بہت سے احباب کو میری طرح یہ جان کر حیرت ہو گی کہ براعظم افریقہ میں ایک ایسا ملک بھی ہے جہاں اردو زبان بولی جاتی ہے۔ مملکت ماریشس افریقہ کے جنوب مغربی ساحل سے بارہ سو کلومیٹر کی مسافت پر واقع جزیروں پر مشتمل آزاد ملک ہے۔ میرا ماریشس سے تعارف "پاکستان ماریشس فرینڈشپ ایسوسی ایشن" کے توسط ہوا۔ حال ہی میں اس ایسوسی ایشن کے ایک اجلاس میں شرکت کا موقع بھی مِلا۔
یہ تقریب چودہ اگست کے آس پاس ہونا تھی لیکن اسلام آباد کی گمبھیر سیاسی صورتحال کے باعث کافی دیر ہو گئی۔ ستمبر کے مہینے میں ماریشس کے بابائے قوم ایس ایس رامگولام (رام غلام) کا یوم ولادت ہوتا ہے،اس سلسلے میں ہونے والی تقریب کو پاکستان کے یومِ آزادی کی تقریب کے ساتھ مِلا کر ایک ہی فنکشن بنا لیا گیا۔
ماریسش میں اردو پہنچی کیسے؟
لگ بھگ ڈیڑھ سو سال پہلے ہندوستان سے بہت سے خاندان تلاش معاش میں ماریشس کے جزیرے پر پہنچے۔ جگہ اتنی دور تھی کہ اکثریت واپس نہ آ سکی۔ جزیرے کی آب و ہوا اچھی تھی، اور قسمت نے بھی یاوری کی۔ آج ماریشس میں اردو اور ہندی بولنے والوں کی بہت بڑی تعداد آباد ہے۔ ان زبانوں کے علاوہ ماریشس میں انگریزی، فرانسیسی، اور کریول زبانیں بھی بولی جاتی ہیں۔
ماریشس کس طرح کا ملک ہے؟
والد صاحب کو ستر کی دہائی میں پاکستان نیوی کے جہاز کے ساتھ ماریشس جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ اس زمانے میں ماریشس زرعی ملک تھا، اور گنا بے تحاشہ پیدا ہوتا تھا۔ تب پاکستان میں بھٹو صاحب کی حکومت تھی اور چینی کوٹہ سسٹم کے تحت ملتی تھی، ابا جی بتاتے ہیں کہ انکے بہت سے ساتھیوں نے بیس بیس کِلو چینی خریدی کیونکہ پچیس پیسہ فی کلو چینی اس زمانے میں بھی بہت کم نرخ تھا۔
ماریشس کو افریقہ کا دروازہ کہا جاتا ہے، جو کردار ایشیا میں سنگاپور اور ہانگ کانگ ادا کر رہے ہیں اور مشرق وسطٰی میں دبئی وہی کردار ماریشس کے جزائر افریقہ کے لئے ادا کر رہے ہیں۔
ماریشس میں علامہ اقبال کا یومِ ولادت، اور عید میلاد النبی جیسی تقریبات جوش و خروش سے منائی جاتی ہیں۔ ولید مشتاق، سی ای او روٹس انٹرنیشنل سکولز کے مطابق ماریشس میں ہونے والی عید میلاد النبی کی تقریب میں ایک لاکھ کے قریب حاضرین موجود تھے، جن میں ماریشس کے وزیر اعظم بھی شامل تھے۔ وزیر اعظم اور شرکاء کی بڑی تعداد ہندو مذہب کی پیروکار ہے، اور اس تقریب سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ماریشس میں ایک دوسرے کے عقیدے کا کس قدر احترام کیا جاتا ہے۔
پاکستان کا کرکٹ مستقبل اور ماریشس
فی زمانہ پاکستان کے پاس مشرق وسطٰی اور سری لنکا کے علاوہ انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے کے مواقع بہت کم ہیں۔ سری لنکن ٹیم پر حملے کے بعد پاکستان میں عالمی کرکٹ دس بیس سال کے لئے دفن ہو چکی۔ اس صورتحال میں پاکستان اور ماریشس کی حکومتوں میں باہمی تعاون کی بات چیت چل رہی ہے۔ عین ممکن ہے آنیوالے چند سالوں میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کے اکثر میچ ماریشس میں ہوا کریں۔ پاکستانی حکومت نے ماریشس کو اس سلسلے میں مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔
اسکے علاوہ رفاہ یونورسٹی بھی ماریشس میں جدید سہولیات سے لیس ایک زبردست کیمپس کھولنے جا رہی ہے۔
پاکستان ماریشس فرینڈشپ ایسوسی ایشن
پاکستان ماریشس تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے ایسوسی ایشن بہت کام کر رہی ہے۔ ایسوسی ایشن کے سربراہ میجر جنرل صدیق(ر) صاحب ماریشس میں پاکستان کے سفیر رہ چکے ہیں، وائس پریزیڈنٹ سمیرا حمید کے ماریشن شاہی خاندان کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں، جنرل سیکرٹری فرحان ہاشمی چودہ سال ماریشس کی ایمبیسی میں خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ یہ تمام لوگ پرجوش پاکستانی ہیں، اور ماریشس کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔
انکے علاوہ ایسوسی ایشن کے ممبران میں بہت سے طبقات کے لوگ شامل ہیں۔ شعبوں اور طبقات کی تفصیل درج ذیل ہے
- کاروباری طبقہ
- تعلیمی شعبہ
- سفارتکار
- ادیب، شاعر
- کھیل اور نوجوان
- عام شہری
تمام قارئین سے گزارش ہے کہ ایسوی ایشن کا فیس بک پیج ضرور لائک کریں۔
مجھے امید ہے کہ پاکستان اور ماریشس کی دوستی دونوں ملکوں کے لئے فائدہ مند ثابت ہو گی، خاص طور پر پاکستان میں نظریاتی و مذہبی عدم برداشت کے رجحان کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ہم ماریشس سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔