پچھلے کچھ دنوں سے ہر طرف "ہاءے چینی ہاءے چینی" کا ایک شور سا مچا ہوا ہے۔ بڑے بڑے لوگ چینی کے "بحران" کے بارے میں بڑے بڑے بیانات دے رہے ہیں۔ اور میں یہ سوچ رہا ہوں کہ یار چینی اتنی اہم کب سے ہو گءی؟ بحران تو اُن چیزوں کا ہوتا ہے جن کے بغیر بندے کا زندہ رہنا دشوار ہو جاءے۔ مثال کے طور پہ آٹا، صاف پانی، اور بجلی۔ انگریزی میں ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے "میک بی لیو"، مطلب ایویں ہی کسی بات کو چُک دینا۔ دوسرے لفظوں میں کسی عام سے معاملے میں ہوا بھر کے اُسے بحران بنا دینا۔
ذاتی طور پہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر مِل مالکان چینی سستی نہیں کرتے تو عوام کو اینٹ کا جواب چنگے وڈے پتھر سے دینا چاہیے۔ ہم چینی خریدیں ہی نہ تو وہ کیا ساری چینی اپنے گھر لے جاءیں گے؟ رمضان شریف کے مہینے میں اگر ہر بندہ اپنے چاءے کے کپ میں چینی نہ ڈالے تو سحری اور افطاری میں ہی لاکھوں چمچ چینی بچاءی جا سکتی ہے۔ اور اگر عام لوگ حوصلہ کریں تو چینی کا استعمال بالکل ہی ترک کیا جا سکتا ہے۔
شوگر ملز کے کسی بڑے کا بیان تھا کہ اگر ملز بند ہوءی تو بیس لاکھ لوگ بے روزگار ہو جاءیں گے، بندہ پوچھے کہ آپ کو ان لوگوں کی کبھی کوءی پرواہ رہی بھی ہے؟ یہ تو کیڑے مکوڑے، آلاتِ جنگ ہیں جنکی مجبوریوں کا فاءدہ ہمیشہ سرمایہ دار طبقہ اٹھاتا ہے۔ یہ مل مالکان وہی طبقہ ہے جو عوام کے منہ سے روٹی کا نوالہ بھی چھین کر ملک سے باہر بیچ دیا کرتا ہے۔
آج کا اخبار بتا رہا تھا کہ کراچی میں صرف ایک ہفتے کا سٹاک رہ گیا ہے۔ مجھے شک پڑا کہ شاید کوءی جنگ چھڑ گءی جس میں اسلحے کے طور پہ چینی استعمال ہو رہی ہے، اور اگر ایک ہفتے تک مزید چینی فراہم نہ کی گءی تو پاکستان جنگ ہار جاءے گا۔ ویسے یہ جو بحران کا رونا رو رہے ہیں، انکو سرکاری ہسپتالوں کی دگرگوں حالت بحران کبھی نہیں لگی۔ "جس تن لاگے وہ تن جانے" مجھے یہ محاورہ بہت پسند ہے۔ چینی کے معاملے میں مجھے لگ رہا ہے کہ "اہلِ بحران" کے تن من پہ شدید چوٹیں آءیں ہیں، جبھی تو بیچارے بلبلا رہے ہیں۔
پانچ تاریخ کا اخبار بتاتا ہے کہ چینی افغانستان اسمگل کی جا رہی ہے، میں پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر افغانستان امریکہ کا ہمسایہ ہوتا تو آج امریکہ کا حشر بھی پاکستان جیسا ہی ہونا تھا۔ اچھا خاصا ملک ہے "پاکستان"، افسوس اسے "بحرانستان" بنانے کی سازش تو ہو رہی ہیں۔ ہماری سرزمین کو بحرانوں کی سر زمین بنایا جا رہا ہے اور ہم چپ بیٹھے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔
پچھلے کچھ عرصے میں آنے والا یہ تیسرا بحران ہے، ہم اس سے پہلے بجلی اور آٹے کا بحران جھیل چُکے ہیں۔ میرا دِل کہہ رہا ہے کہ یہ سارے کے سارے بحران دو نمبر، جعلی، غبارہ مارکہ بحران ہیں۔ اور ہمارے معاشرے کے کرتا دھرتا عوام کو سستی تفریح فراہم کرنے کے لیے اس قسم کے بندوبست کرتے رہتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ عوام کی اس دل پشوری کا بندوبست کرتے کرتے اُنکی جیبیں بھر اور توندیں بڑھ جاتی ہیں، اسکےعلاوہ غریب بندہ مرنے والا ہو جاتا ہے۔ اللہ میاں سےدعا ہے کہ وہ ہمیں بحرانوں کی کاشت کرنے والے وڈے وڈیروں سے نجات دلاءے، اور کسی بندے دے پُتر کے پلے باندھے۔
اس سارے کالم کا نتیجہ، جناب عالی چینی کھانا چھوڑ دیں۔ یا کم ضرور کر دیں۔