ٹائپ کی گیمز پسند ہیں۔ کرکٹ کھیلتا رہا ہوں، پھر کال آف ڈیوٹی (Call of Duty) کھیلتا رہا ہوں۔
نعیم: ہم لوگ آفس میں کال آف ڈیوٹی ٹو(COD 2) کھیلتے ہیں۔
مدثر: ہاں، اسکا اینڈ کیا ہوا ہے۔ اب پروگرام بن رہا ہے پی ایس ٹو(PS 2) لے رہا ہوں۔ گیم ہی کھیلتا ہوں یا دوپہر کو پڑوسی ہیں انکے ساتھ کرکٹ کھیل لیتا ہوں۔

نعیم: شادی اپنی مرضی سے کی تھی، یا والدین کی مرضی سے؟
شادی کا یہ ہے کہ میری امی گئی تھیں جب انہیں رشتے کا پتہ چلا، کہ محلے میں ہی رشتہ ہے۔ اسکے بعد انہوں نے مجھے دیکھا، لیکن ڈائوٹ ہی تھا۔ پھر میری ان لوگوں سے خود بات ہو گئی، کافی اچھی بات ہوئی۔ بیگم اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہیں۔ بہت کانفیڈنٹ ہیں، بیگم کے ابو کچھ عرصہ پہلے فوت ہوئے تھے، جب انہوں نے رشتے داروں سے بات کی کہ گورنمنٹ سے ابو کے کچھ پیسے ملنے ہیں گریجوٹی وغیرہ، تو کوئی بھی خاص مدد نہیں کر سکا۔ پھر میری وائف نے خود ایفرٹ کی، ان دی اینڈ ان کو پیسے مِل گئے۔ اسکے بعد انہوں نے خود اپنا گھر بھی بنوایا۔ پرانا گھر بالکل توڑ کے تین ماہ کے اندر نیا گھر بنا لیا۔ اصل میں وہ چاہ رہی تھی کہ بہن بھائی سیکیور (secure) ہو جائیں۔ سات بہنیں اور ایک چھوٹا بھائی ہے۔ اس مرتبہ بی ایس سی(BSc) کے پیپر دے رہی ہیں۔ انکے ایک چاچو آسٹریلیا میں ہوتے ہیں، وہ بہت سپورٹو(supportive) ہیں، ویری نائس مین۔
نعیم: آپکی کامیابی میں آپکے والدین کا کیا کردار تھا؟
بہت امپورٹنٹ رول ہے امّی کا۔ بہت توجہ دی ہے انہوں نے سارے بچوں پر، میرے باقی بہن بھائی بھی ہائیلی ایجوکیٹڈ ہیں۔ کافی وہ مجھے ساتھ لے کے چلی ہیں۔ آفٹر ففتھ کلاس جو میرے ٹیچر تھے وہ مجھے سکول میں نہیں رکھ رہے تھے۔ تو وہ کہتے تھے کہ یہ بندہ آگے پڑھ ہی نہیں سکتا۔ بالکل یہ کچھ کر ہی نہیں سکتا، تو یہ کیسے پڑھے گا؟ میرے امی ابو نے سکول کی دیوار بھی بنوائی دی، ایز اے ڈونیشن۔ کافی کہا کرتی تھی امی کہ لکھنے کی پریکٹس کیا کرو، اور پڑھا کرو، ٹائم پہ کام کرو، سکول سے چھٹی نہیں کرنی۔ یعنی کہ جو پلیٹ فارم ہوتا ہے نا آگے بڑھنے کے لئے وہ بڑا زبردست مہیا کیا ہوا تھا۔ پھر مائیں دعائیں بھی تو اتنی کرتی ہیں۔
نعیم: یہاں تک آنے میں کون لوگ تھے جنہوں نے آپکو سپورٹ کیا؟
 گھر میں لڑائی ہو جاتی ہے، تو میں نے ویسے ہی کہہ دیا غصے میں کہ آپ مجھے اس لئے ڈانٹتے ہیں کہ میں کچھ کما نہیں سکتا۔ تو اس دن میری باجی نے رو رو کہ دعا کی تھی کہ اللہ اس بندے کو کسی کا محتاج نہ بنائیں، اور اسے اتنا دے دئیں کہ یہ لوگوں کو دے۔ تو مجھے تو لگتا ہے میری بہن کی وہی دعا قبول ہوئی۔
پھر میرے چھوٹے بھائی نے اور بڑے بھائی نے کافی ساتھ دیا ہے۔ بڑے بھائی نے کوئی کمی نہیں ہونے دی، چھوٹا بھائی میرا کلاس فیلو تھا۔ اسکی وجہ سے مجھے کافی سہارا ہوتا تھا۔ میٹرک تک رہا ہے وہ میرے ساتھ، میٹرک کے بعد ہم علیٰحدہ علیٰحدہ ہوئے ہیں۔
اس نے پہلے آئی سی ایس کیا، پھر بی کام کیا۔ اس نے جاب بھی کی ہے۔ لیکن پھر میں نے اسے کہہ دیا کہ اب تو نے کوئی جاب نہیں کرنی۔ اب وہ ایم سی ایس کر رہا ہے، اسکے بعد اسکی لائف بن جائے گی۔ اب بھی وہ مجھے چھوڑنے آتا ہے مجھے لینے آتا ہے، کبھی اس نے اُف تک نہیں کی کہ میں نے نہیں لے کے آنا۔ بلکہ وہ مجھے فون کرتا ہے کب آنا ہے، کتنے بجے آنا ہے بتا۔ ابھی رات کے بارہ بجے ہیں ( مدثردوپہر دو سے رات دس گیارہ بجے تک ایک انگلش کمپنی میں کام کرتا ہے ) ، ابھی اس نے آنا ہے۔ ابھی جا کے اُسکے ساتھ اُسکی اسائنمنٹ بھی بنوانی ہے۔
نعیم: عام لوگوں سے مختلف ہونے کی وجہ سے آپکو کس قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟
مدثر: مسائل تو بہت ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ میں جو اس جگہ پہنچا ہوں تو یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔ میں بس اپنے ماں باپ کی وجہ سے ہی ادھر پہنچا ہوں۔ انہوں نے مجھے کبھی مینٹلی ریٹارڈڈ پرسن ( mentally retarded person ) بننے ہی نہیں دیا۔ ایک مرتبہ جب سکول میں ایڈمیشن نہیں مل رہا تھا تو امی مجھے ڈس ایبلڈ (disabled) بچوں کے سکول میں لے گئیں۔ انہوں نے جب اُدھر بچوں کو دیکھا تو انہوں نے اُدھر توبہ کر لی کہ ادھر رہا نا تو یہ بھی ان جیسا بن جائے گا۔ تو انہوں نے مجھے نارمل سکول میں پڑھایا، یہ بہت بڑی کہتا ہوں کہ میرے لئے سپورٹ تھی۔ آج اگر میں ڈس ایبلڈ پرسنز کے ساتھ پڑھا ہوتا تو میں شاید اس سے بہت پیچھے ہوتا۔ کیونکہ جو میں نے دیکھا ہے کہ انکی جو کونسلنگ (counciling) ہے اسکا معیار بہت ہی ڈمب (dumb) ہے۔
نعیم: مطلب انکا جو معیار ہے پڑھانے کا اس طرح آپکا خیال ہے بندہ کچھ بن نہیں سکتا؟
میرے اپنے پائوں پیدائشی طور پر ٹیڑھے تھے۔ پھر بعد میں میرا آپریشن ہوا، اللہ بھلا کرے ابا جی کا آپریشن کروا دیا انہوں نے میرا اس سے میرے پائوں سیدھے ہو گئے۔ تو آج تک میرے خاندان میں پیٹھ پیچھے اس بات کا طعنہ دیا جاتا ہے کہ یہ تو معذور ہے، وہی ٹیڑھے پائوں والا۔ حالانکہ میں کام کر رہا ہوں چلتا پھرتا بھاگتا دوڑتا ہوں۔ تو آپکو یہ مسئلہ نہیں ہوتا کہ لوگ اس طرح سے ٹریٹ کرتے ہیں، انڈر ایسٹیمیٹ (under estimate) کرتے ہیں۔ 
نعیم: لوگ جب دِل توڑنے والی باتیں کرتے ہیں تو آپکو کیسا محسوس ہوتا ہے؟

مدثر: میں نے نا ایک مائنڈ بنا لیا تھا، کہ میرے ساتھ ایسی باتیں ہونی ہیں۔ جب بندے کو پتہ ہوتا ہے نا کہ ایک چیز آپکی طرف آنی ہے، مثلاً ایک بال ہے جو آپ کی طرف آ رہی ہے تو اگر آپکا منہ دوسری طرف ہوگا اور وہ آپکو لگ جائے گی۔ لیکن جب آپکو پتہ ہو گا تو اگر آپ پیچھے ہوجائیں گے تو بال آپکے پاس سے گزر جائے گی۔ بالکل ایسے ہی مجھے پتہ تھا کہ میرے ساتھ ایسے ہونا ہے، آئی ڈونٹ لسن میں نے ادھر سے سنی اُدھر سے نکال دی۔ اگر میں ان باتوں پہ فوکس کرتا تو پھر میں ان باتوں کے گرد گھومتا رہتا۔ ابھِی تک بھی کئی لوگ باتیں کر لیتے ہیں لیکن مجھے عادت ہو گئی ہے۔ کوئی ایک نارمل بندہ بھی ہو نا تو اسے بھی میں یہی مشورہ دوں گا۔ کوئی ایک چیز آ رہی ہے تو آپ پیچھے ہو جائیں، بجائے اسکے سامنے آنے کے۔
نعیم: مطلب، لڑنے کی ضرورت نہیں ہے آپ بس اگنور (ignore) کر دیں۔ اس طرح ہے کہ پٹری پہ ٹرین آ رہی ہے، اس نے آنا ہی آنا ہے تو بجائے اسکے کہ آپ پٹڑی پہ تڑ کر کھڑے ہو جائیں, اور ٹرین کے نیچے آ جائیں بہتر ہے کہ ہٹ جائیں۔

نعیم: بھابی کے ساتھ انڈرسٹینڈگ کیسی ہے؟ وہ آپکے مختلف ہونے کے بارے میں کیا محسوس کرتی ہیں؟
مدثر: اچھی انڈرسٹینڈگ ہے، وہ خوش ہیں کیونکہ میں پڑھا لکھا ہوں اور ہماری فیملی بھی اچھی ہے۔  
نعیم: وہ کونسا جذبہ ہے جو آپکی ہمت نہیں ٹوٹنے دیتا؟
مدثر: پیشن (passion) یہ ہے کہ، چھوٹا کام ہو یا بڑا میں ٹاپ پہ رہوں میں لیڈ کروں کام کو۔ اصل میں جس انسان کو یہ ہوتا ہے کہ میں نے ٹاپ پہ جانا ہے تو بے شک وہ ٹاپ پہ نہیں جائے، وہ کامیاب ہو جاتا ہے۔ دوسرا یہ کہ آپکو یقین ہونا چاہئے۔ ایک ڈاکٹر ہیں ڈاکٹر خالد جمیل، وہ مریض کی مثال دیتے ہیں، کہ اگر مریض کو یقین ہو نا صحیح ہونے کا تو وہ ہو جاتا ہے۔ کہتے ہیں جنہیں ڈائوٹ ہو وہ آرام آرام سے صحیح ہوتے ہیں، اور جنہیں بالکل یقین نہیں ہوتا نا وہ بالکل صحیح نہیں ہوتے۔
نعیم: زندگی میں کبھی کوئی ایسی صورتحال بنی جسے آپ یادگار سمجھتے ہوں؟
مدثر: دوست تھا کافی اسکا ساتھ دیا لیکن وہ چھوڑ گیا، وہ کبھی نہیں بھولے گا۔ میں نے تو خلوص دل سے اسکا ساتھ دیا، لیکن وہ یہی سمجھ رہا تھا کہ یہ اپنا فائدہ چاہتا ہے۔ کچھ اچھے دوست ہیں جو کام بھی آتے ہیں، بغیر مطلب کے ملنے والے لوگ ہیں۔ کچھ ایسے دوست ہیں جنہیں مطلب ہو تو فون بھی کر لیں گے آ بھی جائیں گے، ورنہ نہیں۔ 
نعیم: غصہ آتا ہے؟ آتا ہے تو کس طرح کنٹرول کرتے ہیں؟
مدثر: ہاں غصہ بہت آتا ہے، جب کوئی غلط بات کرتا ہے۔ چاہے میرا افسر ہو، منہ پہ کہہ دیتا ہوں۔ لیکن ( ہنستے ہوئے ) ایکسپرینس(experience) کے ساتھ سیکھا ہے کہ اپنے افسر کے ساتھ طریقے سے ہی بات کرو۔  
نعیم: دوسرے خصوصی لوگوں کے لئے کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟
مدثر: دنیا میں اگر کچھ نہیں ہے تو بہت کچھ ہے بھی۔ ڈھونڈنے سے تو خدا بھِ مل جاتا ہے۔ تلاش کرو، مل جائے گا آپکو۔ 
نعیم: زندگی میں کوئی خواب، کوئی آرزو ہے؟
مدثر: میں ایک ٹاپ لیڈر بن کے دکھانا چاہتا ہوں۔ دنیا کو پیچھے چھوڑنا چاہتا ہوں۔ میں بھی کوئی ایسا کام کر لوں کہ میں نا اپنا نام ہسٹری میں لکھوا لوں، کہ یہ مدثر نے کیا ہے کام۔ اور میں ایسا کر سکتا ہوں، اللہ کی مرضی ہوئی تو۔
نعیم: خود کو دس سال بعد کہاں دیکھتے ہیں؟
مدثر: اپنے آپ کو کافی اچھا پروجیکٹ منیجر دیکھتا ہوں۔ یا پھر اگر انوسٹمنٹ ہوئی، کوئی اچھی پراڈکٹ بنا لوں گا۔ میں کہتا ہوں کہ میں ایک ورچول ٹیم (virtual team) بنائوں، اُسے میں مینیج کروں۔  چھوٹے چھوٹے ٹاسک ہوں، پہلے ہم آئیڈیا ڈھونڈیں پھر اسے پراپر ڈویلپمنٹ لائف سائیکل (proper development life cycle) سے گزاریں۔ میں نہیں کہتا چھ مہینے میں پراڈکٹ کمپلیٹ ہو، دو سال میں ہو جائے لیکن صحیح ہو۔
نعیم: مطلب ایک آپ کی ٹیم ہو، لیکن وہ مستقل ایک سائیڈ پراجیکٹ کو ٹائم دیں۔
مدثر: ہاں جی، ڈیلی ایک گھنٹہ دے دیں۔
نعیم: یعنی ایک ٹیم ہو، اور سلو اینڈ سٹیڈی وہ چلتے رہیں۔ صحیح ہے۔ اینڈ آف دی ڈے پراڈکٹ ڈویلپ کر لیں۔
نعیم: کوئی ایسی شخصیت جس سے متاثر ہوں، کوئی آئیڈیل؟
مدثر: آئیڈیل میرا ہر وہ بندہ ہے جو ٹاپ پہ کھڑا ہو، مشکل سے گزر کے وہ ٹاپ پہ گیا ہے۔ جیسے قائد اعظم ہیں، عمران خان ہے۔ میں نے انکی ہسٹری پڑھی ہے۔ جیسے نائنٹی ٹو کا ورلڈ کپ عمران خان جیتا ہے۔ اسکے پاس کھلاڑی تھے، اس نے ٹیم بنائی۔ جب آپ ٹیم بناتے ہو پھر آپ کو رزلٹ بھی ملتا ہے۔  بالکل اینڈ پوائنٹ سے نکلتے ہو، جہاں پہ آپ کو بالکل لاس ہی نظر آ رہا ہو، ادھر سے جو نکلتا ہے وہ پھر بندہ زبردست ہوتا ہے۔ اور خلفائے راشدین بھی تھے۔
نعیم: گاڑی چلا لیتے ہیں؟
مدثر: ہاں چلا لیتا ہوں لیکن گھر والے نہیں چلانے دیتے۔ موٹر بائیک بھی چلا لیتا ہوں، سائیکل بھی چلا لیتا ہوں۔ میرا پہلے پلان تھا سائیکل پہ نا نانگا پربت کی طرف جائوں۔ بلکہ اب بھی ہے، کبھی کبھار میرے ذہن میں آتا ہے کہ سائیکل پہ دنیا کا چکر لگائوں۔ ابھی ٹائم ہے اس میں، اُدھر بھی جائوں گا لیکن کسی سٹیج پہ پہنچ کہ۔
نعیم: اچھا انڈین ہیروئنز میں کون پسند ہے؟
مدثر: ڈونٹ لائک انڈینز(don't like Indians)، میں نے آفٹر بی کام کوئی انڈین مووی نہیں دیکھی۔ کیونکہ انڈین لُوٹ رہے ہیں ہمارے ملک کو، دشمن ہیں میں دشمن کو کیوں دیکھوں۔ مجھے تو انڈین ہیروئنز کے نام بھی نہیں پتہ۔
نعیم: اچھا تو پھر کونسی ہیرئونیز پسند ہیں، انگلش، امیریکن، پاکستانی؟
مدثر: ہیروئنز مجھے کھلاڑی پسند ہیں، ماریا شراپوا (Maria Sharapova) ہے وہ پسند ہے۔
ہیرئون کی بات کریں تو کیا نام ہے اسکا، مجھے پسند تھی وہ کراچی کے ڈراموں میں آتی تھی، جویرہ جلیل مجھے بہت پسند ہے۔ اسکی ایکٹنگ زبردست ہے۔
انڈین مجھے پسند ہی نہیں نہ میں دیکھتا ہوں، نہ میں انکے گانے سنتا ہوں۔ پاکستانی گانے سنتا ہوں۔ ابھی میں احسن کے ساتھ پروگرام بنا رہا تھا انسیپشن دیکھنی ہے۔
نعیم: کونسے سنیما میں؟
مدثر: سائن سٹار، میں اور احسن جاتے ہوتے ہیں، آپ بھی آنا۔


اور اسکے بعد ہماری نشست کا اختتام ہو گیا۔
 

 

Pak Urdu Installer

Pak Urdu Installer