جمعرات، 20 اگست، 2009

بے حس لوگ، بے رحم گڑھے

حادثے تو ہوتے ہیں، ان پر غصہ بھی آتا ہے، کوءی بڑی بات نہیں۔ البتہ جب حادثہ کسی کی سیدھی سیدھی لاپرواہی کی وجہ سے ہو تو جناب بات زبانی کلامی غصے سے آگے بڑھ جاتی ہے۔ ایسی ہی ایک لاپرواہی کا مظاہرہ اور اس کے نتیجے میں ہونے والا نقصان میں نے کل شام دیکھا۔ نہر والی سڑک سے اتر کر گارڈن ٹاءون کی طرف آیا، تھوڑا سا ہی آگے ٹریفک رُکی ہوءی تھی اور ایک بیچارہ موٹر ساءیکل والا نوجوان سا لڑکا سڑک پہ پڑا تھا۔ لوگوں نے آگے بڑھ کر اُسے اٹھایا اور ایک طرف لے جا کے بٹھایا پانی وغیرہ پلایا، ریسکیو والوں کو فون کیا۔
اس حادثے کی وجہ واسا ایل ڈی اے والوں کا بنایا ہوا کھڈا تھا، کوءی پاءپ ٹوٹا جسے ٹھیک کرنے کے لیے واسا نے دن میں کسی وقت سڑک کھودی تھی۔ اپنا کام ختم کر کے گڑھے میں "مٹی ڈال" کر وہ لوگ چلے گءے۔ دوطرفہ سڑک کے سڑک کے بالکل بیچ میں کھڈا تھا۔ لگتا تھا واسا کے انجینیر حضرات نے پوری پیماءیش کر کے زبردست مہلک گڑھا تیار کیا، تاکہ عوام الناس کی زیادہ سے زیادہ تعداد "چنگی" طرح سے فیض یاب ہو سکے۔
پاس کھڑا چوکیدار بتا رہا تھا کہ گڑھا کھودے جانے کہ بعد اس جگہ پیش آنے والا ساتواں حادثہ تھا۔ جب میں تازہ حادثے میں گرنے والے لڑکے کو دیکھنے گیا تو پتہ چلا وہاں پہلے سے ہی دو نوجوان زخمی بیٹھے تھے۔ کُل ملا کر تین لوگ، ایک کا منہ ایک طرف سے چھیلا گیا تھا، دوسرے کو کافی چوٹیں لگی تھی کپڑے پھٹے تھے بندے بیچارے کی صحت بھی پوری سی تھی۔ پاس کے اشارے پر سٹی پولیس والے کھڑے تھے کوءی جا کر اُن کو بُلا لایا کہ یہاں کوءی فیتہ وغیرہ لگواءیں یا کونیں ہی رکھوا دیں۔ وارڈن نے واءرلیس پر کافی شورمچایا لیکن کوءی خاطر خواہ جواب نہیں ملا، پیٹی بھاءی کے موباءل پر کال بھی کی لیکن اُس نے اٹھاءی ہی نہیں۔
دو آدمی جو شاید کہیں آس پاس رہتے یا کام کرتے ہوں گے ایک چادر نما کپڑا اور ایک ڈنڈا سا اٹھا لاءے۔ گڑھا بنانے والے لوگ اُس میں ایک شاخ پھینک گءے تھے، جو کہ دور سے نظر بھی نہی آ رہی تھی کیونکہ گڑھا کافی بڑا تھا۔ لوگوں نے چادر کو ذرا پھیلا کرشاخ اور ڈنڈے کے ساتھ باندھ دیا تاکہ آنے والوں کو دور سے نظر آ جاءے۔ آج صبح جب میں اُسی راستے سے دفتر جا رہا تھا تو دیکھا وہاں ذرا بہتر انداز میں بینر لگے ہوءے تھے۔ کل رات ایک وارڈن بینر لانے کا کہ کر گیا تھا کہ فلاں جگہ پر بینر لگے ہیں میں اتار لاتا ہوں۔
کہتے ہیں کہ جو کسی کے لیے گڑھا کھودتا ہے آپ ہی اُس میں گرتا ہے۔ میرے دل سے بد دعا نکلتی ہے کہ یا اللہ جو لوگ اس طرح کے گڑھے کھودتے ہیں ان کو کبھی نہ کبھی ان گڑہوں میں ضرور گرا۔ غیر ذمہ داری کی حد ہے، راہ چلتے اچھا خاصا بندہ زخمی ہو کر بیٹھ جاءے بغیر کسی قصور کے۔ جو تن لاگے سو تن جانے۔ جب تک ایسی لاپرواہیوں کے ذمہ داروں کے اپنے منہ نہ چھلیں، انکی ہڈیاں پسلیاں نہ ٹوٹیں، انکو کسی کے درد کا احساس ہو ہی نہیں سکتا۔ آج شام واپس آتے وہاں واسا کا ٹریکٹر ٹرالی موجود تھے، گڑہے میں مٹی اتار چکے تھے۔ بندہ پوچھے کہ ظالمو یہ کام کل ہی کر جاتے تو کیا تھا۔
کہتے ہیں کہ ہمارے عوام بے حس ہیں، میرا خیال ہے کہ ایسی کوءی بات نہیں ہے عوام اتنےبُرے بھی نہیں۔ کوءی اگر کام شروع کر لے تو لوگ اُسکے ساتھھ چل ہی پڑتے ہیں۔ مسءلہ پہلے قطرے، پہلے قدم کا ہے۔ عمران خان کا ہسپتال ہو یا میاں صاحب کی کشکول توڑ مہم عوام ہمیشہ ساتھھ دیتے ہیں۔ عوام میں ابھی کرنٹ ہے، بس کوءی کھرا عوامی لیڈر ملنے کی دیر ہے۔
کچھھ پڑہنے والے سوچ رہے ہوں گے کہ کسی کو بد دعا نہیں دینی چاہیے، لیکن یار کیا کریں اور کہیں بس نہیں نا چلتا۔ سیف الملوک کے ایک شعر سے یہ بات سمجھی جا سکتی ہے

بس وے ساڈا وس نہیوں چلدا، تے کی تو ساڈا کھونا؟
لِسے دا کی زور محمد، نس جانا یا رونا


لِسا پنجابی میں کمزور کو کہتے ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

کھلے دِل سے رائے دیں، البتہ کھلم کھلی بدتمیزی پر مشتمل کمنٹ کو اڑانا میرا حق ہے۔

Pak Urdu Installer

Pak Urdu Installer