ہفتہ، 11 اپریل، 2015

جوتے کی واپسی


میاں جی کا ہوٹل کھاریاں اور  لالہ موسٰی کے درمیان واقع ہے۔ راولپنڈی سے لاہور تک جاتے ہوئے میں یہاں چائے وغیرہ پینے کے لئے رکتا ہوں۔ ایسے ہی ایک سوموار کی صبح گاڑی ہوٹل کی پارکنگ میں لگا کر جو باہر نکلا تو دیکھا کہ سامنے درخت کے نیچے ایک خان صاحب بیٹھے جوتوں کو رگڑا لگا رہے ہیں۔ میں نے جاگر پہن رکھے تھے اور ایک ڈریس شوز کا جوڑا گاڑی میں پڑا تھا، سوچا انکو پالش کروا لیتے ہیں۔
واپس جا کر گاڑی میں سے جوتا نکالا اور خان صاحب کے حوالے کر دیا۔ اس لمحے مجھے خیال آیا کہ کہیں جاتے وقت جوتا بھول نہ جائوں، لیکن خیر میں نے کہا کہ ایسی بھی کوئی بات نہیں اور ہوٹل میں گھس گیا۔
چائے کا کپ پی کر باہر نکلا، انگڑائی وغیرہ لی، واشروم کا چکر لگایا، اور ہاتھ منہ بھی دھویا کہ ابھی ڈھائی تین گھنٹے کی ڈرائیونگ باقی تھی۔ پھر میں اللہ کا نام لے کر گاڑی میں بیٹھا اور چند ہی لمحوں بعد لاہور کی طرف رواں دواں تھا۔

ماموں زاد بہن کا فون آتا ہے

کھاریاں کے قریب میں نے ماموں کی بیٹی کو میسج کیا تھا کہ اگر سارے یونیورسٹی اور کام وغیرہ پر نہیں گئے، مطلب کہ کوئی گھر پر ہے تو میں چکر لگاتا ہوں۔ لالہ موسیٰ کے پاس پہنچا تو انکا فون آ گیا کہ  نعیم صاحب پوچھنے والی کونسی بات تھی، ہمیشہ کی طرح منہ اٹھا کے چلے آنا تھا آپکا اپنا ہی گھر ہے۔ دِل تو چاہا کہ گاڑی واپس گھما لوں مگر پھر سوچا کہ دفتر سے دیر ہو جائیگی اور واپسی کا ارادہ ترک کر دیا۔

مریدکے 

مریدکے پہنچ کر اچانک مجھے پر یہ انکشاف ہوا کہ جوتے تو میں نے واپس لئے ہی نہیں۔ فوری طور پر واپس جانا ناممکن تھا۔ ہمیں تئیس مارچ کی چھٹی نہیں تھی، اورمجھ میں مزید چھے گھنٹے گاڑی چلانے کی ہمت بھی نہیں تھی۔
خفت، شرمندگی، اور غصے کی لہر ذرا مدھم ہوئی تو خیال آیا کہ آج تو عدیل صاحب (چھوٹا بھائی)واپس لاہور تشریف لا رہے ہیں۔ انہوں نے گجرات سے لاہور آنا ہے اور ایک گھنٹے میں وہ میاں جی کے ہوٹل سے میرا جوتا لے سکتے ہیں۔ بشرطیکہ خاں صاحب وہیں موجود ہوں۔

جوتے کی خاص بات

یہ میرا مہنگا ترین جوتا ہے۔ میں نے زندگی میں ایک مرتبہ چھے ہزار روپے کا جوتا خریدا، اور اسے دو سال سے بہت سنبھال کر استعمال کر رہا ہوں۔ اسکے ایسے کھو جانے کا مجھے شدید افسوس تھا۔

میں نے فون ملایا

"یار میرا جوتا لانا ہے میاں جی کے ہوٹل سے"
اس فقرے کا رسپانس اتنا ہی حیران پریشان تھا جتنا مجھے توقع تھی۔ 
میں نے پوری داستان سنائی تو بہرحال بھائی کو سمجھ آ ہی گئی۔ گھر سے ایک  گھنٹہ جلدی نکل پڑے۔
وہاں پہنچ کرخان صاحب کو ڈھونڈنا آسان کام تھا۔ موٹی نشانی کہ خان صاحب درخت کے نیچے بیٹھے تھے۔ جوتا پالش کیا ہوا سامنے پڑا تھا، بھائی نے جاتے ہی خانصاحب کو کہا کہ یہ والا جوتا لینا ہے۔ خان کی یاد داشت اچھی تھی، کہنے لگا کہ یہ آپ تو نہیں دے کر گئے۔ اسلئے عدیل صاحب کو میری خانصاحب سے فون پر بات کروانی پڑی۔

"میں نے یہ جوتا صبح سے چار بار پالش کیا ہے"

بھائی نے خان صاحب کو سو روپے دینے کی کوشش کی، لیکن اس جوان نے بھی اپنی جائز مزدوری سے اوپر لینے سے انکار کر دیا اور باقی پیسے واپس کئے۔
البتہ اس نے یہ ضرور کہا کہ میں نے یہ جوتا صبح سے چار مرتبہ پالش کیا ہے کہ شاید ابھی کوئی لینے آ جائے۔

سبق

بٹوے کی واپسی کے بعد جوتے کی واپسی کا ایک اور پہلے بٹوے کی گمشدگی اور جوتے کی گمشدگی بھی ہے۔ یہ چیزیں پہلے گم ہوئیں اور بعد میں ملیں۔
چھوٹے چھوٹے نقصان اور انسے ریکوریاں بندے کے لئے تنبیہ ہوتی ہیں۔
میں تب سے پوری احتیاط کر رہا ہوں کہ مزید کوئی چیز گمنے کی نوبت نہ آئے۔
یہ الگ بات ہے کہ گاڑی ریورس کرتے ہوئے کھمبے کو دے ماری۔ مگر شکر ہے وہاں بھی بچت ہوگئی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

کھلے دِل سے رائے دیں، البتہ کھلم کھلی بدتمیزی پر مشتمل کمنٹ کو اڑانا میرا حق ہے۔

Pak Urdu Installer

Pak Urdu Installer