بدھ، 10 اگست، 2011

پاکستان ریلویز کا سیاپا، ہائپر سٹار بروز اتوار

پاکستان ریلویز کا سیاپا
نوٹ: عنوان میں دیئے گئے دونوں مضامین پر الگ الگ تحریر ہے، دونوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔
کل صبح دس بجے کے آس پاس میرا گزر شیرپائو پُل سے ہوا۔ سلیٹی مائل دھویں نے توجہ اپنی طرف مبذول کرائی تو میں بھی اور بہت سے پُل پر گاڑیاں موٹرسائیکلیں کھڑی کر کے تماشہ دیکھتے راہگیروں کے ہجوم میں شامل ہو گیا۔ تماشہ لگایا تھا پاکستان ریلوے کی ایک لاوارث بوگی میں جلتی آگ نے۔ تصویر ملاحظہ فرمائیں

Pakistan-railways-boggie-burning-sherpao-bridge-fire-brigade

ریلوے والوں کی اپنی فائر سروس ہے، اور اچھی بات یہ ہے کہ انکی ایک گاڑی وہاں پہلے سے موجود تھی جبکہ اگلے چند منٹ میں دو اور بھی میرے دیکھتے دیکھتے غائوں غائوں کرتی جائے وقوعہ پر پہنچ گئیں۔
آگ لگنے کی وجہ تو نہیں معلوم، نہ میں نے پُل سے اتر کر نیچے کھڑے لوگوں سے جا کر پوچھا۔ کسی اخبار وغیرہ میں تو ایسی خبریں آتی ہی نہیں، کہ انکے صفحات سیاستدانوں کے بے مقصد بیانات، نورا کشتی کھینچا تانی کی داستانوں، اور دیگر  دلدوز خبروں کے لئے وقف ہیں۔

Pakistan-railways-boggie-burning-sherpao-bridge-train

یہ بیبی ٹرین کا ایک اور زاویے سے نظارہ، لگتا ہے بیچاری کو کھڑے کھڑے کافی عرصہ ہو گیا ہے۔ اللہ بھلا کرے بشیر بلور کا، اور اس سے پہلے شیخ رشید صاحب کا۔۔۔ کہ ان اصحاب نے پاکستان ریلوے کی گرتی ہوئی دیوار کو دھکے پہ دھکا اور دوبارہ دھکا دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ آئے دِن ٹرینیں بند ہو رہی ہیں۔ حالانکہ ٹرین کی پٹڑی تو امریکہ اور انگلینڈ کے صنعتی انقلابوں کا دِل تھی۔ ہم اور ہمارے نالائق بزرگوں نے قابض کافر گندے بچے انگریزوں کے لگائے اس انقلابی نظام کو بھی اجاڑ کر رکھ دیا ہے۔ ہاں جی انگریز چلا گیا ہے تو اب اسکی دی ہوئی کوئی سوغات بھی کیوں رہے بھلا؟

Pakistan-railways-boggie-burning-sherpao-bridge-far

اللہ بہتر جانتا ہے کہ آگ کسی کرپٹ ریلوے ملازم نے لگائی، یا کسی نشئی کی پھینکی ہوئی تیلی سے لگی۔ لیکن مجھے تو وہ ٹیکس کا پیسہ جلتا ہوا نظر آ رہا ہے جو میں ہر مہینے حکومت وقت کو ملک چلانے کے لئے دیتا ہوں۔
اس وقت پورا یورپ ٹرینوں کے ذریعہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ جاپان بلٹ ٹرینیں بنا رہا ہے، اور چین تین سو میل فی گھنٹہ والی مقناطیسی ٹرین چلا رہا ہے۔ ہم پچاس پچاس ٹرینیں اکٹھی بند کر رہے ہیں، کوئی انسانیت ہے بھلا؟ کبھی پنڈی سے لاہور یا مخالف سمت ریل کار پر سفر کریں تو آپکو اندازہ کہ کتنے لوگ ٹرین پر سفر کرنا چاہتے ہیں۔ عید کے دِنوں میں تو جناب دس دِن پہلے ساری سیٹیں بُک ہو جاتی ہیں اور دو تین دِن پہلے اگر سیٹ نہیں بُک کروائی تو شاید آپکو ڈبے کے واش روم میں کھڑے ہو کر جانا پڑے۔
اب تو یہ بھی کہنے کو دِل نہیں کرتا کہ اللہ ہمارے لیڈروں کو ہدایت دے، یا عوام کو توفیق دے۔ پتہ نہیں کِس کِس کو ہدایت اور کِس کِس کو توفیق کی ضرورت ہے۔

ہائپر سٹار بروز پچھلا اتوار
ہائپر سٹار ایک فرانسیسی کمپنی کا سپر سٹور ہے پچھلے اتوار رات نوبجے کے بعد میں اور میری بیگم صاحبہ ذرا شاپنگ کرنے گئے۔ تفریح طبع کے لئے چند تصاویر حاضر ہیں
hyperstart-kids-in-trolley

بچے تو یہاں آتے ہی اسلئے ہیں کہ ٹرالی میں بیٹھ کر جھولے لے سکیں۔ ایک آدھی مرتبہ تو میں نے بچوں کے والدین سے پوچھا بھی کہ "یہ بچے ہائپر سٹار سے لئے ہیں؟"۔۔۔
hyperstar-kids-in-trolley

یہ بہن بھائی بھی جھونٹے لینے کے بعد کافی خوش نظر آ رہے تھے۔

اور یہ چھوٹی خاتون کسی اپنے ہی حساب کتاب میں مگن فریزر کے ساتھے لگی گرِل پر والک فرما رہی تھی۔۔۔

hyperstar-waiting-line

لمبی لائن لگی تھی ٹرالیوں کی، کم از کم بیس مِنٹ کھڑے ہونے کے بعد ہماری باری آئی۔ لیکن لوگ پھر بھی سکون سے انتظار کر رہے تھے۔ اندر کا ماحول ٹھنڈا تھا ور میرے خیال میں کسی کو بے یقینی بھی نہیں تھی کہ پتہ نہیں ہماری باری آئے یانہ۔ ورنہ تو سحری ٹائم محلے میں دودھ دہی والے پہلوان کی دوکان پر اس سے زیادہ افراتفری مچی ہوتی ہے۔ اس تصویر کے ساتھ تھوڑی سی انجینئرنگ میں نے خود کی ہے، ایویں ای کسی کو اعتراض ہو تو کیا فائدہ؟

hyperstart-trollies-queue

ہائپر سٹار سے کافی عرصہ پہلے میکرو اور میٹرو پاکستان میں آئے تھے، لیکن یہ اُن سے کافی بہتر ہے۔ یا شاید میرے گھر کے نزدیک ہے ہی یہی۔ آپ لوگوں کا اِس بارے میں کیا خیال ہے؟

بدھ، 3 اگست، 2011

کیا عشق بھی ایک بلاوجہ بڑھایا چڑھایا نظریہ ہے؟

کتابوں کی کتابیں بھری پڑی ہیں، ساٹھ ستر سالوں میں لاکھوں فلمیں بن گئیں، بےشمار گیت لکھے گئے۔ سب کا مرکزی خیال صرف ایک، عشق۔ عشق ایک قابلِ قدر جذبہ ہے لیکن آج کی دنیا میں لگتا ہے مختلف دوکانداروں نے اپنا اپنا سامان بیچنے کی خاطر اس جذبے میں کچھ زیادہ ہی ہوا بھر دی ہے۔ غبارے کی طرح، اسکا اپنا جسم چھوٹا سا ہی ہوتا ہے، لیکن اندر بھری ہوا کی وجہ سے وہ بہت بڑا دکھائی دیتا ہے۔
فلم بنانی ہو، گانا لکھنا ہو، ڈرامہ بنانا ہو، ناول یا کہانی لکھنی ہو، سیدھا سا فارمولا ہے۔ ایک ہیروئن پکڑیں، ایک ہیرو ڈالیں، ایک ولن اور ہمنوا میں ظالم سماج جمع کریں۔ پریم کہانی کا آغاز ہو گا، پھر اسکی بہاریں دکھائی جائیں گی، پھر جناب بیچ میں ولن اور ظالم    سماج کود پڑیں گے، جنکو دنیا میں فساد پھیلانے کے سوا اور کوئی کام نہیں ہوتا۔ اب عشاق اور سماج میں ٹھن جائے گی، حالات گمبھیر ہوں گے، شور شرابہ ہوگا، مارا ماری ہو گی، اور بالآخر گندے بندوں کی ایسی کی تیسی کرتے ہوئے ہیرو ہیروئن نکل جائیں گے جنگلوں کی طرف۔
میں نے ایک موٹا موٹا خاکہ بتایا ہے، اس میں مختف مصالحے مختلف مقداروں اور  مختلف ٹائمنگ کے ساتھ ڈالتے جائیں اور نت نئے لالی پاپ بناتے جائیں۔


عشق کی پیکنگ میں اپنا مال بیچنے والے لوگوں نے انسانی زندگی کے خاص الخاص جزو کو ایسا استعمال کیا ہے کہ کُل کا انجر پنجر ہِل گیا ہے۔ مثال کے طور پر ہمارا سوشل فیبرک۔ 
پاکیزہ، شعاع، خواتین ڈائجسٹ، رنگ برنگی فلمیں گانے، اور ان جیسے سستے فکشن فروش ہمیشہ عشق کی مخالفت کرنے والوں کو ظالم ثابت کرنےپر تلے رہتے ہیں۔ اور انکی کہانیوں میں عشق ہمیشہ مظلوم ہوا کرتا ہے۔ جناب عشق حقائق سے فرار دلانے والی نیند کی گولی، اور عقل کا اندھا بھی ہوتا ہے۔ عشق کی مخالفت کرنے والے ظالم انا پرست بھی ہوتے ہیں لیکن ایسا ہمیشہ نہیں ہوتا۔ کبھی کبھار انکا تجربہ، علم، اور وسعت نظر  گرم رو نوجوانوں کے سے بہت زیادہ، اور نیت صاف ہوتی ہے۔ وہ زمینی حقائق اور تجربے کی روشنی میں صحیح بات کر رہے ہوتے، ہیں، ان سے اپنا بیٹا، بیٹی، بہن، بھائی انکی آنکھوں کے سامنے خراب ہوتا ہوا نہیں دیکھا جا رہا ہوتا۔
عشق فروشوں کی عشق عشق عشق عشق کی سستی گردان نے عشق کو ایک ہوّا بنا دیا ہے۔ حالانکہ آج سے پچاس سال پہلے بھی  لوگ عشق کیا ہی کرتے تھے لیکن تب خود کشیوں، کورٹ میرجز، اور اسی نوع کے مسائل بہت کم تھے۔ تب لوگ عشق بازی کے علاوہ اور بھی کام کیا کرتے تھے۔
کورٹ میرج کی تو میں ایک حد تک حمایت بھی کرتا ہوں، کیونکہ دوسری طرف ہمارے جھوٹے معاشی رسوم و رواج نے نکاح جیسی جائز ضرورت کو عام آدمی کی پہنچ سے بہت دور کر دیا ہے۔ دھوم دھام سے شادی بھی میرے خیال سے ایک ہوا ہی ہے۔
اسکے علاوہ بدقسمتی سے ہم لوگوں کی غیرت اور غصہ کوئی زیادہ ہی تیز ہے، نتیجے کے طور پر بہت سے لوگوں کی جائز خواہشات بھی نہیں پوری ہو رہی ہوتیں تو بہرحال کورٹ میرج ایک طرح سے سماج کے خلاف ہتھیار بھی ہے۔
ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ انسانوں کی تاریخ میں پروپگینڈا کی کیا اہمیت ہے، جرمن نازیوں کا جنگی پراپگینڈا، انیس سو اکہتر میں ہندوستان کا پاکستان کے خلاف پراپگینڈا، روس افغانستان جنگ میں مولویوں کا دہریئے روسیوں کے خلاف پراپگینڈا، بینکنگ سیکٹر کا مڈل کلاس کو آسانی سے ساری خوشیاں پا لینے کا پراپگینڈا۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ عشق بھی ایک پراپگینڈا ہی ہے۔ جسکا مقصد صرف اپنا اپنا مال بیچنا ہے۔ لیکن اسکے نتیجے میں ہونے والا نقصان کوئی نہیں دیکھ رہا۔
شاید عشق ایک اوور ایکسپوزڈ پراپگینڈا ہے، اور بہت سارے نشوں کی طرح ایک  نشہ جن میں دھت رہ کر غریب، اورمتوسط  کلاس کے چوہے ساری زندگی دوڑتے دوڑتے گزار دیتے ہیں۔
خود سوچیں، دنیا میں کرنے کے لئے کیا کچھ نہیں ہے۔ اللہ کی زمین گھومیں، بے انت پھیلے خلائوں اور کہکشائوں کو جانیں، کوئی ہنر سیکھ لیں یا کوئی بڑا کاروبار بنائیں اپنے ساتھ ساتھ اور کئی لوگوں کے روزگار کا ذریعہ بنیں، بھوکوں کو کھانا کھلائیں، انسانی جسم کے اندر کا مطالعہ کریں ڈاکٹر بن کر مسیحا ہو جائیں، کوانٹم فزکس کے پیچھے پڑ جائیں اور دیکھیں تو سہی کیسے بہت چھوٹے ذرات سے مل کر ساری کائنات بنی ہے، کمپیوٹر پروگرامنگ کر لیں مارک زکربرگ اور سٹیو جابز جیسا کچھ کریں۔ مسلمان ہیں تو جناب رسول اللہ صلی اللہ و علیہ صلعم کے نقش 
قدم پر چک لر کوئی معاشی اور سماجی انقلاب برپا کریں۔
لیکن نہیں، اس طرف آپکو کوئی نہیں لگائے گا۔ کیونکہ ایسا کرنے سے انکی دوکانداری کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ 
بندہ کھائے پیئے، سکون کرے لیکن یہ کیا تماشہ ہے کہ جو ہے عشق ہی ہے۔ عشق رب ہے، سب کچھ ہے، عشق نہیں ہے تو کچھ نہیں ہے، مر جائو مٹ جائو، وغیرہ  وغیرہ وغیرہ۔
اپنےساتھ کمپیٹ ایبل اپنے جیسے بندے یا اپنی جیسی بندی کے ساتھ زندگی گزارنا بلاشبہ بڑی بات ہے لیکن یہاں تو اکثریت کو اگلے بندے سے عشق ہوتا ہی نہیں ہے، بلکہ اُس کے ایک خود سے بنائے امیج سے عشق ہوتا ہے۔ اونچے قد، لمبے بال، گورا رنگ، کتابی آنکھیں یہ سب کچھ تو چند گھنٹوں میں خرچ ہو جاتا ہے۔ آخر پر جب آپکا کامل محبوب توقعات کے برعکس آپ جیسا ہی انسان نکلتا ہے، زندگی کے تلخ و شیریں سے واسطہ پڑتا ہے تو بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔
میری اپنی پسند کی شادی ہے، لیکن میں اپنی بیوی سے اور میری بیوی مجھ سے بہت خوش ہیں۔  ایسا بہرحال ہمیشہ نہیں ہوتا۔
کھل کر آراء دیں، البتہ گالی گلوچ اور بے حیائی سے اجتناب کریں۔

پیر، 1 اگست، 2011

اپر مڈل کلاس اور امارت کا دھوکا

پچاس ساٹھ یا ستر ہزار کمانے والی اپر مڈل کلاس آجکل عام ہے۔ گھر میں ایک سے زیادہ کمانے والے ہوں تو شاید یہ آمدن کافی ہو، لیکن ایک آدھے کمانے والا ہو تو حالات مختلف ہوتے ہیں۔ آجکل اس کلاس میں بہت سارے لوگ امارت کے الیوزن میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ حالانکہ وہ ہرگز امیر نہیں ہیں۔ دیکھنے والوں کے لئے انکی تنخواہیں یا آمدنیاں پر کشش ہوتی ہیں لیکن بغور مشاہدہ   کریں تو سمجھ آتی ہے کہ پچاس ساٹھ یا ستر ہزار کمانے والی یہ مڈل کلاس لانگ رن میں غریب ہی ہوتی ہے۔
جو لوگ اس الیوزن سے جلدی چھٹکارہ نہیں پا سکتے انہیں سمجھ تب آتی ہے جب وہ کسی خطرناک صورتحال میں پھنس چکے ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں اپر مڈل کلاس کی امارت بہت نازک ہوتی ہے، وہ کیا کہتے ہیں انگریزی میں فریجائل۔ بالکل نا پائیدار۔ احساس عام طور پر کسی حادثے کی صورت میں ہوتا ہے، جب اچانک آمدن کا واحد ذریعہ ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔

دھوکے کی وجوہات
عام طور پر اس کلاس کے لوگ نیچے سے ترقی کر کے اوپر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر میرے ایک دوست کی تنخواہ آج سے صرف چار سال پہلے آٹھ ہزار روپے تھی، اب اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔  یہ اضافہ کافی تیزی سے ہوا، اور اسکی وجہ سے اُسے لگنے لگا کہ وہ بہت امیر ہو گیا ہے۔ کھانا پینا، کپڑا جوتا، اور کافی چیزیں اچھی قسم کی استعمال کرنے لگ گیا۔ ان میں سے اکثر ایسی چیزیں تھیں جو کہ آج سے چار سال پہلے وہ عیاشی سمجھا کرتا تھا۔
پتہ اُسے بھی تب ہی چلا جب اچانک ایک جان لیوا بیماری میں مبتلا ہو گیا، اسکے گھر والے موجود تھے سو انہوں نے اسکو سنبھال لیا۔ تب اُس نے سوچا کہ آج سے پچیس سال بعد جب میرے بچے جوان ہوں گے، اور میرے والدین اول تو حیات نہیں ہو گے اور اگر ہوئے بھی تو میری مالی امداد کرنے قابل نہیں ہوں گے۔ اگر تب میرے ساتھ کوئی ایسی صورتحال بن گئی تو میں کیا کروں گا؟
تنخواہ دار برادری سمجھ سکتی ہے، یہ دورہ تنخواہ آنے سے ایک دو دِن پہلے پڑتا ہے۔ تنخواہ آنے کے فوراً بعد پڑتا ہے ہاتھوں میں خارش کا دورہ جسکے نتیجے میں تنخواہ کا بڑا حصہ شُت کر کے خرچ ہو جاتا ہے۔ بہر حال اس وقت مجھے دورہ پڑ چکا ہے، اور میں لکھی جا رہا ہوں۔

مسئلے کا حل
کسی طریقے سے اپنے ذہن کو ریورس گیئر لگا کر غریبی والی حالت میں لے جانے کے علاوہ اور کوئی حل نہیں ہے۔ بیگمات اور امہات کو بھی چاہیئے کے اس سلسلے میں تعاون کریں۔ ورنہ بیس سال بعد سمجھ آتی ہے کہ عمر گزر گئی اور بچا کچھ بھی نہیں، سب کچھ کھا پی کے ہضم کر دیا۔
انشورنس کروا لیں، ایسے کم از کم کچھ پیسے بچتے رہتے ہیں۔
میں پروگرامر ہوں، اچھی تنخواہ لیتا ہوں۔ اگر دِن رات ایک کر دوں تو اس سے دوگنا کما لوں گا۔ لیکن ویسا کرنے سے  میری سوشل لائف تباہ ہو جائے گی۔ زیادہ کام کرنا، اور زیادہ پیسہ کمانا مسائل کو مکمل طور پر حل نہیں کر سکتا۔ مسائل کے مکمل حل کے لئے وسائل کا سلیقہ مندہ سے استعمال زیادہ ضروری ہوتا ہے۔
میں بخیلی کرنے کا مشورہ ہرگز نہیں دے رہا، جہاں ضرورت ہو وہاں پیسہ خرچ کریں۔ لیکن جہاں ضرورت نہ ہو وہاں عقلمندی سے کام لیتے ہوئے جو بچ جائے وہی بہتر ہے۔

Pak Urdu Installer

Pak Urdu Installer