اتوار، 15 نومبر، 2009

کتھے گیا سی؟ مچھیاں پھڑن۔۔۔



ہمارے ہاں عام طور پرمچھلیاں پکڑنے کو بس ایویں پُھدو کھاتہ ہی سمجھا جاتا ہے۔ کچھ دِن پہلے مجھے مسٹر کوڈ پہ فش اور چپس کھانے کا اتفاق ہوا۔ اسکے بعد خیال آیا کہ ہفتے اور اتوار والے دن بندہ مچھلی پکڑنے جا سکتا ہے،کافی آسان اور اچھا تفریحی آپشن لگا۔ اب میں ٹھہرا پروگرامر، دن کا زیادہ حصہ کمپیوٹر کی سکرین کے ساتھ نین لڑا کے گزارنے والا۔۔۔ پروگرامر۔۔۔ لہٰذا، فٹ سے گوگل کھولا اور سرچ شروع۔۔۔

Fishing In Lahore
یہ فقرہ تلاش کیا تو پہلے نمبر پہ درج ذیل لنک مِلا۔۔۔ یہاں لاہور کے گرد و نواح میں شوقیہ مچھلی پکڑنے والوں کے لیے کافی معلومات موجود ہیں۔

اسکے علاوہ پاکستان گیم فشنگ ایسوسی ایشن ایک فعال تنظیم ہے، انٹرنیٹ پہ اس تنظیم کے سترہ سو سے زیادہ ممبر ہیں۔ ممبر شپ بالکل مفت ہے، اور یہ میرے خیال میں کافی مفید ویب سائٹ ہے۔

اوپر دیے آرٹیکل میں لاہور کے نزدیک موجود مچھلی پکڑنے کے مقامات کے بارے میں مکمل معلومات ہیں۔ آرٹیکل میں ایس نبی بخش سنز، مال روڈ کا تذکرہ ہے۔ لاہور میں مچھلی پکڑنے کا سامان خریدنے کے لیے یہ بہترین جگہ ہے۔ البتہ اس دوکان کے بارے میں ایک راز کی بات بتاتا چلوں، ایسی بات جو کہ مجھے وہاں جا کر ہی پتہ چلی۔ راز کی بات یہ ہے جناب۔۔۔ کہ یہ دوکان شام ساڑھے چار بجے بند ہو جاتی ہے۔ میں سات بجے کے قریب وہاں گیا تھا۔ اچھی بات یہ ہے کہ دوکان صبح ساڑھے آٹھ بجے کھل بھی جاتی ہے۔
اسکے علاوہ میں نے ایسوسی ایشن کی ویب سائٹ کو استعمال کرتے ہوئے کافی لوگوں کو پیغامات بھی بھیجے۔
ان لوگوں میں سب سے پہلے دیے گئے آرٹیکل کے مصنف منیر احمد بھی شامل تھے۔ منیر صاحب کے علاوہ لاہور میں نو وارد حارث کا بھی جواب آیا، حارث کچھ عرصہ پہلے کراچی سے یہاں آئے ہیں اور نمکین پانی میں مچھلی پکڑتے رہے ہیں۔ منیر صاحب نے لکھا کہ ایس نبی بخش والوں کے پاس اچھا سامان ہے، لیکن اسکے مقابلے میں بہتر اور سستا سامان خریدنےکے لیے سیالکوٹ کا چکر لگا لینا۔ میں نے انہیںبتایا تھا کہ میرا ٹارگٹ منگلا ڈیم پہ جا کے مچھلیاں پکڑنا ہے، منیر صاحب کہتے ہیں کہ منگلا کی کلاس کا سامان سیالکوٹ سے ہی ملے گا۔ جیفری انٹرپرائز، ریلوے روڈ سیالکوٹ ایک اچھی دوکان ہے وہاں چیک کرنا۔
مچھلی پکڑنے کا بھی سیزن ہوتا ہے، اور یہ سیزن سردیوں میں ختم ہو جاتا ہے۔ بقول منیر صاحب سردیوں کی آمد کے ساتھ سیزن ختم ہونے کو ہے، میرے پاس اپریل مارچ تک کا وقت موجود ہے، تب سیزن دوبارہ شروع ہو گا اور میں اطیمنان سے تیاری کر سکتا ہوں۔
اسکے علاوہ میں نے ایسوسی ایشن کی ویب سائٹ پر کافی آرٹیکلز پڑہے، اور یو ٹیوب پر ویڈیوز بھی دیکھیں۔ آخر کار سوچا کہ کاغزی کارروائی بڑی ہو چکی اب کچھ نا کچھ پریکٹیکل بھی کرنا چاہیے، لہٰذا کل ہفتے کو صبح آٹھ بجے کے قریب میں نے اپنے گھوڑے کو تیار کیا اور نزدیک ترین "مقام المچھلی" سائیفن بی آر بی نہر کی طرف چل پڑا۔ شالامار گارڈن، داروغہ والا سے ہوتا ہوا تقریباً ایک گھنٹے میں سائیفن پر جا پہنچا۔ گزشتہ رات ہونے والی بارش کی وجہ سے سڑک پہ کافی کیچڑ تھا اور گھوڑا چالیس پچاس کی رفتار سے زیادہ بھگانا بہت خطرناک ثابت ہو سکتا تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ میرے پاس کسی قسم کا کوئی سامان نہیں تھا۔ سوچا کہ چلو وہاں شاید اور لوگ آئے ہوں گے، چل یار ان کے ساتھ گپ شپ ہی سہی۔
سامان خریدنے کا سن کر فوراً ذہن میں آئے گا کہ جناب پہلی مرتبہ خرچہ کتنا ہو گا؟ یہ تو میں نے بھی کسی سے نہیں پوچھا، البتہ میرا اندازہ ہے کہ کم از کم آٹھ ہزار روپے تو ہونے چاہئیں۔ منگلہ میں مچھلی پکڑنے کے لیے آپکو سات سے نو کلو وزن برداشت کر سکنے والی ڈوری چاہیے ہو گی۔ اسکے علاوہ ایسی چرخیاں درکار ہوں گی جو کہ پچھتر سے ایک سو یارڈ، دوسرے لفظوں میں سوا دو سو سے لے کر تین سو فُٹ دور تک کنڈی پھینک سکیں۔
اچھا تو سائیفن پر جانے کی بات ہو رہی تھی، بارڈر کا علاقہ ہونے کی وجہ سے وہاں پر کافی فوج موجود ہے۔ سائیفن کے نزدیک پہنچنے کا راستہ پاک فوج نے بند کر رکھا ہے، اور عام آدمی کو آگے جانے کی اجازت نہیں ہے۔ راقم بھی ایک عام سا آدمی ہے، اس لیے فوجی بھائی کے کہنے پہ کان لپیٹ کے واپس لاہور کی طرف چل پڑا۔
راستے میں ایک جگہ ایک رینجرز کا جوان موجود تھا، میں نے پوچھا کہ بھائی صاب سائیفن جانا تو منع ہے، کیا اس علاقے میں اور بھی کوئی مچھلی پکڑنے کی جگہ ہے؟ جواب آیا کہ آپ راوی کنارے چلے جائیں، وہاں کوئی منع نہیں کرتا۔ تقریباً چار پانچ کلو میٹر واپس گیا، اور پہلے والے فوجی بھائی سے پوچھا کہ یار سایفن پر تو نہیں جانے دیتے یہ ہی بتا دو کہ راوی کا کنارے کیسے پہنچوں؟ ان صاحب نے شناختی کارڈ وغیرہ دیکھ کر مجھے راوی کی طرف جانے والا راستہ سمجھا دیا۔
آجکل دریا کا پانی اتر چکا ہے، اور ہر طرف ریت ہی ریت ہے۔ دریاپار کرنے کے لیے بیڑا استعمال ہوتا ہے۔ ان بیڑوں پر فصل کے دنوں میں ٹریکٹر وغیرہ بھی لاد کر دوسری طرف لے جائے جاتے ہیں۔ بیڑا چپو سے نہیں چلتا، نہ ہی موٹر سے۔ بلکہ ایک بڑا سا بانس ہوتا ہے، تقریباً بیس فٹ لمبا، یہ بانس دریا کی تہہ تک پہنچتا ہے۔ ملاح بانس کو دریا کی تہہ تک ڈبو ڈبو کر بیڑے کو آگے دھکیلتے ہیں۔ اس سے پہلے ایک مرتبہ مجھے بیڑے پر دریا پار کا تجربہ ہو چکا ہے، میں نے خود بیڑے کو ڈرائیو کرنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ کنارے کی سمت جانے جانے کے بجائے اور ہی طرف نکل گیا، ملاح تجربہ کار تھا اور تھوڑی کوشش کر کے ہمیں واپس کنارے تک لے آیا۔ اگر ملاح بھی کوئی پُھدو ہوتا تو بیڑے کا حشر ہمارے ملک اور اسکے اداروں جیسا ہو جانا تھا۔
وہاں موجود ملاحوں سے میں نے پوچھا کہ جناب یہاں شوقیہ مچھلی پکڑنے والے آتے ہیں کیا؟ تو جواب ملا کہ نویں مہینے کی پندرہ تاریخ کو دریا کا پانی اترتا ہے۔ اسکے فوراً بعد کچھ لوگوں نے کنڈی کی ذریعے یہاں سے پانچ پانچ کلو کی رہو مچھلیاں پکڑی تھیں۔ لیکن بعد میں زیادہ تر دریا میں جال پھر گیا، اور اب اینگلروچارے خالی ہاتھ ہی لوٹتے ہیں۔
میرا ارادہ ہے کہ اگلے سال جنوری یا فروری میں سیالکوٹ کا چکر لگاکے ضروری سامان خرید لائوں۔ کوشش کروں گا کہ ساتھ کوئی تجربہ کار دوست بھی چلے۔ استاد اور مرشد کے بغیر تو آپکو پتہ ہے کوئی بھی کام صحیح نہیں کرنے ہوتا۔ اور وہ فوری طور پہ دستیاب نہ ہوں تو کم از کم کوئی تجربہ کار دوست ہی سہی۔ ایک آخری بات، کہ جناب اینگلنگ یا کنڈی استعمال کر کے مچھلی پکڑنا ہر گز ہر گز آسان تفریح نہیں ہے۔ بہت صبر آزما اور توجہ طلب کام ہے، کسی کسی دن تو کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا۔

Pak Urdu Installer

Pak Urdu Installer