جمعہ، 8 اکتوبر، 2010

انسانی جسم میں پلنے والی عجوبہ چیزیں

آپ کے بدن میں کیا پرورش پا رہا ہے؟
 شاید آپکو نہ پتہ ہو لیکن۔۔۔ ہو سکتا ہے آپ کافی سارے جانداروں کی میزبانی کر رہے ہوں مثال کے طور پر سنڈیاں، پسو، مگٹ کیڑے، یا کبھی کبھار کوئی پودا۔ اور تو  اور حاملہ عورتیں جو یہ سمجھ رہی ہوتی ہیں کہ انہیں معلوم ہے انکے جسم میں کیا ہے بھی نہیں جانتیں کہ انکے پیٹ میں دراصل کیا پرورش پا رہا ہے۔ اس پوسٹ میں کچھ غیر معمولی چیزوں کا تذکرہ  ہے، جو کہ آپ میں پرورش پا سکتی ہیں۔

 پھیپھڑوں کے پودے
مساچوسٹس کا ران سویڈن پچھلے سال ہسپتال بدترین خبر کی توقع  لے کر آیا تھا۔ بیمار تو وہ کافی عرصے سے تھا، لیکن تھوڑے دنوں سے اسکی صحت مزید خراب ہو رہی تھی۔ ایکسرے کے  مطابق اسکے بائیں پھیپھڑے میں کافی بڑا سیاہ دھبا تھا، لیکن  نمونے لینے کے بعد پتہ چلا کہ کم از کم کینسر تو نہیں ہے۔ پھر جب ڈاکٹروں  نے چیر پھاڑ کی تو انہیں ملا آدھا انچ لمبا کا مٹر کا پودا، بندے کے  پھیپھڑے میں اُگا ہوا۔ شاید کوئی کچا مٹر خوراک کی بجائے سانس کی نالی میں گھس گیا  تھا، اور پھیپھڑے کے گرم مرطوب ماحول کی وجہ سے اُگ پڑا۔ ایسا کم کم ہوتا ہے، لیکن بہرحال ہو سکتا ہے بقول مارک سیگل ایسوسی ایٹ  پروفیسر نیو یارک سکول آف میڈیسن۔

مگٹ موٹل
جو لوگ کچھ عرصہ قبل کسی بارانی جنگلاتی علاقے سے ہو کر آئے ہیں  ہو سکتا ہے وہ کیڑا نوشی کا شکار ہو چکے ہوں۔ عام طور پر، بارانی جنگلاتی مکھی کسی مچھر یا سوکھنے ڈالے گئے کپڑوں پر انڈے دے جاتی ہے۔ اب جب یہ مچھر، کیڑا، یا چیز کسی بندے کی جلد سے ٹکراتا ہے تو لاروے منتقل ہو جاتے ہیں، بقول جیمز نارڈلنڈ ڈرماٹالوجی  پروفیسر رائٹ سٹیٹ سکول آف میڈیسن ڈیٹن اوہائیو۔
یہ انڈے کیڑوں جیسے لارووں عرف مگٹ کو جنم دیتے ہیں۔ جو  کہ جلد میں دبے پڑے رہتے ہیں، اور چھوٹا سا ابھار بنا دیتے ہیں۔


یہ ابھار مگٹوں کے بڑے ہونے کے ساتھ ساتھ بڑا ہوتا ہے، حتٰی کہ مگٹ ایک انچ تک لمبے ہو جاتے ہیں۔ یہ ابھار دردناک بھی ہو سکتا ہے، اور اس میں سے مواد بھی رِس سکتا ہے، اس میں کلبلاہٹ بھی ہو سکتی ہے۔ کبھی کبھار تو لاروے نظر تک آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اگر تو آپ انتظار کر سکتے ہیں تو ایک سے تین ماہ میں لاروے جلد پھاڑ کر باہر نکل آئیں گے۔ لیکن نارڈلنڈ کا کہنا ہے کہ، ویسلین لگا  کر مگٹوں کا سانس بند کریں تو انہیں جلدی بار نکلنے پر مجبور کیا  جا سکتا ہےیا ڈاکٹر کی مدد سے بھی انہیں نکالا جا سکتا ہے۔


 دماغ میں مگٹ 
جلد میں رہائش پذیر ہونے کے علاوہ، برساتی مکھیاں کبھی کبھار کان، ناک، یا آنکھ میں بھی انڈے دے جاتی ہیں۔ اور ان جگہوں پر جب انڈے سے لاروا، کیڑا، یا مکھی بننے کا مطلب ہے بڑی مصیبت۔ ڈیوڈ ایزمین کے مطابق یہ غلط فہمی ہے کہ  مگٹ صرف جسم  کے مردہ ریشے کھاتے ہیں، بلکہ یہ تو صحیح سلامت ریشوں کو بھی  صحیح سلامت کھا جاتے ہیں۔ کان کے اندر، دبے ہوئے لاروے کی وجہ سے ہو سکتا ہے بدبودار  مادہ رسے، یا بھنبھناہٹ کی آواز آئے، بقول احمد میساحل سرجن سائوتھ مانچسٹر یونیورسٹی ہسپتال انگلستان۔ وہ کہتے ہیں، ناک میں  مگٹ ہو تو ناک بند ہو سکتا ہے، ناک سے خون آ سکتا ہے، یا بدبودار مادہ رس سکتا ہے۔ خود سوچیں جس بندے کے ناک سے بدبودار مادہ رسے گا اسکی حالت کیا ہو گی، رومال رکھ کر ناک بند بھی نہیں کر سکے گا۔ البتہ سب سے خطرناک لیکن نادر صورت وہ ہوتی ہے جب بھوکا لاروا ریشے کھاتا کھاتا دماغ تک جا پہنچے، وہاں یہ خاصہ نقصان کر سکتا ہے۔آنکھ کے اردگرد، مساحل کہتے ہیں، لاروا کی وجہ سے درد، خارش، آنکھوں سے پانی بہنا، اور پپوٹوں کا سوج جانا ممکن ہے۔ اور اگر لاروا آنکھ کی گولی میں جا پہنچے تو تاخیر کی صورت میں مریض کو اندھا بھی کر سکتا ہے۔

ساحل کے شیطان
ساحل پر ننگے پائوں چلنے سے ہو سکتا ہے آپکی جلد میں کُتوں  اور بلیوں پر پائے جانے والے ننھے کیڑوں کے بچے گھس جائیں۔  اسکے بعد یہ شتونگڑے جلد کے نیچے بے مقصد گھومتے پھرتے ہیں۔ اس وجہ سے جلد پر آڑھی ترچھی خارش ہو جاتی ہے، اور ہر گھنٹے بعد تقریباً ایک سینٹی میٹر مزید پھیل جاتی ہے۔ 
سکے علاوہ ایک اور قسم کا کیڑا عام طور پر پائوں کی جلد میں گھس کر سفید رنگ  کا درمیان سے کالا ابھار بنا دیتا ہے۔ علاج کے طور پر ڈاکٹر کو جلد کاٹ کر کیڑا نکالنا پڑتا ہے۔

 فیتے جیسے کیڑے
بڑی عجیب بات ہے۔۔۔ لیکن ٹیپ ورم یا چپٹے کیڑے کی عمر بیس سال تک ہو سکتی ہے، اور اس عرصے میں اسکی لمبائی پچاس فٹ تک جا سکتی ہے۔ عام طور پر چپٹے کیڑوں کا بیج لاروے کی شکل میں خوراک کے راستے جسم میں پہنچتا ہے۔ لاروے آنتوں میں پل بڑھ کر جوان ہوتے ہیں۔ کچھ لوگوں میں انکی موجودگی کی علامات ظاہر نہیں ہوتی، لیکن کچھ لوگوں کی بھوک کم ہو جاتی ہے، وزن کم ہو جاتا ہے، بےچینی رہتی ہے، ہیضہ اور کمزوری  ہو جاتے ہیں۔
آنتوں کے کیڑوں کا علاج دوایوں سے ممکن ہے۔ البتہ اگر کسی نے چپٹے کیڑوں کے انڈے کھا لئے تو حالات کافی  خراب ہو سکتے ہیں۔ یہ انڈے آنتوں کی دیواروں سے گزر کر دورانِ خون میں شامل ہو سکتے ہیں اور نشونما پانا شروع کر دیتے ہیں۔ اسکے بعد یہ جسم میں سفر کرتے رہتے ہیں حتٰی کہ یہ کہیں جا پھنستے ہیں، اور رسولی بنا دیتے ہیں، بقول لوئیس اوسٹروسکی ایسوسی ایٹ پروفیسر میڈیسن یونیورسٹی آف ٹیکساس میڈیکل سکول ہیوسٹن۔ دھیان رہے کہ ٹیومر یا کینسر کی وجہ سے بھی رسولی ہی بنتی ہے لیکن وہ اور چیز ہے۔ جس رسولی کی میں بات کر رہا ہوں اسکی لئےسی وائے ایس ٹی سسٹ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ نتیجے کے طور پر پیدا ہونے والی علامات کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ رسولی ہے کس جگہ پر، مثلاً  دماغ میں، جو کہ خاص طور پر نازک جگہ ہے۔ اگر ایسا ہو جائے توسر درد، دماغی صلاحیت میں کمی، دورے پڑنے کی شکایت، یا موت تک واقع ہو سکتی ہے۔

 مزید بدتمیز کیڑے
چمونے جسامت میں بہت بڑے نہیں ہوتے لیکن ان میں تنگ کر  دینے کی صلاحیت وافر ہوتی ہے۔ چمونوں کے انڈے انسانی جسم میں آلودہ خوراک یا گندے ہاتھوں کے راستے پہنچتے ہیں۔ ایک  مرتبہ آپ نے کھا لئے تو یہ آنتوں میں پہنچ جاتے ہیں، وہاں ان سے بچے نکل آتے ہیں، اور جلد ہی چھیل چھبیلے نوجوان بن جاتے ہیں۔ اسکے بعد جب بندہ سوتا ہے، مادہ چمونیوں کے گروہ پوٹی والی جگہ پر اکٹھے ہو کر آس پاس کی جلد پر انڈے دے جاتی ہیں۔ کافی لوگوں میں کوئی علامات ظاہر نہیں ہوتی، لیکن کچھ کو پوٹی والی جگہ پر خارش ہوتی ہے، یا نیند ٹھیک سے نیند نہیں آتی۔ بچوں میں چمونے پڑ جانا عام بیماری ہے۔ کیونکہ چھوٹے چھوٹے انڈے تقریباً کسی بھی چیز پر چپک سکتے ہیں۔۔۔ کھلونے، تولیے،  باتھ روم، چادریں۔۔۔ اور ان جگہوں پر یہ دو ہفتے تک زندہ رہ سکتے ہیں بقول اناتولی بیلیووسکی، ماہر امراض بچگان نیویارک۔  خوش قسمتی سے اس انفیکشن کا علاج ادویات سے ممکن ہے۔ بلکہ عام طور پر بار بار ہاتھ دھونا بھی اس مصیبت سے بچا سکتا ہے۔

پیٹ میں حمل
حمل کی صحیح اور محفوظ جگہ بچہ دانی ہوتی ہے۔ البتہ تقریباً دو فیصد کیسز میں بیج کہیں اور جا پہنچتا ہے۔ زیادہ تر غلط جگہ پر ہونے والے حمل پیٹ کے فیلوپین ٹیوب نامی حصے میں ہوتے ہیں۔ کبھی کبھار البتہ یہ پیٹ کے دوسرے حصوں میں بھی پائے جاتے ہیں، ایسی صورتحال کو پیٹ کا حمل کہتے ہیں۔ ایسا حمل ماں اور بچے دونوں کے لئے بہت خطرناک ثابت ہو سکتا  ہے۔ اگر پہلے پتہ چلا جائے، تو ایسے حمل کو ادویات سے یا سرجری کر کے ساقط کر دیا جاتا ہے۔ چند مواقع پر بہرحال حمل کی مدت پوری ہونے کے بعد سیسارین آپریش کر کے ایسے بچے پیدا بھی کئے گئے ہیں۔ لیکن یہ بہت دشوار کام ہے۔ بچے کو پیٹ میں زندہ رکھنے والے دیگر لوازمات کا کچھ حصہ عام طور پر پیٹ کے اندر ہی رہ جاتا ہے، جسے کہ مکمل طور پر صاف کرنا ممکن نہیں ہوتا۔

یہ تحریرایم ایس این ہیلتھ کے درج ذیل آرٹیکل کا ترجمہ ہے
 http://health.msn.com/health-topics/slideshow.aspx?cp-documentid=100264049&imageindex=1

2 تبصرے:

کھلے دِل سے رائے دیں، البتہ کھلم کھلی بدتمیزی پر مشتمل کمنٹ کو اڑانا میرا حق ہے۔

Pak Urdu Installer

Pak Urdu Installer