جمعرات، 20 نومبر، 2014

صدرالدین ہاشوانی کی کتاب سچ کا سفر کی تقریب رونمائی

پندرہ نومبر بروز ہفتہ مجھے میریٹ ہوٹل اسلام آباد میں صدرالدین ہاشوانی صاحب کی کتاب "سچ کا سفر" کی تقریب رونمائی میں شرکت کا موقع ملا۔ یہ تقریب دی 
انڈس انٹرپرینیور نامی تنظیم کے زیر انتظام منعقد ہوئی تھی۔

Now 's home delivery is available,order at Hashwanimemoir@gmail.com 
Cash on delivery.

صدرالدین ہاشوانی ایک کامیاب بزنس مین ہیں، ہاشو گروپ کے زیر انتظام پاکستان میں پی سی ہوٹل، میریٹ ہوٹل، ہوٹل ون جیسے کامیاب ہوٹل چل رہے ہیں۔ اسکے علاوہ ہاشو فائونڈیشن اب تک ہزاروں لوگوں کو تعلیمی سکالر شپ بھی دے چکی ہے۔
hashwani-memoir-truth-prevails-cover-Urdu

مصروفیت کی بنا پر کتاب پڑھنے میں کچھ دیر لگ گئی۔ ٹی وی نہیں دیکھتا اس لئے آج ایک دوست سے یہ سن کر  مسرت ہوئی کہ سندھ حکومت نے کراچی وغیرہ میں یہ کتاب اٹھا لی ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ اس کتاب میں ایسی کوئی بات موجود ہے  جو "کسی" کو بری لگی۔

کیا یہ ایک "اینٹی زرداری" کتاب ہے؟

دو ہزار آٹھ سے لے کر دو ہزار تیرہ تک ساڑھے چار سال ہاشوانی نے دبئی میں گزارے۔ واپس آنے پر انکا "خود کش" رویہ قابل فہم ہے کیونکہ ایک تو آدمی ہیں جو اپنی کرنی کر چکے ہیں۔ آج یا کل انہیں فوت ہو ہی جانا ہے سو انہوں نے "سیدھے فائر" کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اسکے علاوہ حالیہ سالوں میں ہاشو گروپ کی جڑیں پاکستان سے نکل کر دیگر بہت سے ممالک میں پھیل چکی ہیں اور آئل اینڈ گیس کے شعبے میں یہ لوگ ٹھیک ٹھاک ترقی کر رہے ہیں۔

 سابق صدر پاکستان پر کھلی تنقید کے علاوہ اس کتاب میں ہاشوانی صاحب کے کاروباری سفر اور ابتدائی زمانہ کے احوال بھی موجود ہیں اور خاصے دلچسپ ہیں۔ ہاشوانی صاحب کسی زمانے میں اپنے بہنوئی کے ساتھ اناج کی ترسیل کا کام کیا کرتے تھے اور ہر پندرہ دن بعد کوئٹہ قلات تک جایا کرتے تھے۔ سفر کے دوران انکے ساتھ کاغذات کا ایک ٹرنک اور ایک بستر ہوا کرتا، انکا کہنا ہے کہ قلات کی سرد راتیں بہت مشکل سے کٹتی تھیں۔ اس کتاب میں بہت سی ایسی باتیں ہیں جنہیں پڑھ کر نوجوانوں میں کچھ کرنے کا جذبہ بیدار ہو گا۔
hashwani-memoir-tie-book-launch

کاروبار ایک جنگ

ہاشوانی صاحب کہتے ہیں کہ پاکستان میں کاروبار کرنا بالکل جنگ کرنے کے مترادف ہے۔ یہاں کے کرپٹ سیاستدان اور کاروبار کی الف بے سے ناواقف افسرشاہی پوری جانفشانی سے  کاروباری لوگوں کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ ہر کوئی آپکے راستے بند کرنے پر تلا ہوا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو، ضیاءالحق اور جونیجو، محترمہ بینظیر اور آصف زرداری، نواز شریف، جنرل پرویز مشرف تمام کے ادوار میں سے مثالیں سامنے رکھیں ہیں کہ کس کس نے کیسے کیسے انکے لئے مشکلات کھڑی کی۔

لڑنے کا حوصلہ

"I am a born fighter, and I will die fighting."
سفید بالوں والا بوڑھا سیٹھ جب یہ بات  کہتا ہے تو اسکی آواز میں یقین محکم کی جھنکار سنائی دیتی ہے۔ انکا یہ کہنا ہے کہ آخر سب نے چھے فٹ کی قبر میں ہی جانا ہے اور انہیں سوائے اللہ کے کسی کا کوئی ڈر نہیں۔ 

کم و بیش ڈیڑھ گھنٹہ حاضرین کے سوالات کے جواب دینے کے بعد شاندار کھانے کا بھی بندوبست تھا۔ 

hashwani-memoir-lunch

بارہ جماعتیں فیل ارب پتی

بےشمار دیگر کامیاب لوگوں کی طرح صدرالدین ہاشوانی بھی کالج کی تعلیم مکمل نہ کر سکے۔ انکی والدہ انہیں ڈاکٹر بنانا چاہتی تھیں لیکن موصوف بارہویں جماعت کا امتحان نہ پاس کر پائے۔ ناکامی پر دل سخت دکھا اور تہیہ کیا کہ اپنی غلطی کا ازالہ کریں گے۔ اس سے قبل ہاشوانی صاحب کراچی میں آغا خان جمخانہ کی طرف سے کرکٹ کھلیتے تھے اور فاسٹ بائولر تھے۔ انکی بائونسر مارنے کی عادت ابھی تک نہیں گئی۔
ہاشوانی صاحب بھلے کالج سے بارہ جماعتیں بھی نہ پاس کر سکے ہوں، انکے کاروباری تجربہ اور جہانبانی کی بنیاد پر انہیں بلاشبہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی جانی چاہیئے۔ خود تعلیم مکمل نہ کر پانے والے بزرگ بزنس مین نے اب تک لاکھوں لوگوں کی تعلیم کی ذمہ داری نبھائی ہے۔ اس تقریب میں بھی "ہاشو سکالرز" کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔

لعنت بھیجو

سوال جواب کے دوران ایک نوجوان نے پوچھا کہ اگر کسی شخص کو اسکی کمپنی اسکی محنت کا صلہ نہیں دیتی، بلکہ سست اور نا اہل لوگوں کو نوازتی رہتی ہے تو ایسے میں اس شخص کو کیا کرنا چاہیئے؟
لعنت بھیجو اس آرگنائزیشن پر
بابے کا سیدھا سا جواب۔

sadrudin-hashwani-sara-hashwani-book-launch

گوادر، نو سو کلومیٹر پھیلے مواقع

دبئی کے پاس کل پچاس کلومیٹر ساحلی پٹی کا علاقہ ہے اور وہ تیل کے پیسے کو سلیقہ مندی سے استعمال کر کے آج مشرق وسطٰی پر چھائے ہوئے ہیں۔ اسکے مقابلے میں پاکستان کے پاس نو سو کلومیٹر کی ساحلی پٹی ہے۔ گوادر میں اسوقت پی سی ہوٹی کی ایک برانچ کام کر رہی ہے جو کہ مسلسل خسارے میں جا رہی ہے۔
ہاشوانی صاحب کہتے ہیں کہ یہ ہوٹل انہوں نے جنرل مشرف کی درخواست پر فقط پاکستان کے روشن مستقبل کی خاطر بنایا۔ انہیں امید ہے کہ آنے والے سالوں میں گوادر ایک مصروف بندرگاہ ہو گی جسکے ذریعے نہ صرف بلوچوں کو روزگار ملے گا بلکہ پورے پاکستان کی معشت کا پہیہ تیزی سے گھومے گا۔


Demo TCP/IP Sockets Read and Write in C#, Free Udemy Course from Naeem Akram on Vimeo.

جوانوں کو مری آہ سحر دے

نوجوانوں کا ذکر کرتے ہوئے ہاشوانی صاحب واضح طور پر جذباتی نظر آئے۔ انہوں نے بار بار کہا کہ پاکستان کا مستقبل نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے۔ تقریب کے اختتام پر جب ان سے کہا گیا کہ نوجوانوں کے لئے آپ کچھ کہنا چاہیں گے تو ایک لمحہ توقف کئے بغیر بولے
"They are all Sadr-ud-Din Hashwani."


کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے اس زمانے میں کسی کی کتاب کو دوکانوں سے اٹھا لینا بےوقوفی ہے۔ ہفتے والی تقریب میں کم و بیش چھے سو لوگ موجود تھے اور اتنے ہی لوگوں کو کتاب مفت تقسیم کی گئی۔
hashwani-memoir-sach-ka-safar-give-away

ستر کی دہائی سے آج تک پاکستان میں ایک سے بڑھ کر ایک حوصلہ شکن اور بے ایمان حکومت آتی رہی۔ مجھے امید ہے کہ اگر جمہوری عمل آگے چلتا رہا، اور عالمی طاقتیں پاکستان کو لیبیا یا مصر کی طرح خانہ جنگی میں دھکیل کر لوٹ نہ سکی تو آہستہ آہستہ حالات بہتری کی طرف جائیں گے۔
پاکستان بہرحال افریقہ کے بہت سے ممالک سے تو ہزار درجے بہتر جگہ ہے۔
میں کوشش کروں گا کہ ہاشوانی صاحب کی کتاب کے کچھ اقتسابات آنے والے دنوں میں قارئین کی نظر کروں۔ کتاب تو میں نے پڑھ لی ہے۔
tie-projector
The Indus Eentrepreneur TIE
ایک بین الاقوامی تنظیم ہے، اسکا اسلام آباد چیپٹر گزشتہ چند سالوں سے دنیا بھر میں ٹائی کے بیسویں چیپٹرز میں سے ترقی پسندی کے لحاظ سے سب سے آگے مانا جاتا ہے۔ اس تقریب کا بہترین انتظام و انصرام جہاں میریٹ کی پیشہ ورانہ مہارت کا منہ بولا ثبوت ہے وہیں ٹائی کی شاندار کارکردگی کا بھی مظہر ہے۔

English version about the Hashwani book "Truth Always Prevails" can be found here
http://freelancetime.blogspot.com/2014/11/truth-prevails-hashwani.html 

Pak Urdu Installer

Pak Urdu Installer