جمعرات، 20 اگست، 2009

بے حس لوگ، بے رحم گڑھے

حادثے تو ہوتے ہیں، ان پر غصہ بھی آتا ہے، کوءی بڑی بات نہیں۔ البتہ جب حادثہ کسی کی سیدھی سیدھی لاپرواہی کی وجہ سے ہو تو جناب بات زبانی کلامی غصے سے آگے بڑھ جاتی ہے۔ ایسی ہی ایک لاپرواہی کا مظاہرہ اور اس کے نتیجے میں ہونے والا نقصان میں نے کل شام دیکھا۔ نہر والی سڑک سے اتر کر گارڈن ٹاءون کی طرف آیا، تھوڑا سا ہی آگے ٹریفک رُکی ہوءی تھی اور ایک بیچارہ موٹر ساءیکل والا نوجوان سا لڑکا سڑک پہ پڑا تھا۔ لوگوں نے آگے بڑھ کر اُسے اٹھایا اور ایک طرف لے جا کے بٹھایا پانی وغیرہ پلایا، ریسکیو والوں کو فون کیا۔
اس حادثے کی وجہ واسا ایل ڈی اے والوں کا بنایا ہوا کھڈا تھا، کوءی پاءپ ٹوٹا جسے ٹھیک کرنے کے لیے واسا نے دن میں کسی وقت سڑک کھودی تھی۔ اپنا کام ختم کر کے گڑھے میں "مٹی ڈال" کر وہ لوگ چلے گءے۔ دوطرفہ سڑک کے سڑک کے بالکل بیچ میں کھڈا تھا۔ لگتا تھا واسا کے انجینیر حضرات نے پوری پیماءیش کر کے زبردست مہلک گڑھا تیار کیا، تاکہ عوام الناس کی زیادہ سے زیادہ تعداد "چنگی" طرح سے فیض یاب ہو سکے۔
پاس کھڑا چوکیدار بتا رہا تھا کہ گڑھا کھودے جانے کہ بعد اس جگہ پیش آنے والا ساتواں حادثہ تھا۔ جب میں تازہ حادثے میں گرنے والے لڑکے کو دیکھنے گیا تو پتہ چلا وہاں پہلے سے ہی دو نوجوان زخمی بیٹھے تھے۔ کُل ملا کر تین لوگ، ایک کا منہ ایک طرف سے چھیلا گیا تھا، دوسرے کو کافی چوٹیں لگی تھی کپڑے پھٹے تھے بندے بیچارے کی صحت بھی پوری سی تھی۔ پاس کے اشارے پر سٹی پولیس والے کھڑے تھے کوءی جا کر اُن کو بُلا لایا کہ یہاں کوءی فیتہ وغیرہ لگواءیں یا کونیں ہی رکھوا دیں۔ وارڈن نے واءرلیس پر کافی شورمچایا لیکن کوءی خاطر خواہ جواب نہیں ملا، پیٹی بھاءی کے موباءل پر کال بھی کی لیکن اُس نے اٹھاءی ہی نہیں۔
دو آدمی جو شاید کہیں آس پاس رہتے یا کام کرتے ہوں گے ایک چادر نما کپڑا اور ایک ڈنڈا سا اٹھا لاءے۔ گڑھا بنانے والے لوگ اُس میں ایک شاخ پھینک گءے تھے، جو کہ دور سے نظر بھی نہی آ رہی تھی کیونکہ گڑھا کافی بڑا تھا۔ لوگوں نے چادر کو ذرا پھیلا کرشاخ اور ڈنڈے کے ساتھ باندھ دیا تاکہ آنے والوں کو دور سے نظر آ جاءے۔ آج صبح جب میں اُسی راستے سے دفتر جا رہا تھا تو دیکھا وہاں ذرا بہتر انداز میں بینر لگے ہوءے تھے۔ کل رات ایک وارڈن بینر لانے کا کہ کر گیا تھا کہ فلاں جگہ پر بینر لگے ہیں میں اتار لاتا ہوں۔
کہتے ہیں کہ جو کسی کے لیے گڑھا کھودتا ہے آپ ہی اُس میں گرتا ہے۔ میرے دل سے بد دعا نکلتی ہے کہ یا اللہ جو لوگ اس طرح کے گڑھے کھودتے ہیں ان کو کبھی نہ کبھی ان گڑہوں میں ضرور گرا۔ غیر ذمہ داری کی حد ہے، راہ چلتے اچھا خاصا بندہ زخمی ہو کر بیٹھ جاءے بغیر کسی قصور کے۔ جو تن لاگے سو تن جانے۔ جب تک ایسی لاپرواہیوں کے ذمہ داروں کے اپنے منہ نہ چھلیں، انکی ہڈیاں پسلیاں نہ ٹوٹیں، انکو کسی کے درد کا احساس ہو ہی نہیں سکتا۔ آج شام واپس آتے وہاں واسا کا ٹریکٹر ٹرالی موجود تھے، گڑہے میں مٹی اتار چکے تھے۔ بندہ پوچھے کہ ظالمو یہ کام کل ہی کر جاتے تو کیا تھا۔
کہتے ہیں کہ ہمارے عوام بے حس ہیں، میرا خیال ہے کہ ایسی کوءی بات نہیں ہے عوام اتنےبُرے بھی نہیں۔ کوءی اگر کام شروع کر لے تو لوگ اُسکے ساتھھ چل ہی پڑتے ہیں۔ مسءلہ پہلے قطرے، پہلے قدم کا ہے۔ عمران خان کا ہسپتال ہو یا میاں صاحب کی کشکول توڑ مہم عوام ہمیشہ ساتھھ دیتے ہیں۔ عوام میں ابھی کرنٹ ہے، بس کوءی کھرا عوامی لیڈر ملنے کی دیر ہے۔
کچھھ پڑہنے والے سوچ رہے ہوں گے کہ کسی کو بد دعا نہیں دینی چاہیے، لیکن یار کیا کریں اور کہیں بس نہیں نا چلتا۔ سیف الملوک کے ایک شعر سے یہ بات سمجھی جا سکتی ہے

بس وے ساڈا وس نہیوں چلدا، تے کی تو ساڈا کھونا؟
لِسے دا کی زور محمد، نس جانا یا رونا


لِسا پنجابی میں کمزور کو کہتے ہیں۔

بدھ، 5 اگست، 2009

یا اللہ خیر

کل کا دن تو بڑا ہی خوفناک تھا، پرسوں رات میں دفتر کا لیپ ٹاپ اپنے ساتھھ گھر لے آیا تھا۔ رات بجلی نے سونے نہیں دیا، گھنٹہ آتی اور گھنٹہ چلی جاتی۔ اس وجہ سے میں صبح جاگا دیر سے۔ بھاگم بھاگ میں لیپ ٹاپ گھر پہ چھوڑ کے ہی دفتر جا پہنچا۔ اپنے خالی ڈیسک پر نظر پڑتے ہی میں نے سر پکڑ لیا۔ سخت غصے کی حالت میں موٹر ساءیکل نکالی اور بھگا دی واپس گھر کی طرف۔ کیمپس والے انڈر پاس میں داخل ہوتے ہوءے میٹر پورے سو پر تھا، ایک ہنڈا سٹی اور کیری ڈبے کے درمیان سے نکالنے کی کوشش کی لیکن دھیان بٹا ہونے کی وجہ سے پتہ نہیں کیسے میں عین کیری ڈبے کے پیچھے جا پہنچا۔ بڑی بریک لگاءی لیکن بالکل جگہ ہی نہیں ملی اور موٹر ساءیکل ٹھک سے سیدھی کیری ڈبے کے پچھلے بمپر میں جا لگی۔
میں ہینڈل کے اوپر سے اڑتا ہوا سڑک پہ جا گرا، دیکھنے والے بتا رہے تھے کہ تین چار قلابازیں کھا کے رُکا۔ خیر اللہ کا شکر ہے کہ پیچھے سے اور کوءی گاڑی نہیں آ رہی تھی ورنہ میرا تو قیمہ بن جاتا۔ سڑک پر ٹھرتے ہی میں اٹھا اور انڈر پاس کی دیوار کے ساتھھ ٹیک لگا کر بیٹھھ گیا۔ سینے پر ٹھیس لگنے کی وجہ سے سانس لینے میں دشواری پیش آ رہی تھی۔ حادثے کا دھچکا بھی تھا کہ یہ کیا ہو گیا، اسکی وجہ سے میں نروس سا ہو رہا تھا۔ لمبے لمبے سانس لیے تو طبعیت کچھھ سنبھلی، دل کو دلاسہ دیا کہ یار حوصلہ کر خیر مہر ہے میں زندہ سلامت ہوں، ہوش حواس بھی سلامت ہیں۔ پیچھے آنے والے ایک اور موٹر ساءیکل سوار نے میری باءیک کو اٹھا کر ساءیڈ پر کھڑا کیا۔ ایک اور بندے نے ڈبل ون ڈبل ٹو والوں کو فون کر دیا۔ چوٹیں زیادہ نہ ہونے کی وجہ سے میں نے اُسے منع کر دیا کہ ریسکیو والوں کا وقت ضاءع ہو گا رہنے دو۔ اپنے ہاتھھ پاءوں ہِلا کر دیکھے، یہ جان کر خوشی ہوءی کہ کوءی ٹوٹ پھوٹ نہیں ہے۔ باءیں بازو پر کہنی کے قریب کافی بڑی خراش آءی ہے، لیکن صرف کھال چھلی ہے اس طرح کہ بال سلامت ہیں۔ بہر حال اس زخم کی جلن بہت ہے، اور آنے والی رات میں اسکی وجہ سے صحیح سو نہیں سکا۔
ہیلمٹ پہنا ہوا تھا اس وجہ سے بڑی بچت ہو گءی، شکر ہے اللہ کا۔ قارءین اگر آپ موٹر ساءیکل چلاتے ہیں تو ہیلمٹ لازمی پہنا کریں۔ ہیلمٹ کی اہمیت کا احساس مجھے کل ہوا، جب میں نے ہیلمٹ پر آءی خراشیں دیکھیں تو۔ سوچیں ذرا وہ ساری خراشیں اگرمیں منہ سر پہ ہوتی تو ستیا ہی ناس ہو جانا تھا۔ ہیلمٹ پر ایک نشان تو خاص جبڑے والی جگہ تھا، یعنی کہ بوتھا شریف ٹُٹ جانا سی۔ اٹھھ کر میں نے باءیک سٹارٹ کی، جو لوگ رُکے تھے اُنکا شکریہ ادا کیا اور گارڈن ٹاءون میں سے نکل کر فیروز پور روڈ پر آ گیا۔ کلمہ چوک کے پاس مسعود ہسپتال ہے وہاں جا کر فرسٹ ایڈ لی۔ ڈاکٹر نے ٹیکا ٹھوکا اور پورے ایک گرام کی آگمینٹن بھی دی۔ اتنی بڑی گولی، مجھے تو دیکھ کر ہی الجھن ہوتی ہے۔ لیڈی ڈاکٹر تھی اس لیے زخم کی صفاءی اور ٹیکہ لگتے وقت کوءی خاص تکلیف نہیں ہوءی، دھیان بٹا رہا۔
وہاں سے نکل کر میں اپنی آماجگاہ بمقام 94 ایچ ماڈل کالونی فردوس مارکیٹ آیا، لیپ ٹاپ اٹھا کر دفتر چلا گیا۔ وہاں لنچ ٹاءم تک رہا اور ٹیم مینیجر کے شدید اصرار پر لنچ کے بعد گھر آ گیا۔ ندیم بھاءی اس معاملے میں اچھے ہیں، بندے کا کافی خیال رکھتے ہیں۔ خیر گھر آ کے مجھے کونسا چین آ جانا تھا۔ گھنٹہ سوا سویا اسکے بعد دوبارہ باءیک اٹھا کر اکبر چوک سوزوکی کی ورکشاپ پہنچ گیا۔ ٹیوننگ وغیرہ کرواءی، باقی جو چیزیں ڈنگی چبی ہوءی تھیں انہیں ٹھیک کرنے سے مکینک نے انکار کر دیا، کہ یہ جا کر پروفیشنل ڈینٹر سے سیدھی کرواءیں۔
مجھے کہتا ہے کہ بھاءی ٹراءی لے آءیں، میں نے کہا کہ یار خود لے آءو لیکن کہتا ہے کہ نہیں یار آپ خود جاءیں۔ میں نے باءیک کوٹھے پنڈ جانے والی سڑک پر نکالی۔ اور تھوڑی کھینچی، ٹراءی جو تھی۔ بریکس وغیرہ چیک کر لی ٹھیک تھی اور انجن سے کوءی فالتو آواز بھی نہیں آ رہی تھی۔ اچانک سامنے یو ٹرن سے ایک نوجوان لڑکا نکل آیا، اُسکے پیچھےدرمیانی عمر کی عورت بیٹھی ہوءی تھی۔ اللہ کا بندہ سڑک پر آ کے دیکھھ رہا ہے کہ پیچھے تو کوءی نہیں۔ پیچھے میں تھا، میں نے بریک لگاءی فُل میٹر سے زیرو پر آنے کے لیے وقفہ چاہیے ہوتا ہے باءیک سنبھال لی تھی لیکن شاید آنٹی کا پیر مجھے لگا اور موٹر ساءیکل گر گءی۔ باءیک کے آگے سیف گارڈ لگوایا ہوا ہے، باءیک اُس سیف گارڈ کے بل پر گھسٹتی چلی گءی۔ ایک مرتبہ میری باءیں ہتھیلی سڑک پر لگی لیکن شکر ہے اللہ کا سڑک پر کھڈانہیں تھا جس وجہ سے میں گری ہوءی موٹر ساءیکل پر بیلنس ہو گیا بالکل سانس روک کر۔
اس حادثے میں مجھے چوٹ تونہیں لگی لیکن میں ہِل کے رہ گیا۔ ایک دِن میں دو مرتبہ ایسے شدید حادثات، ایسا تو کبھی نہیں ہوا۔ بلکہ کم از چار پانچ سال میں میرا کوءی ایکسیڈنٹ سرے سے ہوا ہی نہیں۔ سیف گارڈ کی ستیا ناس ہو گءی، فٹنگ کے دو بولٹ ہوتے ہیں، ان میں سے ایک ٹوٹ گیا۔ سیف گارڈ دوہرا ہو کر ٹینکی کے ساتھھ جُڑ گیا تھا۔ اس کی وجہ سے ٹینکی پر بھی ڈینٹ پڑ گیا۔ ورکشاپ واپس آیا، وہاں سے سامان اٹھا کر ڈینٹر کے پاس چلا گیا۔ اُس نے موٹر ساءیکل کو سیدھا کیا۔ اور جناب آخر کار میں شام کو گھر واپس آ گیا۔ خیر خیریت کے ساتھھ، صحیح سلامت۔ ٹینکی والے ڈینٹ کا مجھے افسوس ہوا ہے، باقی ساءلینسر بالکل فریم کے ساتھ جُڑ گیا، دایاں فُٹ ریسٹ دوہرا گو گیا، اور اگلا مڈ گارڈ بھی سامنے سے چِبا ہو گیا۔
میں ایک بات کا تو قاءل ہوں کہ ہم بندے بڑی بڑہکیں مارتے ہیں، کءی اپنی بات کو پتھر پہ لکیر سمجھتے ہیں لیکن جناب بندے کی اوقات کچھھ نہیں ہے۔ کل کے دونوں حادثات میں اگر زندہ بچ گیا ہوں تو میری کوءی بہادری نہیں، اللہ کا کرم ہے جو اُس نے زندہ رکھھ لیا۔ زندگی بڑی ہی بے اعتباری چیز ہے، کچھھ پتہ نہیں کہاں کس طرح اچانک سانس کی ڈور ٹوٹ جاءے۔ بڑے بڑے سیانے دانا تیز چالاک لوگوں کے ساتھھ ایسا ہو جاتا ہے، ساری میں یہ میں وہ دھری کی دھری رہ جاتی صدقہ بندے کے سر آءی بلاءوں کو کھا جاتا ہے۔ عدنان کہہ رہا تھا تہ شب برات ہے، دعا وغیرہ کرنا۔ اسکےعلاوہ ایک اور صاحب نے مشورہ دیا کہ گھر جا کے شکرانے کے نفل پرہنا۔ میرے خیال میں یہ سب بڑے اچھے بالکل درست مشورے تھے۔
ہونی کو کوءی نہیں ٹال سکتا، پھر بھی احتیاط کرنی چاہیے۔ جب سوچتا ہوں کہ اگر خدا نخواستہ مجھے کچھھ ہو جاتا تو میرے گھر والوں پر کیا گزرتی، رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اللہ کا لاکھھ لاکھھ شکر ہے کہ اُس نے جان بچا لی، قارءین سے گزارش ہے کہ میرے لیے دعا ضرور کریں۔
فی امان اللہ۔۔۔

منگل، 4 اگست، 2009

ایک چھوٹی سی کہانی

رات کےدس بجنے والے ہیں، بجلی جانے والی ہے۔ اور کچھھ ہو نہ ہو، بجلی ٹاءم پر جاءے گی۔ جاگرز پہن کر میں ماڈل ٹاءون پارک جانے کے لیے تیار ہوں، فیاض کو بھی ساتھھ لے لیتا ہوں۔ آج اسکی طبعیت خراب ہے، اس لیے کام پر نہیں گیا۔ شام پانچ سے رات ایک بجے تک کی نوکری ہے، امریکن کمپنی میں کام کرنا بھی نرا سیاپا ہے۔ بیچارہ اکاءونٹنٹ مکھی چوس شیخوں کے ہتھے چڑہا ہوا ہے۔ اللہ معاف کرے ایک سیٹھھ اوپر سے شیخ۔ فیصل آباد کے ایک مل مالک شیخ صاحب نے لمز کے ایم بی اے کو بھلا کتنی تنخواہ کی نوکری آفر کی تھی، سوچیں ذرا۔۔۔ چالیس ہزار،نہیں نہیں تیس پینتیس سے کم تو نہیں کی ہو گی۔ جنابِ عالی پورےدس ہزار روپے ماہانہ۔ بیچارے نءے نویلے گریجوایٹ پر کیا گزری ہو گی، میرے خیال سے کم از کم ٹرین گزری ہو گی۔
خیر میں اور فیاض موٹر ساءیکل پر ماڈل ٹاءون پارک پہنچے، فیاض ادھر اُدھر ٹہلنا چاہتا ہے اور میں جاتا ہوں بڑے ٹریک پر دوڑ لگانے۔ ویسے اس وقت جاگنگ یا چہل قدمی کرنے کے لیے کلمہ چوک والا نیشنل بینک پارک فِٹ ہے۔ رونق شونق کی وجہ سے دِل لگا رہتا ہے۔ خیر مجھے ذاتی طور پر خاموشی پسند ہے سو میں ماڈل ٹاءون پارک ہی آتا ہوں۔ چاند کی تاریخ کونسی ہے یہ مجھے پتہ نہیں لیکن چندا ماموں کی خوبصورتی مسحور کُن ہے۔ ایک گڑ بڑ ہے کہ ہوا بالکل نہیں چل رہی حبس ہو گیا ہے۔ ٹریک پر اس وقت اِکا دُکا بندے ہوتے ہیں، اور بندیاں تو بالکل ہی مفقود۔
اتنے حبس اور گرمی میں بھاگنا کافی مشکل ہوتا ہے، شروع کرنے سے پہلے میری تو جان نکل رہی ہوتی ہے لیکن اپنے آگے ہی آگے بڑہتے ہوءے پیٹ کو دیکھھ کر مجبوراً بھاگنا پڑتا ہے۔ اگر تو آپ کا اپنا پیٹ باغی ہو چکا ہے تو جناب آپ میرے دُکھھ کو سمجھھ سکتے ہیں ورنہ عوام الناس کے لیے تو تماشا ہی ہے۔ اس موسم میں بھاگنا مشکل اور بے حد فاءدہ مند، کیونکہ جسم کے روم روم سے پسینہ نکلتا ہے۔ اس وجہ سے سیانے (بشمول میرے) یہ سمجھتے ہیں کہ وزن جلدی کم ہوتا ہے۔ یہ فاءدہ مند کام ہمیشہ مشکل ہی کیوں ہوتے ہیں۔۔۔
ٹریک کا ایک چکر پورا ہو گیااور میری شرٹ پسینے سے مکمل بھیگ چکی ہے۔ ویسے میں نے حساب لگایا ہے کہ دوڑنا اتنا مشکل کام نہیں ہے، بس بندے کو حوصلہ کرنا پڑتا ہے۔ زندگی کے زیادہ تر مساءل ایسے ہی ہوا کرتے ہیں، لوگ پہلا قدم اٹھانے سے پہلے ہی ناکامی کے ایک سو ایک جواز گھڑ لیتے ہیں۔ حالانکہ اگر اچھی نیت سے آنکھیں کھلی رکھھ کر کوشش کی جاءے تو بندے کے راستے اپنے آپ ہی کھلتے چلے جاتے ہیں۔
میرا جگر فیاض کہیں نظر آ رہا، ایس ایم ایس کرتا ہوں، سانس درست ہونی میں کوءی دس منٹ تو لگ ہیں جاءیں گے اتنی دیر میں وہ جہاں بھی ہوا آ جاءے گا۔ نا نا میرا یہ مطلب نہیں کہ وہ پنجابی فلموں کا مولا ہے جو کہیں بھی ہو اپنی بھرجاءی کی مشہورِ زمانہ صدا "وے مولیا" پر آن وارد ہوتا ہے۔ "اوءے کدھر ہے آ جا، پانی کی چھوٹی بوتل بھی لیتے آنا"۔ میں سانس درست کرنے کے لیے ذرا سا ہٹ کر کسی تاریک سی جگہ پر چلا جاتا ہوں، شرٹ اتار کے سکون سے بیٹھھ جاتا ہوں۔ شکر ہے کہیں سے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا بھی آیا، جب بندے کی حالت خراب ہو رہی ہو تو احساس ہوتا ہے کہ ٹھنڈی ہوا کا جھونکا کتنی بڑی نعمت ہے۔ کمینہ جیا پتہ نہیں کہاں رہ گیا ہے۔۔۔ شرٹ پہن کر ایک بینچ پر بیٹھے بیٹھے کوءی چار پانچ نا قابلِ اشاعت ایس ایم ایس بھی کر چکا ہوں لیکن فیاض صاحب پتہ نہیں کہاں زیرِ زمین ہیں۔
یہ گرم ہوا کا جھونکا کدھر سے آیا، اچھا اچھا تو اُس جانب سے جناب فیاض صاحب تشریف لا رہے ہیں۔ مجھے غصہ ہی بڑا ہے اس پر، اتنی دیر سے انتظار کر رہا ہوں اور یہ بھاءی سکون سےفون پر گپیں شپیں لگا رہے ہیں۔ بدلہ لینے کا ایک طریقہ میرے ذہن میں آیا تو ہے، ذرا فون بند تو کرے ایسا سواد چکھاءوں گا کہ یاد رکھے گا۔ آخر فون بند ہوا، اب وقت آن پہنچا ہے کہ میں بدلہ لے لوں۔ آپ سوچیں ذرا کہ میں اس کے ساتھھ کیا کرنے لگا ہوں۔
فیاض میرے جگر۔۔۔ ادھر آ ذرا۔۔۔ اوں اوں کے علاوہ فیاض کے منہ سے اور کوءی آواز ہی نہیں نکل پا رہی، میں تو حیران ہوں کہ یہ آواز بھی کیسے نکل رہی ہے۔ آخر میں نے اسکو زبردستی اپنے سینے سے جو لگایا ہوا ہے۔ پانچ فٹ آٹھھ انچ کا فیاض چھھ فٹ دو انچ کے نعیم کے نرغےمیں کیسا لگ رہا ہو گا سوچیں تو ذرا۔ میری شرٹ پسینے سے شرابور ہے اور فیاض کا منہ میں نے پکڑ کر شرٹ پر دبایا ہوا ہے۔ "اوہ کنجرا تیرا ککھھ نا رہوے" یہ آواز میری ہےمیرے سینے پر کندھے کے قریب اچانک درد کی ایک لہراٹھی ہے۔۔۔ میں نے گھٹیا حرکت کی تھی لیکن فیاض نے تو اُس بھی بڑھ کر کام کر دکھایا۔ بلی کو اگر کمرے میں بند کر دیں تو وہ بھی اپنا دفاع کرنے کی آخری کوشش ضرور کرتی ہے، اور یہی کوشش فیاض نے کی۔ مجھے کاٹ کھایا ظالم نے۔ بیڑا ہی غرق ہو جاءے۔۔۔ نشان ڈال دیا ہے، کتنے تیز دانت ہی اس بندے کے مجبوراً چھوڑنا ہی پڑا۔ نیلا نشان ڈال دیا ہے چول نے۔ اسکی بقا کا مسءلہ جو تھا، آخری حد تک چلا گیا۔ اب تھو تھو کر رہا ہے، کہ پسینہ نمکین تھا۔ بھءی یہ تو کامن سینس کی بات ہے پسینہ نمکین ہی ہوا کرتا ہے۔ کہہ رہا ہے کہ منہ کا ذاءقہ پہلے ہی خراب تھا رہی سہی کسر تم نے پوری کر دی۔۔۔
کہانی ختم پیسہ ہضم۔۔۔ ہا ہا ہا ہا۔۔۔

ہفتہ، 1 اگست، 2009

شوگران اور پھر سری پاءے



جوں توں کر کے شوگران پہنچے، گاڑی میں بیٹھھ بیٹھھ کر کمر اکڑ گءی تھی، اور بول بول کے باتیں ختم۔ لیکن منزل کے پاس پہنچ جانے کا سُن کر پورے گروپ میں دوبارہ جان پڑ گءی۔ شوگران چھوٹی سی جگہ ہے لیکن کافی خوبصورت۔ اس علاقے میں پہاڑ مٹی کے ہیں، پہاڑوں کی دوسری قسم پتھر کے پہاڑ ہے۔ مٹی کے پہاڑوں پر بارش نہ ہو تو بہت گرد اڑتی ہے جب ہم گءے تو شاید دو ایک دن سے بارش نہیں ہوءی تھی اور ہر چیز مٹیالی مٹیالی تھی۔ مین شوگران کی تصاویر اتارنی چاہیے تھیں لیکن میں تو بڑا تھکا ہوا تھا سو نہیں اتاری۔ پتہ ہے مجھے "فراءض سے غفلت" تھی، لیکن اب ہو گءی تو کیا کریں۔ ہوٹل کی پچھلی طرف ایک مسجد ہے، وہاں جا کر ہم لوگوںنے منہ سر دھوءے وضو کیا اور عصر کی نماز بھی پڑھی۔
مسجد کے دروازے کی ایک تصویر

شوگران میں ٹور ازم ڈیولپمنٹ کا ریسٹ ہاءوس
فکر کی کوءی بات نہیں، شوگران میں موباءل کے سگنلز آتے ہیں۔
کافی خوبصورت پھول تھے
بیک گراءونڈ میں ہوٹل ہے، جسکا تذکرہ میں پہلے بھی کر چکا ہوں۔
کافی اچھی چگہ ہے، ہوٹل کا لان تو مجھے بہت پسند آیا تھا۔
ایک اور خوبصورت پھول۔۔۔

شام کے تقریباً پانچ بج چکے تھے، جتنی دیر میں اور کچھھ دوسرے دوست نماز وغیرہ پڑھ رہے تھے باقی لوگوں نے سری پاءے جانے کے لیے دو جیپوں کا بندوبست کرلیا۔ اصل پروگرام تو پیدل چل کے جانے کا تھا لیکن کافی دیر ہو جانے کی وجہ سے ہمیں جیپ پر ہی اوپر جانا پڑا۔ کچا راستہ ہے، اور جیپ پر اوپر پہنچتے پہنچتے بندے کا انجر پنجر ہل جاتا ہے۔
اس طرح کی جیپیں ہوتی ہیں، فورباءی فور۔۔۔
اوپر جا کے میری طبعیت خراب ہو گءی، ٹھنڈے پسینے اور چکر آ رہے تھے۔۔۔اس لیے میں تو جلدی ہی ساءیڈ پر ہو کے بیٹھ گیا۔۔۔ باقی لوگ اچھل کود کرتے رہے۔۔۔

پاءے میں محکمہ موسمیات کی کچھ تنصیبات،اور بادلوں کی اوٹ میں جاتا ہوا سورج۔

بتاتا چلوں کہ سری کا مقام پہلے آتا ہے، اور پاءے اسکے بعد میں۔ لوگ کہتے ہیں کہ سری میں ایک جھیل ہے، کوءی جھیل شیل نہِیں ہے بس ایک چھپڑ سا ہے۔ پاءے بے شک ایک خوبصورتاور دیکھنے کے لاءق جگہ ہے۔ یہاں کافی ٹھنڈ ہوتی ہے لہٰذا ہیرو بننے کی کوءی ضرورت نہیں، ساتھ کوءی ہلکی پھلی جیکٹ یا اپر لے کے جانا۔
باقی اگلی مرتبہ۔۔۔ بس اب میں لکھھ لکھھ کے تھک گیا ہوں۔۔۔

Pak Urdu Installer

Pak Urdu Installer