بدھ، 7 جولائی، 2010

رنگ برنگی آوازیں

رنگ برنگی آوازیں

مختلف جگہوں پر مختلف آوازیں سنائی دیتی ہیں، اور لاہور کے محلوں میں سارا دِن بہت سی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ غریبوں مڈل کلاسیوں کے ہر محلے کا یہی سیاپا ہوتا ہے۔ صبح سے لے کر آدھی رات تک مکمل خاموشی شاذ ہی ہوتی ہے۔
صبح بچوں کے سکول جانے کے بعد ایک سو ایک پھیری والا آئے گا، آٹھ بجے ہی رنگ برنگی آوازیں۔۔۔ کدو لے لو، توری لے لو، پیاز پندرہ روپے کلو، ٹماٹر تی رپے دے پنج کلو۔ یہ آوازیں روز روز آتی ہیں اس لئے کافی حد تک بندے کو انکی عادت ہو جاتی ہے۔ لیکن ہر ہفتے ایک یوم العظیم آتا ہے جب کہ ماحول ہی بدل جاتا ہے۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے۔۔۔ بڑے چلاک ہیں۔۔۔ میں جمعرات کی طرف ہی اشارہ کر رہا ہوں۔۔۔ جمعرات کو صبح سویرے ہی پروفیشنل بھکاریوں کے جھنڈ کے جھنڈ چلے آتے ہیں۔ انکے اپنے ہی راگ ہیں، اپنے ہی سُر۔ البتہ ایک خصوصیت تمام میں کامن ہے، گہری نیند سوئے ہوئے بندے کو جگا دینے کی خصوصیت۔ میں پہلے جس گھر میں رہتا تھا اسکے ساتھ مملکت بھکاریاں کو بڑا اُنس۔ کھڑکی کے عین نیچے تشریف فرما کے گھنٹوں (کم از کم مجھے ایسا ہی لگتا ہے ) صداکاری کرتے تھے۔ لاکھ تکیے کانوں پر رکھو، سر پیٹو لیکن جناب جان خلاصی نہیں ہو گی۔ بھکاریوں کے فنِ صداکاری پر میں انشاءاللہ پوری پوسٹ لکھوں گا۔ آج کا موضوع محلے میں دن بھر مجموعی طور پر گونجنے والی آوازیں ہیں۔
اکثر اوقات کسی ایسے وقت پر مانگنے والا صدا لگاتا ہے کہ بندہ سوچنے پر مجبور ہو جائے کہ اتنی رات گئے یہ کہاں آ گیا۔ ایسا ہی معاملہ فروٹ بیچنے والوں کا ہے، آپ خود حساب لگائیں سردیوں میں رات کے دس بچے کہیں سے آواز آئے "کیلے وی روپئے درجن" تو آپ کو حیرت نہیں ہو گی کیا؟ مجھے تو بہت حیرت ہوتی ہے۔ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ اِس بندے کی کیا ایسی مجبوری ہے جو یہ اس وقت گھر جا کے سونے کے بجائے گلیوں میں گھوم رہا ہے۔گرم آنڈے کی صدا ہو تو سینس بنتی ہے۔

بات ہو رہی تھی دن بھر محلے میں گونجنے والی کوئل کی کو کو اور کتوں کی بئو بئو کی۔ اسکے علاوہ کبھی کبھار محلے کی بلیاں بھی جذباتی ہو جاتی ہیں۔ بلیوں سے میری مراد چار ٹانگوں ایک دُم والی بلیاں ہے، کوئی اور مطلب نکالنے کی صورت میں قاری خود ذمہ دار ہو گا۔ تو جناب یہ بلیاں آمنے سامنے کھڑے ہو کے واہیات قسم کی آوازیں نکالا کرتی ہیں، اور نکالے ہی چلی جاتی ہیں، لاکھ آپ ڈرائیں جوتے ماریں مجال ہے جو بلی جاتی کے کان پر جوں بھی رینگے۔ البتہ ایک علاج میں نے کسی زمانے میں دریافت کیا تھا، چپ کر کے لوٹا پانی کا بھریں اور کسی ایک خرخراتے فریق پر اُنڈیل چھوڑیں۔ بھیگی بلی فٹا فٹ منظر سے غائب ہو جائے گی/گا۔ آزمائش شرط ہے۔

پھر محلے میں رکشے تو اکثر و بیشتر گزرتے ہیں۔ رکشہ کیا گزرتا ہے، یو لگتا ہے ٹرین گزر رہی ہو۔اگر کبھی گلی میں ذرا رش لگ جائے اور چند رکشہ جات ایک ساتھ آ جائیں تو پھر تو محلہ ایئر پورٹ بن جاتا ہے۔ ایئر پورٹ جہازوں کے انجن کے شور کی وجہ سے بنتا ہے، ایئر ہوسٹس کوئی نہیں نظر آتی۔ سال کے کافی مہینے کنسٹرکشن کا کوئی کام بھی شروع رہتا ہے، اسکا سامان اتارنے بھی ٹریکٹر ٹرالیاں گھاں گھاں کرتے آتے جاتے ہیں۔ یہاں اگر سائلنسر نکلی سیونٹیوں کا ذکر نہ کیا جائے تو بات مکمل نہیں ہو گی۔ ان عجوبوں پر عام طور پر نوجوان سوار ہوتے ہیں، اور اس سواری پر ٹرکوں والا ہارن لگانا یہ لوگ اپنا فرض سمجھتے ہیں۔

جب بچے سکول سے واپس آ جاتے ہیں تو کہانی کے ایک اور باب کا آغاز ہوتا ہے۔ خوش ہوں یا غصے بچے اپنے جذبات کا اظہار با آوازِ بلند ہی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر کرکٹ کھیلتے ہوئے کوئی آئوٹ ہو تو پورے محلے کو آواز جاتی ہے۔دو بہن بھائی دوکان سے کچھ لینے جاتے ہیں، بھائی بہن کو دو لگا دیتا ہے اور جناب بینڈ چالو ہو جاتا ہے۔ بچوں میں ایک اور طبقہ گلوکاروں کا ہے۔ گانا آتا ہو یا نا اونچی آواز میں گائیں گے اور اپنی ہی طرز میں گائیں گے۔ مثال کے طور پر ایک پٹاٹا دکھ نا کوئی، پیار نا وچھڑے، کسے دا یار نا وچھڑے۔
پورے شہر میں ایک محلہ ایسا بھی ہے جہاں دن کو مکمل خاموشی ہوتی ہے۔ لیکن رات کو ہنگامہ، سمجھ تو آپ گئے ہوں گے۔ بہر حال دن کو نیند ڈسٹرب ہونے سے بچانے کے لئے بندہ اُس بازار تھوڑی نا شفٹ ہو سکتا ہے۔

Pak Urdu Installer

Pak Urdu Installer