جمعرات، 28 اپریل، 2011

تین درویش، از لیو ٹالسٹائی حصہ اول

An Urdu Translation Of  Three Hermits by Leo Tolstoy, Part One
لیو ٹالسٹائی کی کہانی تین درویش کا اردو ترجمہ
Leo-Tolstoy
اور دعا میں بار بار باتیں مت دہرایا کرو، جینٹائلیوں کی طرح۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں بہت بولنے سے انکی سنی جائے گی۔ لہٰذا ان جیسے مت ہو جانا۔ کیونکہ تمہارا رب تمہاری حاجتیں جانتا ہے، تمہارے مانگنے سے بھی پہلے۔ میٹ، آیات سات آٹھ۔

موجودہ وولگا کے علاقے کی ایک لوک داستان۔

ایک پادری آرچ اینجل سے سمندر کے راستے سلوستک خانقاہ کی جانب سفر کر رہا تھا، اسی جہاز میں اور بھی زائرین سوار تھے۔ سفر آسان تھا، ہوا ساتھ دے رہی تھی، اور موسم خوشگوار۔ مسافر عرشے پر لیٹے رہتے، کھاتے پیتے 

یا گروہوں میں بیٹھ کر گپ شپ لگاتے۔ پادری بھی عرشے پر آ گیا، اور ادھر اُدھر چکر لگانے لگا، تب اسکا دھیان جہاز کے بادبان کے پاس کھڑے چند لوگوں پر پڑا جو ایک مچھیرے کی بات بڑے غور سے سن رہے تھے، مچھیرا سمند کی جانب انگلی سے 

اشارہ کر کے لوگوں کو کچھ بتا رہا تھا۔ پادری نے رُک کر اس سمت دیکھا جدھر مچھیرا اشارہ کر رہا تھا۔ لیکن اسکو لشکیں مارتے سمندر کے سوا کچھ دکھائی نہ دیا۔ بات چیت سننے کے لئے پادری ان لوگوں کے تھوڑا اور نزدیک ہو گیا، لیکن مچھیرے نے اسے دیکھتے ہی احتراماً ٹوپی اتاری اور خاموش ہو گیا۔ باقی لوگوں نے بھی اپنی ٹوپیاں اتاری اور خم ہوئے۔
"میں تم لوگوں کو تنگ نہیں کرنے آیا دوستو"
پادری بولا، 'بلکہ میں تو ان بھائی صاحب کی بات سننے آیا ہوں' ۔
 مچھوارہ ہمیں درویشوں کے بارے میں بتا رہا تھا۔ دوسروں کی نسبت تیز طراز ایک تاجر بولا ۔
کیسے درویش؟ پادری نے جہاز کے کونے پر پڑے ایک ڈبے پر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔ "مجھے بھی بتائو یار، مجھے بھی پتہ چلے تم کس چیز کی طرف اشارہ کر رہے تھے" ۔
وہ جذیرہ نظر آ رہا ہے، بندے نے جواب میں آگے کی طرف تھوڑا سا دائیں اشارہ کرتے ہوئے کہا "وہ جذیرہ ہے جہاں درویش رہتے ہیں، روحانی نجات کی خاطر"۔
کدھر ہے جذیرہ، مجھے تو کچھ نظر نہیں آ رہا"؟ پادری نے جواب دیا۔"
ادھر، تھوڑے فاصلے پر، اگر آپ میرے ہاتھ کی سمت دیکھیں تو چھوٹا سا بادل نظر آئے گا اسکے نیچے ذرا بائیں، مدہم سی پٹی ہے۔ وہی جذیرہ ہے۔
پادری نے غور سے دیکھا، لیکن اسکی سمندر نا شناسا نگاہوں کو سوائے چمکتے پانی کے اور کچھ نہ دکھائی دیا۔
مجھے نہیں نظر آیا، لیکن۔۔۔ کیا درویش یہیں رہتے ہیں؟ پادری بولا۔
وہ بڑے پہنچے ہوئے بندے ہیں، مچھیرے نے جواب دیا، میں نے انکے بارے میں بڑے عرصے سے سن رکھا تھا لیکن پچھلے سال ہی انکو دیکھ پایا ہوں۔
پھر مچھیرے نے بتایا کہ کیسے وہ مچھلیاں پکڑتے پکڑتے رات کے وقت جذیرے میں پھنس گیا، اور اسے پتہ بھی نہیں تھا کہ وہ کہاں ہے۔ صبح کے وقت جب وہ جذیرے میں مارا مارا پھر رہا تھا، اسکو مٹی کی ایک جھونپڑی اور اسکے ساتھ کھڑا ایک بوڑھا آدمی دکھائی دیا۔ پھر دو اور بھی آ گئے، مجھے کھانا کھلانے اور میرا سامان سکھانے کے بعد انہوں نے کشتی مرمت کرنے میں میری مدد بھی کی۔ 
اچھا... دیکھنے میں کیسے ہیں؟ پادری نے پوچھا۔
ایک چھوٹے قد کا ہے، اسکی کمر جھکی ہوئی ہے۔ بڑا ضعیف ہے، اور پادریوں والا چولا پہنتا ہے؛ کم و بیش سو سال کا تو ہو گا میرے حساب میں۔ اتنا بوڑھا ہے! اتنا بوڑھا ہے! کہ اسکی داڑھی کی سفیدی بھی اب ہری سی ہوئی جاتی ہے، لیکن ہر وقت  مسکراتا رہتا ہے، اور اسکا چہرہ تو جیسے کسی عرشوں سے اترے فرشتے کی طرح روشن ہے۔ دوسرا قدرے لمبا ہے، لیکن وہ بھی بہت بوڑھا ہے۔ پھٹا پرانا کسانوں والا سلُوکا پہنتا ہے۔ اسکی داڑھی چوڑی اور زردی مائل سلیٹی رنگ کی ہے، وہ مضبوط آدمی ہے۔ اس سے پہلے کہ میں اسکی مدد کرتا، اُس نے میری کشتی کو کھلونے کی طرح الٹا بھی دیا۔ وہ بھی، حلیم اور خوش مزاج ہے۔ تیسرے والا لمبا ہے ، داڑھی اسکی برف سفید اور گھٹنوں تک آتی ہے۔ وہ سنجیدہ ہے، بڑی بڑی بھونئوں والا؛ 

اس نے بس کمر کے گرد ایک لنگی سی باندھ رکھی ہے۔
انہوں نے تم سے کوئی بات کی؟ پادری نے پوچھا۔
زیادہ تر کام انہوں نے خاموشی سے کئے اور تو اور آپس میں بھی بہت کم بات کی۔ کوئی ایک بس نگاہ کرتا اور دوسرا اسکی بات سمجھ جاتا۔ میں نے لمبے والے سے پوچھا کہ کافی عرصے سے یہاں رہ رہے ہو؟   اس نے جواباً مجھے گھور کر دیکھا اور بڑبڑانے لگ پڑا، جیسے کہ غصے میں ہو۔ لیکن سب سے بوڑھے نے اسکا ہاتھ پکڑا اور مسکرایا، تو لمبے والا خاموش ہو گیا۔ پھر بابے نے مجھ سے مسکرا کر کہا، "ہم پر رحم کرو" ۔
مچھیرے کی گفتگو کے دوران جہاز کنارے کے کافی نزدیک جا پہنچا تھا۔
وہ دیکھیں، اب صاف نظر آ رہا ہے، اگر سرکار دیکھنا پسند فرمائیں تو، تاجر ہاتھ سے اس طرف اشارہ کر کے بولا۔
پادری نے دیکھا، اور اب کے اسے واقعی ہی سیاہ پٹی کی شکل میں جذیرہ دکھائی دیا۔ تھوڑی دیر اس پٹی کی جانب دیکھنے کے بعد وہ جہاز کے کنارے سے ہٹ گیا اور عرشے پر جا کر جہازی سے پوچھا
یہ کونسا جذیرہ ہے؟
وہ والا، ملاح بولا، بے نام ہے۔ اس جیسے بے شمار ہیں سمندر میں۔
کیا یہ سچ ہے کہ یہاں درویش تذکیہ نفس کی خاطر رہ رہے ہیں؟
ایسا ہی کہتے ہیں سرکار، سچ جھوٹ کا مجھے نہیں پتہ۔ مچھیرے دعوٰے کرتے ہیں کہ انہوں نے دیکھے ہیں، لیکن وہ آپکو پتہ ہے لمبی لمبی چھوڑتے ہیں۔
میرا دِل ہے کہ جذیرے پر رُک کر ان بندوں سے مِلوں۔ پادری نے کہا، لیکن کیسے؟
جہاز جزیرے کے بالکل پاس نہیں جا سکے گا، البتہ آپکو چھوٹی کشتی میں وہاں پہنچایا جا سکتا ہے۔ بہتر ہو گا آپ کپتان سے بات کریں۔
کپتان کو بلاوا بھیجا گیا تو وہ فوراً آ گیا۔ 
میں ان درویشوں کو مِلنا چاہتا ہوں، پادری نے کہا، مجھے ساحل تک پہنچا سکتے ہو؟
کپتان نے جان چھڑانے کی کوشش کی۔
ہاں جی بالکل جا سکتے ہیں، وہ بولا لیکن وقت بہت ضائع ہو جائے گا۔ اور گستاخی معاف یہ بڈھے اس قابل نہیں کہ سرکار انکے لئے تکلیف کریں۔ بہت لوگ کہتے ہیں کہ ایویں پاگل بوڑھے ہیں، جنہیں کسی بات کی سمجھ ہی نہیں آتی، اور کچھ بولتے بھی نہیں، ایسے ہی ہیں جیسے سمندر کی مچھلیاں۔ میں ان سے ملنا چاہتا ہوں، پادری بولا۔ تمہارے وقت اور تکلیف اٹھانے کا میں معاوضہ ادا کروں گا۔ براہِ مہربانی کشتی کا بندوبست کروا دو۔
کوئی چارہ نہ چلا تو کپتان نے کشتی تیار کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ ملاحوں نے چپو اور پتوار تیار کئے، اور کشتی جذیرے کی جانب چل نکلی۔
 پادری کے لئے کشتی میں ایک کرسی رکھی گئی تھی، سارے مسافر جہاز کے کنارے پر ٹکے جذیرے کی جانب دیکھ رہے تھے۔ تیز نظر والوں کو وہاں پڑے پتھر دکھائی دے رہے تھے، پھر مٹی کی ایک جھونپڑی نظر آئی۔ بالآخر ایک بندے کو درویش بھی نظر آ گئے۔ کپتان نے دوربین نکالی اور اس سے ایک نظر دیکھ کر پادری کی جانب بڑھا دی۔ 
بات تو سچ لگتی ہے، تین بندے کھڑے ہیں ساحل پر۔ وہ، اس بڑی چٹان سے تھوڑا دائیں۔
پادری نے دوربین پکڑی، سیدھی کی اور تین بندوں کو دیکھا: ایک لمبا، ایک درمیانا، اور ایک بہت چھوٹا کُبڑا سا، ساحل پر ایک دوسرے کے ہاتھ تھامے کھڑے۔
کپتان پادری کی طرف مڑا۔
سرکار جہاز مزید آگے نہیں جا سکتا، آپ ساحل پر جانا ہی چاہتے ہیں تو گزارش ہے کشتی میں تشریف لے جائیں تب تک ہم یہاں لنگر ڈال کر انتظار کرتے ہیں۔
رسا پھینکا لنگر ڈالا گیا، بادبان پھڑپھڑائے۔ ایک جھٹکا لگا، جہاز ہِل گیا۔ پھر کشتی کو پانی میں اتارا گیا، ایک ملاح چھلانگ مار کر کشتی میں اترا اسکے بعد پادری سیڑھی سے نیچے جا کر کرسی پر بیٹھ گیا۔ بندوں نے چپو چلا کر کشتی کو تیزی سے جذیرے کی جانب لے جانا شروع کر دیا۔ جب وہ بہت قریب آ گئے تو انکو تین بندے دکھائی دیئے: ایک لنگی پوش لمبا، ایک مندھرا جس نے چیتھڑے سا سلوکا پہن رکھا تھا، اور ایک بہت بوڑھا۔۔۔ ضعف پیری کی وجہ سے جھکا ہوا، پرانی پوشاک پہنے ہوئے۔ ہاتھوں میں ہاتھ تھامے کھڑے۔

بقیہ ایک آدھے دِن میں۔۔۔


5 تبصرے:

  1. نعیم بھائی!

    یہ ترجمہ آپ نے یا جس نے بھی کیا ہے ۔ بہت خوب کیا ہے۔
    آپ اس کی اگلی قسط کب لگارہے ہیںـ؟

    جواب دیںحذف کریں
  2. پوری کہانی لکھ دیتے نا یار۔۔۔ اب انتظار کی کوفت پھر سے برداشت کرنی پڑے گی۔۔۔ ؛)

    جواب دیںحذف کریں
  3. پسند کرنے کا شکریہ برادران۔۔۔ اگلی قسط انشاءاللہ کل رات یا آج شام کو لکھ دوں گا۔
    گوندل صاحب ترجمہ آپکے خادم یعنی میں نے بقلم خود کیا ہے۔ پتہ ہے تین چار گھنٹے لگے ایک مرتبہ ترجمہ کر کے اس پر نظر ثانی اور پروف ریڈنگ وغیرہ میں۔

    جواب دیںحذف کریں

کھلے دِل سے رائے دیں، البتہ کھلم کھلی بدتمیزی پر مشتمل کمنٹ کو اڑانا میرا حق ہے۔

Pak Urdu Installer

Pak Urdu Installer