کھلی کتاب
- لکھتے لکھتے ہو گئی گُم، ایک کی چونچ اور ایک کی دُم۔۔۔
منگل، 13 ستمبر، 2022
بدھ، 10 فروری، 2021
مغز کہانی
سڑک کنارے کھڑی موٹر سائیکل ایمبولینسیں، لوگوں کا ایک چھوٹا سا ہجوم، اور رُک رُک کر چلتی ٹریفک۔ نہر والی سڑک پر یہ منظر روز مرہ کا معمول ہے البتہ پاس سے گُزرتے ہوئے موٹرسائیکل آہستہ کر کے کسی سے یہ پوچھنا کہ "بندے بچ گئے ہیں؟" بھی ہمارا روزمرہ کا معمول ہی ہے۔
لیکن اُس روز جب ہم ایک ایسے ہی مجمعے کے پاس سے ایسے ہی پوچھ گچھ کرنے کیلئے آہستہ ہوئے تو ہم نے ایک ایسا منظر دیکھا جسکے بعد ہم مجبورا موٹر سائیکل ایک جانب کھڑی کر کے مجمع کا حصہ بن گئے۔
سڑک پر ایک بھیجا دھرا ہوا تھا اور اسکے پاس ایک زخمی آدمی لیٹا ہوا تھا۔ ریسکیو والے پائوں کے بل بیٹھ کر کُچھ کر رہے تھے، شاید ٹیکہ وغیرہ بھر رہے تھے۔ ہمیں لگا کہ زخمی حرکت کر رہا ہے۔ اُس سے چند قدم دور ہونے کیوجہ سے ہم نے تصدیق کی خاطر مجمع میں شامل ایک اور پیٹی بھائی سے پوچھا کہ "بندہ مر گیا ہے؟" "نہیں، ابھی ہِل رہا ہے" اُسنے جواب دیا۔
لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ بھیجا باہر نِکل جائے اور آدمی پھر بھی ہِلتا رہے؟ ہم نے کندھوں کا زور استعمال کرتے ہوئے چند افراد کو دائیں بائیں سرکایا اور لامبے قد کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے مجمع کے اوپر سے جھانک کر صورتحال کا جائزہ لیا۔
سڑک پر خون بِکھرا تھا، آدمی کا سر بھی خون سے لت پت تھا، لیکن سڑک پر چند خون آلود پٹیاں گول مول کر کے رکھی ہوئی تھی۔ ہم شاید انہیں کو بھیجا سمجھے تھے۔
لیکن نہیں، انہیں پٹیوں کیساتھ ہی ایک عدد مغز بھی نیم ملیدہ حالت میں موجود تھا۔ "اوئے دفع ہو جائو، پیچھے ہٹ جائو۔ اِدھر کوئی تماشہ لگا ہے کیا؟" گرجدار آواز گونجی تو مجمع میں شامل افراد کھسیانے ہو کر چند قدم پیچھے ہٹ گئے۔ کُچھ نے ہیلمٹ پہنے اور موٹرسائیکل سٹارٹ کر چلتے بنے۔ ہم البتہ اس مُعمے کو حل کئے بغیر پیچھے ہٹنے والے نہ تھے۔ دِل ہی دِل میں خود کو ہیلمٹ کے بغیر موٹر سائیکل چلانے پر لعنت ملامت کی اور ذرا سرک کر وہیں جمے رہے۔
اب اس آدمی کی مثال ہی لے لیں، اگر ہیلمٹ پہنا ہوتا تو اسکا مغز سڑک پر نہ پڑا ہوتا۔ اچانک اُس آدمی کی چیخ گونجی۔ ہم نے اُسکی جانب دیکھا تو چکرا کر رہ گئے۔ جِس آدمی کا دِماغ سڑک پر ہو وہ چیخ کیسے سکتا ہے؟ اسی اثنا میں ایمبولینس کے ہوٹر کی صدا سنائی دی۔ ریسکیو ورکر نے ایک مرتبہ پھر لوگوں کو پیچھے ہٹ جانے کی درخواست کی مگر ایسا لگتا تھا کہ لوگوں پر سحر طاری تھا اور وہ ہِلنے کو تیار نہ تھے۔ تیزی سے اپنی جانب آتی ایمبولینس کو دیکھ کر ذمہ دار شہری فٹا فٹ بادلوں کیطرح بس اتنا سا چھٹ گئے کہ ایمبولینس کو جائے وقوعہ تک پہنچنے کا موقع مِل گیا۔
اُنہوں نے زخمی کو ایمبولینس میں منتقل کر دیا لیکن اُسکا دماغ وہی سڑک پر پڑا رِہ گیا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ کسی کو اُسکے دماغ کی کوئی پرواہ ہی نہ ہو۔ ہم نے ایک مسیحا کا کندھا پکڑ کر اُسے جھنجھوڑا اور سوال پوچھا کہ "یہ کیوں باہر چھوڑ دیا آپ نے؟" اُس نے تنک کر جواب دیا "جائو اپنا کام کرو، اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا"۔
یا حیرت! یا حیرت! ہم دو قدم پیچھے ہٹے تو اچانک ہمارا پائوں پِھسل گیا، گِرنے سے بچنے کیلئے ہمارا دایاں بازو لاشعوری طور پر پھیلا اور ہاتھ سڑک پر ٹِک گیا۔ مگرجہاں ہاتھ ٹِکا تھا اُسکو دیکھ کر ہم پر ہذیان طاری ہو گیا۔ پائوں زخمی کے خون سے پھسلا تھا اور ہاتھ جا کر سیدھا دِماغ پر ٹھہرا تھا۔
ہم نے دائیں بائیں مدد کیلئے دیکھا تو پاس ہی کھڑی موٹرسائیکل کی ٹینکی میں سے جھانکتے صفائی والے میلے کپڑے پر نظر پڑی۔ ہم نے جلدی سے کپڑا پکڑا اور رگڑ رگڑ کر اپنے ہاتھوں سے اُسکا بھیجا اُتارنے لگے۔ لیکن وہ زِندہ کیسے تھا؟ لیکن وہ چیخ کیسے رہا تھا؟ آخریہ کیسے مُمکن ہے؟
ایمبولینس رُخصت ہو چُکی تھی، تماشبین بھی جا چُکے تھے۔ چند کُتے آس پاس منڈلا رہے تھے۔ ہم ہاتھ دھونے کی نیت سے نہر کیجانب چل پڑے۔ ہاتھ دھونے کیبعد ہم نے دیکھا کہ اب وہاں کُتوں کا اجتماع لگ چُکا تھا۔ ایک بڑا سا کُتا سڑک پر پڑا مغز چاٹ رہا تھا جبکہ دیگر سگانِ کم مایہ اُسکے جانب حسرت سے دیکھ رہے تھے۔
ہم سے مغزِ انسانی کی یوں بے توقیری برداشت نہ ہوئی تو سڑک سے ایک پتھر اُٹھا کر بڑے کُتے کو دے مارا۔ اُس نے ایک دِلدوز چیخ ماری اور ایکجانب دوڑ لگا دی۔ اُسکے دیگر ساتھی بھی بھاگ نکلے، کچھ کے منہ میں چھیچھڑے تھے، کچھ کو بوٹیاں نصیب ہوئی، اور کچھ بھاگتے بھاگتے شاپر پر جھگڑ رہے تھے۔
ہم نے بھی اپنی موٹرسائیکل سٹارٹ کی اور اسکو ایکجانب دوڑا دیا۔
نعیم اکرم ملک
دس فروری دو ہزار اکیس
اتوار، 4 اگست، 2019
تھینک یو اللہ میاں
یہ قصہ ہے گرمیوں کی ایک دوپہر کا۔ بچے گرمیوں کی چھٹیاں منانے اپنی نانی اماں کے
گھر گئے ہوئے تھے۔
ہمیں دفتر سے چُھٹی تھی، اور بجلی کو واپڈا سے۔ رات بھی ڈھنگ سے نیند پوری نہ ہوئی تھی
اور اب تو سونے کا کوئی چانس ہی نہ تھا۔ بجلی کی طویل رخصت کی بدولت یو پی ایس
بے ہوش ہو چکا تھا
اور پنکھے ساکت۔ اس پسِ منظر میں ہم نے دِن کا بقیہ حصہ نہر کنارے سو کرگزارنے کا فیصلہ کیا۔
یوں ہم بوریا بستر یعنی کہ چٹائی اور پانی کا کولر وغیرہ اُٹھا کر نہر کیجانب چل نکلے۔
سامعین و حاضرین میں سے کئی کو نہر کے گندے ہونے پر اعتراض ہو گا۔ البتہ ہم اس قسم کی باتوں کی پرواہ نہیں کرتے، کیونکہ "گندی ہے پر ٹھنڈی ہے"۔
پس اشنان کرنے کیبعد، طے شُدہ پروگرام کے مطابق قریب ہی ایک درخت کی چھائوں میں چٹائی بچھائی
اور چاروں شانے چِت ہو کر لیٹ رہے۔ ارادہ تھا کہ تھوڑی دیر سولیا جائے۔
البتہ نہر پر برپا طوفانِ بد تمیزی اور ٹریفک کی پاں پاں کیوجہ سے سونے کی تمام کوششیں ناکام ٹھہریں۔
گھر واپس جانا بھی بیکار تھا۔ موسم البتہ ابر آلود ہو رہا تھا، سو نہر میں چند مزید ڈُبکیاں لگانے کیبعد
ہم جلو پارک کیجانب عازمِ سفر ہوئے۔ سوچا کہ باغ کی خامشی میں کسی برگِ گُل کی چھائوں سے لُطف
اندوز ہوتے ہوتے خوابِ خرگوش کے مزے لوٹیں گے۔
منزلِ مقصود پر پہنچنے کیبعد ہم نے پہلے سے سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق گھنے درختوں کی
چھائوں میں استراحت کا انتظام کیا، یعنی چٹھائی بچھائی کر کولر کو پاس ہی ٹکایا اور ایک مرتبہ پھر دراز
ہو گئے۔ کچھ دیر بعد اسطرف تین چار بچے اپنے دو عدد والدین سمیت آ دھمکے۔
انہوں نے "شیطانوں کا کھیل" کرکٹ کھیلنا شروع کر دیا جسکی وجہ سے ماحول کا سکون پہلے جیسا نہ رہا۔
البتہ یہ "تبدیلی" قابلِ برداشت تھی اور اسکے باوجود نیند کی دیوی ہم پر مہربان ہو ہی گئی۔
مگر قدرت کو ہمارا سونا منظور نہ تھا، کچی پکی نیند کو ایک بچے کی آواز نے کرچی کرچی کر دیا۔
"انکل، پانی ہے"
"ہاں ہے" میں نے اُکتائی ہوئی آواز میں جواب دیا۔
"پی لوں؟" اُسکا اگلا سوال تھا۔
"اوہ پی لے بھائی" جواب دیکرمیں نے آنکھیں دوبارہ بند کر لیں۔
لیکن پکچرابھی باقی ہے دوست۔ بچے کو ایک سوال اور پوچھنا تھا۔
"انکل گلاس کہاں ہے؟"
اتنے سوال اگر اب تک میرے اپنے بچے نے پوچھے ہوتے تو عین ممکن ہے معالمہ اسکی والدہ کی سپریم
کورٹ تک جا چُکا ہوتا اور بچے کو پانی کے بجائے سوئے ہوئے والد کو سے حتی الامکان دور رہنے پر
لیکچر مِل رہا ہوتا۔ لیکن افسوس یہ ممکن نہ تھا۔ لفافے سےگلاس نکالا اور خود ہی بھر کر اُسکی خدمت
میں پیش کیا کہ جلدی سے پیئے اور جائے۔
بچے نے پانی پیا، گلاس واپس رکھا، اور جانے سے پہلے ایک مرتبہ پھر بوُل پڑا۔
"انکل تھینک یو"۔
اس مرتبہ اُس نے ایسی بات کی تھی کہ باوجود اکتاہٹ کے مجھے مسکرانا ہی پڑا۔
"یو آر ویلکم"اب میں نے خوشدلی سے جواب دیا اور آنکھیں بند کر لیں۔
بمشکل دو منٹ گُذرے ہونگے کہ ایک اور بچہ پانی پینے آ دھمکا۔
میں نے سوچا کہ کولر انہی کو دے دیتا ہوں کہ جائو جتنا مرضی پانی پیو، جاتے ہوئے کولر لوٹا جانا۔
پانی پی کر یہ بچہ بھی "تھینک یو انکل" کہہ گیا۔
اسی طرح کچھ دیر بعد انکی ننھی بہن کو بھی پیاس لگی اور اسنے بھی آ کر پوچھا "انکل پانی پی لوں؟"
جاتے جاتے اسنے بھی "انکل تھینک یو" کی پُھلجھڑی چلائی۔
اچھی تربیت کے اثرات صاف ظاہر تھے۔
اِن بچوں کیبعد اور بھی کئی لوگ پانی پینے آئے۔ گملے بھرنے والا لڑکا، بوُڑھا مالی، اور
جوڑوں کے شکاری دو موٹرسائیکل سوار پولیس والے۔ ان سب نے پانی پیا،
لیکن بچوں جیسا تھینک یو کسی نے نہیں کہا۔
اُس روز مجھے اندازہ ہوا کہ زندگی میں شُکریہ ادا کرنے کی کیا اہمیت ہے۔
"تھینک یو"، "مہربانی"، "معذرت"، "پلیز"، کرشماتی الفاظ ہیں جو کہ اُکتائے ہوئے انسان کو بھی مُسکرانے
پر مجبور کر دیتے ہیں۔
رہا سوال میرے سونے کا، تو جناب کُچھ ہی دیر بعد موسا دھار بارش شروع ہو گئی۔
اس سے بھاگنا کُفرانِ نعمت ہوتا۔ پس ہم بارش میں خوب نہائے اور کئی مرتبہ بے اختیار منہ سے یہ الفاظ
نکلے
"تھینک یو اللہ میاں"