منگل، 15 مارچ، 2016

اسلام آباد ہائی پر ہونے والا میرا حادثہ






 بائیں جانب سے دوسری لین میں وہ موٹر سائیکل سوار نوجوان کہاں سے آیا، کب آیا مجھے کچھ پتہ نہیں۔ صبح ساڑھے چار بجے کے قریب اسلام آباد ہائی وے پر ہلکی دھند تھی اور میری رفتار لگ بھگ کلومیٹر فی گھنٹا ہو گی۔۔
میں نے پوری قوت سے بریک لگائی البتہ سڑک گذشتہ رات کی بارش سے گیلی تھی اور پھر سوزوکی مہران کی بریک لگتی بھی دیر سے ہے۔
ڈز۔۔۔ لڑکا اچھل کر ونڈ سکرین سے ٹکرایا اور پھر قلابازیاں کھاتا ہوا سڑک پر جا گِرا۔ الحمدللہ وہاں سے بھاگنے کا خیال میں ذہن میں آیا ہی نہیں۔ بلکہ گاڑی رکتے ہی میں نے دروازہ کھولا اور بھاگ کر اسکے پاس جا پہنچا۔ "بھائی" میری زبان سے نکلنے والا پہلا لفظ تھا۔
لڑکا اسلام آباد میں ایک معروف ریستوران میں ویٹر ہے اور اسوقت اپنے دوستوں کے ساتھ گپ شپ لگاتا ہوا واپس گھر جا رہا تھا۔ اُسکے دو دوست پہلی لین میں علیحدہ موٹر سائیکل پر تھے۔ وہ لوگ بھی آن پہنچے اور کٹر اسلام آبادی انداز میں گاڑی کا نمبر نوٹ کرنے اور آنکھیں نکالنے میں مشغول ہو گئے۔ 
میں نے البتہ انکو سمجھایا کہ اگر مجھے بھاگنا ہی ہوتا تو میں رکتا نہ، چلو اسکو ہسپتال لے کر جاتے ہیں۔ 
گاڑی کی ونڈ سکرین ٹوٹی چکی تھی اور بونٹ کا بھی ستیا ناس ہوا تھا۔ لیکن ہم نے اُسے اور اسکے ایک دوست کو گاڑی میں بٹھایا اور پمز ہسپتال جا پہنچے۔
ایمرجنسی میں عملے نے تعاون کیا۔ لڑکے کو گھٹنوں پر خراشیں آئیں تھیں۔ ہیلمٹ ٹوٹ گیا تھا، نہ پہنا ہوتا تو اُسکا سر ٹوٹنا تھا۔ لڑکے کا نام جنید تھا۔ ٹیٹنس کا ٹیکہ وغیرہ لگ گیا تو ایکسرے کی باری آئی۔ اُسکی ایک ٹانگ میں درد ہو رہی تھی۔ انگلیاں ہلا پا رہا تھا لیکن درد کی شکایت تھی۔
ایکسرے کروایا، ڈاکٹر کو دکھایا اور جب کوئی فریکچر نہ مِلا تو سکھ کا سانس لیا۔

پھر باری آئی لین دین کی۔ میں نے انہیں اسوقت پینتیس سو روپے دیئے۔ 
نقصان تو میرا بھی سات ایک ہزار کا ہو گیا تھا لیکن میں نے سوچا مجھے اللہ نےبڑا دیا ہے۔  شکر ہے بندے کی جان بچ گئی۔ ورنہ بڑی مصیبت ہوتی۔

ان سے وعدہ کیا کہ اگر مزید پیسوں کی ضرورت پڑی تو وہ بھی دے دوں گا۔

کچھ دِن بعد میں نے دو ہزار روپے مزید جنید کے اکائونٹ میں ٹرانسفر کر دیئے۔
تفصیل اس اجمال کی کچھ یوں ہے کہ اسکے مطابق ایک تو اسکی بائیک کا پچھلا مڈگارڈ اور رِم ٹوٹ گئے تھے دوسرا اسے چوٹیں آئیں اور اسوجہ سے کام سے چھٹی کرنی پڑی۔ اسکی پہلی سے کم تنخواہ مبلغ بارہ ہزار میں سے بھی چار دِن کی کٹوتی ہونی تھی۔

اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے کافی ساری تفصیلات لکھنے سے جان بوجھ کر گریز کر رہا ہوں۔


Note: The accident took place in February 2016, date was 20th and the day was Saturday.

بدھ، 9 مارچ، 2016

دولتمند ہونے کی خواہش کو حقیقت میں بدلنے کیلئے چھے اقدام


پہلا قدم

آپکے پاس کتنے پیسےہونے چاہیئیں، اپنے ذہن میں ایک ہندسہ نقش کر لیں۔ یوں کہنا کہ "مجھے ڈھیروں پیسے چاہیئیں" کافی نہیں ہوتا۔ پیسے کی حتمی مقدار کا تعین لازم ہے۔ ایسا کرنے کی ٹھوس نفسیاتی وجوہات ہیں۔


دوسرا قدم

اس بات کا تعین کریں کہ پیسے کے بدلے آپ کسی کو کیا دے سکتے ہیں۔ کچھ دیئے بغیر کبھی کچھ حاصل نہیں ہوتا۔


تیسرا قدم

جو رقم آپ نے اپنے ذہن میں مخصوص کر رکھی ہے، وہ کس تاریخ کو آپکے پاس ہو گی۔ مستقبل کی ایک تاریخ کا تعین کر لیں۔

چوتھا قدم

اپنے خواہش کے حصول کے لئے ایک ٹھوس منصوبہ بنائیں اور اس پر فوری طور پر کام شروع کر دیں۔ بھلے آپ اپنے منصوبے کو عملی شکل دینے کے لئے تیار ہوں یا نہ۔

پانچواں قدم

جتنی دولت کی آپکو خواہش ہے، اسے واضح لفظوں میں لکھ لیں۔ اسکے حصول کے لئے ایک مخصوص مدت مقرر کر لیں۔  یہ بھی لکھ رکھیں کہ آپ اس دولت کے بدلے لوگوں کو کیا دیں گے۔ اس دولت کے حصول کے لئے جو منصوبہ آپ نے تیار کیا ہے، اسکو بھی صاف صاف لکھ لیں۔


چھٹا قدم

اپانچویں قدم پر لکھی ہوئی اپنی تحریر کو با آواز بلند پڑھیں، ایک مرتبہ رات کو سونے سے پہلے اور ایک مرتبہ صبح جاتنے کے بعد۔ پڑھتے وقت آپ یوں سوچیں اور خود کو ایسے دیکھیں کہ جیسے آپکے پاس یہ دولت آ ہی چکی ہے۔

یہ تحریرامریکی مصنف نپولین ہل کی شہرہ آفاق کتاب 
Think and grow rich
سے ایک صفحے کا ترجمہ ہے۔

Pak Urdu Installer

Pak Urdu Installer