بارہویں مہینے کی گیارہ تاریخ شام پانچ بجے فیڈرل اردو یونیورسٹی میں مشاعرے کی خبر ایک دوست شاعر شہزاد نیئر صاحب سے ملی۔ مصروفیت تو تھی مگر میں جیسے تیسے شام پانچ بجے دفتر سے اٹھ کھڑا ہوا اور مری روڈ کی ٹریفک میں سے گاڑی چلاتا چلاتا کوئی آدھے گھنٹے میں اسلام آباد کی وفاقی اردو یونیورسٹی میں جا پہنچا۔
اندھیرا ہو چکا تھا، موسم ٹھنڈا تو تھا ہی پاس موجود جنگل اور کھلی جگہ کی وجہ سے سردی کی شدت اور بھی دوبالا ہوئی جاتی تھی۔
گاڑی مین روڈ پر پارک کرنے کے بعد لیپ ٹاپ والا بیگ کاندے پر ڈالے میں یونیورسٹی کے صدر دروازے پر گیا اور وہاں کھڑے گارڈ حضرات سے کہا کہ "جناب اندر مشاعرہ ہے آج، ادھر جانا ہے۔"
انہوں نے سوال کیا کہ "آپکو کس نے بلایا ہے۔" میں نے کہا کہ ایک دوست نے مشاعرہ پڑھنا ہے اور انکی مخبری پر میں ادھر چلا آیا۔
س نے بلایا ہے اس سے بات کروا دیں یا ڈاکٹر فلاں اور ڈاکٹر ڈھمکاں صاحب کو فون کریں وہ آ کر خود لے جائیں گے۔
اچھا جی؟
تھوڑا سا حوصلہ ذرا سی ڈھٹائی
نوشی گیلانی اپنے دور کی معروف شاعرہ ہیں، آجکل اور بہت سے ٹیلنٹڈ لوگوں کی طرح وہ بھی پاکستان چھوڑ کر کنیڈا جا بسی ہوئی ہیں البتہ ان دنوں پاکستان میں ہیں اور مشاعروں وغیرہ میں شرکت بھی کر رہی ہیں۔ خاتون اس مشاعرے کی مہمان خصوصی تھیں، جلیل عالی کے ساتھ۔ انکے علاوہ اور بھی اچھے شعرا مثال کے طور پر انعام الحق جاوید اور میرے دوست شہزاد نیئر شامل تھے۔ اسلئے میں نے ذرا ڈھٹائی کا مظاہرہ کرنے کی ٹھانی۔
وہیں مین گیٹ پرایک طرف ہو کر کھڑا ہو گیا، اس امید میں کہ شاید کوئی شناسا مِل جائے جسکے ساتھ میں اندر سلپ ہو جائوں۔ گیٹ پر کھڑے سٹوڈنٹس کے ساتھ بھی گپ شپ ہوئی جو کہ خاصے پریشان اور غصے میں دکھائی دے رہے تھے۔
یونیورسٹی کے سیکورٹی گارڈ ان نوجوانوں کو بھی اندر نہیں جانے دے رہے تھے۔
تھوڑی دیر بعد میں نے نوٹ کیا کہ ایک انکل گیٹ سے اندر باہر آ جا رہے ہیں۔ میں نے انہیں جا کر کہا کہ جناب اسطرح میں بے وقوف آدمی اپنا کام کاج چھوڑ کر مشاعرے کے چکر میں ادھرکھجل ہو رہا ہوں، مہربانی کرکے مجھے اندر جانے دیں۔
یہ میرے پاس لیپ ٹاپ اور موبائل وغیرہ کے علاوہ اور کوئی مشکوک چیز نہیں ہے۔ انہوں نے مشکوک نظروں سے میرا جائزہ لیا اور "اچھا میں پوچھتا ہوں" کہہ کر ایک طرف چلے گئے۔
ہاں جی کیا تکلیف ہے؟
پانچ منٹ بعد ایک کراچی سٹائل اردو سپیکنگ صوفی صاحب نے مجھے آواز دیکر بلایا۔ میرے جانے پر انہوں نے دوبارہ پوچھا کہ "ہاں جی، کیا تکلیف ہے؟" الفاظ یہ نہیں تھے البتہ انداز یہی تھا۔ میں نے دوبارہ بتایا کہ اسطرح ایک دوست شاعر نے مشاعرے کی خبر دی اور میں چلا آیا، دوست کا فون نمبر نہیں ہے میرے پاس ورنہ آپکی بات کروا دیتا۔
اندر کوئی جہاں پناہ ایم این اے پاک تشریف لا رہے ہیں
"
اسلئے کسی کو بھی جانے نہیں دے رہے۔ ہمیں اجازت نہیں ہے۔ سارے سٹوڈنٹ باہر
کھڑے ہیں۔" میں نے کہا کہ میرے پاس میرا شناختی کارڈ وغیرہ ہے، لیپ ٹاپ اور موبائل کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں آپ مہربانی کریں۔ لیکن صوفی نے روکھا پھیکا نہیں بھائی کہہ کر میرا دِل ہی توڑ دیا۔ بھائی کا میٹر گھوم گیا، اور کنپٹیوں میں دھک دھک شروع ہو گئی۔ ہائی بلڈ پریشر کا دورہ شروع ہو رہا تھا۔
ایسی صورتحال میں اگر میں منہ کھل جائے تو پھر بات مارا ماری تک جاتی ہے۔ میں غصے میں ابلتا ابلتا بغیر کچھ بولے گاڑی میں واپس آ گیا، سیٹ کے نیچے سے پانی کی بوتل نکالی اور تھوڑا پانی پیا کہ حوصلہ ہو۔
بے وقوف، مشاعرے کا ماما
ہاں جی، بالکل یہی خیال تھا میرا اپنے بارے میں۔ بھلا ایسے بھی کوئی کرتا ہے، اپنا کام کاج چھوڑ کر پلے سے تین چار سو کا پٹرول پھونک کر مشاعرہ سننے آ گیا۔ یہاں تو کوئی ظل الہٰی تشریف لا رہے ہیں، جناب ایم این اے پاک۔ کمی کمین انسانوں کا اندر داخلہ منع ہے۔ دھت تیرے کے۔۔۔ لعنت ہے بھئی۔۔۔
بس ایسی ہی خرافات سوچتا سوچتا میں جیسے تیسے گھر کی طرف چل نکلا۔
آدھا سیر خون، اور چند سو کا پٹرول جلا کر لوٹ کے بدھو گھر کو آئے۔
فیڈرل اردو یونیورسٹی کے بارے فیڈ بیک
یونیورسٹی کے معیار، اور اسکی ترجیحات کا اندازہ لگانے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ سٹونٹ سردی میں سڑک پر تھے اور افسران اندر سے کنڈی لگا کر موج کر رہے تھے۔ میرے خیال میں ایسے ادارے میں اپنے بچوں کو بھیجنا بےوقوفی ہو گی۔ کم از کم کسی کو کیفے ٹیریا یا لائبریری تک جانے دیتے لیکن یہاں تو قانون ہی نرالا تھا۔