منگل، 1 ستمبر، 2009

ہلکی پھلکی سی باتیں

معزز قارءین اور غیر معزز قارءین، میں چاہتا ہوں کہ کسی ہلکے پھلکے سے موضوع پر لکھوں حالانکہ میرے ذہن میں کافی وزنی وزنی باتیں گھوم رہی ہیں۔ یہ وزنی باتیں ٹنڈ کروانے سے جان نہیں چھوڑیں گی، مجھے پتہ ہے کچھ لوگ یہی مشورہ دیں گے۔ چلیں کچھ تذکرہ گھر سےدور رمضان شریف کے روضے رکھنے کا ہی سہی۔ شروع کے دو چار روضے تو بندہ ٹھیک جاگ جاتا ہے، لیکن بعد میں روضہ بند ہونے سے آدھا گھنٹہ پہلے جاگنا تو جیسے ثواب کا کام ہو۔ حالانکہ شروع میں بندے کو جلدی جاگنے کی عادت ہی نہیں ہوتی۔ گھر سے باہر رہنے والے مجاہدین کے لیے اٹھھ پہرے روضے رکھے بنا رمضان شریف نا مکمل سا ہوتا ہے۔ بڑی چھلانگ ماریں تو پانی کا گلاس پی کے دوبارہ سو جاتے ہیں۔ اسکے علاوہ جب زوبی میرا روم میٹ شور مچا رہا ہو تو پتہ نہیں کیوں تکیہ کانوں پہ رکھ کے سونا اور زیادہ مزیدار لگتا ہے۔ یہ سطریں لکھتے وقت مجھے سنگین نتاءج کی دھمکیاں مل رہی ہیں، لیکن دیکھی جاءے گی۔ عوام تک حقاءق پہنچانا تو میرا فرض ہے نا۔
پچھلے پانچ سال سے میں جہاں رہ رہا ہوں یہ علاقہ اسٹوڈنٹس اور چھڑوں سے اٹا پڑا ہے۔ اور بھی "سوشل ورکرز" کے پاءے جانے کی خبریں ہیں، بہرحال اگر بندہ خود کرپٹ نہ ہو تو کوءی فرق نہیں پڑتا۔ سارا دن ہوٹل بند رہتے ہیں اور ساری رات کھلے۔ رات کے کھانے کے بعد ہوٹل والے سحری کی تیاری شروع کر دیتے ہیں۔ اٹھ پہرے روزے سے بچنے کے لیے کچھ لوگ ساری رات سوتے ہی نہیں۔ دو بجے تک کیبل یا کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ کے ثواب حاصل کرتے ہیں، اسکے بعد جا کے باہر سے کچھ کھا پی کے پھر سوتے ہیں۔ میرے فلیٹ پہ آجکل سحری وقت کافی رونق ہوتی ہے، آنٹی "میرو" صبح تین بجے ہی آ جاتی ہے۔ اور اپنے سارے کلاءینٹس کے لیے پراٹھے ہمارے کچن میں تیار کرتی ہے۔ تین چار گھر ہیں، وقفے وقفے سےآ کے پراٹھے لے جاتے ہیں۔ ویسے بازار میں بھی بڑی رونق ہوا کرتی ہے۔
گھر سے باہر رہنا مشکل تو ہے لیکن بندے کی شخصیت کے بہت سے نوکدار کونے باہر رہنے کی وجہ سے گول ہو جاتے ہیں۔ سحری ہو یا افطاری، ایک جگہ رہنے والا ہر فرد کوءی نہ کوءی کام کر ہی رہا ہوتا ہے۔ ورنہ گھر پہ تو اُس وقت جگاتے ہیں جب سب کچھ تیار ہوتا ہے، کہ حضور آءیے اور اپنے ہاتھوں سے کھا کر ہم پر احسان فرماءیے۔ یہاں رہتے ہوءے بندے کو مجبوراً وقت پہ جاگنا پڑتا ہے۔ اگر فلیٹ پہ کھانے کا بندوبست نہ ہو تو باہر جا کے کھانا بہت مشکل ہوتا ہے، وجہ پوچھیں گے تو جناب عوام کی اکثریت روضہ بند ہونےسے آدھا گھنٹہ پندرہ منٹ پہلے ہوٹل پر پہنچتی ہے۔ اور اُس وقت آرڈر سرو ہوتے ہوتے دس پندرہ منٹ لگ جاتے ہیں۔ مجبوراً بندے کو ایک پراٹھے کے چار نوالے کر کے کھانا پڑتا ہے۔ دہی چمچ سے کھانے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، سیدھا ہی پیالے کو منہ لگاءیں۔ اور پانی پینے سےپہلے اگر مولوی صاحب بول پڑیں تو جگ کو منہ لگانا پڑتا ہے۔ یہ جگ والی بات تو خیر میں نے ایویں ہی کر دی، مصالحہ ڈالنے کے لیے۔
رمضان کے بعد آ جاتی ہے میٹھی عید، جو کہ بچپن میں خوشی کا پیغام ہوا کرتی تھی اور جب سےتنخواہ لینا شروع کی ہے فکر کا پیغام ہو گءی ہے۔ پراءیوٹ کمپنیوں کے ملازمین کے لیے عیدیں نِرا خرچہ ہی تو ہوتی ہیں۔ آجر نے کوءی بونس تو دینا نہیں آپکو، بلکہ عیدیوں اور کپڑوں جوتوں پر اضافی خرچہ لازمی ہونا ہے۔ ابھی تو میں ہوں بھی اکیلا، سوچتا ہوں بال بچے دار لوگ بیچارے کیا کرتے ہوں گے۔ بہر حال ہمیشہ بندہ اکیلا بھی نہیں رہ سکتا، اپنی فیملی کے ساتھ وابستہ جذبات بھی کچھ اور ہی ہوتے ہیں۔ مطلب محسوس ہوتا ہے نا یار، جب آپ آٹھ دس گھنٹے بعد گھر آءیں اور آگے آءو جی کہنے والا بھی کوءی نہ ہو۔ فیملیز کے ساتھ رہنے والے لوگ شاید یہ کہیں گے کہ شکر نہیں کرتے آزاد ہیں، لیکن جناب میرا دس سالہ تجربہ یہی بتاتا ہے کہ یہ قید ہی اچھی ہے۔ فیملی کو عیدیاں دینا مشکل کام ہے، لیکن یہ کوءی زیادہ قیمت نہیں۔ سودا وارے کھاتا ہے، بندے کی ذات میں ایک خلا ہوتا ہے جو اپنوں کے ساتھ رہنےسےہی پورا ہوتا ہے۔ چاہے وہ اپنے بیوی بچے ہوں، یا بہن بھاءی ماں باپ۔
فی امان اللہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

کھلے دِل سے رائے دیں، البتہ کھلم کھلی بدتمیزی پر مشتمل کمنٹ کو اڑانا میرا حق ہے۔

Pak Urdu Installer

Pak Urdu Installer