پاکستان ریلویز کا سیاپا
نوٹ: عنوان میں دیئے گئے دونوں مضامین پر الگ الگ تحریر ہے، دونوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔
کل صبح دس بجے کے آس پاس میرا گزر شیرپائو پُل سے ہوا۔ سلیٹی مائل دھویں نے توجہ اپنی طرف مبذول کرائی تو میں بھی اور بہت سے پُل پر گاڑیاں موٹرسائیکلیں کھڑی کر کے تماشہ دیکھتے راہگیروں کے ہجوم میں شامل ہو گیا۔ تماشہ لگایا تھا پاکستان ریلوے کی ایک لاوارث بوگی میں جلتی آگ نے۔ تصویر ملاحظہ فرمائیں
ریلوے والوں کی اپنی فائر سروس ہے، اور اچھی بات یہ ہے کہ انکی ایک گاڑی وہاں پہلے سے موجود تھی جبکہ اگلے چند منٹ میں دو اور بھی میرے دیکھتے دیکھتے غائوں غائوں کرتی جائے وقوعہ پر پہنچ گئیں۔
آگ لگنے کی وجہ تو نہیں معلوم، نہ میں نے پُل سے اتر کر نیچے کھڑے لوگوں سے جا کر پوچھا۔ کسی اخبار وغیرہ میں تو ایسی خبریں آتی ہی نہیں، کہ انکے صفحات سیاستدانوں کے بے مقصد بیانات، نورا کشتی کھینچا تانی کی داستانوں، اور دیگر دلدوز خبروں کے لئے وقف ہیں۔
یہ بیبی ٹرین کا ایک اور زاویے سے نظارہ، لگتا ہے بیچاری کو کھڑے کھڑے کافی عرصہ ہو گیا ہے۔ اللہ بھلا کرے بشیر بلور کا، اور اس سے پہلے شیخ رشید صاحب کا۔۔۔ کہ ان اصحاب نے پاکستان ریلوے کی گرتی ہوئی دیوار کو دھکے پہ دھکا اور دوبارہ دھکا دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ آئے دِن ٹرینیں بند ہو رہی ہیں۔ حالانکہ ٹرین کی پٹڑی تو امریکہ اور انگلینڈ کے صنعتی انقلابوں کا دِل تھی۔ ہم اور ہمارے نالائق بزرگوں نے قابض کافر گندے بچے انگریزوں کے لگائے اس انقلابی نظام کو بھی اجاڑ کر رکھ دیا ہے۔ ہاں جی انگریز چلا گیا ہے تو اب اسکی دی ہوئی کوئی سوغات بھی کیوں رہے بھلا؟
اللہ بہتر جانتا ہے کہ آگ کسی کرپٹ ریلوے ملازم نے لگائی، یا کسی نشئی کی پھینکی ہوئی تیلی سے لگی۔ لیکن مجھے تو وہ ٹیکس کا پیسہ جلتا ہوا نظر آ رہا ہے جو میں ہر مہینے حکومت وقت کو ملک چلانے کے لئے دیتا ہوں۔
اس وقت پورا یورپ ٹرینوں کے ذریعہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ جاپان بلٹ ٹرینیں بنا رہا ہے، اور چین تین سو میل فی گھنٹہ والی مقناطیسی ٹرین چلا رہا ہے۔ ہم پچاس پچاس ٹرینیں اکٹھی بند کر رہے ہیں، کوئی انسانیت ہے بھلا؟ کبھی پنڈی سے لاہور یا مخالف سمت ریل کار پر سفر کریں تو آپکو اندازہ کہ کتنے لوگ ٹرین پر سفر کرنا چاہتے ہیں۔ عید کے دِنوں میں تو جناب دس دِن پہلے ساری سیٹیں بُک ہو جاتی ہیں اور دو تین دِن پہلے اگر سیٹ نہیں بُک کروائی تو شاید آپکو ڈبے کے واش روم میں کھڑے ہو کر جانا پڑے۔
اب تو یہ بھی کہنے کو دِل نہیں کرتا کہ اللہ ہمارے لیڈروں کو ہدایت دے، یا عوام کو توفیق دے۔ پتہ نہیں کِس کِس کو ہدایت اور کِس کِس کو توفیق کی ضرورت ہے۔
ہائپر سٹار بروز پچھلا اتوار
ہائپر سٹار ایک فرانسیسی کمپنی کا سپر سٹور ہے پچھلے اتوار رات نوبجے کے بعد میں اور میری بیگم صاحبہ ذرا شاپنگ کرنے گئے۔ تفریح طبع کے لئے چند تصاویر حاضر ہیں
بچے تو یہاں آتے ہی اسلئے ہیں کہ ٹرالی میں بیٹھ کر جھولے لے سکیں۔ ایک آدھی مرتبہ تو میں نے بچوں کے والدین سے پوچھا بھی کہ "یہ بچے ہائپر سٹار سے لئے ہیں؟"۔۔۔
یہ بہن بھائی بھی جھونٹے لینے کے بعد کافی خوش نظر آ رہے تھے۔
اور یہ چھوٹی خاتون کسی اپنے ہی حساب کتاب میں مگن فریزر کے ساتھے لگی گرِل پر والک فرما رہی تھی۔۔۔
لمبی لائن لگی تھی ٹرالیوں کی، کم از کم بیس مِنٹ کھڑے ہونے کے بعد ہماری باری آئی۔ لیکن لوگ پھر بھی سکون سے انتظار کر رہے تھے۔ اندر کا ماحول ٹھنڈا تھا ور میرے خیال میں کسی کو بے یقینی بھی نہیں تھی کہ پتہ نہیں ہماری باری آئے یانہ۔ ورنہ تو سحری ٹائم محلے میں دودھ دہی والے پہلوان کی دوکان پر اس سے زیادہ افراتفری مچی ہوتی ہے۔ اس تصویر کے ساتھ تھوڑی سی انجینئرنگ میں نے خود کی ہے، ایویں ای کسی کو اعتراض ہو تو کیا فائدہ؟
ہائپر سٹار سے کافی عرصہ پہلے میکرو اور میٹرو پاکستان میں آئے تھے، لیکن یہ اُن سے کافی بہتر ہے۔ یا شاید میرے گھر کے نزدیک ہے ہی یہی۔ آپ لوگوں کا اِس بارے میں کیا خیال ہے؟