ہفتہ، 26 مارچ، 2011

کرماں والی کھوتی


ایک تھا دیہاتی، کسی پیر صاحب کے دربار پر خدمتگار۔ کئی سالوں تک اس نے بابا جی کی خدمت کی، پھر ایک روز ان سے اپنے گھر واپس جا کر ماں باپ سے مِلنے کو چھٹی کی درخواست کی۔ بابا جی نے فراخ دِلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف مرید کو چھٹی عنایت فرما دی بلکہ سفر میں سپھلتا کے لئے ایک عدد کھوتی بھی ہمراہ کر دی۔ اردو دانو تلملائو مت، مجھے پتہ ہے کھوتی کو اردو میں گدھی کہتے ہیں لیکن میں نے پوری تحریر میں کھوتی ہی لکھنا ہے۔
بندہ اللہ کا چل پڑا، اللہ کا نام لے کر۔ گئے زمانوں میں سفرکوئی آسان کام نہیں ہوتا تھا، مرید دن بھر سفر کرتا اور جہاں کہیں رات آتی جیسے تیسے بسر کر لیتا۔ اسی دوران کھوتی کی طبعییت ناسار رہنا شروع ہو گئی، لیکن مرید نے پرواہ نہ کی اور دے مار ساڈھے چار سفر جاری رکھا۔ بالآخر ایک صبح جب مرید سو کر جاگا تو اسکی پیاری کھوتی دنیا و مافیہا سے بے خبر اوندھی پڑی تھی۔ مری ہوئی کھوتی کی لاش کو دیکھ کر، اوہو مری ہوئی تو آلریڈی لاش ہوتی ہے میرا مطلب ہے کہ کھوتی کی لاش کو دیکھ کر مسافر مرید کو بڑا افسوس ہوا۔ اس نے سوچا کہ یہ وقت تو ساتھ نبھانے کا تھا، لیکن بھلی لوک داغ مفارقت دے گئی۔ خیر کفن تو کھوتیوں کا کوئی کرتا نہیں، اس نے قبر کھودی اور مرحومہ کو دفن کر دیا۔ لیکن خالی خولی دفن کرنے سے اسکے دِل کو تسلی نہ ہوئی، تو اس نے بازار سے پھولوں کی پتیاں خریدیں اور قبر پر نچھاور کر دیں۔ آخر کو یہ کھوتی اسکے پیر صاحب کی نشانی بھی تھی۔
مسافر مرید نے دوبارہ سفر کا آغاز کرنا چاہا لیکن جو بوجھ کھوتی بانٹ رہی تھی اس سے گھسیٹا نہ گیا، سو وہ منہ بنا کر قبر کے سرہانے بیٹھ گیا۔ اسی اثنا میں سورج سر پر آ گیا، اور شاہراہ پر لوگوں کی آمد و رفت شروع ہو گئی۔ ذرا دیر اور گزری تو نزدیکی قصبے کی چند ادھیڑ عمر عورتوں کا ادھر سے گزر ہوا۔ قبر اور قبر کے ساتھ بیٹھے باریش خستہ حال مرید کو دیکھ کر وہ سمجھ گئیں کہ کوئی جینوئن بابا جی ہی دفن ہیں۔ خاموشی سے آ کر جو کلمہ کلام آتا تھا پڑھا، پڑھ کر قبر کے مدفون بزرگ کی ملت کر دیا۔ قبر کے مجاور سے بھی گزارش کی کہ نیک مقاصد کے حصول کے لئے خصوصی دعا فرما دیں۔ ایک بی بی کے پاس سیب تھے، اس نے دو چونمے سے لال سرخ سیب بابا جی کی خدمت میں پیش کر دیئے۔ ایک آدھی نے نیک مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے، یا شاید خریدنے کے لئے نقد و نقد ڈیلنگ یعنی کہ کیش پے منٹ کر دی۔ جدید زمانہ ہوتا تو شاید کریڈٹ کارڈ استعمال کر لیتی، یا بابا جی کے موبائل فون میں ایزی لوڈ ہی کروا دیتی۔ جو بے زر تھیں بابا جی کے گھٹنوں کو ہاتھ لگا کر، اور قبر کی مٹی کو چوم کر شرمندہ شرمندہ ایک طرف ہو لیں۔
اس ساری کارروائی کے دوران چند ٹھرکی بڈھوں کا دربار شریف کے پاس سے گزر ہوا، عجز و نیاز کے شیرے میں لتھڑی ہوئی بڈھیاں دیکھ کر بابوں پر بھی وجد طاری ہو گیا۔ یہ لوگ بھی قبر کے پاس ایک طرف دو زانو ہو کر بیٹھ گئے اور ہونٹ ہلانا شروع کر دیئے، تاکہ لوگ سمجھیں کہ مرحوم بابا جی کی روح کو ایصال ثواب وغیرہ کر رہے ہیں۔ پڑھنا بخشنا کیا تھا، ٹولی میں موجود فربہ بھربھری زنانیوں پر سے نظر یں ہی نہیں ہٹتی تھیں۔
مرید مسافر، جو کہانی کہ اس مقام تک آتی آتی مجاور ہو چکا تھا بھی بڑا گھاگ انسان تھا۔ آخر کو اس نے بھی اتنے سال پیر صاحب کی خدمت میں گزارے تھے، "کام" کی کافی سدھ بدھ اسے بھی تھی۔ اسے یہاں اپنا کیریئر بنتا ہوا صاف دکھائی دے رہا تھا۔ پیر صاحب کے جلوے تو اسکے ذہن میں پہلے سے ہی نقش تھے، فی الحال انہی کی یاد تازہ کر کے پیر صاحب کی طرح اداکاری شروع کر دی۔ آنے والے دِنوں میں اس نے اپنا ایک یونیک سٹائل ڈویلپ کر لیا، اور اس "پروفیشن" میں بڑا نام کمایا۔ دھیرے دھیرے لوگوں کی ریل پیل شروع ہو گئی، لوگ آتے بابا جی انکو کچھ پڑھنے کو اور کچھ کرنے کو بتاتے دیتے۔ جن کا کام اللہ ولوں ہو جاتا انہوں نے بابا جی کی بارگاہ میں آ کر دھمالیں ڈالنی، اور دیگیں بانٹنی شروع کر دیں۔ ہولے ہولے دربار کا احاطہ اور کھاتہ دونوں وسیع ہوتے چلے گئے۔ جن کا کام نہیں ہوتا تھا، انکو بابا جی نیک عمل کرنے، اور برائیوں سے بچنے کی تلقین فرماتے، مزید کچھ عملیات برائے دفع بلیات تجویز فرماتے خاص طور پر اپنے آپ کو ٹھیک کر کے عملیات پوری توجہ سے کرنے کو بھی کہتے۔
دِن ہفتے اور مہینے گزرے، بابا جی نے وِد دی پیسج آف ٹائم باقاعدہ مارکیٹنگ ٹیم تشکیل دے لی۔ اس ٹیم کے افراد عوام الناس کو بابا جی کی کرامات کا حال سناتے، بابا جی کا شجرہ نصب بتاتے، دربار شریف کے مدفون بزرگوں کی چلہ کشی کا حال بیان کرتے۔ ادھر استاد پیر صاحب کو اپنے چہیتے مرید کی یاد نے ستایا، یا عین ممکن ہے سفر پر کسٹوڈین بنا کر بھیجی اپنی کھوتی کی یاد نے ہی آن ستایا ہو کوئی پتہ تھوڑی لگتا ہے۔ استاد جی ڈھونڈھتے ڈھونڈتے بالآخر مرید مسافر مجاور کے دربار شریف تک آن پہنچے۔
استاد جی کو آتا دیکھ کر شاگرد مجاور جو کہ اب بذات خود مدظلہ علیہ، دامت براکتہ وغیرہ ہو چکے تھے اپنی گدی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور استاد جی کا پر تپاک استقبال کیا۔ پھر مریدین و حاضرین سے تخلیہ کی گزارش کی۔ جب سب لوگ چلے گئے تو استاد نے بے تابی سے پوچھا، " میرے مرید آخر تو کس بابے کا مجاور ہو گیا ہے، کون ہے وہ عظم ہستی جس نے یہاں دفن ہو کر تیرے وارے نیارے کر دیئے ہیں؟" ۔ مرید کے پیر صاحب سے اچھے تعلقات تھے، اس لئے اس نے انہیں سچ بتا دیا کہ حضور جو کھوتی شریف آپ نے ہمراہ کی تھی، وہی وفات پر کر یہاں دفن ہے۔
یہ سن کر پیر صاحب دھیمے سے مسکرائے اور بولے
بڑی کرماں والی کھوتی سی، ماں ایہدی میرے کولے دفن وے تے ایہنے ایتھے رونقاں لایاں ہویاں نیں۔
اردو: بڑی برکتوں والی گدھی تھی، ماں اسکی میرے پاس دفن ہے اور اس نےیہاں رونقیں لگائی ہوئی ہیں۔

جمعہ، 18 مارچ، 2011

پاکستان تحریک انصاف کی ریمنڈ ڈیوس رہائی پر احتجاجی ریلی میں عوامی نعرے

اپڈیٹ: یہ پوسٹ آنلائن آنے سے اسوقت تک تقریباً بارہ گھنٹے میں ایک سو چھیالیس  ہٹس ہو چکی ہیں، میرے لئے کافی خوشی کی بات ہے۔  جن دوستوں نے فیس بک پر لنک شیئر کیا ہے میں انکا تہہ دِل سے مشکور ہوں۔
میں آج پاکستان تحریک انصاف کی ریلی میں گیا ہوا تھا۔ یہ ریلی مال روڈ پر بعد نماز جمعہ مسجد شہداءسے شروع ہوئی۔ بعد میں جماعت اسلامی اور جماعت الدعوہ والے بھی شامل ہو گئے، اور تینوں جماعتوں کے راہنمائوں نے ایک ہی ٹرالر پر کھڑے ہو کر تقریریں بھی کیں۔ میرے خیال سے تین ایک ہزار بندے موجود تھے۔ ریلی میں گو امریکہ گو کے علاوہ اور بھی کئی دلچسپ جذباتی پیغامات دیکھنے کو مِلے۔ اس پوسٹ کا مقصد ان پیغامات کو پاکستان اور بیرون ملک پاکستانیوں تک پہنچانا ہے۔


چند نامعلوم نوجوان۔ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی، مار لو گولی، بس بعد میں ویزے اور ڈالر دے دینا۔ باپ، بھائی، بہنیں، بچے، جسے دِل چاہے مارو، لیکن بس پیسے پورے دینا۔


جسے مرضی مارے، استثنٰی حاصل ہے

PTI_Rally_Raymond_Davis_2011_we-know-50-empress-rd


پچاس ایمپریس روڈ، جہاں ریمڈ ڈیول کو رکھا گیا تھا۔



جو لوگ ہمارے ملک کے شہری ہی نہیں ہیں، انکو کیا تکلیف ہے ہماری؟ ہم مریں یا جئیں انکا تو صرف ایک بریف کیس پاکستان میں ہوتا ہے، جونہی حالات قابو سے باہر ہوئے انہوں نے مالِ غنیمت سمیٹنا ہے اور بھاگ جانا ہے۔
PTI_Rally_Raymond_Davis_Protest-2011


یا ساڈی جان چھڈ دئو، یا سانوں گولیاں نا مارو۔۔۔


PTI_Rally_Raymond_Davis_Protest-2011


ہاں جی، اس سوال کا جواب تو کوئی نہیں دے گا۔ عین ممکن ہے یہ سوال پوچھنے والے گستاخ پر غداری کا مقدمہ بنا دیا جائے۔

PTI_Rally_Raymond_Davis_Protest-2011



PTI_Rally_Raymond_Davis_2011_killer


PTI_Rally_Raymond_Davis_2011_leave-us-or-dont-kill-us


PTI_Rally_Raymond_Davis_2011_nawaz-sharif-kids


وہی سوال، ایک مختلف زاویے سے۔۔۔

PTI_Rally_Raymond_Davis_2011_Pakistinai-blood-why-so-cheap


بھکاریوں، کٹھ پتلیوں، اور کرائے کے قاتلوں کا خون سستا ہی ہوتا ہے۔

PTI_Rally_Raymond_Davis_2011_stop-topi-drama


ٹوپی ڈرامے تو پاکستان بننے سے پہلے بھی چل رہے تھے، پاکستان بننے کے بعد بھی چلتے رہے، اور مجھے نہیں لگتا اتنی آسانی سے جان چھوڑیں گے۔


یہی تحریر میرے انگریزی بلاگ پر بھی موجود ہے

http://iexhaust.blogspot.com/2011/03/pti-rally-against-gop-setting-raymond.html 

جمعرات، 17 مارچ، 2011

لاہور میں ایل ڈی کا ناجائز تجاوزات صفائی پروگرام

 کل دوپہر جب الفتح سے واپس آ رہا تھا تو مین فردوس مارکیٹ میں یہ بڑا سا تباہ کن بلڈوزر نظر آیا۔
LDA-Bulldozer-Firdosmarket-2011
لاہوری بھائی سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ بلا اس پلازے کے سامنے میاں شہباز شریف کے بیڑہ غرقی پروگرام کے سلسلےمیں آیا ہے۔ ساتھ میں ملبo اٹھانے کے لئے ٹرک، اور سیکورٹی کے لئے پلس بھی موجود تھی۔ اس پلازے کا نام خان آرکیڈ ہے، کوئی ڈیڑھ دو سال پہلے بھی اس پلازے کے سامنے سے ناجائز طور پر تعمیر شدہ بیسمنٹ کی دوکانیں حکومت پنجاب نے کارروائی کر کے گرائی تھیں۔ وہ منظر زیادہ دلدوز تھا، بالکل کسی فلمی منظر کی طرح۔ دو بڑی بڑی کرینیں دھڑا دھڑ سڑک پر ہتھوڑے برسائے جا رہی ہیں اور خلق خدا دیکھے جا رہی ہے۔ تب پلازے کے مالک نے سائنسدانی کی انتہا کر دی تھی، اللہ کے بندے نے سڑے کے نیچے بیسمنٹ بنا کھود کر دوکانیں بنا کر کرائے پر چڑھا دی تھیں، ہے کوئی گل کرنے والی۔
اس مرتبہ میں خیال میں صرف سیڑھیاں ہی گرانے آئے ہیں۔
LDA-Bulldozer-Far-2011

وہی بلا، ایک اور زاویے سے، ماشاءاللہ ہماری عوام کو بھی بس کوئی بہانہ مل جائے ہجوم در ہجوم اکٹھے ہو جاتے ہیں تماشہ دیکھنے۔
security-Police-LDA-In-Action

قانون کے محافظ، سیکورٹی مہیا کرتے ہوئے۔

LDA-Destruction-Firdos-market-2011

یہ آخری تصویر فردوس مارکیٹ کے اندر ماڈل کالونی کی ہے۔ اوپر والے مناظر دیکھ کے میں گھر آیا، گھنٹے سارے بعد تیار ہو سہ پہر کو دفتر جانے کے لئے نکلا تو جناب بازار میں یہ بھگدڑ مچی ہوئی تھی۔ یہ ایک ہوٹل والا غریب اپنا ٹین ڈبا سنبھال رہا ہے۔
ریمنڈ ڈیوس کو تو چھوڑ دیا۔۔۔ لیکن غریبوں کی ماں کی آنکھ۔۔۔ ہیں جی۔۔۔ کیا مجال ہے کسی کی جو ناجائز تجاوزات بنائے۔۔۔
اچھا اب لیپ ٹاپ بند ہونے والا ہے، اسکی پاور کیبل دفتر میں ہی بھول آیا ہوں۔ 
اس لئے۔۔۔ گڈ نائٹ۔۔۔

Pak Urdu Installer

Pak Urdu Installer