گائیڈ نے مجھے بتایا کہ یہاں پر پشاور یونیورسٹی کا گرما کیمپس بھی ہے، اس کیمپس کے پاس سے ہو کر بھی ایک ٹریک گزرتا ہے۔ گائیڈ کو ساتھ لے ہی لیا، میں نے سوچا کہ چلو اچھا ہے لوکل کو ساتھ لے لیتا ہوں، ورنہ مجھے علاقے کا کوئی خاص اتہ پتہ نہیں ہے۔ میں نے بڑی کوشش کی کہ گائیڈ شروع میں ہی پیسے طے کر لے تاکہ بعد میں سیاپا نہ پڑی لیکن وہ اللہ کا بندہ اس طرف بات جانے ہی نہیں دیتا تھا، کچھ بھی کہو اسکا ایک ہی جواب ہوتا تھا کہ سر جی آپ گھومیں پھریں اگر جگہ اچھی لگی تو جو دل کرے دے دینا۔ خیر وہاں اوپر گورنر ہائوس تک گئے، راستے میں چرچ بھی دیکھا لیکن مجھے ٹریک پر جانے کی جلدی تھی سو میں اندر نہیں گیا۔ اور گورنر ہائوس کے اندر مجھے کسی نے جانے نہیں دینا تھا، کامن مین مینگو پیپل جو ہوا۔
پشاور یونیورسٹی سمر کیمپس کا ٹریک
پھر ہم نے سفر شروع کیا وادی میں واقع گائوں نملی میرا کی طرف، بس عام سا ہی گائوں ہے۔ راستے میں ایک جگہ پر آبشار بھی آتی ہے، یہ جگہ گزارے لائق خوبصورت تھی۔ کوئی تین چار کلومیٹر نیچے جا کر اسی آبشار کا پانی سڑک کے بیچ میں سے گزرتا ہے۔ میں تھوڑی دیر پانی میں پائوں ڈال کر بیٹھا تھا، منہ پر بھی چھینٹے مارے، یخ ٹھنڈے پانی نے آنکھیں کھول کر رکھ دیں۔
یہ پوری ڈرائیو کوئی تیس ایک کلومیٹر کا چکر ہو گی، نتھیا گلی سے چل کر نملی میرا اور پھر شوگران ایبٹ آباد روڈ پر سے ہو کر واپس نتھیا گلی، رائونڈ ٹرپ۔ خیر اس کے بعد گائیڈ نے مجھے جا اتارا شوگران ایبٹ آباد سے آنے والی یا اس طرف جانے والی کہہ لیں، سڑک پر۔ یہ میرے خیال میں نتھیا گلی سے کوئی آٹھ دس کلومیٹر پیچھے جگہ ہے، سڑک پر بائیں طرف پشاور یونیورسٹی سمر کیمپ, باڑہ گلی کا بورڈ لگا ہوا ہے۔ یہ جو ٹریک ہے جناب یہ ٹریک شریک کوئی نہیں تقریباً باقاعدہ سڑک ہی ہے، باریک بجری نما پتھروں سے والی۔ ڈھائی تین کلومیٹر ہو گا۔ پہلے چڑھائی آتی ہے، پشاور یونیورسٹی کے کیمپس تک چڑھائی ہی ہے۔ بس یہی ٹریک کا مشکل حصہ ہے۔ کیمپس جو کہ ہو گا آدھا کلومیٹر پہنچ کر آپ دائیں طرف بغلی راستے پر ہو لیں، اور چل پڑیں اللہ کا نام لے کر۔ کوئی زیادہ سفر نہیں ہے۔ اور چڑھائی بھی نہیں ہے۔ اس لئے بندہ بڑے آرام سے پر سکون والک کرتا کرتا ٹریک کر لیتا ہے، بہت خاموشی ہوتی ہے، اور ٹھنڈ بھی۔ اتنے میں بادل آ گئے اور چھا گئے، میں نے سوچا کہ یا میرے مالک میں تو کپڑوں کا دوسرا جوڑا بھی نہیں لے کر آیا یہ ظالم برس گئے تو ٹٹھر جائوں گا، تیری مہربانی تھوڑی دیر بعد بارش وارش کا پروگرام کر لئیں۔ اس سے پہلے سدھن گلی آزاد کشمیر کی بارش میں بھیگنے، اولے کھانے اور ٹھٹھرنے کا تجربہ ہے۔ خیر تب تو میں سارا ساز و سامان ساتھ لے کر گیا تھا۔ اس ٹریک کا کوئی خاص مزا نہیں آیا، گائیڈ کہہ رہا تھا کہ صاحب آپکو دو گھنٹے لگیں گے لیکن ٹریک صاحب تو بس ٹھیک ایک گھنٹے میں خلاص ہو گئے۔ گائیڈ ٹریک کے اختتام پر ہی کھڑا تھا۔
نتھیا گلی واپسی، اور ہوٹل کی بکنگ
گائیڈ نے مجھے کریدنا شروع کر دیا کہ سر جی آپ ہوٹل کہاں لیں گے؟ میں نے کہا کہ یار میں تو سستے سے بستر کی تلاش میں ہوں جہاں مِل گیا رات بسر کر لوں گا، کوئی فیملی تو ہے نہیں ساتھ۔ خیر اس اللہ کے بندے نے مجھے نتھیا گلی بازار کے بجائے تھوڑا اوپر جا کے ایک ریسٹ ہائوس میں کمرہ لے دیا، پانچ سو روپے میں جو کہ میں نے ایڈوانس ہی دے دیئے۔ میں جب گیا تو وہ لوگ کھانا کھانے ہی والے تھے، اتنا اصرار کیا کہ مجھے دو نوالے لگانے ہی پڑے۔ یہ الگ بات ہے کہ ایک نوالے کا مطلب ایک روٹی بنتا ہے۔ کھانے کے بعد چائے بھی ادھر ہی مِل گئی۔
نتھیا گلی سے ڈونگا گلی کا ٹریک، اور لالہ زار
نتھیا گلی سے تھوڑا سا اوپر جا کے ایوبیہ نیشنل پارک شروع ہو جاتا ہے۔ یہ بھی والکنگ ڈسٹنس پر ہی ہے۔ اس پارک میں چھوٹا سا ایک چڑیا گھر ہے، آجکل اس چڑیا گھر میں صرف ایک برفانی چیتا ہے۔ برفباری نہ ہونے کی وجہ سے باقی جانوروں کو چیچو کی ملیاں شفٹ کر دیا گیا ہے۔ خیر یہ چیچو کی ملیاں والی تو بونگی ہی تھی، پتہ نہیں کہاں کسی سرد علاقے میں بھیج دیا ہے۔ یہ ٹریک البتہ دلچسپ ثابت ہوا۔ چڑیا گھر میں سے سیدھا ہی آگے نکل جائیں ، اور بس راستے کو فالو کرتے جائیں، کہیں کوئی موڑ چوک چوراہا دوراہا سہ راہا نہیں آتا۔ ہاں تھوڑا سا آگے جا کر ایک دو راہا آتا ہے، اس پر سے آپ نے دائیں ہاتھ ہو جانا ہے، جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے وہاں لکڑی کا بورڈ بھی لگا ہوا ہے۔ بائیں طرف والا راستہ میرانجانی چوٹی کی طرف جاتا ہے۔ بائیں طرف والا راستہ تقریباً آٹھ گھنٹے کے ایک پروفیشنل ٹریک کا سِرا ہے۔ یہ ٹریک میرانجانی کی چوٹی سے ہوتا ہوا ٹھنڈیانی ایبٹ آباد جا نکلتا ہے۔ ریسٹ ہائوس میں ملنے والے گائیڈ وقاص کے مطابق اگر بندہ ہمت والا ہو تو صبح چھے بجے چل کر شام چار بجے تک یہ ٹریک مکمل کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پہ کچھ عرصہ پہلے اُس نے عمران خان کے ساتھ یہ ٹریک کیا تھا، اور بقول اسکے عمران خان اب بھی بہت ایکٹو اور پھرتیلا ہے بالکل کسی نوجوان کی طرح۔
اس ٹریک میں کوئی خاص چڑھائی تو نہیں ہے، لیکن ٹریک کا کچھ حصہ بڑا نیچرل ہے، دائیں طرف کھائی، بائیں طرف پہاڑ، اور پگڈنڈی بہت چھوٹی تو نہیں، بس ایک بندے کی چوڑائی جتنی ہے۔ شام کے کوئی چار بج چکے تھے۔ اس ٹریک کی لمبائی بھی کوئی تین ساڑھے تین کلومیٹر ہو گی۔ اس مرتبہ میں نے ٹائم نوٹ نہیں کیا کیونکہ میں نے سوچا آرام آرام سے چلتا ہوں، جلدی کاہے کی ہے؟ اور ایک مزے کی بات، پورے ٹریک پر یو فون اور ٹیلی نار کے سگنلز پورے آ رہے تھے۔
دِن کا اختتام
دِن کا اختتام
مغرب کی اذانیں ہو رہی تھیں، گو میں کافی تھک چکا تھا لیکن، اس ٹریک کا مزا آیا۔ ٹریک کا اختتام ڈونگا گلی میں مین بازار سے کافی اوپر ہے، سمجھ لیں کوئی آدھا کلومیٹر کی ڈھلوان ہے۔ اور وہ اپنا جو گائیڈ تھا، اسے میں نے سولہ سو روپئے دیئے۔ نیچے آ کر پبلک ٹرانسپورٹ کے انتظار میں سڑک پر بیٹھ گیا، تھوڑی دیر میں ایک کیری ڈبہ مِل گیا۔ ڈرائیور کی شکل دِن والے گائیڈ سے ملتی جلتی تھی، میں تو سمجھا وہی ہے۔ بہرحال اسکے ساتھ میں واپس نتھیا گلی آ گیا۔ اس سے راستے میں گپ شپ ہوئی تو پتہ چلا کہ دن والے گائیڈ کا بڑا بھائی ہے، یہ لفٹ تو مفت میں ہی مِل گئی۔ مین بازار میں رک کر کھانا وانا کھایا، چائے شائے پی۔ بازار کا ایک چکر لگایا، زیادہ رونق نہیں تھی۔ کیونکہ یہ دن یہاں آف سیزن سمجھے جاتے ہیں۔
ٹریجڈی
ٹریجڈی
جس ہوٹل سے کھانا کھایا اسکا نام میرا خیال ہے الخیام تھا، یہاں سے میں نے کمرے کا کرایہ پوچھا تو کائونٹر پر بیٹھے سوبر سے مینیجر کہتے ہیں کہ یار پانچ سو سے لے کر آٹھ سو ہزار تک جہاں بات بن جائے، کیونکہ آف سیزن ہے۔ خیر پھر میں نکلا اوپر گیسٹ ہائوس میں جانے کے لئے۔ چلا چلا چلا لمبی سی چڑھائی چڑہ لی اور چلتا ہی چلا گیا لیکن کمبخت ریسٹ ہائوس کہیں دکھائی ہی نہیں دیا۔ دِن بھر کی تھکن اور پھر ریسٹ ہائوس نا ملنے کی وجہ سے جو کوفت ہوئی بس کچھ نا پوچھیں۔ خیر میں نے وقاص کا نمبر ملایا، تو فون بند۔ بہت مربتہ کال کی لیکن اسکا فون ہی بند جا رہا تھا، میں نے کہا بھئی فٹے منہ۔ خیر تنگ آ کر میں واپس چل پڑا۔ نیچے بازار میں آ کر نتھیا ہائیٹس نامی ہوٹل میں کمرہ لیا، جسکا کرایہ مبلغ پان صد روپے سکہ رائج الوقت تھا، پانچ سو روپے یار سیدھی زبان میں۔
بس پھر بستر پر گرنے کی دیر تھی، سو گیا۔۔۔ لیکن اوپر والے فلور پر کوئی بدتمیز فیملی ٹھہری ہوئی تھی انہوں نے رات کو بارہ بجے کے قریب کھپ ڈالنی شروع کر دی۔ اب میں کیا کہتا، آنکھ کھلی تو کوئی تین بجے تک نیند ہی نہیں آئی۔ خیر، پھر میں سو گیا اور اس طرح پہلا دِن اختتام کو پہنچا۔
پائپ لائن ٹریک اور خانسپور کی روداد انشاءاللہ اگلی پوسٹ میں، جو کہ میں کوشش کروں گا کہ کل رات لکھ لوں ورنہ فیر اگلے جمعے کی رات۔۔۔
پچھلی پوسٹ
پچھلی پوسٹ