بدھ، 27 اکتوبر، 2010

کچھ گم شدہ موبائلوں کے بارے میں۔۔۔

اسی سال کی بات ہے، تھوڑے ہی مہینے پہلے فاسٹ میں سافٹ ٹیک سالانہ نمائش لگی تھی۔ میں اور میرا ہائوس میٹ زبیر وہاں گھومنے پھرنے گئے۔ کافی رونق میلہ تھا۔ میرا بلیک بیری گُم ہوئے تھوڑے ہی دِن ہوئے تھے، اور مجھے فون کی ضرورت تھی۔ بھئی اسکا مطلب یہ مت نکال لینا کہ میں وہاں فون کا شکار کرنے گیا تھا۔ اس نمائش میں بچوں کے آئیڈیاز کا بھی ایک حصہ ہوتا ہے۔ گھوم گھام کر ہم لوگ اُس طرف نکل گئے، ماشاءاللہ کافی اچھے آئیڈیاز تھے بچوں کے، اور کافی خوبصورت اُستانیاں بھی۔ وہاں میری نظر روسٹرم پہ رکھے ایک عدد فون پر پڑی، جس کا کوئی والی وارث دکھائی نہیں دے رہا تھا۔


میں نے زوبی سے کہا کہ یار وہ دیکھ فون، اُسنے فون اٹھا لیا اور ایک دو مرتبہ ہوا میں لہرا کہ آواز لگائی کہ یہ کس کا ہے؟ ایک دو کوششوں کے بعد جب کوئی جواب نہ آیا تو زوبی کہتا ہے کہ یار جیب میں ہی ڈال لوں، ایویں ای کوئی اور آ کے کہہ دے گا کہ میرا ہے۔ اسکے بعد ہم لوگ باہر آ گئے، گھنٹہ بھرگھومے پھرے کھایا پیا اور گھر کی طرف آ گئے۔ فردوس مارکیٹ اتر کے میں نے زوبی سے کہاکہ یار موسم اچھا ہے، چل حفیظ سنٹر چلتے ہیں مجھے موبائل خریدنا ہے۔ ابھی ہم بس سٹاپ پر ڈیوو کا انتظار کر ہی رہے تھے کہ فون بجا۔ زوبی نے اٹھایا تو کسی نے فون والی کا پوچھا، شاید کوئی لڑکا تھا۔
زوبی نے بتا دیا کہ ایسے ایسے مجھے فون ملا ہے اور آپ اُسے بتا دیں۔ ذرا دیر بعد فون کی مالکن نے فون کھڑکا دیا۔ کچھ ایسی گفتگو ہوئی

بچی: میرا فون آپکے پاس ہے۔
زوبی: ہاں جی بالکل۔
بچی: آپ کو ملا تھا تو آپ مجھے واپس دے کر جاتے۔
زوبی: آپ نے فون ہی نہیں کیا ورنہ ہم کافی دیر فاسٹ میں گھومتے رہے تھے۔
بچی: تو اب واپس کر کے جائیں۔
زوبی: فون آپکا ہی ہے، مجھے کوئی شوق نہیں رکھنے کا لیکن ابھی میں نہیں آ سکتا۔
بچی: وٹ دا ہیل میرے کنٹیکٹس ہیں اُس میں۔ آپ ابھی دے کر جائو۔
زوبی: وٹ دا ہیل والی اس میں کونسی بات ہے بی بی۔ تمیز سے بات کرو۔
بچی: وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔
زوبی: اچھا تو میں اسے بند کر کے جیب میں ڈال رہا ہوں، لے سکتی ہو تو لے لو آ کے۔


اسکے بعد کیا ہوا۔۔۔ دیکھئے میری یہ والی پوسٹ
میرا موبائل گواچا
http://kehna.blogspot.com/2009/07/blog-post_02.html


نوٹ: اردو بلاگنگ شروع کرنے کے بعد یہ میری دوسری تحریر تھی، اور میرے خیال میں کافی دلچسپ تحریر تھی۔ اسوقت میں سیارہ اور ماورائی پر لسٹڈ نہیں تھا، اس لئے پوسٹ کو دوبارہ پبلش کر رہا ہوں۔۔۔

ہفتہ، 23 اکتوبر، 2010

جیتے جاگتے حوصلے، مدثر اقبال شاہ

مدثر اقبال شاہ کی عمر ستائیس سال ہے۔ بچپن سے ہی سیریبرل پالسی Cerebral palsy نامی بیماری کا شکار ہیں۔ مدثر کو لکھنے، بولنے، اور چلنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حال ہی میں شادی بھی ہو گئی۔ کمپیوٹر سائنس میں ایم فِل کیا ہے۔ تقریباً چار سال سے مختلف کمپنیوں میں (M.Soft, Cure MD) سافٹ ویئر انجینئر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔

Mudaser Iqbal
اِن دنوں پاکستان میں زندگی گزارنا دن بدن مشکل ہوتا جا رہا ہے، بہت سے ہنرمند پہلا جیک لگتے ہی ملک چھوڑ کے جا رہے ہیں۔ اچھے بھلے تندرست لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں۔ لہٰذا جب کوئی ایسا بندہ ملتا ہے جس میں ظاہری طور پر کوئی کمی ہو، اور وہ بندہ اُس کمی یا معذوری کے باوجود کامیابی کی منزلیں طے کر رہا ہو تو کم از کم مجھے بڑی خوشگوار حیرت ہوتی ہے۔ مدثر سے میری پہلی ملاقات کوئی ڈھائی سال پہلے بطور کولیگ منشاء سافٹ میں ہوئی۔
مدثر کا انٹرویو پیش خدمت ہے۔
     
س: انفرمیشن ٹیکنالوجی کی طرف کس طرح رجحان بنا؟
مدثر: میں میٹرک کے بعد چاہتا تھا کہ آئی سی ایس کر لوں لیکن میٹرک میں اتنے نمبر ہی نہیں آئے۔ اس وقت اتنی کونسلنگ (counciling) بھی نہیں تھی کوئی بتانے والا نہیں تھا کہ کیا کروں۔ اس وقت میں نے آئی کام (I.Com) میں ایڈمیشن لے لیا۔  مارکیٹ کا اتنا پتہ نہیں تھا۔ کسی بندے کو اتنا تھا ہی نہیں۔ لوگ سمجھتے تھے کہ یہ معمولی سی جاب کرے گا تھوڑا کمائے گا بلکہ کمانا بھی کیا کئی لوگ کہتے تھے کہ یہ بھائیوں پہ ڈیپینڈ (depend) کرے گا۔
میرے ائی کام میں اچھے مارکس آئے تو ہیلی کالج میں ایڈمیشن مل گیا۔ میں نے وہاں سے بی کام کمپلیٹ کر لیا۔  بی کام کے دوران ہی میرے کچھ این جی اوز (NGOs) سے رابطے ہوئے۔ وہ این جی او ڈس ایبلڈ پرسنز (disabled persons) کو فری کورسز آفر کرتی تھی۔ میں نے کہا چلو کونسے پیسے لگنے ہیں، فری کورسز کرنے چاہئیں۔ میرے پاس سائیکل ہوتی تھی اپنی، میں ادھر اُدھر گھومتا رہتا تھا۔ تو ایج (Edge) انسٹیوٹ ہے وہاں وی بی سکس (VB 6) کا کورس آفر ہو رہا تھا۔ وہاں سے پہلی مرتبہ میں نے بی کام کے دوران وی بی سکس سیکھی۔ صبح میں یونیورسٹی جاتا تھا اور شام کو ایج۔

نعیم: اچھا بی کام سے پہلے کمپیوٹر استعمال کرتے آپ؟
مدثر: بس انٹرنیٹ استعمال کر لیتا تھا اور چیٹنگ وغیرہ۔ وی بی میرے سر کے اوپر سے گزر گئی۔ لیکن مجھے لگا کہ پروگرامنگ اور کمپیوٹر میں میرا انٹرسٹ ہے۔ پھر میں نے ڈاٹ نیٹ کا کورس کیا، تب بھی مجھے خاص سمجھ نہیں آئی۔ میں نے بی کام کے اینڈ میں اوریکل (Oracle) ڈی بی اے کی ٹریننگ لی نائیکون (NICON) سے، وہ بھی فری تھی۔ بی کام کے بعد میرا دل تھا کہ مارکیٹ میں جائوں۔ تب تک مجھے پتہ چل چکا تھا کہ میں پروگرامنگ بہتر کر سکتا ہوں۔
Mudaser Iqbal Portraitمارکیٹ میں گیا جاب ڈھونڈنے تو پہلے تو مجھے فری کام کرنا پڑا، فری کام ایسے کہ پہلے تو انہوں نے انٹرن شپ پہ رکھا ۔ایک آڈٹ فرم  ہے ادھر میں کام کرتا تھا۔ انہوں نے مجھے ایک این جی او میں آڈٹ کرنے بھیجا، این جی او کا آڈٹ کروانا مسٹ ہوتا ہے۔ اس این جی او نے مجھے جاب آفر کر دی، تین ہزار روپے پہ۔ میں نے وہ جاب ایک مہینہ کی، پھر میرے ایک ٹیچر ہیں انہوں نے مجھے کہا کہ آپ کمپیوٹر سائیڈ پہ جائو، وہاں آپ کامیاب ہو سکتے ہو۔ میں اُس این جی او کے سارے اکائونٹس پہلے ہی مہینے میں پیچ ٹری (Peach Tree) سافٹ ویئر پہ شفٹ کر دیئے، لیکن ادھر نا میں رہا نہیں کیونکہ کام بہت زیادہ لے رہے تھے اور پے (pay) بہت کم کر رہے تھے۔
اکائونٹس میں لکھنا پڑتا ہے اور مجھے لکھنے کا پرابلم ہوتا ہے۔ آجکل کمپیوٹر آ گیا ہے لین پھر بھی مینولی اکائونٹس رکھے جاتے ہیں کیونکہ کمپیوٹر ابھی اتنی اعتبار والی چیز نہیں ہے۔


پھر میں نے ایم سی ایس میں ایڈمیشن لے لیا، جاب کو میں نے گڈ بائی کر دیا۔ اور ذہن میں میں نے ایک اپنے بنا لیا بھئی جب میں دو سال بعد ایم سی ایس کر کے نکلوں گا تو مجھے اچھی جاب مل جائے گی۔ وہی ہوا کہ آفٹر ٹو ایئرز میں نے کمپیوٹر سائنس پر پوری توجہ لگائی۔ اور سب سے بڑی بات ہے کہ میں نے ایم سی ایس ڈگری حاصل کرنے کے لئے نہیں کیا، میں نے ایم سی ایس کام سیکھنے کے لئے کیا ہے۔ میں یونیورسٹی ایسے جاتا تھا جیسے میں کام سیکھنے جا رہا ہوں۔ آئی فورگیٹ ابائوٹ مائی سی جی پی اے ( I forget about my CGPA)، کہ میرا سی جی پی اے کیا ہوتا ہے کہ بس مجھے سیکھنا ہے۔ تو وہ بس ایک بندے کا جب سیکھنے کا مائینڈ ہو، کمپیوٹر فیلڈ ہو تو وہ کافی کچھ سیکھ لیتا ہے۔ ایم سی ایس کے دوران ابھی میں پروجیکٹ کر رہا تھا تو ایم سافٹ (MSoft) نے مجھے آفر کر دی، ادھر میں نے جائننگ دے دی۔ وہاں پہ پھر میں نے کام کیا ڈیڑھ سال، کیونکہ ایم سی ایس میں میری اپنے بیچ میں ٹاپ پوزیشن تھی۔ پھر اسی یونیورسٹی نے مجھے فری ایم فل آفر کر دیا۔ ایم سی ایس میں مجھے ففٹی پرسنٹ ڈسکائونٹ ملا تھا۔ ایک دن میں یو سی پی (UCP) کی ویب سائیٹ دیکھ رہا تھا تو مجھے پتہ چلا کہ یہ ڈس ایبلڈ پرسنز کو فری ایجوکیشن دے رہے ہیں۔ تو میں ادھر گیا، انہوں نے ایڈمیشن دے دیا۔میں نے بس چلتے پھرتے ایڈمیشن لے لیا، ایسے ہی گیا تھا یونیورسٹی فارم فِل کر کے دے دیا۔
نعیم: اچھا وہ کونسی این جی او ہے جو آپکی ایجوکیشن پہ خرچہ کرتی تھی؟
مدثر: خرچہ نہیں اٹھاتی تھی، صرف ریکمنڈ (recommend) کر دیتی تھی کہ یہ بندہ ڈیزرو (deserve) کرتا ہے۔ کبھی کوئی این جی او پے نہیں کرتی۔ یونیورسٹی پھر اپنا امیج بہتر بنانے کے لئے ڈسکائونٹ دیتی ہے۔

اس طرح میں آئی ٹی میں آیا، کیونکہ مجھے پتہ چل گیا تھا کہ یہ فیلڈ میرے لئے سوٹ ایبل ہے۔ یہی بات مجھے میٹرک میں پتہ چل جاتی تو اور بھی اچھا ہوتا۔ لاہور میں میرے کافی کانٹیکٹس ہیں، اور میں انہیں کہتا ہوں کہ آئی ٹی کی طرف آئو۔
نعیم: اچھا میں پڑھ رہا تھا کہ سیریبرل پالسی میں لوگوں کی ذہنی صلاحیت یا کاگنیشن (cognition) میں بھی مسئلہ ہو جاتا ہے۔
مدثر: ہاں ہو جاتا ہے، لیکن ضروری نہیں ہے، میں بہت لوگوں سے ملا ہوں۔ ان لوگوں کے اندر کچھ کرنے کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے۔ زیادہ تر جو لوگ ہیں اس طرح کے انکو سائیڈ پر کر دیا جاتا ہے، کہ آپ سے تو یہ کام ہونا ہی نہیں ہے۔ حالانکہ وہ چاہتے ہیں کہ کریں کام۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہوتا تھا، ایون کہ سکول کے دور میں بینچ اٹھانے ہوتے تھے، جب آپ نے واپس جانا ہوتا تھا نا تو بینچ آپ نے الٹے کر کے ڈیسک پہ رکھنے ہوتے تھے صفائی کرنے کے لئے۔ تو وہ مجھے نہیں کرنے دیتے ہوتے تھے، کہ آپ سے نہیں ہو گا۔ آئی کین ڈو اٹ، لیکن نہیں جی آپ نے تو کرنا ہی نہیں ہے۔ اس وجہ سے میرے میں جذبہ پیدا ہوتا تھا۔ ابھی بھی میں لرننگ پراسیس میں ہوں، ابھی تک سیکھ رہا ہوں۔
تو اب کافی لوگ ہیں جو مجھ پر انحصار کرتے ہیں۔ اپنی فیملی میں اور کمیونٹی میں، ایک اچھا مقام پیدا کیا ہے۔ اور ان لوگوں کو کافی پیچھے چھوڑا ہے، جو کسی زمانے میں اپنے آپ کو پتہ نہیں کیا سمجھتے تھے۔ وہ اب بہت کم کما رہے ہیں، وہ اپنےگھر کا خرچہ نہیں چلا رہے۔ کیونکہ وہ پڑھے نہیں ہیں۔


نعیم: اور کھانے پینے میں کیا پسند ہے، مطلب دیسی فوڈ پسند ہے یا فاسٹ فوڈ؟
مدثر: دیسی فوڈ پسند ہے، مٹن کافی شوق سے کھاتا ہوں۔ اور میٹھا پسند ہے، گڑ والے چاول، چینی والے پراٹھے کھاتا ہوں۔ ناشتے میں ڈبل روٹی نہیں کھاتا، پراٹھا ہی کھاتا ہوں۔
نعیم: فارغ وقت میں کیا کرتے ہیں، کوئی مشغلہ، کوئی ہابی یا ایکٹیوٹی؟

مدثر: فارغ ٹائم میں کمپیوٹر گیمز کھیلتا ہوں۔ کوئی گیم سلیکٹ کر لیتا ہوں، جیسے آجکل میں فیفا (FIFA) کے پیچھے پڑا ہوا ہوں۔
نعیم: فیفا کونسی، ٹو تھائوزنڈ ٹین (2010)؟
مدثر: ٹونٹی ٹین بھی انسٹال کی تھی لیکن وہ میرے لیپ ٹاپ پہ چلی ہی نہیں۔ تو سیون کھیل رہا ہوں، ٹورنامنٹ جیتا ہوں۔ سپورٹس ٹائپ کی گیمز پسند ہیں۔ کرکٹ کھیلتا رہا ہوں، پھر کال آف ڈیوٹی (Call of Duty) کھیلتا رہا ہوں۔
نعیم: ہم لوگ آفس میں کال آف ڈیوٹی ٹو(COD 2) کھیلتے ہیں۔
مدثر: ہاں، اسکا اینڈ کیا ہوا ہے۔ اب پروگرام بن رہا ہے پی ایس ٹو(PS 2) لے رہا ہوں۔ گیم ہی کھیلتا ہوں یا دوپہر کو پڑوسی ہیں انکے ساتھ کرکٹ کھیل لیتا ہوں۔

نعیم: شادی اپنی مرضی سے کی تھی، یا والدین کی مرضی سے؟
شادی کا یہ ہے کہ میری امی گئی تھیں جب انہیں رشتے کا پتہ چلا، کہ محلے میں ہی رشتہ ہے۔ اسکے بعد انہوں نے مجھے دیکھا، لیکن ڈائوٹ ہی تھا۔ پھر میری ان لوگوں سے خود بات ہو گئی، کافی اچھی بات ہوئی۔ بیگم اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہیں۔ بہت کانفیڈنٹ ہیں، بیگم کے ابو کچھ عرصہ پہلے فوت ہوئے تھے، جب انہوں نے رشتے داروں سے بات کی کہ گورنمنٹ سے ابو کے کچھ پیسے ملنے ہیں گریجوٹی وغیرہ، تو کوئی بھی خاص مدد نہیں کر سکا۔ پھر میری وائف نے خود ایفرٹ کی، ان دی اینڈ ان کو پیسے مِل گئے۔ اسکے بعد انہوں نے خود اپنا گھر بھی بنوایا۔ پرانا گھر بالکل توڑ کے تین ماہ کے اندر نیا گھر بنا لیا۔ اصل میں وہ چاہ رہی تھی کہ بہن بھائی سیکیور (secure) ہو جائیں۔ سات بہنیں اور ایک چھوٹا بھائی ہے۔ اس مرتبہ بی ایس سی(BSc) کے پیپر دے رہی ہیں۔ انکے ایک چاچو آسٹریلیا میں ہوتے ہیں، وہ بہت سپورٹو(supportive) ہیں، ویری نائس مین۔
نعیم: آپکی کامیابی میں آپکے والدین کا کیا کردار تھا؟
بہت امپورٹنٹ رول ہے امّی کا۔ بہت توجہ دی ہے انہوں نے سارے بچوں پر، میرے باقی بہن بھائی بھی ہائیلی ایجوکیٹڈ ہیں۔ کافی وہ مجھے ساتھ لے کے چلی ہیں۔ آفٹر ففتھ کلاس جو میرے ٹیچر تھے وہ مجھے سکول میں نہیں رکھ رہے تھے۔ تو وہ کہتے تھے کہ یہ بندہ آگے پڑھ ہی نہیں سکتا۔ بالکل یہ کچھ کر ہی نہیں سکتا، تو یہ کیسے پڑھے گا؟ میرے امی ابو نے سکول کی دیوار بھی بنوائی دی، ایز اے ڈونیشن۔ کافی کہا کرتی تھی امی کہ لکھنے کی پریکٹس کیا کرو، اور پڑھا کرو، ٹائم پہ کام کرو، سکول سے چھٹی نہیں کرنی۔ یعنی کہ جو پلیٹ فارم ہوتا ہے نا آگے بڑھنے کے لئے وہ بڑا زبردست مہیا کیا ہوا تھا۔ پھر مائیں دعائیں بھی تو اتنی کرتی ہیں۔
نعیم: یہاں تک آنے میں کون لوگ تھے جنہوں نے آپکو سپورٹ کیا؟
 گھر میں لڑائی ہو جاتی ہے، تو میں نے ویسے ہی کہہ دیا غصے میں کہ آپ مجھے اس لئے ڈانٹتے ہیں کہ میں کچھ کما نہیں سکتا۔ تو اس دن میری باجی نے رو رو کہ دعا کی تھی کہ اللہ اس بندے کو کسی کا محتاج نہ بنائیں، اور اسے اتنا دے دئیں کہ یہ لوگوں کو دے۔ تو مجھے تو لگتا ہے میری بہن کی وہی دعا قبول ہوئی۔
پھر میرے چھوٹے بھائی نے اور بڑے بھائی نے کافی ساتھ دیا ہے۔ بڑے بھائی نے کوئی کمی نہیں ہونے دی، چھوٹا بھائی میرا کلاس فیلو تھا۔ اسکی وجہ سے مجھے کافی سہارا ہوتا تھا۔ میٹرک تک رہا ہے وہ میرے ساتھ، میٹرک کے بعد ہم علیٰحدہ علیٰحدہ ہوئے ہیں۔
اس نے پہلے آئی سی ایس کیا، پھر بی کام کیا۔ اس نے جاب بھی کی ہے۔ لیکن پھر میں نے اسے کہہ دیا کہ اب تو نے کوئی جاب نہیں کرنی۔ اب وہ ایم سی ایس کر رہا ہے، اسکے بعد اسکی لائف بن جائے گی۔ اب بھی وہ مجھے چھوڑنے آتا ہے مجھے لینے آتا ہے، کبھی اس نے اُف تک نہیں کی کہ میں نے نہیں لے کے آنا۔ بلکہ وہ مجھے فون کرتا ہے کب آنا ہے، کتنے بجے آنا ہے بتا۔ ابھی رات کے بارہ بجے ہیں ( مدثردوپہر دو سے رات دس گیارہ بجے تک ایک انگلش کمپنی میں کام کرتا ہے ) ، ابھی اس نے آنا ہے۔ ابھی جا کے اُسکے ساتھ اُسکی اسائنمنٹ بھی بنوانی ہے۔
نعیم: عام لوگوں سے مختلف ہونے کی وجہ سے آپکو کس قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟
مدثر: مسائل تو بہت ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ میں جو اس جگہ پہنچا ہوں تو یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔ میں بس اپنے ماں باپ کی وجہ سے ہی ادھر پہنچا ہوں۔ انہوں نے مجھے کبھی مینٹلی ریٹارڈڈ پرسن ( mentally retarded person ) بننے ہی نہیں دیا۔ ایک مرتبہ جب سکول میں ایڈمیشن نہیں مل رہا تھا تو امی مجھے ڈس ایبلڈ (disabled) بچوں کے سکول میں لے گئیں۔ انہوں نے جب اُدھر بچوں کو دیکھا تو انہوں نے اُدھر توبہ کر لی کہ ادھر رہا نا تو یہ بھی ان جیسا بن جائے گا۔ تو انہوں نے مجھے نارمل سکول میں پڑھایا، یہ بہت بڑی کہتا ہوں کہ میرے لئے سپورٹ تھی۔ آج اگر میں ڈس ایبلڈ پرسنز کے ساتھ پڑھا ہوتا تو میں شاید اس سے بہت پیچھے ہوتا۔ کیونکہ جو میں نے دیکھا ہے کہ انکی جو کونسلنگ (counciling) ہے اسکا معیار بہت ہی ڈمب (dumb) ہے۔
نعیم: مطلب انکا جو معیار ہے پڑھانے کا اس طرح آپکا خیال ہے بندہ کچھ بن نہیں سکتا؟
میرے اپنے پائوں پیدائشی طور پر ٹیڑھے تھے۔ پھر بعد میں میرا آپریشن ہوا، اللہ بھلا کرے ابا جی کا آپریشن کروا دیا انہوں نے میرا اس سے میرے پائوں سیدھے ہو گئے۔ تو آج تک میرے خاندان میں پیٹھ پیچھے اس بات کا طعنہ دیا جاتا ہے کہ یہ تو معذور ہے، وہی ٹیڑھے پائوں والا۔ حالانکہ میں کام کر رہا ہوں چلتا پھرتا بھاگتا دوڑتا ہوں۔ تو آپکو یہ مسئلہ نہیں ہوتا کہ لوگ اس طرح سے ٹریٹ کرتے ہیں، انڈر ایسٹیمیٹ (under estimate) کرتے ہیں۔ 
نعیم: لوگ جب دِل توڑنے والی باتیں کرتے ہیں تو آپکو کیسا محسوس ہوتا ہے؟

مدثر: میں نے نا ایک مائنڈ بنا لیا تھا، کہ میرے ساتھ ایسی باتیں ہونی ہیں۔ جب بندے کو پتہ ہوتا ہے نا کہ ایک چیز آپکی طرف آنی ہے، مثلاً ایک بال ہے جو آپ کی طرف آ رہی ہے تو اگر آپکا منہ دوسری طرف ہوگا اور وہ آپکو لگ جائے گی۔ لیکن جب آپکو پتہ ہو گا تو اگر آپ پیچھے ہوجائیں گے تو بال آپکے پاس سے گزر جائے گی۔ بالکل ایسے ہی مجھے پتہ تھا کہ میرے ساتھ ایسے ہونا ہے، آئی ڈونٹ لسن میں نے ادھر سے سنی اُدھر سے نکال دی۔ اگر میں ان باتوں پہ فوکس کرتا تو پھر میں ان باتوں کے گرد گھومتا رہتا۔ ابھِی تک بھی کئی لوگ باتیں کر لیتے ہیں لیکن مجھے عادت ہو گئی ہے۔ کوئی ایک نارمل بندہ بھی ہو نا تو اسے بھی میں یہی مشورہ دوں گا۔ کوئی ایک چیز آ رہی ہے تو آپ پیچھے ہو جائیں، بجائے اسکے سامنے آنے کے۔
نعیم: مطلب، لڑنے کی ضرورت نہیں ہے آپ بس اگنور (ignore) کر دیں۔ اس طرح ہے کہ پٹری پہ ٹرین آ رہی ہے، اس نے آنا ہی آنا ہے تو بجائے اسکے کہ آپ پٹڑی پہ تڑ کر کھڑے ہو جائیں, اور ٹرین کے نیچے آ جائیں بہتر ہے کہ ہٹ جائیں۔

نعیم: بھابی کے ساتھ انڈرسٹینڈگ کیسی ہے؟ وہ آپکے مختلف ہونے کے بارے میں کیا محسوس کرتی ہیں؟
مدثر: اچھی انڈرسٹینڈگ ہے، وہ خوش ہیں کیونکہ میں پڑھا لکھا ہوں اور ہماری فیملی بھی اچھی ہے۔  
نعیم: وہ کونسا جذبہ ہے جو آپکی ہمت نہیں ٹوٹنے دیتا؟
مدثر: پیشن (passion) یہ ہے کہ، چھوٹا کام ہو یا بڑا میں ٹاپ پہ رہوں میں لیڈ کروں کام کو۔ اصل میں جس انسان کو یہ ہوتا ہے کہ میں نے ٹاپ پہ جانا ہے تو بے شک وہ ٹاپ پہ نہیں جائے، وہ کامیاب ہو جاتا ہے۔ دوسرا یہ کہ آپکو یقین ہونا چاہئے۔ ایک ڈاکٹر ہیں ڈاکٹر خالد جمیل، وہ مریض کی مثال دیتے ہیں، کہ اگر مریض کو یقین ہو نا صحیح ہونے کا تو وہ ہو جاتا ہے۔ کہتے ہیں جنہیں ڈائوٹ ہو وہ آرام آرام سے صحیح ہوتے ہیں، اور جنہیں بالکل یقین نہیں ہوتا نا وہ بالکل صحیح نہیں ہوتے۔
نعیم: زندگی میں کبھی کوئی ایسی صورتحال بنی جسے آپ یادگار سمجھتے ہوں؟
مدثر: دوست تھا کافی اسکا ساتھ دیا لیکن وہ چھوڑ گیا، وہ کبھی نہیں بھولے گا۔ میں نے تو خلوص دل سے اسکا ساتھ دیا، لیکن وہ یہی سمجھ رہا تھا کہ یہ اپنا فائدہ چاہتا ہے۔ کچھ اچھے دوست ہیں جو کام بھی آتے ہیں، بغیر مطلب کے ملنے والے لوگ ہیں۔ کچھ ایسے دوست ہیں جنہیں مطلب ہو تو فون بھی کر لیں گے آ بھی جائیں گے، ورنہ نہیں۔ 
نعیم: غصہ آتا ہے؟ آتا ہے تو کس طرح کنٹرول کرتے ہیں؟
مدثر: ہاں غصہ بہت آتا ہے، جب کوئی غلط بات کرتا ہے۔ چاہے میرا افسر ہو، منہ پہ کہہ دیتا ہوں۔ لیکن ( ہنستے ہوئے ) ایکسپرینس(experience) کے ساتھ سیکھا ہے کہ اپنے افسر کے ساتھ طریقے سے ہی بات کرو۔  
نعیم: دوسرے خصوصی لوگوں کے لئے کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟
مدثر: دنیا میں اگر کچھ نہیں ہے تو بہت کچھ ہے بھی۔ ڈھونڈنے سے تو خدا بھِ مل جاتا ہے۔ تلاش کرو، مل جائے گا آپکو۔ 
نعیم: زندگی میں کوئی خواب، کوئی آرزو ہے؟
مدثر: میں ایک ٹاپ لیڈر بن کے دکھانا چاہتا ہوں۔ دنیا کو پیچھے چھوڑنا چاہتا ہوں۔ میں بھی کوئی ایسا کام کر لوں کہ میں نا اپنا نام ہسٹری میں لکھوا لوں، کہ یہ مدثر نے کیا ہے کام۔ اور میں ایسا کر سکتا ہوں، اللہ کی مرضی ہوئی تو۔
نعیم: خود کو دس سال بعد کہاں دیکھتے ہیں؟
مدثر: اپنے آپ کو کافی اچھا پروجیکٹ منیجر دیکھتا ہوں۔ یا پھر اگر انوسٹمنٹ ہوئی، کوئی اچھی پراڈکٹ بنا لوں گا۔ میں کہتا ہوں کہ میں ایک ورچول ٹیم (virtual team) بنائوں، اُسے میں مینیج کروں۔  چھوٹے چھوٹے ٹاسک ہوں، پہلے ہم آئیڈیا ڈھونڈیں پھر اسے پراپر ڈویلپمنٹ لائف سائیکل (proper development life cycle) سے گزاریں۔ میں نہیں کہتا چھ مہینے میں پراڈکٹ کمپلیٹ ہو، دو سال میں ہو جائے لیکن صحیح ہو۔
نعیم: مطلب ایک آپ کی ٹیم ہو، لیکن وہ مستقل ایک سائیڈ پراجیکٹ کو ٹائم دیں۔
مدثر: ہاں جی، ڈیلی ایک گھنٹہ دے دیں۔
نعیم: یعنی ایک ٹیم ہو، اور سلو اینڈ سٹیڈی وہ چلتے رہیں۔ صحیح ہے۔ اینڈ آف دی ڈے پراڈکٹ ڈویلپ کر لیں۔
نعیم: کوئی ایسی شخصیت جس سے متاثر ہوں، کوئی آئیڈیل؟
مدثر: آئیڈیل میرا ہر وہ بندہ ہے جو ٹاپ پہ کھڑا ہو، مشکل سے گزر کے وہ ٹاپ پہ گیا ہے۔ جیسے قائد اعظم ہیں، عمران خان ہے۔ میں نے انکی ہسٹری پڑھی ہے۔ جیسے نائنٹی ٹو کا ورلڈ کپ عمران خان جیتا ہے۔ اسکے پاس کھلاڑی تھے، اس نے ٹیم بنائی۔ جب آپ ٹیم بناتے ہو پھر آپ کو رزلٹ بھی ملتا ہے۔  بالکل اینڈ پوائنٹ سے نکلتے ہو، جہاں پہ آپ کو بالکل لاس ہی نظر آ رہا ہو، ادھر سے جو نکلتا ہے وہ پھر بندہ زبردست ہوتا ہے۔ اور خلفائے راشدین بھی تھے۔
نعیم: گاڑی چلا لیتے ہیں؟
مدثر: ہاں چلا لیتا ہوں لیکن گھر والے نہیں چلانے دیتے۔ موٹر بائیک بھی چلا لیتا ہوں، سائیکل بھی چلا لیتا ہوں۔ میرا پہلے پلان تھا سائیکل پہ نا نانگا پربت کی طرف جائوں۔ بلکہ اب بھی ہے، کبھی کبھار میرے ذہن میں آتا ہے کہ سائیکل پہ دنیا کا چکر لگائوں۔ ابھی ٹائم ہے اس میں، اُدھر بھی جائوں گا لیکن کسی سٹیج پہ پہنچ کہ۔
نعیم: اچھا انڈین ہیروئنز میں کون پسند ہے؟
مدثر: ڈونٹ لائک انڈینز(don't like Indians)، میں نے آفٹر بی کام کوئی انڈین مووی نہیں دیکھی۔ کیونکہ انڈین لُوٹ رہے ہیں ہمارے ملک کو، دشمن ہیں میں دشمن کو کیوں دیکھوں۔ مجھے تو انڈین ہیروئنز کے نام بھی نہیں پتہ۔
نعیم: اچھا تو پھر کونسی ہیرئونیز پسند ہیں، انگلش، امیریکن، پاکستانی؟
مدثر: ہیروئنز مجھے کھلاڑی پسند ہیں، ماریا شراپوا (Maria Sharapova) ہے وہ پسند ہے۔
ہیرئون کی بات کریں تو کیا نام ہے اسکا، مجھے پسند تھی وہ کراچی کے ڈراموں میں آتی تھی، جویرہ جلیل مجھے بہت پسند ہے۔ اسکی ایکٹنگ زبردست ہے۔
انڈین مجھے پسند ہی نہیں نہ میں دیکھتا ہوں، نہ میں انکے گانے سنتا ہوں۔ پاکستانی گانے سنتا ہوں۔ ابھی میں احسن کے ساتھ پروگرام بنا رہا تھا انسیپشن دیکھنی ہے۔
نعیم: کونسے سنیما میں؟
مدثر: سائن سٹار، میں اور احسن جاتے ہوتے ہیں، آپ بھی آنا۔


اور اسکے بعد ہماری نشست کا اختتام ہو گیا۔
 

 

جمعہ، 15 اکتوبر، 2010

ویلوٹ راکٹ۔۔۔ میکسیکو میں

میں نے یہ تحریر اکتوبر دو ہزار دس کو لندن میں لکھی۔
یہ واقعات جون انیس سو چھیانوے کو میکسیکو کے پیسیفک ساحلی علاقے میں پیش آئے تھے۔
پچھلی مرتبہ جب میں کیلیفورنیا گیا، تو میری نظر چند تصاویر پر پڑی، جو کہ میں نے انیس سو چھیانیوے میں میکسیکو کے ایک دورے پر کھینچی تھی۔ پہلے تو میں یہ تحریر عام جگہوں کے سفر کٹیگری میں ڈالنے لگا تھا، لیکن پھر میں نے اُس دورے کی صورتحال اور میکسیکو کی آجکل کے حالات کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔ میں نے حساب لگایا کہ ویلوٹ راکٹ آج سے دس سال قبل میدانِ کار زار میں تھا، اور میکسیکو میں منشیات کے کاروبار پر تحقیقات کر رہا تھا، میکسیکو میں منشیات کے کاروبار کے عروج پر آنے سے بہت بہت پہلے۔ اب یہ "عمومی جگہوں" والی چیزیں تو بہرحال نہیں ہیں۔
کوئی بڑی بات تو نہیں، لیکن یہ دورہ میرے چند حالیہ دوروں سے متعلقہ تھا۔ صومالیہ اور افغانستان جیسی جگہیں میرے لئے کوئی غیر معمولی بات نہیں، بمشکل چل سکنے کی عمر میں کتابوں والی الماری پر چڑہ جانا، سائیکل لے کے اُلٹ پُلٹ جگہوں پر چلے جانا، تیز گاڑی چلانا، وغیرہ وغیرہ واقعات کا ایک تسلسل سا ہے۔ پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے میرے ساتھ؟
بہرحال، میکسیکو پہنچنے کے بعد جلد ہی میں چند نئے میکسیکن جان پہچان والے لوگوں کے ساتھ پرانی کشتی میں تھا۔ ساحل کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے کشتی کا انجن چنگھاڑ رہا تھا، شراب خانوں، ساحلوں، اور قحبہ خانوں سے بڑھ کر کسی دلچسپ چیز کی تلاش میں۔۔۔ بے چین ہو جاتا ہوں۔۔۔
دلچسپ چیزوں کی تلاش میں ہیں میں اس تصویر میں دکھائے گئے گائوں میں جا پہنچا


بھلے اس گائوں میں سڑکیں نہ ہوں، بجلی، ، پانی نہ ہو "ما سوائے گائوں کے بیچ سے گزرتے ہوئے چشمے کے" ، یہاں بکریاں، اور بے تکلف لوگ بہت تھے۔ میرے خیال میں یہ ساحل پر بیٹھ کے جوس پینے سے لاکھ درجے بہتر ہے۔

گائوں والوں میں گھلنا ملنا گائوں کے چند لڑکوں کی وجہ سے اور بھی آسان ہو گیا تھا، ان لڑکوں سے میری کچھ دیر قبل واقفیت بنی تھی۔ کافی سارے تعارفوں، زبردست کھانے، تھوڑی سرویزا، اور بہت دیر بیٹھے رہنے کے بعد کسی نے مشورہ دیا کہ مجھے گائوں کی پچھلی جانب موجود پہاڑیوں کی سیر کروائی جائے۔ لڑکے تو گائوں میں اپنے گھر والوں کے ساتھ ہی رہ گئے، لہٰذا میں چند دیہاتیوں کے ساتھ چل نکلا۔ ہمارے ساتھ ایک انگریزی بولنے سمجھنے والی لڑکی بھی تھی۔۔۔ آٹھ سال کی بچی۔۔۔
بہت خوبصورت منظر تھا۔ پہاڑیوں کو جنگل نے ڈھانپ رکھا تھا، اور سیدھی انکا اختتام سیدھے جا کے سمندر پر ہوتا تھا۔ ان پہاڑیوں پر یہ لوگ چرس کے وسیع کھیت بھی کاشت کرتے تھے۔ شاید لڑکوں کے کہنے کی وجہ سے، مجھے نفع بخش کاروباری موقع خیال کیا جا رہا تھا۔ چرس کے کھیتوں میں گھومتے گھومتے مجھ  سے ڈھیروں سوالات پوچھے گئے۔ اور یقین مانو مجھے آٹھ سال کے بچے سے اس موضوع پر بات کرنا بڑا عجیب لگا۔

میں کچھ خریدنا چاہوں گا؟انکا سودا زبردست ہے۔۔۔ اور حساب کتاب لگا لیں گے وغیرہ۔۔۔
تو پھر کیا میں اُنکے ساتھ کاروبار کروں گا؟ امریکی شہریوں کے لئے سرحد کے اس پار آنا جانا ہمیشہ سے بہت آسان رہا ہے نا۔
پھر میں نے بھی اُن سے ایک سوال پوچھا۔۔۔ تصویریں بنا لوں؟ نہ نہ تصویر مت بنانا امیگو۔۔۔


بالآخر جب انہیں اندازہ ہو گیا کہ میں کوئی نوخیز پابلو ایسکوبار یا کارلوس لیہڈر   نہیں ہوں ، انہوں نے مال بیچنے والی بات کا پیچھا تو چھوڑ دیا، لیکن پھر بھی وہ کافی بے تکلف تھے۔ مجھے جنگل کے بیچوں بیچ ایک آبشار بھی دکھائی گئی۔ پانی صاف اور ٹھنڈا تھا، دیکھ کر میرا دِل تو چاہ رہا تھا کہ ڈُبکی لگائوں تاکہ پسینہ اور دھول اُتر جائے۔

رات میں نے گائوں میں گزاری اور اگلے دن آگے بڑھ گیا۔


گائوں نیچے تصویر میں دکھائے گئے ساحل کے کنارے ہے۔۔۔ کٹائیوں کے دنوں میں، چرس کے گٹھے خچروں پر لاد کر پہاڑی سےنیچے لائے جاتے ہیں، اور پھر ان ماہی گیر کشتیوں پر لاد دیئے جاتے ہیں جہاں سے ان قیمتی گٹھوں کا شمال میں امریکہ کی طرف سفر شروع ہوتا ہے۔



اس گھر کے بارے میں مجھے بتایا گیا کہ یہ علاقے کے بڑے سمگلر کا ہے۔ اور اس گھر میں چلتا پانی، اور بجلی موجود تھی۔۔۔ جنریٹر کے ذریعے۔ جرائم سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا، کم از کم اس گائوں میں اس بات کے معنی مختلف ہوں گے۔



کافی دلچسپ اور معلوماتی دورہ تھا۔۔۔ میکسیکو کے لڑائی میں مصروف منشیات فروش گروہوں کے حالیہ پر تشدد واقعات اور بد اعتمادی کی باعث شاید آجکل تو ایسی سیر ناممکن ہو گی۔۔۔
یہ تحریر جسٹن ایمس کی درج ذیل بلاگ کا ترجمہ ہے

جمعہ، 8 اکتوبر، 2010

انسانی جسم میں پلنے والی عجوبہ چیزیں

آپ کے بدن میں کیا پرورش پا رہا ہے؟
 شاید آپکو نہ پتہ ہو لیکن۔۔۔ ہو سکتا ہے آپ کافی سارے جانداروں کی میزبانی کر رہے ہوں مثال کے طور پر سنڈیاں، پسو، مگٹ کیڑے، یا کبھی کبھار کوئی پودا۔ اور تو  اور حاملہ عورتیں جو یہ سمجھ رہی ہوتی ہیں کہ انہیں معلوم ہے انکے جسم میں کیا ہے بھی نہیں جانتیں کہ انکے پیٹ میں دراصل کیا پرورش پا رہا ہے۔ اس پوسٹ میں کچھ غیر معمولی چیزوں کا تذکرہ  ہے، جو کہ آپ میں پرورش پا سکتی ہیں۔

 پھیپھڑوں کے پودے
مساچوسٹس کا ران سویڈن پچھلے سال ہسپتال بدترین خبر کی توقع  لے کر آیا تھا۔ بیمار تو وہ کافی عرصے سے تھا، لیکن تھوڑے دنوں سے اسکی صحت مزید خراب ہو رہی تھی۔ ایکسرے کے  مطابق اسکے بائیں پھیپھڑے میں کافی بڑا سیاہ دھبا تھا، لیکن  نمونے لینے کے بعد پتہ چلا کہ کم از کم کینسر تو نہیں ہے۔ پھر جب ڈاکٹروں  نے چیر پھاڑ کی تو انہیں ملا آدھا انچ لمبا کا مٹر کا پودا، بندے کے  پھیپھڑے میں اُگا ہوا۔ شاید کوئی کچا مٹر خوراک کی بجائے سانس کی نالی میں گھس گیا  تھا، اور پھیپھڑے کے گرم مرطوب ماحول کی وجہ سے اُگ پڑا۔ ایسا کم کم ہوتا ہے، لیکن بہرحال ہو سکتا ہے بقول مارک سیگل ایسوسی ایٹ  پروفیسر نیو یارک سکول آف میڈیسن۔

مگٹ موٹل
جو لوگ کچھ عرصہ قبل کسی بارانی جنگلاتی علاقے سے ہو کر آئے ہیں  ہو سکتا ہے وہ کیڑا نوشی کا شکار ہو چکے ہوں۔ عام طور پر، بارانی جنگلاتی مکھی کسی مچھر یا سوکھنے ڈالے گئے کپڑوں پر انڈے دے جاتی ہے۔ اب جب یہ مچھر، کیڑا، یا چیز کسی بندے کی جلد سے ٹکراتا ہے تو لاروے منتقل ہو جاتے ہیں، بقول جیمز نارڈلنڈ ڈرماٹالوجی  پروفیسر رائٹ سٹیٹ سکول آف میڈیسن ڈیٹن اوہائیو۔
یہ انڈے کیڑوں جیسے لارووں عرف مگٹ کو جنم دیتے ہیں۔ جو  کہ جلد میں دبے پڑے رہتے ہیں، اور چھوٹا سا ابھار بنا دیتے ہیں۔


یہ ابھار مگٹوں کے بڑے ہونے کے ساتھ ساتھ بڑا ہوتا ہے، حتٰی کہ مگٹ ایک انچ تک لمبے ہو جاتے ہیں۔ یہ ابھار دردناک بھی ہو سکتا ہے، اور اس میں سے مواد بھی رِس سکتا ہے، اس میں کلبلاہٹ بھی ہو سکتی ہے۔ کبھی کبھار تو لاروے نظر تک آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اگر تو آپ انتظار کر سکتے ہیں تو ایک سے تین ماہ میں لاروے جلد پھاڑ کر باہر نکل آئیں گے۔ لیکن نارڈلنڈ کا کہنا ہے کہ، ویسلین لگا  کر مگٹوں کا سانس بند کریں تو انہیں جلدی بار نکلنے پر مجبور کیا  جا سکتا ہےیا ڈاکٹر کی مدد سے بھی انہیں نکالا جا سکتا ہے۔


 دماغ میں مگٹ 
جلد میں رہائش پذیر ہونے کے علاوہ، برساتی مکھیاں کبھی کبھار کان، ناک، یا آنکھ میں بھی انڈے دے جاتی ہیں۔ اور ان جگہوں پر جب انڈے سے لاروا، کیڑا، یا مکھی بننے کا مطلب ہے بڑی مصیبت۔ ڈیوڈ ایزمین کے مطابق یہ غلط فہمی ہے کہ  مگٹ صرف جسم  کے مردہ ریشے کھاتے ہیں، بلکہ یہ تو صحیح سلامت ریشوں کو بھی  صحیح سلامت کھا جاتے ہیں۔ کان کے اندر، دبے ہوئے لاروے کی وجہ سے ہو سکتا ہے بدبودار  مادہ رسے، یا بھنبھناہٹ کی آواز آئے، بقول احمد میساحل سرجن سائوتھ مانچسٹر یونیورسٹی ہسپتال انگلستان۔ وہ کہتے ہیں، ناک میں  مگٹ ہو تو ناک بند ہو سکتا ہے، ناک سے خون آ سکتا ہے، یا بدبودار مادہ رس سکتا ہے۔ خود سوچیں جس بندے کے ناک سے بدبودار مادہ رسے گا اسکی حالت کیا ہو گی، رومال رکھ کر ناک بند بھی نہیں کر سکے گا۔ البتہ سب سے خطرناک لیکن نادر صورت وہ ہوتی ہے جب بھوکا لاروا ریشے کھاتا کھاتا دماغ تک جا پہنچے، وہاں یہ خاصہ نقصان کر سکتا ہے۔آنکھ کے اردگرد، مساحل کہتے ہیں، لاروا کی وجہ سے درد، خارش، آنکھوں سے پانی بہنا، اور پپوٹوں کا سوج جانا ممکن ہے۔ اور اگر لاروا آنکھ کی گولی میں جا پہنچے تو تاخیر کی صورت میں مریض کو اندھا بھی کر سکتا ہے۔

ساحل کے شیطان
ساحل پر ننگے پائوں چلنے سے ہو سکتا ہے آپکی جلد میں کُتوں  اور بلیوں پر پائے جانے والے ننھے کیڑوں کے بچے گھس جائیں۔  اسکے بعد یہ شتونگڑے جلد کے نیچے بے مقصد گھومتے پھرتے ہیں۔ اس وجہ سے جلد پر آڑھی ترچھی خارش ہو جاتی ہے، اور ہر گھنٹے بعد تقریباً ایک سینٹی میٹر مزید پھیل جاتی ہے۔ 
سکے علاوہ ایک اور قسم کا کیڑا عام طور پر پائوں کی جلد میں گھس کر سفید رنگ  کا درمیان سے کالا ابھار بنا دیتا ہے۔ علاج کے طور پر ڈاکٹر کو جلد کاٹ کر کیڑا نکالنا پڑتا ہے۔

 فیتے جیسے کیڑے
بڑی عجیب بات ہے۔۔۔ لیکن ٹیپ ورم یا چپٹے کیڑے کی عمر بیس سال تک ہو سکتی ہے، اور اس عرصے میں اسکی لمبائی پچاس فٹ تک جا سکتی ہے۔ عام طور پر چپٹے کیڑوں کا بیج لاروے کی شکل میں خوراک کے راستے جسم میں پہنچتا ہے۔ لاروے آنتوں میں پل بڑھ کر جوان ہوتے ہیں۔ کچھ لوگوں میں انکی موجودگی کی علامات ظاہر نہیں ہوتی، لیکن کچھ لوگوں کی بھوک کم ہو جاتی ہے، وزن کم ہو جاتا ہے، بےچینی رہتی ہے، ہیضہ اور کمزوری  ہو جاتے ہیں۔
آنتوں کے کیڑوں کا علاج دوایوں سے ممکن ہے۔ البتہ اگر کسی نے چپٹے کیڑوں کے انڈے کھا لئے تو حالات کافی  خراب ہو سکتے ہیں۔ یہ انڈے آنتوں کی دیواروں سے گزر کر دورانِ خون میں شامل ہو سکتے ہیں اور نشونما پانا شروع کر دیتے ہیں۔ اسکے بعد یہ جسم میں سفر کرتے رہتے ہیں حتٰی کہ یہ کہیں جا پھنستے ہیں، اور رسولی بنا دیتے ہیں، بقول لوئیس اوسٹروسکی ایسوسی ایٹ پروفیسر میڈیسن یونیورسٹی آف ٹیکساس میڈیکل سکول ہیوسٹن۔ دھیان رہے کہ ٹیومر یا کینسر کی وجہ سے بھی رسولی ہی بنتی ہے لیکن وہ اور چیز ہے۔ جس رسولی کی میں بات کر رہا ہوں اسکی لئےسی وائے ایس ٹی سسٹ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ نتیجے کے طور پر پیدا ہونے والی علامات کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ رسولی ہے کس جگہ پر، مثلاً  دماغ میں، جو کہ خاص طور پر نازک جگہ ہے۔ اگر ایسا ہو جائے توسر درد، دماغی صلاحیت میں کمی، دورے پڑنے کی شکایت، یا موت تک واقع ہو سکتی ہے۔

 مزید بدتمیز کیڑے
چمونے جسامت میں بہت بڑے نہیں ہوتے لیکن ان میں تنگ کر  دینے کی صلاحیت وافر ہوتی ہے۔ چمونوں کے انڈے انسانی جسم میں آلودہ خوراک یا گندے ہاتھوں کے راستے پہنچتے ہیں۔ ایک  مرتبہ آپ نے کھا لئے تو یہ آنتوں میں پہنچ جاتے ہیں، وہاں ان سے بچے نکل آتے ہیں، اور جلد ہی چھیل چھبیلے نوجوان بن جاتے ہیں۔ اسکے بعد جب بندہ سوتا ہے، مادہ چمونیوں کے گروہ پوٹی والی جگہ پر اکٹھے ہو کر آس پاس کی جلد پر انڈے دے جاتی ہیں۔ کافی لوگوں میں کوئی علامات ظاہر نہیں ہوتی، لیکن کچھ کو پوٹی والی جگہ پر خارش ہوتی ہے، یا نیند ٹھیک سے نیند نہیں آتی۔ بچوں میں چمونے پڑ جانا عام بیماری ہے۔ کیونکہ چھوٹے چھوٹے انڈے تقریباً کسی بھی چیز پر چپک سکتے ہیں۔۔۔ کھلونے، تولیے،  باتھ روم، چادریں۔۔۔ اور ان جگہوں پر یہ دو ہفتے تک زندہ رہ سکتے ہیں بقول اناتولی بیلیووسکی، ماہر امراض بچگان نیویارک۔  خوش قسمتی سے اس انفیکشن کا علاج ادویات سے ممکن ہے۔ بلکہ عام طور پر بار بار ہاتھ دھونا بھی اس مصیبت سے بچا سکتا ہے۔

پیٹ میں حمل
حمل کی صحیح اور محفوظ جگہ بچہ دانی ہوتی ہے۔ البتہ تقریباً دو فیصد کیسز میں بیج کہیں اور جا پہنچتا ہے۔ زیادہ تر غلط جگہ پر ہونے والے حمل پیٹ کے فیلوپین ٹیوب نامی حصے میں ہوتے ہیں۔ کبھی کبھار البتہ یہ پیٹ کے دوسرے حصوں میں بھی پائے جاتے ہیں، ایسی صورتحال کو پیٹ کا حمل کہتے ہیں۔ ایسا حمل ماں اور بچے دونوں کے لئے بہت خطرناک ثابت ہو سکتا  ہے۔ اگر پہلے پتہ چلا جائے، تو ایسے حمل کو ادویات سے یا سرجری کر کے ساقط کر دیا جاتا ہے۔ چند مواقع پر بہرحال حمل کی مدت پوری ہونے کے بعد سیسارین آپریش کر کے ایسے بچے پیدا بھی کئے گئے ہیں۔ لیکن یہ بہت دشوار کام ہے۔ بچے کو پیٹ میں زندہ رکھنے والے دیگر لوازمات کا کچھ حصہ عام طور پر پیٹ کے اندر ہی رہ جاتا ہے، جسے کہ مکمل طور پر صاف کرنا ممکن نہیں ہوتا۔

یہ تحریرایم ایس این ہیلتھ کے درج ذیل آرٹیکل کا ترجمہ ہے
 http://health.msn.com/health-topics/slideshow.aspx?cp-documentid=100264049&imageindex=1

Pak Urdu Installer

Pak Urdu Installer