ہفتہ، 27 نومبر، 2010

نتھیا گلی کے گرد و نواح میں ٹریکنگ حصہ دوم

گائیڈ نے مجھے بتایا کہ یہاں پر پشاور یونیورسٹی کا گرما کیمپس بھی ہے، اس کیمپس کے پاس سے ہو کر بھی ایک ٹریک گزرتا ہے۔ گائیڈ کو ساتھ لے ہی لیا، میں نے سوچا کہ چلو اچھا ہے لوکل کو ساتھ لے لیتا ہوں، ورنہ مجھے علاقے کا کوئی خاص اتہ پتہ نہیں ہے۔ میں نے بڑی کوشش کی کہ گائیڈ شروع میں ہی پیسے طے کر لے تاکہ بعد میں سیاپا نہ پڑی لیکن وہ اللہ کا بندہ اس طرف بات جانے ہی نہیں دیتا تھا، کچھ بھی کہو اسکا ایک ہی جواب ہوتا تھا کہ سر جی آپ گھومیں پھریں اگر جگہ اچھی لگی تو جو دل کرے دے دینا۔ خیر وہاں اوپر گورنر ہائوس تک گئے، راستے میں چرچ بھی دیکھا لیکن مجھے ٹریک پر جانے کی جلدی تھی سو میں اندر نہیں گیا۔ اور گورنر ہائوس کے اندر مجھے کسی نے جانے نہیں دینا تھا، کامن مین مینگو پیپل جو ہوا۔

پشاور یونیورسٹی سمر کیمپس کا ٹریک
پھر ہم نے سفر شروع کیا وادی میں واقع گائوں نملی میرا کی طرف، بس عام سا ہی گائوں ہے۔ راستے میں ایک جگہ پر آبشار بھی آتی ہے، یہ جگہ گزارے لائق خوبصورت تھی۔ کوئی تین چار کلومیٹر نیچے جا کر اسی آبشار کا پانی سڑک کے بیچ میں سے گزرتا ہے۔ میں تھوڑی دیر پانی میں پائوں ڈال کر بیٹھا تھا، منہ پر بھی چھینٹے مارے، یخ ٹھنڈے پانی نے آنکھیں کھول کر رکھ دیں۔
یہ پوری ڈرائیو کوئی تیس ایک کلومیٹر کا چکر ہو گی، نتھیا گلی سے چل کر نملی میرا اور پھر شوگران ایبٹ آباد روڈ پر سے ہو کر واپس نتھیا گلی، رائونڈ ٹرپ۔ خیر اس کے بعد گائیڈ نے مجھے جا اتارا شوگران ایبٹ آباد سے آنے والی یا اس طرف جانے والی کہہ لیں، سڑک پر۔ یہ میرے خیال میں نتھیا گلی سے کوئی آٹھ دس کلومیٹر پیچھے جگہ ہے، سڑک پر بائیں طرف پشاور یونیورسٹی سمر کیمپ, باڑہ گلی کا بورڈ لگا ہوا ہے۔  یہ جو ٹریک ہے جناب یہ ٹریک شریک کوئی نہیں تقریباً باقاعدہ سڑک ہی ہے، باریک بجری نما پتھروں سے والی۔ ڈھائی تین کلومیٹر ہو گا۔ پہلے چڑھائی آتی ہے، پشاور یونیورسٹی کے کیمپس تک چڑھائی ہی ہے۔ بس یہی ٹریک کا مشکل حصہ ہے۔ کیمپس جو کہ ہو گا آدھا کلومیٹر پہنچ کر آپ دائیں طرف بغلی راستے پر ہو لیں، اور چل پڑیں اللہ کا نام لے کر۔ کوئی زیادہ سفر نہیں ہے۔ اور چڑھائی بھی نہیں ہے۔ اس لئے بندہ بڑے آرام سے پر سکون والک کرتا کرتا ٹریک کر لیتا ہے، بہت خاموشی ہوتی ہے، اور ٹھنڈ بھی۔ اتنے میں بادل آ گئے اور چھا گئے، میں نے سوچا کہ یا میرے مالک میں تو کپڑوں کا دوسرا جوڑا بھی نہیں لے کر آیا یہ ظالم برس گئے تو ٹٹھر جائوں گا، تیری مہربانی تھوڑی دیر بعد بارش وارش کا پروگرام کر لئیں۔ اس سے پہلے سدھن گلی آزاد کشمیر کی بارش میں بھیگنے، اولے کھانے اور ٹھٹھرنے کا تجربہ ہے۔ خیر تب تو میں سارا ساز و سامان ساتھ لے کر گیا تھا۔ اس ٹریک کا کوئی خاص مزا نہیں آیا، گائیڈ کہہ رہا تھا کہ صاحب آپکو دو گھنٹے لگیں گے لیکن ٹریک صاحب تو بس ٹھیک ایک گھنٹے میں خلاص ہو گئے۔ گائیڈ ٹریک کے اختتام پر ہی کھڑا تھا۔

نتھیا گلی واپسی، اور ہوٹل کی بکنگ
گائیڈ نے مجھے کریدنا شروع کر دیا کہ سر جی آپ ہوٹل کہاں لیں گے؟ میں نے کہا کہ یار میں تو سستے سے بستر کی تلاش میں ہوں جہاں مِل گیا رات بسر کر لوں گا، کوئی فیملی تو ہے نہیں ساتھ۔ خیر اس اللہ کے بندے نے مجھے نتھیا گلی بازار کے بجائے تھوڑا اوپر جا کے ایک ریسٹ ہائوس میں کمرہ لے دیا، پانچ سو روپے میں جو کہ میں نے ایڈوانس ہی دے دیئے۔ میں جب گیا تو وہ لوگ کھانا کھانے ہی والے تھے، اتنا اصرار کیا کہ مجھے دو نوالے لگانے ہی پڑے۔ یہ الگ بات ہے کہ ایک نوالے کا مطلب ایک روٹی بنتا ہے۔ کھانے کے بعد چائے بھی ادھر ہی مِل گئی۔
نتھیا گلی سے ڈونگا گلی کا ٹریک، اور لالہ زار
نتھیا گلی سے تھوڑا سا اوپر جا کے ایوبیہ نیشنل پارک شروع ہو جاتا ہے۔ یہ بھی والکنگ ڈسٹنس پر ہی ہے۔ اس پارک میں چھوٹا سا ایک چڑیا گھر ہے، آجکل اس چڑیا گھر میں صرف ایک برفانی چیتا ہے۔ برفباری نہ ہونے کی وجہ سے باقی جانوروں کو چیچو کی ملیاں شفٹ کر دیا گیا ہے۔ خیر یہ چیچو کی ملیاں والی تو بونگی ہی تھی، پتہ نہیں کہاں کسی سرد علاقے میں بھیج دیا ہے۔ یہ ٹریک البتہ دلچسپ ثابت ہوا۔ چڑیا گھر میں سے سیدھا ہی آگے نکل جائیں ، اور بس راستے کو فالو کرتے جائیں، کہیں کوئی موڑ چوک چوراہا دوراہا سہ راہا نہیں آتا۔ ہاں تھوڑا سا آگے جا کر ایک دو راہا آتا ہے، اس پر سے آپ نے دائیں ہاتھ ہو جانا ہے، جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے وہاں لکڑی کا بورڈ بھی لگا ہوا ہے۔ بائیں طرف والا راستہ میرانجانی چوٹی کی طرف جاتا ہے۔ بائیں طرف والا راستہ تقریباً آٹھ گھنٹے کے ایک پروفیشنل ٹریک کا سِرا ہے۔   یہ ٹریک میرانجانی کی چوٹی سے ہوتا ہوا ٹھنڈیانی ایبٹ آباد جا نکلتا ہے۔ ریسٹ ہائوس میں ملنے والے گائیڈ وقاص کے مطابق اگر بندہ ہمت والا ہو تو صبح چھے بجے چل کر شام چار بجے تک یہ ٹریک مکمل کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پہ کچھ عرصہ پہلے اُس نے عمران خان کے ساتھ یہ ٹریک کیا تھا، اور بقول اسکے عمران خان اب بھی بہت ایکٹو اور پھرتیلا ہے بالکل کسی نوجوان کی طرح۔
اس ٹریک میں کوئی خاص چڑھائی تو نہیں ہے، لیکن ٹریک کا کچھ حصہ بڑا نیچرل ہے، دائیں طرف کھائی، بائیں طرف پہاڑ، اور پگڈنڈی بہت چھوٹی تو نہیں، بس ایک بندے کی چوڑائی جتنی ہے۔ شام کے کوئی چار بج چکے تھے۔ اس ٹریک کی لمبائی بھی کوئی تین ساڑھے تین کلومیٹر ہو گی۔ اس مرتبہ میں نے ٹائم نوٹ نہیں کیا کیونکہ میں نے سوچا آرام آرام سے چلتا ہوں، جلدی کاہے کی ہے؟ اور ایک مزے کی بات، پورے ٹریک پر یو فون اور ٹیلی نار کے سگنلز پورے آ رہے تھے۔

دِن کا اختتام
مغرب کی اذانیں ہو رہی تھیں، گو میں کافی تھک چکا تھا لیکن، اس ٹریک کا مزا آیا۔ ٹریک کا اختتام ڈونگا گلی میں مین بازار سے کافی اوپر ہے، سمجھ لیں کوئی آدھا کلومیٹر کی ڈھلوان ہے۔ اور وہ اپنا جو گائیڈ تھا، اسے میں نے سولہ سو روپئے دیئے۔ نیچے آ کر پبلک ٹرانسپورٹ کے انتظار میں سڑک پر بیٹھ گیا، تھوڑی دیر میں ایک کیری ڈبہ مِل گیا۔ ڈرائیور کی شکل دِن والے گائیڈ سے ملتی جلتی تھی، میں تو سمجھا وہی ہے۔ بہرحال اسکے ساتھ میں واپس نتھیا گلی آ گیا۔ اس سے راستے میں گپ شپ ہوئی تو پتہ چلا کہ دن والے گائیڈ کا بڑا بھائی ہے، یہ لفٹ تو مفت میں ہی مِل گئی۔ مین بازار میں رک کر کھانا وانا کھایا، چائے شائے پی۔ بازار کا ایک چکر لگایا، زیادہ رونق نہیں تھی۔ کیونکہ یہ دن یہاں آف سیزن سمجھے جاتے ہیں۔

ٹریجڈی
جس ہوٹل سے کھانا کھایا اسکا نام میرا خیال ہے الخیام تھا، یہاں سے میں نے کمرے کا کرایہ پوچھا تو کائونٹر پر بیٹھے سوبر سے مینیجر کہتے ہیں کہ یار پانچ سو سے لے کر آٹھ سو ہزار تک جہاں بات بن جائے، کیونکہ آف سیزن ہے۔ خیر پھر میں نکلا اوپر گیسٹ ہائوس میں جانے کے لئے۔ چلا چلا چلا لمبی سی چڑھائی چڑہ لی اور چلتا ہی چلا گیا لیکن کمبخت ریسٹ ہائوس کہیں دکھائی ہی نہیں دیا۔ دِن بھر کی تھکن اور پھر ریسٹ ہائوس نا ملنے کی وجہ سے جو کوفت ہوئی بس کچھ نا پوچھیں۔ خیر میں نے وقاص کا نمبر ملایا، تو فون بند۔ بہت مربتہ کال کی لیکن اسکا فون ہی بند جا رہا تھا، میں نے کہا بھئی فٹے منہ۔ خیر تنگ آ کر میں واپس چل پڑا۔ نیچے بازار میں آ کر نتھیا ہائیٹس نامی ہوٹل میں کمرہ لیا، جسکا کرایہ مبلغ پان صد روپے سکہ رائج الوقت تھا، پانچ سو روپے یار سیدھی زبان میں۔
 بس پھر بستر پر گرنے کی دیر تھی، سو گیا۔۔۔ لیکن اوپر والے فلور پر کوئی بدتمیز فیملی ٹھہری ہوئی تھی انہوں نے رات کو بارہ بجے کے قریب کھپ ڈالنی شروع کر دی۔ اب میں کیا کہتا، آنکھ کھلی تو کوئی تین بجے تک نیند ہی نہیں آئی۔ خیر، پھر میں سو گیا اور اس طرح پہلا دِن اختتام کو پہنچا۔

پائپ لائن ٹریک اور خانسپور کی روداد انشاءاللہ اگلی پوسٹ میں، جو کہ میں کوشش کروں گا کہ کل رات لکھ لوں ورنہ فیر اگلے جمعے کی رات۔۔۔
پچھلی پوسٹ

ہفتہ، 13 نومبر، 2010

نتھیا گلی کے گرد و نواح میں ٹریکنگ

ہفتہ، چھے نومبر دو ہزار دس، رات کے کوئی ڈیڑھ بجے ہیں قذافی سٹیڈیم کی مارکیٹ والے سردار کی مچھلی پہ ہاتھ صاف کرتے ہوئے میں سوچ رہا ہوں کہ کیا کروں، مری جائوں یا نا جائوں؟ کوئی دوست بھی ساتھ جانے کو تیار نہیں ہے، اور اکیلے اتنا سفر کیسے کروں گا۔ خیر وہاں میں نے کولیگز کے سامنے اعلان کر دیا کہ درویش تو جائے گا نتھیا گلی۔  وجہ یہ بنی کہ نو نومبر منگل کو یوم اقبال کی چھٹی آ رہی تھی، میرے دفتر والوں نے فیاضی دکھاتے ہوئے یہ چھٹی آٹھ نومبر بروز سوموار دے دی۔ اب تین چھٹیاں بندہ کیبل دیکھ کر یا سو کر گزار دے تو میرے حساب سے تو فِٹے مُنہ ہی کہا جا سکتا ہے۔ گائوں جا کر بھی کیا کرنا ہے، آپے اگلے ہفتے عید پر جائوں گا۔ کوئی آدھا گھنٹہ اسی کشمکش میں ٹی وی کے سامنے بیٹھا رہا۔ پھر سوچا کہ چل جیا، ہمت کر۔ یار بیلی ساتھ نہیں جا رہے تو کھان کھسماں نوں، اس مرتبہ اکیلے ہی چلنا چاہئیے۔
اگلا سوال، سامان کیا اٹھائوں؟ ایک دو شرٹس اور ٹرائوزر اٹھائے بیگ میں ڈالے پھر سوچا کہ اس مرتبہ بے سر و سامانی کا تجربہ کیا جائے۔ بس ایک فل سلیو شرٹ نکال کر استری کی جینز جوگر پہنے، گرم چادر اٹھا لی اور چل وئی گُڈ ٹو گو۔ ویسے آنلائن شاپنگ اور کریڈٹ کارڈ پلاسٹک پیسہ کے زمانے میں بے سروسامانی خاصی بے معنی ہو گئی ہے، وہ بھی مری جیسے کافی ترقی یافتہ علاقے میں۔ بس پیسے ہیں تو رہائش، کھانا، کپڑا، علاج معالجہ کہیں سے بھی کچھ بھی خرید لیں۔
تقریباً ساڑھے تین بجے فردوس مارکیٹ سے رکشہ پکڑا اور جا اُترا نیازی اڈہ یتیم خانہ۔ دوست نے بتایا تھا کہ لاہور سے مری نان سٹاپ گاڑیاں بھی چلتی ہیں۔ لیکن جناب اُس گاڑی کا ایک ٹائم رات بارہ بجے نکل جاتا ہے۔ میں نے پنڈی والی گاڑی کا ٹکٹ لے لیا، یہ بس صبح چار بجے چلنی تھی۔ رات کا وقت اور موٹر وے کا سفر، چُپ چپیتے گزر گیا۔ زیادہ وقت میں نے اگلی سیٹ پر سر ٹکا کے گزارا۔ اکیلا بندہ اور کر بھی کیا سکتا ہے۔ نیند نہیں آئی، آ جاتی تو سفر آسانی سے کٹ جاتا۔ ایک بات اچھی ہو گئی کہ گاڑی راستے میں کہیں رکی نہیں، اور آٹھ بجے میں راولپنڈی فیض آباد اڈے پر بیٹھا چائے پی رہا تھا۔
فیض آباد ہی سے نیو مری کی ٹویوٹا ویگن مِل گئی، اس ویگن نے مجھے سوا گھنٹے میں مری کے پاس کلڈنہ جا اتارا۔ عوام الناس میں مشہور مال روڈ والے مری جانا میرا مقصد نہیں تھا، میں نے تو جانا تھا نتھیا گلی اس لئے مری سے کوئی تین کلومیٹر آگے جا اُترا۔ یہاں سے ایبٹ آباد جانے والی گاڑی پر بیٹھیں تو وہ آپ کو کوئی ڈیڑھ گھنٹے میں نتھیا گلی پہنچائے گی۔  لیکن بس کا سفر بڑا سست رفتار اور اکتا دینے والا ہوتا ہے، اور میرے تو آپکو پتہ ہونا چاہئے تنگ سیٹوں میں گھٹنے پھنس جاتے ہیں، لمبے قد کی قیمت۔ یہاں دن کے سوا دس بجے اٹھائیس تیس کے قریب درجہ حرارت ہو گا۔ مطلب کہ کوئی خاص ٹھنڈ نہیں تھی۔
اچھا اب آپ لوگ سوچ رہے ہوں گے کہ کوئی فوٹو شوٹو نہیں لگائی تو جناب پہلی بات کہ میرے پاس اپنا کیمرہ نہیں ہے، کیمرے والا موبائل بھی اتفاق سے نہیں ہے۔ رات کے دو بجے پروگرام فائنل ہوا تو اُس وقت کسی یار دوست سے جا کے کیمرہ لا بھی نہیں سکتا تھا۔ لیکن اگر مِل بھی جاتا تو میں شاید ساتھ لے کر نا جاتا کیونکہ میرا ارادہ تھا گلیات کے علاقے میں پہاڑی راستوں پر ٹریکنگ کرنے کا، اور بارہ پندرہ ہزار کا کیمرہ اکیلے ویرانے میں لے کے میں تو کبھی نہ جائوں۔ ایسے گھومتے پھرتے کیمرے کا ایک اور نقصان بھی ہوتا ہے، بندہ سیر کے لمحات کا لطف اٹھانے کے بجائے کیمرے کے ساتھ ہی کھیلتا رہتا ہے۔ اس پورے ٹرپ کی ایک سنگل فوٹو بھی نہیں ہے میرے پاس۔
تو جناب میں نے لوگوں سے پوچھا کہ نتھیا جانے والی گاڑی کہاں آئے گی، کسی نے کہا کہ ادھر ہی آتی ہے۔ میں وہاں کھڑا ہو کے انتظار کرنے لگ پڑا، کوئی دس منٹ بعد سڑک کی دوسری طرف ایک بھر پُری بس آ کے رکی، اور سواریاں اتار چڑھا کر چلی گئی۔ ایسے ہی پندرہ بیس منٹ گزر گئے، میں نے ایک بندے سے پوچھا کہ جناب ایبٹ آباد جانے والی گاڑی نہیں آ رہی کیا چکر ہے؟ جواب مِلا کہ بھائی صاحب وہ گاڑیاں تو سڑک کے دوسری جانب آتی ہیں اور آجکل آف سیزن میں گھنٹے بعد ہی ایک بس آتی ہے۔ مجھے شرمندگی بھی ہوئی اور دھچکا بھی لگا کہ لو جی میں کسی سے پہلے ہی پوچھ لیتا کہ سڑک کی کونسی جانب کھڑا ہونا ہے؟ اور دھچکا اس بات کا کہ اب کھڑے رہو یہاں گھنٹہ بھر۔
لیکن جناب اللہ کی کرنی کہ تھوڑی سی دیر کے بعد ایک سفید کیری ڈبہ آ کے سٹاپ پر رکا، مجھ سے پہلے چند مقامی لوگ آگے بڑھ کے اس میں بیٹھ گئے۔ میں نے بھی پوچھا کہ بھائی کدھر؟ تو جواب مِلا ایبٹ آباد۔۔۔ اور میں نے سکھ کا سانس لیا، اس علاقے میں ایسی چھوٹی گاڑیاں بہت چلتی ہیں۔ در اصل یہ گاڑیاں سیزن کے دنوں میں ( اپریل مئی تا ستمبر اکتوبر ) گائیڈ لوگ استعمال کرتے ہیں اور اُن دنوں یہ اس قسم کے چھوٹے موٹے کام نہیں کرتی۔ بہرحال آف سیزن میں لوگ ان گاڑیوں پر ایسے بھی دیہاڑ لگا لیتے ہیں۔ اس گاڑی نے مجھے آدھے گھنٹے میں کلڈنہ سے نتھیا گلی پہنچا دیا۔ نتھیا اور کلڈنہ کا درمیانی فاصلہ تیس کلومیٹر کے لگ بھگ ہے۔ پہاڑی علاقوں کی گھمن گھیریوں اور چڑھائیوں والی سڑکوں پر تیس کلومیٹر کافی سفر ہوتا ہے۔

تو جناب دِن کے بارہ بجنے کو ہیں، اور میں نتھیا گلی کھڑا ہوں۔ آس پاس کافی کیری ڈبے اور گائیڈ موجود ہیں۔ ایک گاڑی میرے پاس آ کے رکتی ہے، ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا نوجوان مسکرا کر سلام کرتا ہے۔
نوجوان: آ جائیں سر آپ کو سیر کراتے ہیں۔
میں: نہیں یار، ابھی تو میں آیا ہوں، سیر بھی کر لوں گا۔
نوجوان: سر جی اوپرکافی دیکھنے والی جگہیں ہیں، پارک ہے، چرچ ہے، اور گورنر ہائوس بھی۔
میں: اچھا یہ بتائو ڈونگا گلی والا ٹریک کہاں سے شروع ہوتا ہے؟
  

اس ٹرپ پر ہونے والے خرچے کی تفصیلات یقیناً کافی لوگوں کے لئے دلچسپی کا سامان ثابت ہو گی، کمنٹ کرتے ہوئے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، ویسے بھی جو کمنٹ میرے خلاف ہوا میں نے ڈیلیٹ ہی کر دینا ہے۔۔۔ ہا ہا ہا

Nathia Gali 3 Day Trip Expenses

جمعرات، 11 نومبر، 2010

ستیندر سرتاج۔۔۔ سائیں بمعہ بول Satinder Sartaj Sai along with Lyrics

ستیندر سرتاج کا یہ گانا میرے دل کو لگا ہے۔۔۔ سوچا قارئین کے ساتھ بھی شیئر کروں۔۔۔ ایک دعا ہے۔۔۔ اپنے اپنے سائیں۔۔۔ اپنے اپنے رب سے۔۔۔



کوئی علی آکھے کوئی ولی آکھے
کوئی کہے داتا سچے مالکاں نوں
مینوں سمجھ نا آوے، کی نام دیواں
اس دو چکی دیا چالکاں نوں

سائیں وے ساڈی فریاد تیرے تائیں
سائیں وے باہوں پھڑ بیڑا بنے لائیں
سائیں وے میریاں غناہاں نوں لُکائیں
سائیں وے حق وچ فیصلے سنائیں
سائیں وے ڈگئے تاں پھڑ کے اٹھائیں
سائیں وے اوکھے سوکھے راہاں چوں لنگاہیں
سائیں وے زندگی دے بوجھ نوں چُکائیں
سائیں وے فکراں نوں ہوا چ اڈائیں
سائیں وے ہولی ہولی خامیاں گھٹائیں
سائیں وے کھوٹیاں نوں کھرےچ ملائیں
سائیں وے ماڑیاں دی منڈی نا وکائیں
سائیں وے محنتاں دے مُل وی پوائیں
سائیں وے سِلے سِلے نیناں نوں سکائیں
سائیں وے پاک صاف روحاں نوں ملائیں
سائیں وے سارے لگے داغ وی دھوائیں

سائیں وے بھلیاں نوں انگلی پھڑائیں
سائیں وے بس پٹی پیار دی پڑھائیں
سائیں وے دلاں دے غلاب مہکائیں
سائیں وے مِہراں والے مینہ وی ورسائیں
سائیں وے زمین جہیاں خوبیاں لے آئیں
Satinder_Sartaj_Sai_Lyrics
سائیں وے ہوا جئی ہی ہستی بنائیں
سائیں وے میل میرے اندروں مکائیں
سائیں وے پیاریاں دے پیراں چ وچھائیں
سائیں وے جذبے دی ویل نو ودھائیں
سائیں وے شاعری چ اثر وسائیں
سائیں وے سیر تو خیالاں نوں کرائیں
سائیں وے تاریاں دے دیس لے کے جائیں

ہو او سائیں وے میرے نال نال تو وی گائیں
سائیں وے روحانی کوئی تال چھیڑ جائیں

سائیں وے صوفیاں دے وانگ رنگ جائیں
سائیں وے میں ہر ویلے کراں سائیں سائِں
سائیں وے وے فاصلے دی لیک نوں مٹائِں
سائیں وے دراں تے کھڑے آں خیر پائیں
سائیں وے دیکھیں ہُن دیر نا لگائیں

سائیں وے اسی سج بیٹھے چائیں چائیں
سائیں وے وے آپے ای واج مار کے بلائیں
سائیں وے سچیں سرتاج ہی بنائیں

Just to increase search engine visiblity:
Satinder Sartaj's song Sai along with lyrics in Urdu language.

Pak Urdu Installer

Pak Urdu Installer