جمعرات، 23 اپریل، 2015

انجینئر سعید قادر گارڈ، ایک با ہمت نوجوان

engineer

دفتر کے ساتھ ہی میٹرو سپر سٹور ہے۔ پڑوس میں ہونے کی وجہ سے گاہے گاہے چکر لگتا رہتا ہے۔ میری عادت خاصی دوستانہ ہے، جہاں جائوں دوست بن جاتے ہیں۔ سو میٹرو میں بھی  ایک گارڈ سے تھوڑی سلام دعا ہو گئی۔ ایک دِن اس نوجوان نے مجھے بتایا کہ وہ نوکری ڈھونڈ رہا ہے، اور پوچھا کہ کیا میں اسکی کوئی مدد کر سکتا ہوں؟ میرا اگلا منطقی سوال تھا کہ بھائی آپکی تعلیم کتنی ہے؟

"میں نے بی ایس سی الیکٹریکل انجینئرنگ کی ہوئی ہے، بہاولپور یونیورسٹی سے۔"

مجھے کم از کم اس جواب کی توقع نہیں تھی۔ 

اب تک چند دوستوں کو انجینئر صاحب کا سی وی دے چکا ہوں، ایک آدھی جگہ نے انٹرویو کی کال بھی آئی البتہ ابھی تک ملازمت کا بندوبست نہیں ہوا۔

اس مسئلے پر فلسفیانہ بحث کرنا مقصد نہیں، کسی کو کوسنے اور برا بھلا کہنے سے بھی کچھ نہیں بدلے گا۔ 
آپکی بڑی مہربانی ہو گی اگر آپ اس محنتی، سیلف لیس، اور اعلٰی تعلیم یافتہ نوجوان کے لئے روزگار کا کوئی بندوبست کر سکیں۔

سعید کا سی وی حاصل کرنے کے لئے مجھے فون یا ای میل کریں۔

والسلام
نعیم اکرم ملک
03420009717
nakram1@hotmail.com




منگل، 21 اپریل، 2015

ہزار روپے کا جعلی نوٹ، کیشیئر کی غلطی یا بے ایمانی؟

یہ رہا وہ "اصلی جعلی" نوٹ۔ واہ کیا اوکسی موران نکالی ہے آپکے بھائی نے۔

کہانی کا پس منظر

گاڑی کی تھوڑی مرمت درستگی کا کام ہونے والا تھا۔ گھر کے پاس سوزوکی کا شوروم ہے، جمعرات والے دن میں گاڑی وہاں لے گیا۔ کُل مِلا کر کوئی تین ہزار کے قریب بل بنا۔ میرے بٹوے میں پانچ ہزار کا ایک ہی نوٹ تھا، وہ کیشیئر خاتون کو دے دیا۔ دو ہزار ایک سو کچھ روپے بقایا آئے۔ نوٹوں پر موٹی سی نظر مار کے بٹوے میں ڈال لئے۔

شام کی شاپنگ

شام سات بجے کے قریب میٹرو لنک روڈ سے کچھ سامان خریدا۔ بِل ایک ہزار سے کچھ کم ہی تھا۔ صبح والے دو نوٹوں میں سے ایک نکال کر کیشیئر کو دیا۔ لڑکی نے نوٹ کو ہاتھ لگاتے ہی بتا دیا کہ جناب نوٹ جعلی ہے۔ ایک آدھے اور بندے کو دکھایا تو تصدیق بھی ہو گئی۔ دوسرا نوٹ دے کر جان بچائی۔

ورکشاپ بند

جمعے کی صبح پہلا کام یہ کیا کہ نو بجے کے قریب سوزوکی منی موٹرز والٹن روڈ چلا گیا۔ وہاں تمام دروازے بند تھے، گارڈ نے بتایا کہ آج چھٹی ہے آپ کل آنا۔
ہفتہ اور اتوار کو میں اپنے گائوں چلا جاتا ہوں۔ سوچا پیر والے دن دیکھی جائیگی۔

سوموار کی صبح

گائوں سے لاہور پہنچتے پہنچتے ساڑھے نو بج گئے۔ البتہ می سیدھا سوزوکی ورکشاپ چلا گیا۔ وہاں جا کر بات کی تو ایک صاحب مجھے کیشیئر کے سامنے لے گئے۔ کیشیئر نے صاف انکار کر دیا کہ نوٹ اس نے دیا ہی نہیں۔ 
اسکا کہنا تھا کہ مجھے رقم کائونٹر پر چیک کر لینی چاہیئے تھی۔ میں نے پیسے گنے تو تھے لیکن یہاں سے جعلی نوٹ ملنے کا خدشہ میرے وہم گمان میں نہ تھا۔
میں تھوڑ اونچا بول کر اوپر مین شوروم میں آ گیا۔
یہاں ایک اور صاحب کو سارا مسئلہ بتایا، انہوں نے بھی یہی کہا کہ جناب آپکی غلطی ہے ہم تو بے قصور ہیں۔

ملتا جُلتا ایک اور واقعہ، ہائپر سٹار

مجھے کسی نے بتایا کہ جب ہائپر سٹار نیا نیا بنا تھا تو انکا بھی ایک کیش ہینڈل کرنے والا بندہ پانچ سو ہزار کا جعلی نوٹ بینک جانیوالی کرنسی میں مکس کر دیا کرتا تھا۔
اصلی نوٹ نکال کر وہ آدمی اپنی جیب میں ڈال لیتا۔
چند ایک مرتبہ بینک سے شکایت آئی تو انتظامیہ نے چپکے سے چھان بین اور نگرانی شروع کر دی۔
آخر کار نوسرباز پکڑا گیا۔

کہیں سوزوکی منی موٹرز والٹن میں بھی تو ایسا نہیں؟

میری اس ورکشاپ والوں سے نہ کوئی دوستی ہے نہ دشمنی۔ ایک ہزار کا نقصان ہوا ہے، لیکن وقتی غصہ تھا اتر گیا۔ اب صرف معلومات عام کرنے کے لئے لکھ رہا ہوں۔
عین ممکن ہے کہ سوزوکی والوں کے تالاب کو بھی کوئی ایک مچھلی گندا کر رہی ہو۔
شاید وہی کیشیئر جس نے مجھے بقایا دیا تھا، یا کوئی اور ملازم۔
ان لوگوں کو چاہیئے کہ اپنے سٹاف کی نگرانی کریں اور اپنے معاملات درست کریں۔ 
دوسرا رُخ: اگر فرض کریں کہیں غلطی سے جعلی نوٹ آ ہی گیا ہو تو اسکو گاہکوں کے گلے مت ڈالیں۔

نتیجہ

کم از کم میں خود آئندہ کبھی بھی سوزوکی منی موٹرز والٹن پر گاڑی کا کام کروانے نہیں جائوں گا۔ اور نہ ہی میں کسی دوست کو وہاں جانے کا مشورہ دوں گا۔

ہفتہ، 11 اپریل، 2015

جوتے کی واپسی


میاں جی کا ہوٹل کھاریاں اور  لالہ موسٰی کے درمیان واقع ہے۔ راولپنڈی سے لاہور تک جاتے ہوئے میں یہاں چائے وغیرہ پینے کے لئے رکتا ہوں۔ ایسے ہی ایک سوموار کی صبح گاڑی ہوٹل کی پارکنگ میں لگا کر جو باہر نکلا تو دیکھا کہ سامنے درخت کے نیچے ایک خان صاحب بیٹھے جوتوں کو رگڑا لگا رہے ہیں۔ میں نے جاگر پہن رکھے تھے اور ایک ڈریس شوز کا جوڑا گاڑی میں پڑا تھا، سوچا انکو پالش کروا لیتے ہیں۔
واپس جا کر گاڑی میں سے جوتا نکالا اور خان صاحب کے حوالے کر دیا۔ اس لمحے مجھے خیال آیا کہ کہیں جاتے وقت جوتا بھول نہ جائوں، لیکن خیر میں نے کہا کہ ایسی بھی کوئی بات نہیں اور ہوٹل میں گھس گیا۔
چائے کا کپ پی کر باہر نکلا، انگڑائی وغیرہ لی، واشروم کا چکر لگایا، اور ہاتھ منہ بھی دھویا کہ ابھی ڈھائی تین گھنٹے کی ڈرائیونگ باقی تھی۔ پھر میں اللہ کا نام لے کر گاڑی میں بیٹھا اور چند ہی لمحوں بعد لاہور کی طرف رواں دواں تھا۔

ماموں زاد بہن کا فون آتا ہے

کھاریاں کے قریب میں نے ماموں کی بیٹی کو میسج کیا تھا کہ اگر سارے یونیورسٹی اور کام وغیرہ پر نہیں گئے، مطلب کہ کوئی گھر پر ہے تو میں چکر لگاتا ہوں۔ لالہ موسیٰ کے پاس پہنچا تو انکا فون آ گیا کہ  نعیم صاحب پوچھنے والی کونسی بات تھی، ہمیشہ کی طرح منہ اٹھا کے چلے آنا تھا آپکا اپنا ہی گھر ہے۔ دِل تو چاہا کہ گاڑی واپس گھما لوں مگر پھر سوچا کہ دفتر سے دیر ہو جائیگی اور واپسی کا ارادہ ترک کر دیا۔

مریدکے 

مریدکے پہنچ کر اچانک مجھے پر یہ انکشاف ہوا کہ جوتے تو میں نے واپس لئے ہی نہیں۔ فوری طور پر واپس جانا ناممکن تھا۔ ہمیں تئیس مارچ کی چھٹی نہیں تھی، اورمجھ میں مزید چھے گھنٹے گاڑی چلانے کی ہمت بھی نہیں تھی۔
خفت، شرمندگی، اور غصے کی لہر ذرا مدھم ہوئی تو خیال آیا کہ آج تو عدیل صاحب (چھوٹا بھائی)واپس لاہور تشریف لا رہے ہیں۔ انہوں نے گجرات سے لاہور آنا ہے اور ایک گھنٹے میں وہ میاں جی کے ہوٹل سے میرا جوتا لے سکتے ہیں۔ بشرطیکہ خاں صاحب وہیں موجود ہوں۔

جوتے کی خاص بات

یہ میرا مہنگا ترین جوتا ہے۔ میں نے زندگی میں ایک مرتبہ چھے ہزار روپے کا جوتا خریدا، اور اسے دو سال سے بہت سنبھال کر استعمال کر رہا ہوں۔ اسکے ایسے کھو جانے کا مجھے شدید افسوس تھا۔

میں نے فون ملایا

"یار میرا جوتا لانا ہے میاں جی کے ہوٹل سے"
اس فقرے کا رسپانس اتنا ہی حیران پریشان تھا جتنا مجھے توقع تھی۔ 
میں نے پوری داستان سنائی تو بہرحال بھائی کو سمجھ آ ہی گئی۔ گھر سے ایک  گھنٹہ جلدی نکل پڑے۔
وہاں پہنچ کرخان صاحب کو ڈھونڈنا آسان کام تھا۔ موٹی نشانی کہ خان صاحب درخت کے نیچے بیٹھے تھے۔ جوتا پالش کیا ہوا سامنے پڑا تھا، بھائی نے جاتے ہی خانصاحب کو کہا کہ یہ والا جوتا لینا ہے۔ خان کی یاد داشت اچھی تھی، کہنے لگا کہ یہ آپ تو نہیں دے کر گئے۔ اسلئے عدیل صاحب کو میری خانصاحب سے فون پر بات کروانی پڑی۔

"میں نے یہ جوتا صبح سے چار بار پالش کیا ہے"

بھائی نے خان صاحب کو سو روپے دینے کی کوشش کی، لیکن اس جوان نے بھی اپنی جائز مزدوری سے اوپر لینے سے انکار کر دیا اور باقی پیسے واپس کئے۔
البتہ اس نے یہ ضرور کہا کہ میں نے یہ جوتا صبح سے چار مرتبہ پالش کیا ہے کہ شاید ابھی کوئی لینے آ جائے۔

سبق

بٹوے کی واپسی کے بعد جوتے کی واپسی کا ایک اور پہلے بٹوے کی گمشدگی اور جوتے کی گمشدگی بھی ہے۔ یہ چیزیں پہلے گم ہوئیں اور بعد میں ملیں۔
چھوٹے چھوٹے نقصان اور انسے ریکوریاں بندے کے لئے تنبیہ ہوتی ہیں۔
میں تب سے پوری احتیاط کر رہا ہوں کہ مزید کوئی چیز گمنے کی نوبت نہ آئے۔
یہ الگ بات ہے کہ گاڑی ریورس کرتے ہوئے کھمبے کو دے ماری۔ مگر شکر ہے وہاں بھی بچت ہوگئی۔

Pak Urdu Installer

Pak Urdu Installer