ہفتہ، 16 جولائی، 2016

کچھ لو اور کچھ دو

عورت کے مظلوم ہونے پر ہمارے یہاں اکثر نعرے بازی کی جاتی ہے۔ البتہ عورتیں جو زیادتیاں کرتی ہیں انہیں صنف نازک کی لطافت کا نام دے کر ہڑپ کر لیا جاتا ہے۔

 تمام تر ناشکرے رویوں کے باوجود گدھوں کی طرح کام کرنے والے مرد عورتوں سے زیادہ مظلوم ہیں۔  "مردان کشی" پر مبنی ایک اور مضمون پڑھ کر ہمارا خون کھول اٹھا ہے۔ اپنا نقطہ نظر ریکارڈ پر لانے کی خاطر ہم یہ پوسٹ لکھ رہے ہیں، تاکہ سند رہے اور وقت ضرورت کام آئے۔


کچھ بھی کرنے سے پہلے سوچنے سمجھنے کی اہمیت


جن خواتین کو پتہ ہوتا ہے کہ انہوں نے شادی کے بعد بھی کاروبار یا ملازمت کرنی ہے انکو کسی کمپیٹ ایبل مرد سے شادی کرنی چاہیئے۔ اگر شادی کرتے وقت "فیصلہ کرنے کی صلاحیت" سو جاتی ہے تو شادی ہو جانے کے بعد جاگنے  کی صورت میں فقط فساد ہی ہوگا۔ اگر آپکو "یکطرفہ معاہدہ" وارے نہیں کھاتا تو لعنت بھیجیں اور اپنی موج میں زندگی گزاریں۔

فطرت نہیں بدلتی

 مرد کی جسمانی ساخت کو دیکھیں، یہ بنا ہی زور آوری کرنے کے لئے ہے۔ غاروں کے زمانے میں مرد شکار مارا کرتے تھے، پھر کھیتوں میں ہل چلاتے تھے، پھر جنگیں لڑتے جن میں لوگوں کی ہڈیاں توڑتے اور گلے کاٹتے تھے۔ اب اس مخلوق سے یہ توقع کرنا کہ یکمشت بکری بن جائے  اور بیگم صاحبہ کے پیچھے چل پڑے سراسر بے وقوفی ہے۔ بھائی اسکی فطرت ہے زور آزمائی اور جہاں تک ممکن ہے یہ ایسا ہی کریگا۔
اگر یہ آپکے لئے کسی کو چپیڑیں مار سکتا ہے تو تنگ آ کر آپکو بھی چپیڑیں  مار سکتا ہے۔مرد پروووک ہوتا ہے، عورت پروووک کرتی ہے۔ کر بھلا سو ہو بھلا۔۔۔ 


کیونکہ بیوی بھی کبھی بہن تھی

اگلی بات، ہمارے معاشرے میں مائیں اور بہنیں بیٹوں اور بھائیوں کو رج کے بگاڑتی ہیں۔ کپڑے استری کرنے سے لے کر کھانا کھلانا اور پانی پلانا سب کچھ لاڈ ہی لاڈ میں کر لیا جاتا ہے۔ جب شہزادہ سلیم کی شادی کام کرنے والی خاتون سے ہو جاتی ہے تو کبھی ناشتہ نہیں بنا ملتا اور کبھی کپڑے خود استری کرنے پڑتے ہیں۔ اب ایسی صورت میں جھگڑا نہ ہو تو اور کیا ہو؟؟؟ 

ڈیزائن کا مزید سیاپا

 اٹیچمنٹ، یا انسیت عورت کے ڈیزائن میں قدرتی طور پر زیادہ ہے۔ جہاں مرد ضرورت پوری ہوتے ہی ایکطرف ہو کر سونا چاہتا ہے، عورت کو اپنے ساتھی کے لمس کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں یہ ہو سکتا ہے کہ کبھی مرد عورت کی ضورت کا خیال کرے اور کبھی عورت مرد کی فطرت کو سمجھ کے درگزر کرے۔ 

نکھٹو مردوں کا معاملہ

حرامخور نکھٹو ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ ہمارے یہاں بدقسمتی سے انکی تعداد کافی زیادہ ہے۔ ویہلے مرد حضرات کیونکہ کام کاج تو کرتے کوئی نہیں، انکی ساری توانائیاں فضول باتیں سوچنے، اور حرام تھوپیوں میں خرچ ہوتی ہیں۔ ان آئیٹموں کو عام طور پر باتیں کرنے کا ڈھنگ آتا ہے اور اکثر خواتین انکے چُنگل میں اُنگل 
پھنسا بیٹھتی ہیں۔ 
انکی اوقات فقیروں والی اور شوق نوابوں والے ہوتے ہیں۔
ایسے بندوں سے دور رہنا ہر قسم کی عورتوں کے لئے بہتر ہے۔


ٹی وی کی تربیت

ہم ٹیلی ویزن کو بہت سی وجوہات کی بنا پر ناپسند کرتے ہیں۔ ایک وجہ یہ بھی ہے  کہ اس پر چلنے والے ڈرامے خواتین کو انکی مظلومیت کا بے جا احساس دلاتے ہیں۔ اسکے علاوہ مردوں کو عیاش اور بدمعاش بھی دکھایا جاتا ہے۔ "ایڈیٹ باکس" کے سامنے بے تحاشہ وقت گزارنے کے سبب خواتین حقیقی زندگی کو بھی اسی 
روشنی میں دیکھتی ہیں۔ 
ٹی وی ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ گھر کو سنبھالنا بے کار کام ہے اور ایسا صرف مظلوم عورتیں ہی کرتی ہیں۔ 

شادی کے بعد مرد کی زندگی کا بھی کباڑہ ہوتا ہے


شادی سے پہلے ہمیں یاد ہے کہ ملک صاحب(مصنف) کے بڑے ٹھاٹھ باٹھ تھے۔ شمالی علاقہ جات کشمیر وغیرہ گھوم چکے تھے اور موٹر سائیکل پر چین جانے کا سنجیدگی سے سوچ رہے تھے۔ رات رات بھر یاروں دوستوں کے ساتھ آوارہ گردیاں بھی معمول تھیں۔ بٹوہ نوٹوں سے بھرا ہوتا تھا۔ فکر نہ فاقہ، عیش کر کاکا۔ 
پھر شادی ہو گئی، اور پھر بچے ہو گئے۔ اور اب ملک صاحب خود سوچتے ہیں کہ "یار میں کتنا کھڑوس ہو گیا ہوں"۔ 
کہاں گیا وہ من موجی لائف سٹائل؟ اب تو بس یہی فکر ہے کہ بچوں کے دودھ پیمپر میں کوئی کمی نہ آئے۔ انکی تعلیم و تربیت بہترین ہو ۔ 
خود دو چار سو خرچ کرتے ہوئے بھی ہاتھ رکتا ہے لیکن بیوی بچوں کی خاطر ہزاروں لگاتے بھی کبھی نہیں سوچا۔
قربانی تو مرد بھی دیتے ہیں۔ 
اس بات کا بھی کوئی لحاظ؟

چند موٹی موٹی باتیں

  •  عورت کی فطرت میں مامتا خدا نے ڈالی ہے، جسکی بنیاد پر وہ مردوں کی نسبت بہتر تیمارداری کر سکتی ہے۔ اسلئے خواتین کو اپنی فطرت پر شرمندہ نہیں ہونا چاہیئے اور اسکے مطابق اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے۔
  • بڑے بڑے کاروباروں میں سیلز اور ایڈمنسٹریشن الگ الگ شعبے ہوتے ہیں۔ تو پھر گھروں میں بھی ایسا ہو سکتا ہے کہ مرد کمائیں اور عورتیں انتظامی امور سنبھالیں۔
  • بچے انسان کی زندگی بھر کی کمائی ہوتے ہیں۔ اولاد کے لئے ماں باپ کا وقت بہت بڑا تحفہ ہوتا ہے۔ اگر میاں صاحب اور بیگم صاحبہ دونوں مال کمانے میں لگے ہیں اور اولاد کھجل خوار ہوتی پھرے تو کیا فائدہ۔ جب مرد اتنا کماتا ہو کہ بیوی بچوں کی ضروریات پوری کر سکے تو عورت کے بچوں کی خاطر 
  • گھر بیٹھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔

نتیجہ



سارا ملبہ مردوں پر ڈالنا سرا سر ناانصافی ہے ۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ مرد و زن یکساں طور پر اپنی اپنی سوچ کو بدلیں۔ 

دیکھ بھال کر شادی کریں اور جب ایک مرتبہ کر لیں تو کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر رشتے کو نبھائیں۔

دوسری صورت میں دھنیا پیئیں اور امن کریں۔

اس تحریر کا محرک درج ذیل لنک پر موجود نسرین غوری کی تحریر"خرد کا نام جنوں" ہے:



Pak Urdu Installer

Pak Urdu Installer