پیر، 7 ستمبر، 2009

جعلی بحرانوں کی سر زمین



پچھلے کچھ دنوں سے ہر طرف "ہاءے چینی ہاءے چینی" کا ایک شور سا مچا ہوا ہے۔ بڑے بڑے لوگ چینی کے "بحران" کے بارے میں بڑے بڑے بیانات دے رہے ہیں۔ اور میں یہ سوچ رہا ہوں کہ یار چینی اتنی اہم کب سے ہو گءی؟ بحران تو اُن چیزوں کا ہوتا ہے جن کے بغیر بندے کا زندہ رہنا دشوار ہو جاءے۔ مثال کے طور پہ آٹا، صاف پانی، اور بجلی۔ انگریزی میں ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے "میک بی لیو"، مطلب ایویں ہی کسی بات کو چُک دینا۔ دوسرے لفظوں میں کسی عام سے معاملے میں ہوا بھر کے اُسے بحران بنا دینا۔

ذاتی طور پہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر مِل مالکان چینی سستی نہیں کرتے تو عوام کو اینٹ کا جواب چنگے وڈے پتھر سے دینا چاہیے۔ ہم چینی خریدیں ہی نہ تو وہ کیا ساری چینی اپنے گھر لے جاءیں گے؟ رمضان شریف کے مہینے میں اگر ہر بندہ اپنے چاءے کے کپ میں چینی نہ ڈالے تو سحری اور افطاری میں ہی لاکھوں چمچ چینی بچاءی جا سکتی ہے۔ اور اگر عام لوگ حوصلہ کریں تو چینی کا استعمال بالکل ہی ترک کیا جا سکتا ہے۔

شوگر ملز کے کسی بڑے کا بیان تھا کہ اگر ملز بند ہوءی تو بیس لاکھ لوگ بے روزگار ہو جاءیں گے، بندہ پوچھے کہ آپ کو ان لوگوں کی کبھی کوءی پرواہ رہی بھی ہے؟ یہ تو کیڑے مکوڑے، آلاتِ جنگ ہیں جنکی مجبوریوں کا فاءدہ ہمیشہ سرمایہ دار طبقہ اٹھاتا ہے۔ یہ مل مالکان وہی طبقہ ہے جو عوام کے منہ سے روٹی کا نوالہ بھی چھین کر ملک سے باہر بیچ دیا کرتا ہے۔

آج کا اخبار بتا رہا تھا کہ کراچی میں صرف ایک ہفتے کا سٹاک رہ گیا ہے۔ مجھے شک پڑا کہ شاید کوءی جنگ چھڑ گءی جس میں اسلحے کے طور پہ چینی استعمال ہو رہی ہے، اور اگر ایک ہفتے تک مزید چینی فراہم نہ کی گءی تو پاکستان جنگ ہار جاءے گا۔ ویسے یہ جو بحران کا رونا رو رہے ہیں، انکو سرکاری ہسپتالوں کی دگرگوں حالت بحران کبھی نہیں لگی۔ "جس تن لاگے وہ تن جانے" مجھے یہ محاورہ بہت پسند ہے۔ چینی کے معاملے میں مجھے لگ رہا ہے کہ "اہلِ بحران" کے تن من پہ شدید چوٹیں آءیں ہیں، جبھی تو بیچارے بلبلا رہے ہیں۔

پانچ تاریخ کا اخبار بتاتا ہے کہ چینی افغانستان اسمگل کی جا رہی ہے، میں پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر افغانستان امریکہ کا ہمسایہ ہوتا تو آج امریکہ کا حشر بھی پاکستان جیسا ہی ہونا تھا۔ اچھا خاصا ملک ہے "پاکستان"، افسوس اسے "بحرانستان" بنانے کی سازش تو ہو رہی ہیں۔ ہماری سرزمین کو بحرانوں کی سر زمین بنایا جا رہا ہے اور ہم چپ بیٹھے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔

پچھلے کچھ عرصے میں آنے والا یہ تیسرا بحران ہے، ہم اس سے پہلے بجلی اور آٹے کا بحران جھیل چُکے ہیں۔ میرا دِل کہہ رہا ہے کہ یہ سارے کے سارے بحران دو نمبر، جعلی، غبارہ مارکہ بحران ہیں۔ اور ہمارے معاشرے کے کرتا دھرتا عوام کو سستی تفریح فراہم کرنے کے لیے اس قسم کے بندوبست کرتے رہتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ عوام کی اس دل پشوری کا بندوبست کرتے کرتے اُنکی جیبیں بھر اور توندیں بڑھ جاتی ہیں، اسکےعلاوہ غریب بندہ مرنے والا ہو جاتا ہے۔ اللہ میاں سےدعا ہے کہ وہ ہمیں بحرانوں کی کاشت کرنے والے وڈے وڈیروں سے نجات دلاءے، اور کسی بندے دے پُتر کے پلے باندھے۔

اس سارے کالم کا نتیجہ، جناب عالی چینی کھانا چھوڑ دیں۔ یا کم ضرور کر دیں۔

ہفتہ، 5 ستمبر، 2009

قصہ ایک قطار کا



ان دنوں ٹی وی وغیرہ والے آٹے کی قطاروں میں لگا کر عوام کی تذلیل کا کافی چرچا ہے۔ اول تو جی غریب بندے کی کیا تذلیل اور کیا اُسکی توقیر، پاک سرزمین کے غرباء میں "عزت نفس" کے جراثیم تو ساٹھ سال کی مستقل"چھترویکسینشن" کی وجہ سے کب کے مر چُکے۔ خیر یہ تو ایک لمبا رونا ہے بقول حبیب جالب

ورثے میں ہمیں یہ غم ہے ملا، اس غم کو نیا کیا لکھنا

آج مجھے بھی ایک قطار میں لگ کے آٹا لینے کا اتفاق ہوا، دس کلو والا توڑا صرف ایک سو روپے کا۔ کہاں پچیس اور کہاں دس روپے کلو، اللہ معاف کرے اس معاشرے کے خلیفے شاید اگلے جہان جا کے حساب دینے پر یقین ہی نہیں رکھتے۔ یہاں میں نے لوگوں کی باتیں بھی سنیں۔ کوءی کچھ بھی کہے، لوگ میاں شہباز شریف سے بڑے خوش ہیں اور انہیں بہت دعاءیں دیتے ہیں۔ آٹا اور چینی کی فراہمی کے لیے باقاعدہ شامیانے لگاءے گءے ہیں، اور قطار بنوانے کے لیے لوہے کی گرلیں آپکو تصاویر میں نظر آ رہی ہوں گی۔

جب میں وہاں پہنچا تو آٹے والا ایک ٹرک پانچ دس منٹ پہلے ہی خالی ہو کر گیا تھا، اکا دُکا لوگ پارک میں بیٹھ کر اگلے ٹرک کا انتظار کر رہے تھے۔ وہاں ایک خان صاحب بھی تھے جو ایک دن پہلے ہی سرحد کے کسی شہر سے آءے تھے۔ بقول خان صاحب، وہاں بیس کلو آٹا پانچ سو ستر روپے کا مل رہا ہے۔ اب سرحد والے بھی تو اپنے ساتھ خود ہی ظلم کرتے ہیں، لوگ کہتے ہیں کہ جو آٹا یہاں سے جاتا ہے اُسے زیادہ پیسوں میں افغانستان اسمگل کر دیتے ہیں، اور خود ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کے بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ کام عام آدمی تو کر ہی نہیں سکتا، وہاں کےمگر مچھ ہی عوام کہ ہاتھ سے نوالہ چھین کر اسمگل کرتے اور اپنی تجوریاں بھرتے ہیں۔ مگرمچھ تو بہرحال ہمارے ہاں بے تحاشہ پاءے جاتے ہیں، ہر شعبے میں ہر ساءز کے۔


لوگ کہہ رہے تھے کہ اللہ زندگی دے بابے شہباز کو، بڑا اچھا کام کر رہا ہے۔ ظاہری سی بات ہے، ایک طرف ایس ایم ایس پہ ٹیکس لگانے والے، پیٹرول کی قیمتیں آسمان پہ چڑہانے والے، عوام کو جون جولاءی کی گرمی میں بجلی بند کر کے بیڑہ غرق کرنے والے، نسل در نسل حکومت کرنے والے فرعون ہیں۔ جو کہ عوام کو ہر قیمت پہ "تھلے لگا" کے رکھنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف ایک بندے کا پُتر لوگوں کو روٹی کھلا رہا ہے تو بھوکے ننگے پیٹوں سے دعاءیں ہی نکلیں گی۔ لوگ کہہ رہے تھےکہ مِل سےآٹے کا بیس کلو والا توڑا تین سو کا نکلتا ہے، عوام کو یہ توڑا دو سو روپے کا دیا جاتا ہے اور ایک سو روپے فی توڑا حکومتِ پنجاب دے رہی ہے۔

شروع شروع میں تو لوگوں کو یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ مملکتِ خداداد میں ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ بے یقینی کے مارے ہوءے آٹا حاصل کرنے کے لیے باقاعدہ پلاننگ کر کے آتے تھے۔ میں نے دیکھا کہ پارک کے بینچ پہ ایک عورت بیٹھی ہے اور اسکے ساتھ تین چار توڑے آٹا پڑا ہے، اندازہ ہوتا تھا کہ آنٹی کے ساتھ کوءی اور بھی ہے جو کہ دھڑا دھڑ آٹا خرید رہا ہے۔

آج کے اخبار میں جماعت اسلامی کے ایک مظاہرے کی تصویر دیکھی، جس میں آٹے دال چینی قسم کی چیزوں کا رونا رویا جا رہا تھا۔ بندہ پوچھے کہ ابھی اگلے دن آپکا "سنہری" دورِ حکومت ختم ہوا ہے، آپ نے اس سلسلے میں کونسے تیر مار لیے تھے بس ایل ایف او کا طواف کرتے کرتے پانچ سال گزار دیے۔

اچھی خاصی لمبی لاءن تھی، میں خوش قسمتی سے ٹرک آنے سے پہلے ہی وہاں جا پہنچا تھا اس لیے پانچ سات منٹ میں ہی مجھے آٹا مل گیا۔

ایک اور مزے کی بات ، جب ہم لوگ سامنے سے فوٹو لینے گءے تو غریب عوام نے کیمرہ کو دیکھ کے پوز ہی بنانے شروع کر دیے۔ ہمارے لوگ بھی بیچارے، چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوش ہو جاتے ہیں۔ خیر ایک مرتبہ پھر کہوں گا کہ جیو بابا شہباز شریف۔۔۔

منگل، 1 ستمبر، 2009

ہلکی پھلکی سی باتیں

معزز قارءین اور غیر معزز قارءین، میں چاہتا ہوں کہ کسی ہلکے پھلکے سے موضوع پر لکھوں حالانکہ میرے ذہن میں کافی وزنی وزنی باتیں گھوم رہی ہیں۔ یہ وزنی باتیں ٹنڈ کروانے سے جان نہیں چھوڑیں گی، مجھے پتہ ہے کچھ لوگ یہی مشورہ دیں گے۔ چلیں کچھ تذکرہ گھر سےدور رمضان شریف کے روضے رکھنے کا ہی سہی۔ شروع کے دو چار روضے تو بندہ ٹھیک جاگ جاتا ہے، لیکن بعد میں روضہ بند ہونے سے آدھا گھنٹہ پہلے جاگنا تو جیسے ثواب کا کام ہو۔ حالانکہ شروع میں بندے کو جلدی جاگنے کی عادت ہی نہیں ہوتی۔ گھر سے باہر رہنے والے مجاہدین کے لیے اٹھھ پہرے روضے رکھے بنا رمضان شریف نا مکمل سا ہوتا ہے۔ بڑی چھلانگ ماریں تو پانی کا گلاس پی کے دوبارہ سو جاتے ہیں۔ اسکے علاوہ جب زوبی میرا روم میٹ شور مچا رہا ہو تو پتہ نہیں کیوں تکیہ کانوں پہ رکھ کے سونا اور زیادہ مزیدار لگتا ہے۔ یہ سطریں لکھتے وقت مجھے سنگین نتاءج کی دھمکیاں مل رہی ہیں، لیکن دیکھی جاءے گی۔ عوام تک حقاءق پہنچانا تو میرا فرض ہے نا۔
پچھلے پانچ سال سے میں جہاں رہ رہا ہوں یہ علاقہ اسٹوڈنٹس اور چھڑوں سے اٹا پڑا ہے۔ اور بھی "سوشل ورکرز" کے پاءے جانے کی خبریں ہیں، بہرحال اگر بندہ خود کرپٹ نہ ہو تو کوءی فرق نہیں پڑتا۔ سارا دن ہوٹل بند رہتے ہیں اور ساری رات کھلے۔ رات کے کھانے کے بعد ہوٹل والے سحری کی تیاری شروع کر دیتے ہیں۔ اٹھ پہرے روزے سے بچنے کے لیے کچھ لوگ ساری رات سوتے ہی نہیں۔ دو بجے تک کیبل یا کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ کے ثواب حاصل کرتے ہیں، اسکے بعد جا کے باہر سے کچھ کھا پی کے پھر سوتے ہیں۔ میرے فلیٹ پہ آجکل سحری وقت کافی رونق ہوتی ہے، آنٹی "میرو" صبح تین بجے ہی آ جاتی ہے۔ اور اپنے سارے کلاءینٹس کے لیے پراٹھے ہمارے کچن میں تیار کرتی ہے۔ تین چار گھر ہیں، وقفے وقفے سےآ کے پراٹھے لے جاتے ہیں۔ ویسے بازار میں بھی بڑی رونق ہوا کرتی ہے۔
گھر سے باہر رہنا مشکل تو ہے لیکن بندے کی شخصیت کے بہت سے نوکدار کونے باہر رہنے کی وجہ سے گول ہو جاتے ہیں۔ سحری ہو یا افطاری، ایک جگہ رہنے والا ہر فرد کوءی نہ کوءی کام کر ہی رہا ہوتا ہے۔ ورنہ گھر پہ تو اُس وقت جگاتے ہیں جب سب کچھ تیار ہوتا ہے، کہ حضور آءیے اور اپنے ہاتھوں سے کھا کر ہم پر احسان فرماءیے۔ یہاں رہتے ہوءے بندے کو مجبوراً وقت پہ جاگنا پڑتا ہے۔ اگر فلیٹ پہ کھانے کا بندوبست نہ ہو تو باہر جا کے کھانا بہت مشکل ہوتا ہے، وجہ پوچھیں گے تو جناب عوام کی اکثریت روضہ بند ہونےسے آدھا گھنٹہ پندرہ منٹ پہلے ہوٹل پر پہنچتی ہے۔ اور اُس وقت آرڈر سرو ہوتے ہوتے دس پندرہ منٹ لگ جاتے ہیں۔ مجبوراً بندے کو ایک پراٹھے کے چار نوالے کر کے کھانا پڑتا ہے۔ دہی چمچ سے کھانے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، سیدھا ہی پیالے کو منہ لگاءیں۔ اور پانی پینے سےپہلے اگر مولوی صاحب بول پڑیں تو جگ کو منہ لگانا پڑتا ہے۔ یہ جگ والی بات تو خیر میں نے ایویں ہی کر دی، مصالحہ ڈالنے کے لیے۔
رمضان کے بعد آ جاتی ہے میٹھی عید، جو کہ بچپن میں خوشی کا پیغام ہوا کرتی تھی اور جب سےتنخواہ لینا شروع کی ہے فکر کا پیغام ہو گءی ہے۔ پراءیوٹ کمپنیوں کے ملازمین کے لیے عیدیں نِرا خرچہ ہی تو ہوتی ہیں۔ آجر نے کوءی بونس تو دینا نہیں آپکو، بلکہ عیدیوں اور کپڑوں جوتوں پر اضافی خرچہ لازمی ہونا ہے۔ ابھی تو میں ہوں بھی اکیلا، سوچتا ہوں بال بچے دار لوگ بیچارے کیا کرتے ہوں گے۔ بہر حال ہمیشہ بندہ اکیلا بھی نہیں رہ سکتا، اپنی فیملی کے ساتھ وابستہ جذبات بھی کچھ اور ہی ہوتے ہیں۔ مطلب محسوس ہوتا ہے نا یار، جب آپ آٹھ دس گھنٹے بعد گھر آءیں اور آگے آءو جی کہنے والا بھی کوءی نہ ہو۔ فیملیز کے ساتھ رہنے والے لوگ شاید یہ کہیں گے کہ شکر نہیں کرتے آزاد ہیں، لیکن جناب میرا دس سالہ تجربہ یہی بتاتا ہے کہ یہ قید ہی اچھی ہے۔ فیملی کو عیدیاں دینا مشکل کام ہے، لیکن یہ کوءی زیادہ قیمت نہیں۔ سودا وارے کھاتا ہے، بندے کی ذات میں ایک خلا ہوتا ہے جو اپنوں کے ساتھ رہنےسےہی پورا ہوتا ہے۔ چاہے وہ اپنے بیوی بچے ہوں، یا بہن بھاءی ماں باپ۔
فی امان اللہ

Pak Urdu Installer

Pak Urdu Installer