اتوار، 18 اکتوبر، 2009

مغل اشرافیہ کی ابتری


یہ تحریر ڈاکٹر مبارک علی کی ایک تحریر کا اردو ترجمہ ہے، جو کہ انگریزی روزنامہ ڈان میں اٹھارہ اکتوبر دو ہزار نو کو چھپی تھی۔
قرونِ وسطٰی میں ہندوستان کا معاشرہ بُرے طریقے سے تقسیم کا شکار اور دو طرح کے گروہوں میں تقسیم تھا۔: مراعات یافتہ لوگ، اور عام لوگ۔ جن کا تعلق امیر طبقے سے تھا وہ خود کو برتر اور قانون سے بالاتر تصور کرتے تھے۔ جاگیرداروں کو اپنی جاگیروں میں رعایا پر مکمل اختیار حاصل تھا اور اُنہیں معمولی جرم یا نافرمانی پر سزا دیتے تھے۔ اپنی رعایا کو فرمانبراد اور وفادار رکھنے کے لیے وہ ہر طرح کے خوفزدہ کرنے والے ہتھکنڈے استعمال کرتے تھے، اور تشدد، قید کرنے کو، اور پھانسی تک دینےکو اپنا حق سمجھتے تھے۔

اُنکی رعایا اُنکے رحم و کرم پہ تھی اور اُنکے وحشیانہ سلوک پر احتجاج کے طور پہ بول بھی نہیں سکتے تھے۔ مثلاً شجاع الدولہ اودھ کا کا نواب وزیر اور ایک طاقتور مقتدر تھا، اُسکے حرم میں عورتوں کی ایک بڑی تعداد تھی۔ ایک مرتبہ اُسنے ایک خوبصورت کھتری عورت کو اغواء کر لیا، اُسکے ساتھ زیادتی کی، اور اپنے محل سے باہر پھینک دیا۔ کھتری برادری نے اس حادثے کے خلاف احتجاج کیا لیکن بے سود، کیونکہ طاقتور لوگوں کے خلاف عام لوگوں کی کہیں سُنی نہیں جاتی تھی۔

اشرافیہ، اپنے حلقوں میں بھی ایک دوسرے کے خلاف جراءم کرتے رہتے تھے۔ جنکے پاس وساءل ہوتے تھے اُنکو کوءی سزا نہیں ملتی تھی۔ احمد شاہ کے دورِ حکومت میں(1748 - 1754) می اُسکا دِل پسند خواجہ سرا جاوید خان بہت با اثر ہو گیا تھا، اور یہ بات کچھھ امراء کو پسند نہیں تھی۔ ایک دِن ایک مقتر صفدر جنگ نے اُسے رات کے کھانے پہ بُلایا اور قتل کر دیا۔ بادشاہ اِس بات پر خاءف ہوا لیکن کمزور ہونے کی وجہ سے کچھ بھی نہ کر سکا۔

جیسے جیسے ادارے ٹوٹتے گءے اور بادشاہ کمزور ہوتے گءے، مغل اشرافیہ اپنے مخالفین کو نیچا دکھانے اور خود کو مستحکم کرنے کے لیے سازشوں کا سہارا لیتے۔ اُنکے مخالفین کو انعامات اور اعلٰی مقام ملنا اُنکے لیے ناقابلِ برداشت تھا، اور ایسا ہونے سے روکنے کے لیے وہ تمام ذراءع استعمال کر کے کوششیں کرتے رہتے تھے۔ مثال کے طور پہ احمد شاہ کے دورِ حکومت میں سعادت خان بُرہان الُلک امیر الاُمراء بننے کا امیدوار تھا لیکن جب عہدہ نظام المُلک کو دے دیا گیا تو وہ نادر شاہ کے پاس گیا، جو کہ مغل بادشاہ کے ساتھ امن معاہدہ کر کے واپس جانے کیا تیاری کر رہا تھا۔ سعادت خان نے نادر شاہ کو بتایا کہ دو کڑوڑ روپے کی رقم جو کہ اُسے امن معاہدے کے نتیجے میں ملی تھی اُسکے شایانِ شان نہیں تھی، اور وہ، بطور مغیہ رءیس یہ چھوٹی سی رقم اُسکے خزانے کے لیے دے سکتا تھا۔ اُسنے نادر شاہ کو شہر پہ قبضہ کرنے اور شاہی خزانے کو لوٹنے پہ اُکسایا۔ نادر شاہ نے، اُسکے مشورے پر عمل کرتے ہوءے، دہلی پر قبضہ کر لیا اور صدیوں پُرانے خزانے کو ایران لے گیا۔

جیسے جیسے اشرافیہ اخلاقی طور پر دیوالیہ ہوتی گءی، اُنکی بلند بانگ خطابات حاصل کرنے کی خواہش بڑہتی گءی۔۔۔ شاید اپنے کھوکھلے پن پہ پردہ ڈالنے کے لیے۔ ان خطابات کا اختتام خان، بہادر، دولہ، جنگ، اور مُلک پر ہوتا تھا۔ جن امراء کو یہ خطابات دیے جاتے تھے اُن میں ایسی کوءی خصوصیت نہیں ہوتی تھی جسکا اظہار یہ خطابات کرتے تھے۔ جنہیں بہادر یا جنگ کا خطاب دیا جاتا تحا وہ اس قابل نہیں تھے کہ میدانِ جنگ میں افواج کی قیادت کریں یا بہادری سے لڑسکیں۔ جنکے ناموں کے ساتھ امین یا اعتماد کے خطاب لگے تھے وہ ذاتی مفادات کے لیے دھوکہ دینے کی تاک میں ہوتے تھے۔ دلچسپی کی بات ہے کہ جیسے جیسے مغل سلطنت کمزور ہوتی جا رہی تھی، اشرافیہ کے خطابات اور بڑے اور شاندار ہوتے جا رہے تھے۔

جیسے جیسے اشرافیہ کی کارکردگی خراب ہوتی گءی، معاشرے میں اُنکی عزت ختم ہو گءی۔ بہر حال معاشرے میں عزت حاصل کرنے کے لیے وہ اپنی طاقت اور دولت کا مظاہرہ کرتے تھے۔ بڑے اہتمام سے ریشم اور مہنگے کپڑے سے بنے ملبوسات پہنتے تھے۔ اپنے عماموں میں چمکدار ہیرے لگاتے تھے، اور اپنے جسموں کو خوبصورت بنانے کے لیے مختلف زیورات سے سجاتے تھے۔ جب بھی باہر جاتے، ہاتھی یا پالکی کو سواری کے لیے استعمال کرتے۔ اُنکے جلوس کے سامنے خادموں کی بڑی تعداد اُنکا راستہ صاف کرتی، حالانکہ اُن بیچاروں کو باقاعدگی سے تنخواہیں بھی نہیں ملتی تھیں۔

اِس سے پتہ چلتا ہے کہ اشرافیہ کو اپنے مقام کا بڑا خیال تھا اور وہ لوگوں کو متاثر کرنے کے لیے دکھاوے کے تمام ذراءع استعمال کرتے تھے۔ بہرحال لوگوں کا نقطہ نظر کافی مختلف تھا۔ وہ نہ تو بلند بانگ خطابات سے متاثر تھے، اور نہ ہی دولت سے، اور اشرافیہ کو ناپسند کرتے تھے اُنہیں بدکردار، بے ایمان، سُست، اور بدچلن لوگ سمجھتے ہوءے۔ جعفر زطالی ایک شاعر تھا جسے فرخ سیار(1713 - 1719) کے دور میں قتل کر دیا گیا تھا، کیونکہ اُس نے بادشاہ کی تاجپوشی پر طنزیہ شاعری لکھی تھی، اُس نے نہ صرف بادشاہ پر تنقید کی تھی بلکہ اشرافیہ کو بھی اُنکی قابلِ شرم کردار پہ ہدفِ تنقید بنایا تھا۔

اگر ہم آج کے دور کا موازنہ ماضی سے کریں، تو پتہ چلتا ہے کہ ہمارے امیر طبقات بھی مغلیہ سلطنت کے زوال کے دنوں کی اشرافیہ جیسی حرکات کر رہے ہیں۔ وہ خود کو قانون سے بالاتر تصور کرتے ہیں، اپنی کمزوریاں چھپانے کے لیے دولت کا استعمال کرتے ہیں، اور عام لوگوں کو وی وی آءی پی کلچر سے دور رکھتے ہیں، وہ نہیں جانتے کہ عوام میں اُنکی کوءی عزت نہیں ہے بلکہ صرف ناراضگی ہے۔

ہمارے جاگیر داروں کا رویہ اپنے کسانوں کے ساتھ ویسا ہی ہے جیسا قرونِ وسطٰی جاگیر داروں گا تھا؛ وہ اُنکے ساتھ غیر انسانی سلوک کرتے ہیں، انہیں ذاتی جیلوں میں رکھتے ہیں، اور چھوٹے موٹے جراءم پر اُنہیں تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔

ہفتہ، 3 اکتوبر، 2009

ڈھولک

ڈھولک بج رہی ہے اور میں بیٹھا ہوں، کمرے کے باہر گلی میں لگی گرِل پر۔ بجلی نہیں ہے، پسینہ بہہ
رہا ہے لیکن گرمی محسوس نہیں ہوتی۔ شاید اس لیے کہ میں ڈھولک کی آواز میں مگن ہوں۔ محلے کے
ایک گھر میں شادی ہے، اسکی خوشی مناءی جا رہی ہے۔ ڈھولک اکیلی نہیں ہے، وہاں موجود لوگ
تھاپ کے ساتھ ساتھ تالی بجا رہے ہیں، اور ڈھولک پہ چمچا مارنے کی آواز بھی ہے۔اکیلی ڈھولک ہوتی تو
شاید اتنی گہرا سماں نہ باندھ پاتی۔گاہے گاہے گانے کی آواز بھی آتی ہے لیکن ڈھولک کی تھاپ کے
ہوتے ہوءے بول سمجھ نہیں آتے، سمجھ کے کرنا بھی کیا ہے۔
مجھے یہاں بیٹھے تقریباٰ ایک گھنٹا ہو گیا ہے، لیکن عجیب بات ہے کہ ڈھولک کی آواز سے دل نہیں
بھرتا۔اُلٹا جب کہیں ذرا دیر کے لیے آواز آنی بند ہوتی ہے تو لگتا ہے کسی چیز کی کمی سی ہے۔ ایسا کیسے
ہو سکتا ہے، یہ آواز تو بالکل اجنبی ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ تھوڑی سی دیر میں کسی سے اتنی محبت کیسے
ہو جاتی ہے کہ اُسکی خاطر بندہ پُرانے تعلق رشتے داریاں توڑنے پہ اُتر آتا ہے، شاید جیسا تعلق اس آواز سے
میرا بن گیا ہے ویسا ہی تعلق کسی انسان سے بھی بن جاتا ہے۔ لیکن یہ تھاپ تو بالآخر رُک جاءے گی،
اور میں اسے بھول بھی جاءوں گا۔ انسانوں سے ہو جانے والے اُنس کا معاملہ مختلف ہوتا ہے، اُنکے
چلے جانے کے بعد بھی تعلق زندہ رہتے ہیں۔
میں سوچ رہا ہوں کہ جن کی شادی کے ڈھول بج رہے ہیں وہ پتہ نہیں خوش ہیں بھی یا نہیں؟ عین
ممکن ہے دلہن کسی اور کو یاد کر کے رو رہی ہو، یا دولہا کان کے ساتھ موباءل فون لگاءے کسی اور سے تیز
آواز میں باتیں کر رہا ہو. شاید اس دلہن کی اپنے گھر میں آج آخری رات ہو، جب گھر میں موجود سب لوگ
سو جاءیں تو یہ چھوٹے سے بیگ میں سامان ڈالے اور گھر سے نکل پڑے۔ پاس ہی کہیں اندھیرے
میں اُسکا عاشق کھڑا بے صبری سے انتظار کر رہا ہو گا۔ لیکن نہیں، یہ بھی تو ممکن ہے کہ لڑکا کسی وجہ
سے گھر نہ چھوڑ سکتا ہو۔ اُسکی اپنی بہنیں ہوں، اور وہ ڈرتا ہو کہ کسی کی لڑکی بھگانے کی صورت میں وہ
انتقام کا نشانہ بن جاءیںگی۔ یا اُسکا باپ حال ہی میں ریٹاءر ہوا ہو، اور اب ہر چیز کا دارومدار لڑکے کی تنخواہ
پر ہو۔ ڈھولک بج رہی ہے، میں بیٹھا سُن رہا ہوں، کی بورڈ پر انگلیاں رقص کیے جا رہی ہیں۔ اچانک
ڈھولک بند ہوتی ہے، ذرا وقفے کے بعد آواز دوبارہ آنا شروع ہوتی ہے۔
اس مرتبہ تھاپ مختلف ہے۔ ایک اور بات بھی ہو سکتی ہے، کہ لڑکے لڑکی نے بڑی مخالفت کاٹی ہو۔ بڑی ماریں کھاءیں ہوں
اپنے راستے میں آنے والی ضد انا کی دیواروں کو گرایا ہو۔ سالہاسال ایک دوسرے سے دور رہ کر بھی اپنی
محبت کو زندہ رکھا ہو۔ اُنہیں انکے محبوب کے بارے میں بُری خبریں سناءی جاتی ہوں، کہ فلاں جگہ
سے رشتہ آیا ہے فلاں کے گھر گیا تھا فلاں نے ایسے کہا ویسے کہا۔ اُنہیں خامیاں گنواءی جاتی ہوں،
اُنہیں بہتر آپشن دیے جاتے ہوں، لیکن میاں صاحب نے کیا خوب کہا ہے

جنہاں تناں عشق سمایا، اوس نہیں فیر جانا
کوڑھے سوہنے مِلن ہزاراں، اساں نہیں یار وٹانا

تنگ آ کر انہیں کہا جاتا ہو کہ تُم بے وقوف ہو، جو چاہتے ہو وہ کبھی نہیں ہو سکتا۔ آخر تمہیں اُس میں نظر کیا
آتا ہے، تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ اور وہ حیرت سے اپنے پیاروں کے چہروں کی طرف دیکھتے ہوں گے، کہ "
انہیں کیا ہو گیا ہے؟"۔ کہہ رہے ہیں کہ صرف تمہاری خوشی چاہیے، لیکن سب جانتے ہوءے بھی پوچھتے
ہیں تمہیں کیا ہو گیا ہے۔ پھر ہو سکتا ہے کہ اُن پر دباءو ڈالا جاتا ہو، ایک مختلف زاویے سے۔ کہا جاتا ہو
کہ ہم نے تمہیں پالا پوسا بڑا کیا، اور تُم چار دِن کی آشناءی کو ہماری ساری عمر کی قربانیوں پر فوقیت دے
رہے ہو۔ لیکن وہ پھر بھی ڈٹے رہے ہوں، سر کو جھکاءے چُپ بیٹھے یا شاید گھٹنوں میں سر دبا کے
روتے رہے ہوں۔ پھر لگاتار لعن طعن کا ایک اور سلسلہ شروع ہو جاتا ہو گا۔ اُٹھتے بیٹھتے باتیں لگاءی
جاتی ہوں گی، دنیا جہان کا غصہ اُن پر نکالا جاتا ہو گا۔ لیکن وہ چُپ بے بس ریسیونگ اینڈ پہ، کیونکہ یہ پال
پوس کے بڑا کرنے اور قربانیاں دینے والی بات تو سچ ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ لڑکی کے بھاءی،
باپ، یا ماں نے اُسکے بال کھینچے اُسے تھپڑ مارے ہوں، محبت سے تھپکنے والے ہاتھوں سے لگنے والی
چوٹیں اُسکی روح پر نشان چھوڑ گءی ہوں۔ لیکن کیا کریں، اپنے ہیں نا۔ انکے ہاتھوں سے مار کھا بھی
لی تو کیا فرق پڑتا ہے، تکلیف تو بے شک ہوتی ہے۔ بس ذرا غصے میں ہیں، شاید مجھ پہ ترس ہی کھا
لیں۔ لیکن کسی کو ترس بھی نہ آتا ہو گا۔
ڈھول بجے جا رہا ہے، اور خیالوں کا ریلا تھمنے میں ہی نہیں آ رہا۔ کسی بچے کو پال پوس کے بڑا کرنا مشکل
کام ہے۔ ایسا کرنے کے بعد ماں باپ کو اُس پہ بڑا مان بھی ہوتا ہے۔ خاص طور پہ ماں کو، دیکھیں نا
آپ نے ایک پودا لگایا اور پھر اُسے دیکھنے بیٹھ گءے۔ اُس پودے کی ہر کونپل آپکے سامنے پھوٹی، ہر
پتے کی تہہ کُھلتے ہوءے آپ نے دیکھی۔ پانی لگایا، کھاد ڈالی، سرد گرم موسموں سے بچایا تو اُس سے
اُنس بھی ہو جاءے گا۔ لیکن لوگ پودے پہ پھول بھی اپنی پسند کے رنگوں میں کھلانا چاہتے ہیں۔ اگر
لگنے والے پھولوں کا رنگ توقع سے برعکس ہو تو کیا اُنکو نوچ کر پھینک دینا چاہیے؟ یہاں اُنس کی وجہ
سے ایک اور پہلو سامنے آتا ہے، ضد کا پہلو۔ ماں باپ کو وہی چھوٹا سا ہاتھ پاءوں چلاتا بچہ نظر آتا ہے اور
وہ سوچتے ہیں کہ اِسکی یہ ہمت کہ اب ہماری مرضی کے خلاف جاءے گا۔ اللہ میاں کی رحمت اللہ
میاں کے غصے سے بڑی ہے، اور انسانوں کا غصہ اُنسانوں کی شفقت سے بہت بڑا۔ لوگ اپنی مرضی
کے پھول کھلانے کی خاطر پہلے سے کھلے پھولوں کو نوچ پھینکتے ہیں۔ ایسی ہی کوششیں شاید ان دولہا
دلہن کے ساتھ بھی ہوءی ہوں گی۔ پھر آہستہ آہستہ مفاہمت کی کوءی صورت بنی ہو گی۔ یا بزرگوں نے
تنگ آ کے سوچا ہو گا کہ جاءیں جہنم میں، زندگی انہوں نے ہی گزارنی ہے کر لیں اپنی مرضی۔ ایسے میں
یہ بھی شرط رکھی گءے ہو گی کہ اگر کل کو کوءی مسءلہ ہوا تو ہمارے پاس مت آنا۔ لیکن سوچا جاءے
تو، کسی انسان کی گارنٹی نہیں دی جا سکتی۔ آپ ایک بندے کو سو دِن ایک بات یاد کرواتے رہیں،
ایک سو ایکویں دِن اُسکی گارنٹی نہیں دے سکتے کہ جواب آپکی مرضی کے مطابق دے گا۔ اگر آج نظر آ
رہا کہ فلاں آپکی بیٹی یا بیٹے کے لیے اچھا ہے، تو کیا خبر اُسکا کاروبار کل کو ڈوب جاءے۔ یا سگھڑ لڑکی کسی
وجہ سے اکھڑ ہو جاءے، کوءی گارنٹی نہیں دی جا سکتی۔ ولیوں پیغمبروں کی بات اور ہے، عام انسان
کی گارنٹی نہیں دی جا سکتی۔ اور ایسے ہی عام انسان کی بات پتھر پہ لکیر بھی نہیں ہو سکتی، کوءی
انسان یہ نہیں کہہ سکتا بس جو میں نے کہہ دیا وہی حرفِ آخر، تبدیلی ناممکن ہے۔
ڈھول نہیں بج رہا، شاید وہ لوگ تھک کے سو گءے۔ شاید گانے ختم ہو گءے، شاید تالیاں بجانے
والے ہاتھوں میں چھالے پڑ گءے، کسے پتہ؟
ہاں یہ ہو سکتاہے کہ بڑی مصیبتیں سہنے کے بعد یہ رات آءی ہو، کہ ڈھولک بج رہا ہے۔ایسے میں کیا
حالت ہو گی دولہا دلہن کی، اُنکے دِل پہ کیا گزر رہی ہو گی یہ تومجھے نہیں پتہ۔ اگر اندازےبھی لگاءے
جاءیں تو میرے خیال سے الگ ایک تحریر لکھنی پڑے گی۔ شاید اُنکو یقین ہی نہیں آ رہا ہو گا کہ جس
وقت کی خاطر اُنہوں نے سارے جبر سہے، وہ وقت آ چُکا ہے۔ ہاتھ پاءوں پھولے ہوں گے، آنکھوں
سے آنسو چھلک چھلک جاتے ہوں گے۔ لمبی رات گزر جانے کے بعد سورج نکلتا ہوا نظر آ رہا ہو۔۔۔ تو
کیسا محسوس ہوتا ہو گا۔۔۔ دعا ہے کہ اللہ پاک سب مسافروں کو اُنکی منزل تک پہنچاءیں۔۔۔ آمین۔۔۔ فی
امان اللہ۔۔۔

Pak Urdu Installer

Pak Urdu Installer