اتوار، 29 مارچ، 2015

اکیسویں صدی میں سائنس اور ادب، تضاد کہاں


"
ا گر آپ کمپیوٹر چلا لیتے ہیں اور اس پر انٹرنیٹ استعمال کر لیتے ہیں تو یہ آپکو ہنرمند بناتا ہے، مفکر نہیں بناتا۔" ڈاکٹر عالیہ امام

ممتاز دانشور، معلمہ، اور مصنفہ ڈاکٹر عالیہ امام آجکل کینیڈا سے پاکستان تشریف لائی ہوئی ہیں۔ ہفتہ 28 مارچ دو ہزار پندرہ کی شام انکی کتاب کی تقریب رونمائی پاکستان اکادمی ادبیات میں منعقد ہوئی۔ تقریب میں کئی ممتاز سکالرز نے شرکت کی۔

اکادمی ادبیات کے چیئرمین ڈاکٹر قاسم بگھیو، ڈاکٹر عالیہ امام اور دیگر دانشور جلوہ افروز ہیں۔ جناح کیپ والے ڈاکٹر صاحب مہمان خصوصی تھے، انکے ساتھ دائیں جانب ڈاکٹر جعفری صاحب فلسفہ اور ادب میں دو ڈاکٹریٹ رکھتے ہیں، اور انکے ساتھ "میں نے پاکستان بنتے دیکھا" کتاب کے مصنف۔ ان احباب کے نام میں یاد نہیں رکھ سکا اور کاغذ قلم کی عدم دستیابی کی وجہ سے لکھ بھی سکا۔
تقریب میں ایک نوجوان طالبہ بھی موجود تھیں جو کہ ڈاکٹر صاحبہ پر تحقیقی مقالہ لکھ رہی ہیں۔



فیض احمد فیضؔ نے ڈاکٹر صاحبہ کو بلبلِ پاکستان کا خطاب دیا تھا۔

فہرست مضامین


Pakistan Academy of Letters
مجھے دعوت نامہ واٹس ایپ پر بھیجا گیا، میں نے اسکا اردو ترجہ لفظ بلفظ کیا اور "پاکستان اکیڈمی برائے خطوط" کا بورڈ ڈھونڈتا رہا۔ وہ تو بعد میں پتہ چلا کہ اردو  نام "اکادمی ادبیات پاکستان" بنتا ہے۔ 

مرزا غالبؔ، اقبالؔ، اور فیض احمد فیضؔ اردو زبان کے درخشاں ستارے۔

جوشؔ، کاظمیؔ، اور نیازیؔ۔

اکادمی کی دیواروں پر اردو شاعروں اور ادیبوں کے لاتعداد پورٹریٹ موجود ہیں اسکے علاوہ کئی علاقائی شعراء و ادبا بھی زینتِ دیوار بنے نظر آتے ہیں۔

رائٹرز ہائوس اور حلقہ ارباب ذوق اسلام آباد


اکادمی کی بلڈنگ میں رائٹرز ہائوس اور رائٹرز کیفے بھی موجود ہیں۔ 
اس کیفے میں ہر جمعے کی شام سات بجے حلقہ ارباب ذوق اسلام آباد کا تنقیدی اجلاس ہوتا ہے۔
میرا المیہ یہ ہے کہ اتوار کو میں راولپنڈی اسلام آباد میں ہوتا ہوں، اور لاہور کے حلقہ اربابِ ذوق کا جلسہ گزر جاتا ہے۔ جمعہ کو میں لاہور میں ہوتا ہوں تو اسلام آباد کا اجلاس ہو جاتا ہے۔

اس تقریب میں بہرحال ڈاکٹر جعفری اور ڈاکٹر عالیہ کو سن کر لطف آیا۔ اسقدر ضعیف دکھنے والی خاتون سے ایسی گھن گرج کا مظاہرہ متوقع نہ تھا۔ پورے اعتماد کے ساتھ بہت خوبصورت زبان میں بولتی ہیں اور بہترین مقررہ ہیں۔

بدھ، 25 مارچ، 2015

بٹوے کی واپسی - بھلے لوگ آج بھی موجود ہیں


شام کا وقت تھا اور ہلکی ہلی بوندا باندی ہو رہی تھی۔ آفس چیئر مہران کی ڈگی میں رکھنا تھی میں نے کرسی کو جھٹکے سے سر کے اوپر رکھا اور بائیں جیب میں سے چابی نکال کر ڈگی کھولی۔ کرسی اندر رکھ کر ایڈجسٹ کر دی۔ اتنی دیر میں ڈاکٹر زبیر باقی سامان بھی لے کر آ گیا جسے ہم نے کرسی کے ساتھ ہی رکھ دیا۔ 
کمرشل مارکیٹ والے برسا مال کے سامنے گاڑی کھڑی تو یاد آیا کہ چاندنی چوک والی اے ٹی ایم سے پیسے تو نکلوائے ہی نہیں، یہ سوچ کر کوفت ہوئی کہ دوبارہ چکر لگے گا۔
 لیکن میرا بٹوہ کہاں ہے؟ گاڑی کا ڈیش بورڈ دیکھا، سیٹوں کے نیچے جھانکا، کرسی کے پاس دیکھا مگر بٹوہ ندارد۔
"وہیں گرا ہو گا جہاں کرسی لوڈ کی تھی" 
یہ سوچتے ہی میں نے گاڑی واپس مڈ سٹی مال کی طرف بھگا دی۔ وہاں بھی کافی چھان پھٹک کی، جس دفتر سے سامان اٹھایا تھا ادھر بھی دیکھ لیا۔ پلازہ کے گارڈ اور منیجر وغیرہ نے بھی پورا تعاون کیا۔ ایک گارڈ نے تو پانی کی چھپڑی میں بھی ہاتھ مار لیا کہ چلو بعد میں دھو لوں گا۔
بٹوہ نہ ملا، آٹھ ہزار سات سو کچھ روپے نقد، شناختی کارڈ، اور اے ٹی ایم کارڈ کا نقصان خاصہ تکلیف دہ تھا۔
اگلی صبح میں لاہور واپس آ گیا۔ 

ٹیلیفون بجتا ہے

"ہیلو، نعیم اکرم پئے بولنے او"
میں نے اس پہلے کشمیری لہجہ نہیں سنا تھا، میں سمجھا کوئی پوٹھواری آدمی ہے۔ ان صاحب نے میرا حدود اربعہ وغیرہ پوچھا۔ مجھے شک ہو گیا کہ انکو میرا بٹوہ مل گیا ہے۔ میرے پوچھنے پر الٹا سوال آیا کہ بٹوے میں تھا کیا کچھ؟
میں نے چیزوں کی تفصیل بتادی۔ 
"ٹھیک اے، آ کے لے جائو۔"
"لیکن میں تو لاہور میں ہوں، اپنے کزن کو بھیجتا ہوں اسے دے دیں۔"
"نہیں بھائی آپکی چیز ہے، آپکو ہی دونگا۔"
"چلیں کوئی فکر کی بات نہیں، آپ اپنے پاس امانت کر کے رکھ لیں میں اگلے ہفتے آ کر لے لونگا۔ آپ نے کھانا ہوتا تو مجھے فون ہی کیوں کرتے۔"۔
"ہلا ٹھیک اے۔"
میں نے فون نمبر اور نام وغیرہ پوچھ کر نوٹ کر لئے، اور فون بند ہو گیا۔
دفتر آ کے میں نے کافی ساتھیوں کو حیرت کے ساتھ یہ بات بتائی۔


اسکی نیت کبھی بھی خراب ہو سکتی ہے

ایک ساتھی نے اس خیال کا اظہار کیا اور ساتھ ہی ایک واقعہ بھی سنا دیا جب اسکی کسی کزن کا فون گم ہوا تھا۔ جسے فون ملا تھا اس نے پہلے تو کہا کہ آ کر فون لے جائیں، جب یہ لوگ فون لینے گئے تو دوسرا بندہ فون دینے نہ آیا۔ اسے فون کیا تو نمبر بند۔
میرا نقطہ نظر یہ تھا کہ میں سوائے مثبت سوچ رکھنے کے اور کچھ نہیں کر سکتا۔

احتیاط کا دامن، شک کا سانپ

اپنی چیزیں لینے اکیلے جانا غیر محفوظ ہوگا۔ کیا پتہ آگے چار بندے بیٹھے ہوں، جو کچھ میرے پاس ہو وہ بھی لے لیں۔  گھٹیا بات معلوم ہو گی، لیکن احتیاط لازم ہے۔
دوسرا خیال یہ آیا کہ کارڈ وغیرہ وقتی طور پر بند کروا دیتا ہوں کہیں کوئی غلط استعمال نہ ہو۔ پھر سوچا کہ رہنے دو کچھ نہیں ہوتا۔
ویسے بہتر ہوتا اگر بند کروا ہی دیتا، برے وقت کا کوئی پتہ نہیں ہوتا۔

ہفتہ اکیس مارچ، موبائل سروس بند

میں راولپنڈی تو پہنچ گیا، لیکن تئیس مارچ پریڈ کی فل ڈریس ریہرسل کی وجہ سے شہر میں موبائل سروس بند تھی۔ دوپہر دو بجے تک کافی کوشش کی لیکن بات نہ ہو پائی۔
دو بجے شہزاد صاحب سے بات ہوئی تو پتہ چلا کہ وہ تو راولا کوٹ آزاد کشمیر میں ہیں۔ میرا بٹوہ اور کارڈ وغیرہ پنڈی میں ہی اپنے چھوٹے بھائی کے حوالے کر کے گئے ہیں، نقدی البتہ انکے اپنے پاس ہے۔


صدر پوڑھی پل، العمر ہوٹل

میں اور ڈاکٹر زبیر فوری طور پر صدر کے لئے نکل کھڑے ہوئے۔ اس علاقے میں کشمیری برادری کے بہت سارے ہوٹل ہیں جن کے مالکان اور عملہ وغیرہ زیادہ تر کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں۔ 
لڑکا تو ہوٹل پر نہیں تھا، لیکن اسنے کائونٹر پر بیٹھے ہوئے بندے سے بات کروانے کو کہا۔
اس بندے نے بات سن کر مجھ سے دو ایک سوال کئے اور پھر مجھے بٹوہ دے دیا۔ بٹوے میں میرے تمام کارڈ وغیرہ موجود تھے جنہیں دیکھ کر میری جان میں جان آئی۔


لیکن کیش کا کیا ہوا؟

بٹوہ واپس لینے سے اگلے دن مجھے شہزاد صاحب کا فون آیا، میں نے بتایا کہ بٹوہ مل گیا ہے۔ کہنے لگے کہ پیسے میرے پاس ہیں اور وہ میں آپکوچند دن تک پنڈی واپس آ کر دے دوں گا۔ 
بھلے مانس آدمی شہزاد صاحب راولا کوٹ سے آگے تولی پیر کے علاقے بیٹھک کے رہنے والے ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ کیش بھی مجھے واپس مل ہی جائیگا۔


نتیجہ

ہمارا معاشرہ بالکل دودھ کا دھلا نہ سہی، لیکن اچھے لوگ پھر بھی موجود ہیں۔ بہت سی بری باتیں برے لوگوں نے پھیلائی ہوئی ہیں۔ مثال کے طور پر "چوروں کو تالے اور ٹریکر کیا کہتے ہیں؟" چوروں کا پھیلایا ہوا فقرہ ہے۔  "اس ملک کا کچھ نہیں ہو سکتا" وہ کہتے ہیں جو اس ملک کا کچھ ہونا نہیں دیکھنا چاہتے۔ 

جمعرات، 19 مارچ، 2015

لاہور میں سبزیوں کی پنیری اور بیج کہاں سے ملیں گے؟ سبزیاں اگانے کا موسم ہے


بہت سے احباب پوچھتے ہیں کہ لاہور میں سبزیوں کے بیج اور پنیری وغیرہ کہاں سے ملے گی۔ میں نے حال ہی میں ایک  جگہ دریافت کی ہے۔ خیال رہے کہ مصنف کا آرائیں زرعی کارپوریشن سے کوئی ذاتی مفاد ہرگز وابستہ نہیں ہے۔

کوٹ لکھپت پرانی سبزی منڈی

ارفع کریم آئی ٹی ٹاور کی بغل میں واقع کوٹ لکھپت کی پرانی سبزی منڈی میں فیروز پور روڈ والی سائیڈ پر "آرائیں زرعی کارپوریشن" نامی دوکان والوں کے پاس ابھی بھی پنیریاں اور بیج موجود ہیں۔
تصویر میں ارفع ٹاور کی پرشکوہ بلڈنگ کے ساتھ متذکرہ بالا دوکان بھی دکھائی دے رہی ہے۔



آج کل دستیاب سبزی کی پنیری

ٹماٹر
ہری مرچ
بینگن
بند گوبھی

میں نے اس دوکان سے ٹماٹر ہری مرچ کے علاوہ پانچ کلو کھاد اور کھرپا وغیرہ بھی خریدا۔ انکے پاس پلاسٹک کے گملے بھی ہوتے ہیں لیکن وہ اُس دن تھے نہیں۔ مٹی وغیرہ یہاں دستیاب نہیں ہوتی۔ میں نے مٹی ماڈل ٹائون میں نرسری سے خریدی۔
کلمہ چوک میں بھی نرسریاں مٹی گملے وغیرہ بیچ رہی ہیں۔ 
بلکہ یوں کہنا بہتر ہوگا کہ میں نے چار عدد گملے خریدے جنکے ساتھ مٹی نرسری والوں نے مفت دے دی۔

گملے کی قیمت کتنی تھی؟ ایک سو اسی روپیہ فی گملہ۔
سبزیاں کتنی مہنگی تھیں؟ چوبیس روپے کی چار مرچیں اور چار ٹماٹر۔
کھاد کی قیمت؟ ایک سو روپے کی پانچ کلو، چار سے پانچ بڑے گملوں کے لئے کافی ہو گی۔



کیا آپ گھٹیا ٹی وی ٹالک شوز اور نقلی بریکنگ نیوز سے تنگ آ چکے ہیں؟

 آج ہی پودے لگائیں، صحت بخش مفت سبزیاں کھائیں

 سُستی چھوڑیں اور آج ہی اپنے گھر کی چھت یا بالکونی وغیرہ میں چند گملوں میں سبزیاں لگانے کا چارہ کریں۔
اپنے پودوں کو پھلتا پھولتا دیکھ کر آپکی خوشی میں اضافہ اور پریشانی میں کمی ہو گی۔
اسکے علاوہ، 
آپ لوگوں سے "سیاہ ست" کے علاوہ بھی کسی موضوع پر بات کرنے کے قابل ہوں گے۔
جیسا کہ میں اپنی نئی ملازمت پر بہت سار لوگوں سے فقط ان گملوں کی وجہ سے متعارف ہوا ہوں۔ ان میں ہماری کمپنی کے صدر صاحب تک شامل ہیں جن سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا۔




یہ گملے ہمارے دفتر کے کیفے ٹیریا میں پڑے ہیں

یہاں انکو لگ بھگ دو گھنٹے براہ راست دھوپ ملتی ہے اور باقی دن کافی روشنی ہوتی ہے۔

سبزیوں کو روزانہ پانی نہیں ڈالا جاتا، پودوں کی جڑیں گل جاتی ہیں اسلئے ایک دن چھوڑ کر ایک دن بعد پانی لگائیں۔
تصویر میں دکھائے گئے گملے کے لئے دو سے تین گلاس پانی کافی ہوتا ہے۔
اگر آپ ہفتے دس دن میں پودے لگا لیں گے تو مئی کے پہلے دوسرے ہفتے میں پھل پھول لگنے شروع ہو جائیں گے۔ اور عنقریب آپکو صاف ستھری، تازہ اور مفت سبزیاں دستیاب ہوں گی۔

 آج ہی پودے لگائیں، صحت بخش مفت سبزیاں کھائیں




میرے ٹیک بلاگ کا لنک

منگل، 17 مارچ، 2015

آلو کی فصل آ گئی، گملوں میں کاشت کا تجربہ کامیاب




یہ آلو میں نے چودہ نومبر دو ہزار چودہ کو لگائے تھے۔
ایک رنگ والی دس لیٹر کی بالٹی میں، ایک سبزی والی درمیانی ٹوکری میں، اور ایک چھوٹے گملے میں مٹی وغیرہ ڈال کر۔
تمام کنٹینر چھت پر پڑے ہوئے تھے۔


یہ پودے مجھے بہت پسند تھے، انکے بارے میں میں نے نیچے دکھائی گئی ویڈیو میں کافی بات کی ہے۔


My Roof Top Urban Kitchen Garden in Rawalpindi, Pakistan from Naeem Akram on Vimeo.

مٹی کی صحیح قسم

میں نے غلطی سے گملوں میں چکنی مٹی بھر دی، دراصل اسوقت مجھے دستیاب ہی چکنی مٹی تھی۔ یہ مٹی ذرا سی خشک ہو تو بہت سخت ہو جاتی ہے اور اسی لئے پرانے وقتوں میں مکان، برتن وغیرہ بنانے کے کام آتی تھی۔
جب آپ آلو لگائیں تو کوشش کریں کہ مٹی میں تھوڑی سی ریت بھی مکس کر لیں، یہی کوئی دوس پندرہ فیصد۔  نرم مٹٰی میں آلوئوں کو پھولنے پھلنے کا موقع ملتا ہے۔ بہت زیادہ ریت میں البتہ غذائی اجزا کی کمی ہوتی ہے اسلئے وہ نقصاندہ ہوگی۔

آلو کب لگائے جاتے ہیں؟

ہمارے یہاں آلو نومبر میں لگائے جاتے ہیں۔ انکی فصل ڈھائی تین ماہ میں تیار ہو جاتی ہے یعنی کہ فروری مارچ میں۔

کیا میں لاہور یا کراچی میں بھی یہ کام کر سکتا ہوں؟

جی ہاں بالکل، بس اتنا خیال رہے کہ سبزیوں کو پھلنے پھولنے کے لئے لگ بھگ آٹھ گھنٹے سورج کی روشنی درکار ہوتی ہے۔

مزید معلومات کے لئے بلاجھجک کمنٹ کریں۔ ای میل وغیرہ پر رابطے میں بھی کوئی حرج نہیں۔
والسلام، نعیم اکرم۔
سترہ مارچ، دوہزار پندرہ۔

جمعرات، 12 مارچ، 2015

ویلیو ایڈڈ سروس کی مثال کالٹیکس سے موبل آئل تبدیل کروانے کا اچھا تجربہ


ایک بجے سے دو بجے تک لنچ بریک ہوتی ہے، سوچا کھانا کھانے سے پہلے گاڑی کا موبل آئل تبدیل کروا لیا جائے۔ میرا دفتر لنک روڈ میٹرو والی بلڈنگ میں ہے اور باہر احاطے میں گارڈ والوں کا شیڈ موجود ہے۔ لیکن جب وہاں پہنچا تو پہلے ہی کافی رش تھا۔
سوچا چلو پھر کسی دن سہی، پیکو روڈ والی گورمے بیکری کی طرف پانی خریدنے نکل گیا۔ میٹرو کے سامنے والے گورمے پر پانی دستیاب نہیں تھا۔ یہاں میری نظر سڑک کی دوسری جانب کالٹیکس کی موبل آئل شاپ پر پڑی۔ موبائل پر ٹائم دیکھا تو ابھی بریک کا پونا گھنٹا باقی تھا سو میں نے سڑک پار کر لی۔


ویلیو ایڈیشن

ٹشو پیپر کا ڈبہ، لسٹرکی دو پڑیاں، اور گاڑی صاف کرنیوالا کپڑا۔ اسکے علاوہ سٹاف نے بڑی تمیز سے چائے پانی بھی پوچھا ۔ 
گاڑی کی ہوا پوری کر دی، گاڑی پر کپڑا مار دیا۔


یہ سٹکر ہمیں یاد دلائے گا کہ گاڑی کا موبل آئل دوبارہ کب تبدیل ہونا ہے۔


مزید لکھنا چاہتا ہوں لیکن بتی جانے والی ہے، یہاں بیک اپ پاور نہیں ہے۔ گیم پروگرامنگ سیریز کا اگلا آرٹیکل بھی لکھنا ہے۔ میں آجکل تمام سوشل میڈیا اور بلاگنگ وغیرہ کا شغل فجر کی نماز کے بعد دفتر جانے سے پہلے کرتا ہوں۔
یا پھر شام کو دفتر سے واپس آنے کے بعد۔ دفتر میں یہ چیزیں وقت کے زیاں کا باعث بن کر ترقی میں رکاوٹ کی صورت اختیار کر جاتی ہیں۔ 
چند ہفتے پہلے تک نیند خراب ہونے کا تلخ تجربہ ہو چکا ہے اسلئے آجکل دس بجے بتی بند اور بندہ سلیپر شد۔
آخر میں اس منظر کی فوٹو جسے دیکھ کر ہر پٹرول پمپ وزٹ پر میرا دِل باغ باغ ہو جاتا ہے۔


خوش رہیں، والسلام نعیم اکرم۔

جمعہ، 6 مارچ، 2015

اقوالِ زریں وال پیپر


کافی دن ہوئے کچھ لکھا نہیں۔ البتہ ایک علیحدہ پراجیکٹ کے طور پر ماٹیویشنل اقوال زریں ٹویٹر پر ڈال رہا ہوں۔ دو چار دن بعد ایک آدھا وال پیپر بنا رہا ہوں۔ آنے والے دنوں میں ہفتہ وار دو وال پیپر بنانے کا ارادہ ہے۔ اسکے علاوہ یہ اکائونٹ آٹو  پائلٹ پر چلا کریگا۔ یہاں مختلف گیلریز بنا کر رکھنے کا ارادہ ہے، لاکھ پچاس ہزار فالورز ہو جائیں تو اچھی ٹریفک مل جاتی ہے۔ 

 آپ بھی ضرور فالو کریں، انشاءاللہ اچھی کوالٹی کے اقوال زریں، اور معلوماتی تفریحی مواد پیش خدمت کیا جائیگا۔

@MotivateQuo


 ابھی تک جو کام کیا حاضر خدمت ہے۔


کوئی بھی دوستی اعتماد کے بغیر نہیں چل سکتی، اور اعتماد کھرے پن کے بغیر نہیں آتا۔
سٹیفن کووے(انتہاری کارگر لوگوں کی سات عادتیں)۔
Seven Habits of Highly Effective People



"کوئی خاص خواب نہ دیکھا تھا، بس یہ جذبہ تھا کہ اپنی ابتدائی تقدیر کو قبول نہیں کرنا۔ " 

مہید التراد، شامی فرانسیسی مسلمان کامیاب انسان، کمپیوٹر سائنس پی ایچ ڈی،  کاروباری، رگبی ٹیم کا مالک۔




"ایک مرتبہ ہم اپنی حدوں کی پہچان کر لیں تو پھر انکو توڑ بھی لیتے ہیں۔"

بابائے ایٹم بم و جدید فزکس، حضرت آئن سٹائن۔



"کونجیں اتنی لمبا سفر کیسے کر لیتی ہیں؟ تنظیم سے۔"

نعیم اکرم 


"سکون کرو اور او ڈیسک پر لگے رہو"
نعیم اکرم۔

"سکون کرو اور کرکٹ ورلڈ کپ مت دیکھو۔"
نعیم اکرم

"معجزہ یہ ہے کہ جتنا ہم دیتے ہیں، اتنا ہمیں اور ملتا ہے"

لینرڈ نیموئے۔ 





Pak Urdu Installer

Pak Urdu Installer