ہفتہ، 3 اکتوبر، 2009

ڈھولک

ڈھولک بج رہی ہے اور میں بیٹھا ہوں، کمرے کے باہر گلی میں لگی گرِل پر۔ بجلی نہیں ہے، پسینہ بہہ
رہا ہے لیکن گرمی محسوس نہیں ہوتی۔ شاید اس لیے کہ میں ڈھولک کی آواز میں مگن ہوں۔ محلے کے
ایک گھر میں شادی ہے، اسکی خوشی مناءی جا رہی ہے۔ ڈھولک اکیلی نہیں ہے، وہاں موجود لوگ
تھاپ کے ساتھ ساتھ تالی بجا رہے ہیں، اور ڈھولک پہ چمچا مارنے کی آواز بھی ہے۔اکیلی ڈھولک ہوتی تو
شاید اتنی گہرا سماں نہ باندھ پاتی۔گاہے گاہے گانے کی آواز بھی آتی ہے لیکن ڈھولک کی تھاپ کے
ہوتے ہوءے بول سمجھ نہیں آتے، سمجھ کے کرنا بھی کیا ہے۔
مجھے یہاں بیٹھے تقریباٰ ایک گھنٹا ہو گیا ہے، لیکن عجیب بات ہے کہ ڈھولک کی آواز سے دل نہیں
بھرتا۔اُلٹا جب کہیں ذرا دیر کے لیے آواز آنی بند ہوتی ہے تو لگتا ہے کسی چیز کی کمی سی ہے۔ ایسا کیسے
ہو سکتا ہے، یہ آواز تو بالکل اجنبی ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ تھوڑی سی دیر میں کسی سے اتنی محبت کیسے
ہو جاتی ہے کہ اُسکی خاطر بندہ پُرانے تعلق رشتے داریاں توڑنے پہ اُتر آتا ہے، شاید جیسا تعلق اس آواز سے
میرا بن گیا ہے ویسا ہی تعلق کسی انسان سے بھی بن جاتا ہے۔ لیکن یہ تھاپ تو بالآخر رُک جاءے گی،
اور میں اسے بھول بھی جاءوں گا۔ انسانوں سے ہو جانے والے اُنس کا معاملہ مختلف ہوتا ہے، اُنکے
چلے جانے کے بعد بھی تعلق زندہ رہتے ہیں۔
میں سوچ رہا ہوں کہ جن کی شادی کے ڈھول بج رہے ہیں وہ پتہ نہیں خوش ہیں بھی یا نہیں؟ عین
ممکن ہے دلہن کسی اور کو یاد کر کے رو رہی ہو، یا دولہا کان کے ساتھ موباءل فون لگاءے کسی اور سے تیز
آواز میں باتیں کر رہا ہو. شاید اس دلہن کی اپنے گھر میں آج آخری رات ہو، جب گھر میں موجود سب لوگ
سو جاءیں تو یہ چھوٹے سے بیگ میں سامان ڈالے اور گھر سے نکل پڑے۔ پاس ہی کہیں اندھیرے
میں اُسکا عاشق کھڑا بے صبری سے انتظار کر رہا ہو گا۔ لیکن نہیں، یہ بھی تو ممکن ہے کہ لڑکا کسی وجہ
سے گھر نہ چھوڑ سکتا ہو۔ اُسکی اپنی بہنیں ہوں، اور وہ ڈرتا ہو کہ کسی کی لڑکی بھگانے کی صورت میں وہ
انتقام کا نشانہ بن جاءیںگی۔ یا اُسکا باپ حال ہی میں ریٹاءر ہوا ہو، اور اب ہر چیز کا دارومدار لڑکے کی تنخواہ
پر ہو۔ ڈھولک بج رہی ہے، میں بیٹھا سُن رہا ہوں، کی بورڈ پر انگلیاں رقص کیے جا رہی ہیں۔ اچانک
ڈھولک بند ہوتی ہے، ذرا وقفے کے بعد آواز دوبارہ آنا شروع ہوتی ہے۔
اس مرتبہ تھاپ مختلف ہے۔ ایک اور بات بھی ہو سکتی ہے، کہ لڑکے لڑکی نے بڑی مخالفت کاٹی ہو۔ بڑی ماریں کھاءیں ہوں
اپنے راستے میں آنے والی ضد انا کی دیواروں کو گرایا ہو۔ سالہاسال ایک دوسرے سے دور رہ کر بھی اپنی
محبت کو زندہ رکھا ہو۔ اُنہیں انکے محبوب کے بارے میں بُری خبریں سناءی جاتی ہوں، کہ فلاں جگہ
سے رشتہ آیا ہے فلاں کے گھر گیا تھا فلاں نے ایسے کہا ویسے کہا۔ اُنہیں خامیاں گنواءی جاتی ہوں،
اُنہیں بہتر آپشن دیے جاتے ہوں، لیکن میاں صاحب نے کیا خوب کہا ہے

جنہاں تناں عشق سمایا، اوس نہیں فیر جانا
کوڑھے سوہنے مِلن ہزاراں، اساں نہیں یار وٹانا

تنگ آ کر انہیں کہا جاتا ہو کہ تُم بے وقوف ہو، جو چاہتے ہو وہ کبھی نہیں ہو سکتا۔ آخر تمہیں اُس میں نظر کیا
آتا ہے، تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ اور وہ حیرت سے اپنے پیاروں کے چہروں کی طرف دیکھتے ہوں گے، کہ "
انہیں کیا ہو گیا ہے؟"۔ کہہ رہے ہیں کہ صرف تمہاری خوشی چاہیے، لیکن سب جانتے ہوءے بھی پوچھتے
ہیں تمہیں کیا ہو گیا ہے۔ پھر ہو سکتا ہے کہ اُن پر دباءو ڈالا جاتا ہو، ایک مختلف زاویے سے۔ کہا جاتا ہو
کہ ہم نے تمہیں پالا پوسا بڑا کیا، اور تُم چار دِن کی آشناءی کو ہماری ساری عمر کی قربانیوں پر فوقیت دے
رہے ہو۔ لیکن وہ پھر بھی ڈٹے رہے ہوں، سر کو جھکاءے چُپ بیٹھے یا شاید گھٹنوں میں سر دبا کے
روتے رہے ہوں۔ پھر لگاتار لعن طعن کا ایک اور سلسلہ شروع ہو جاتا ہو گا۔ اُٹھتے بیٹھتے باتیں لگاءی
جاتی ہوں گی، دنیا جہان کا غصہ اُن پر نکالا جاتا ہو گا۔ لیکن وہ چُپ بے بس ریسیونگ اینڈ پہ، کیونکہ یہ پال
پوس کے بڑا کرنے اور قربانیاں دینے والی بات تو سچ ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ لڑکی کے بھاءی،
باپ، یا ماں نے اُسکے بال کھینچے اُسے تھپڑ مارے ہوں، محبت سے تھپکنے والے ہاتھوں سے لگنے والی
چوٹیں اُسکی روح پر نشان چھوڑ گءی ہوں۔ لیکن کیا کریں، اپنے ہیں نا۔ انکے ہاتھوں سے مار کھا بھی
لی تو کیا فرق پڑتا ہے، تکلیف تو بے شک ہوتی ہے۔ بس ذرا غصے میں ہیں، شاید مجھ پہ ترس ہی کھا
لیں۔ لیکن کسی کو ترس بھی نہ آتا ہو گا۔
ڈھول بجے جا رہا ہے، اور خیالوں کا ریلا تھمنے میں ہی نہیں آ رہا۔ کسی بچے کو پال پوس کے بڑا کرنا مشکل
کام ہے۔ ایسا کرنے کے بعد ماں باپ کو اُس پہ بڑا مان بھی ہوتا ہے۔ خاص طور پہ ماں کو، دیکھیں نا
آپ نے ایک پودا لگایا اور پھر اُسے دیکھنے بیٹھ گءے۔ اُس پودے کی ہر کونپل آپکے سامنے پھوٹی، ہر
پتے کی تہہ کُھلتے ہوءے آپ نے دیکھی۔ پانی لگایا، کھاد ڈالی، سرد گرم موسموں سے بچایا تو اُس سے
اُنس بھی ہو جاءے گا۔ لیکن لوگ پودے پہ پھول بھی اپنی پسند کے رنگوں میں کھلانا چاہتے ہیں۔ اگر
لگنے والے پھولوں کا رنگ توقع سے برعکس ہو تو کیا اُنکو نوچ کر پھینک دینا چاہیے؟ یہاں اُنس کی وجہ
سے ایک اور پہلو سامنے آتا ہے، ضد کا پہلو۔ ماں باپ کو وہی چھوٹا سا ہاتھ پاءوں چلاتا بچہ نظر آتا ہے اور
وہ سوچتے ہیں کہ اِسکی یہ ہمت کہ اب ہماری مرضی کے خلاف جاءے گا۔ اللہ میاں کی رحمت اللہ
میاں کے غصے سے بڑی ہے، اور انسانوں کا غصہ اُنسانوں کی شفقت سے بہت بڑا۔ لوگ اپنی مرضی
کے پھول کھلانے کی خاطر پہلے سے کھلے پھولوں کو نوچ پھینکتے ہیں۔ ایسی ہی کوششیں شاید ان دولہا
دلہن کے ساتھ بھی ہوءی ہوں گی۔ پھر آہستہ آہستہ مفاہمت کی کوءی صورت بنی ہو گی۔ یا بزرگوں نے
تنگ آ کے سوچا ہو گا کہ جاءیں جہنم میں، زندگی انہوں نے ہی گزارنی ہے کر لیں اپنی مرضی۔ ایسے میں
یہ بھی شرط رکھی گءے ہو گی کہ اگر کل کو کوءی مسءلہ ہوا تو ہمارے پاس مت آنا۔ لیکن سوچا جاءے
تو، کسی انسان کی گارنٹی نہیں دی جا سکتی۔ آپ ایک بندے کو سو دِن ایک بات یاد کرواتے رہیں،
ایک سو ایکویں دِن اُسکی گارنٹی نہیں دے سکتے کہ جواب آپکی مرضی کے مطابق دے گا۔ اگر آج نظر آ
رہا کہ فلاں آپکی بیٹی یا بیٹے کے لیے اچھا ہے، تو کیا خبر اُسکا کاروبار کل کو ڈوب جاءے۔ یا سگھڑ لڑکی کسی
وجہ سے اکھڑ ہو جاءے، کوءی گارنٹی نہیں دی جا سکتی۔ ولیوں پیغمبروں کی بات اور ہے، عام انسان
کی گارنٹی نہیں دی جا سکتی۔ اور ایسے ہی عام انسان کی بات پتھر پہ لکیر بھی نہیں ہو سکتی، کوءی
انسان یہ نہیں کہہ سکتا بس جو میں نے کہہ دیا وہی حرفِ آخر، تبدیلی ناممکن ہے۔
ڈھول نہیں بج رہا، شاید وہ لوگ تھک کے سو گءے۔ شاید گانے ختم ہو گءے، شاید تالیاں بجانے
والے ہاتھوں میں چھالے پڑ گءے، کسے پتہ؟
ہاں یہ ہو سکتاہے کہ بڑی مصیبتیں سہنے کے بعد یہ رات آءی ہو، کہ ڈھولک بج رہا ہے۔ایسے میں کیا
حالت ہو گی دولہا دلہن کی، اُنکے دِل پہ کیا گزر رہی ہو گی یہ تومجھے نہیں پتہ۔ اگر اندازےبھی لگاءے
جاءیں تو میرے خیال سے الگ ایک تحریر لکھنی پڑے گی۔ شاید اُنکو یقین ہی نہیں آ رہا ہو گا کہ جس
وقت کی خاطر اُنہوں نے سارے جبر سہے، وہ وقت آ چُکا ہے۔ ہاتھ پاءوں پھولے ہوں گے، آنکھوں
سے آنسو چھلک چھلک جاتے ہوں گے۔ لمبی رات گزر جانے کے بعد سورج نکلتا ہوا نظر آ رہا ہو۔۔۔ تو
کیسا محسوس ہوتا ہو گا۔۔۔ دعا ہے کہ اللہ پاک سب مسافروں کو اُنکی منزل تک پہنچاءیں۔۔۔ آمین۔۔۔ فی
امان اللہ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

کھلے دِل سے رائے دیں، البتہ کھلم کھلی بدتمیزی پر مشتمل کمنٹ کو اڑانا میرا حق ہے۔

Pak Urdu Installer

Pak Urdu Installer